خبریں

گزشتہ  10سال میں بنگلہ دیش سے نہیں ہوئی کوئی گھس پیٹھ: بی جے پی ترجمان

بی جے پی ترجمان سوپنل بروآ نے کہا کہ اقتصادی وجوہات  سے بنگلہ دیشی ہندوستان نہیں آ رہے ہیں۔ یورپ اور  سرحدی  ملکوں میں ان کو کم سے کم 3000 روپے  روز  ملتے ہیں جبکہ ہندوستان میں وہ زیادہ سے زیادہ ہزار روپے  ہی کما سکتے ہیں۔ ایسے میں وہ یہاں کیوں آئیں‌گے۔

(فوٹو : پی ٹی آئی)

(فوٹو : پی ٹی آئی)

نئی دہلی: ملک میں 2014 میں ہوئے عام انتخابات میں اور 2016 میں ہوئے آسام اسمبلی انتخاب میں غیر قانونی گھس پیٹھ  کو ایک بڑا انتخابی مدعا بنانے والی حکمراں بی جے پی نے جمعرات کو دعویٰ کیا کہ پچھلے دس سال میں ایک بھی بنگلہ دیشی شہری غیر قانونی طور پر ہندوستان میں نہیں آیا ہے۔ بھارتیہ جنتا پارٹی کے ترجمان نے یہاں پریس نفرنس میں دعویٰ کیا کہ شہریت (ترمیم) بل ہندوستان میں کسی غیر ملکی کے داخلے کو روکے‌گا۔ انہوں نے کہا، ‘ موجودہ وقت میں کوئی گھس پیٹھ  نہیں ہو رہی ہے۔ غیر قانونی مہاجر پہلے آتے تھے۔ ‘

بی جے پی ترجمان سوپنل  بروآ نے بتایا، ‘ ہم لوگ کہہ سکتے ہیں کہ پچھلے 10 سالوں میں بنگلہ دیش سے کوئی گھس پیٹھ نہیں ہوئی۔ ‘ انہوں نے بتایا کہ اقتصادی وجوہات  سے بنگلہ دیشی ہندوستان نہیں آ رہے ہیں بلکہ اب وہ یوروپ، سرحدی   اور دیگر ترقی یافتہ ممالک میں جا رہے ہیں۔ بروآ نے بتایا، ‘ یورپ اور سرحدی  ملکوں  میں ان کو روزانہ کم سے کم 3000 روپے  ملتے ہیں۔ ہندوستان میں وہ زیادہ سے زیادہ 1000 روپے کما سکتے ہیں، اس لئے وہ یہاں کیوں آئیں‌گے۔ ‘

بی جے پی کے ایک دیگر ترجمان مومن الاوال نے کہا کہ شہریت (ترمیم) بل اگر منظور ہو جاتا ہے تو اس سے کوئی بنگلہ دیشی ہندو ہندوستان نہیں آئے‌گا۔ انہوں نے کہا، ‘ نئے لوگوں کو شہریت دینے کی کوئی گنجائش یا اہتمام نہیں ہے۔ یہ صرف ان لوگوں کے لئے ہے جو پہلے سے یہاں رہ رہے ہیں۔ ‘ بی جے پی رہنما نے کہا، ‘ صرف انہی لوگوں کے پاس درخواست دینے کا موقع ہوگا اور متعلقہ کلکٹر ان کی درخواستوں کی تصدیق کریں‌گے۔ ‘

غور کرنے والی بات ہے کہ 30 جون 2018 کو آسام میں این آر سی کا آخری مسودہ جاری ہونے کے بعد فہرست میں باہر رہے 40 لاکھ لوگوں کو لگاتار ‘ گھس پیٹھیا ‘  یا ‘ غیر قانونی بنگلہ دیشی ‘ بتایا جانے لگا تھا اور ایسا کہنے والوں میں بی جے پی کے قومی صدر سمیت زیادہ تر بی جے پی رہنما شامل تھے۔ بی جے پی صدر امت شاہ نے 12 اگست کو اتر پردیش کے میرٹھ میں بی جے پی کی ریاستی ورکنگ کمیٹی کی میٹنگ  کے اختتامی سیشن میں بولتے ہوئے کہا تھا، ‘ حزب مخالف جماعت چاہے جتنا شور  کریں، وزیر اعظم نریندر مودی کی حکومت آسام کے 40 لاکھ گھس پیٹھیوں  میں سے ایک ایک کو باہر کرے‌گی۔

 مرکزی حکومت گھس پیٹھیوں  کے تئیں نرم رویہ اپنانے  کے موڈ میں نہیں ہے۔ ‘ اس سے پہلے بھی انہوں نے کہا تھا کہ میں ملک میں رہنے والوں سے  کہنا چاہتا ہوں کہ این آر سی سے کسی ہندوستانی کا نام نہیں کاٹا گیا ہے اور جن کا نام لسٹ میں نہیں ہے وہ گھس پیٹھیے  ہیں۔ اس وقت اتر پردیش کے وزیراعلیٰ یوگی آدتیہ ناتھ بھی این آر سی کے مدعے پر بولنے سے نہیں چوکے۔

 انہوں نے کہا کہ اگر ضرورت ہوئی تو اتر پردیش میں بھی این آر سی نافذ کیا جائے‌گا اور ملک ایک بھی گھس پیٹھیے  کو قبول  نہیں کرے‌گا۔ تب آسام کے گورنر پروفیسر جگدیش مکھی نے این آر سی کو کامیابی قرار دیا تھا اور اس کو ملک میں گھس پیٹھ  کے مسئلہ کا اثردار حل بتایا تھا۔اس کے بعد ستمبر مہینے میں بی جے پی صدر امت شاہ نے دہلی  میں ہوئی ایک ریلی کو خطاب کرتے ہوئے کہا کہ اگر وہ 2019 لوک سبھا انتخاب جیتتے ہیں، تو غیر قانونی گھس پیٹھیوں  کی پہچان‌ کرکے ان کو ملک سے باہر نکالا جائے‌گا۔

امت شاہ نے کہا تھا کہ ‘ غیر قانونی گھس پیٹھیے  دیمک کی طرح ہوتے ہیں۔ وہ کھانا کھا رہے ہیں جو کہ ہمارے غریبوں کو جانا چاہیے  اور وہ ہماری نوکریاں بھی لے رہے ہیں۔ یہ ہمارے ملک میں  بلاسٹ  کراتے ہیں جس میں بہت سارے لوگ مارے جاتے ہیں۔ ‘

(خبر رساں ایجنسی بھاشا کے  ان پٹ کے ساتھ)