فکر و نظر

رام چندر گہا کا کالم: دانشوری کے خلاف مودی حکومت کی جنگ کی قیمت نسلوں کو چکانی پڑے گی

نریندر مودی کی قیادت میں جب سے یہ سرکار گدی نشین ہوئی ہے، تب سے ملک میں سائنس اور دانشوری پر متواتر سرجیکل اسٹرائیک ہو رہے ہیں۔

فوٹو: رائٹرس

فوٹو: رائٹرس

مودی سرکار کو ‘سرجیکل اسٹرائیک’ کا لفظ بہت پسند ہے۔ ہندوستانی فوج کے ذریعے پاکستان میں گھس کر اس کے کیمپ کو تباہ کرنے کی کارروائی کے بعد ستمبر 2016 میں یہ لفظ پہلی بار سنا گیا۔ اہم بات یہ ہے کہ خود فوج نے اس لفظ کا استعمال نہیں کیا، بلکہ یہ وزیر اعظم اور ان کے حواریوں نے ہی استعمال کیا۔ اسی سال نومبر میں وزیر اعظم کے ذریعے ایک دم ڈرامائی انداز میں 1000 اور 500 کے نوٹ واپس لینے کے عمل کو بھی برسراقتدار پارٹی کے ترجمانوں نے فخریہ طور پر (بلیک منی کے خلاف) ‘سرجیکل اسٹرائیک’ہی قرار دیا تھا۔

دہشت گردی کے خلاف سرجیکل اسٹرائیک ناکام رہی۔ ہماری سکیورٹی فورسز کو تقریباً روزانہ پاکستانی دراندازوں سے جوجھنا پڑ رہا ہے۔ جبکہ نوٹ بندی کی شکل میں بلیک منی  کے خلاف سرجیکل اسٹرائیک بھی کم و بیش ناکام ہی رہی۔ البتہ اس نے بہت سے چھوٹے موٹے دھندے کرنے والوں کو ضرور دیوالیہ کر دیا، جن کا کاروبار نقد میں ہوتا تھا۔ اسی طرح اس نے لاکھوں کی تعداد میں چھوٹے کسانوں کو متاثر کیا، جنہوں نے اس طرح اچانک نوٹ بندی کے بعد پایا کہ ان کے پاس تو کھاد اور بیج خریدنے تک کے پیسے نہیں ہیں۔

اس سب کے بیچ میں البتہ ایک سرجیکل اسٹرائیک اس حکومت نے ضرور ایسی کی ہے، جو خاصی اثر انداز رہی ہے۔ مئی 2014 سے، جب کہ مودی سرکار بر سر اقتدار آئی تھی، تب سے دانشور طبقے کے ساتھ اس نے مسلسل جنگ چھیڑ رکھی ہے۔ اس جنگ میں ایک کے بعد ایک ہماری اعلیٰ درجے کی یونیورسٹیزاور علمی و ادبی اداروں کو بزعم خود نشانہ بنایا گیا اور انہیں اندر سے کھوکھلا کرنے کی ہر ممکن کوشش کی گئی۔ اس سے ان اداروں  کا وقار، اعتبار اور عزم و حوصلے کو خاصی ٹھیس پہنچی اور ملک اور دنیا میں انہیں جو وقاو مرتبہ حاصل تھا، وہ جاتا رہا۔

کسی کی تحقیر و تذلیل کرنے میں ہمارے وزیر اعظم کو مہارت حاصل ہے اور یہ کام وہ اپنے منتخبہ وزرا کی موجودگی میں کرتے ہیں۔ ان وزراء کی جنہیں انہوں نے چنا ہے۔ جیسے ان میں ترقی برائے انسانی وسائل کے دو وزیر ہیں۔ ان کا تعلیم و تعلم نیز تحقیق و استناد جیسی باتوں سے کوئی لینا دینا نہیں ہے۔ نہ ہی اس شعبے کے ماہرین کی باتوں کو سننے، سمجھنے میں ان کی کوِئی دلچسپی ہے۔ کبھی کبھی وہ راشٹریہ سویم سنگھ سے ضرور رہنمائی حاصل کرتے ہیں۔ جن کی علمیت و سوجھ بوجھ کا اندازہ دی انڈین کاؤنسل فار ہسٹریکل ریسرچ اور د ی انڈین کاؤنسل آف سوشل سائنس ریسرچ میں ماہرین کے طور پر نامزد کیے لوگوں کی اہلیت سے لگایا جا سکتا ہے۔ کچھ مواقع پر وہ آر ایس ایس کی طلبہ تنظیم اکھل بھارتیہ ودیارتھی پریشد سے بھی استفادہ کرتے ہیں۔ جس کا اندازہ ملک کی دو قابل ذکر یونیورسٹیز حیدرآباد سنٹرل یونیورسٹی اور جواہر لعل نہرو یونیورسٹی میں وزارت ترقی برائے انسانی وسائل کے ذریعے مسلسل کی جانے والی معاندانہ کارروائیوں سے لگ جاتا ہے۔ یہ سب اے بی وی پی کے اشارے پر کیا گیا کیوں کہ ان دانش گاہوں کے طلبہ نے اس تنظیم کے الٹے سیدھے و بے بنیاد پروپیگنڈے پر کبھی کان نہیں دیے۔

دائیں بازو کے مفکرین کی نظروں میں یہ سب نصاب میں تبدیلی سے ٹھیک کیا جا سکتا ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ ان یونیورسٹیزپر پہلے غیر ملکی مفکرین کی مارکسوادی سوچ سے متاثر لوگوں کا قبضہ تھا، جن کی جگہ سودیشی دیش بھکت اب آ پائے ہیں۔ یہ چپقلش زیادہ آگے نہ بڑھتی اگر مودی سرکار دانشوری کی اس جنگ کو سوشل سائنس اور تعلیم بشری تک محدود رکھتی۔ لیکن ایسا نہیں ہوا؛ یہ جنگ تو پوری طرح نیچرل سائنس تک پہنچا دی گئی۔ اور اس میں سب سے اونچے عہدے پر بیٹھے خود پردھان منتری دعویٰ کرنے لگے کہ پراچین کال میں ہندوستانیوں نے پلاسٹک سرجری اور جفتہ سازی یعنی انسانی تخم سے بیضے کے ملاپ کی تکنیک ایجاد کر لی تھی۔ یہی نہیں وزیر اعظم نے ایک ایسے شخص کو وزیر برائے سائنس و ٹکنالوجی بنا ڈالا، جس کا ماننا ہے کہ ‘ہندوستان کی ہر جدید کامیابی دراصل قدیم سائنسی کامیابی کا تسلسل ہی ہے’، اور ویدوں میں البرٹ آئنسٹائن کی تھیوری کے بارے میں پیش گوئی کی گئی ہے۔

ہمارے وزیر برائے سائنس و ٹکنالوجی نے یہ دعوے آپسی بات چیت یا آر ایس ایس کی شاکھا میں نہیں کیے، بلکہ اس کے لیے انہوں نے انڈین سائنس کانگریس کا اسٹیج چنا۔ ماڈرن سائنس میں کی جانے والی جدید تحقیقات سے روبرو کرانے والے اس سالانہ جلسے میں پچھلے کچھ وقت سے وزیر موصوف کی موشگافیاں راہ پا جاتی ہیں۔ ان کے سر میں سر ملانے والے مبینہ دانشور یہاں دعوے کرتے ہیں کہ قدیمی زمانے میں ہندوستانیوں نے ہوائی جہاز اور اسٹیم سیل ریسرچ کی ایجاد کر لی تھی۔ (اس ریسرچ کے مطابق کورو برادران اولین ٹیسٹ ٹیوب بیبی تھے۔)

بلا شبہ یہ سب مضحکہ خیز ہے، حالانکہ ہمارا ماضی ایسا نہیں تھا۔ دوراندیش جمشیدجی ٹاٹا نے ایک صدی سے کچھ زیادہ پہلے انڈین انسٹی ٹیوٹ آف سائنس کی بنیاد رکھنے میں امداد کی۔ ملک میں سائنٹفک ریسرچ، فہم و ادراک نیز تجربات کی بنیاد پر کی جاتی تھی، نہ کہ بد اعتقادی و متھ کی بنیاد پر۔ ٹاٹا انسٹی ٹیوٹ آف فنڈامینٹل ریسرچ اور نیشنل سینٹر فار بایولاجیکل ریسرچ کو بین الاقوامی سطح پر اعتبار یونہی نہیں حاصل تھا۔ اس بیچ تکنیکی تعلیم کے میدان میں آئی آئی ٹی اداروں نے اہم خدمات انجام دیں۔ ان اداروں سے فارغ ہونے والوں نے مختلف طریقوں سے ملک کی معاشی ترقی میں حصے داری نبھائی۔ مذکورہ بالا مرکزی وزیر کے ذریعے کی جانے والی (اور وزیر اعظم کے ذریعے آگے بڑھائی جانے والی)بے سر پیر اور ضعیف الاعتقادی پر مبنی باتوں نے ہندوستان کی سائنسی فکر کو شدید اور شاید کبھی بھرپائی نہ ہونے والا نقصان پہنچا دیا ہے۔

دانشوروں پر سرکار کے ذریعے کیے جانے والے حملوں کو ہمارے موجودہ وزیر اعظم اور ملک کے پہلے وزیر اعظم کے فکری تضاد کی شکل میں دیکھا جا رہا ہے۔ اسی لیے 7 فروری 2019 کے ڈیکن ہیرالڈ میں پرسن جیت چودھری نے لکھا؛

نہرو نے ہندوستان کو تربیت یافتہ سائنسدانوں اور انجینئروں کا دنیا میں دوسرا سب سے بڑا مرکز بنا دیا تھا۔ ہومی (جہانگیر) بھابھا اور وکرم سارا بھائی جیسے لوگوں نے نہرو کی سرپرستی میں ہندوستان کی سائنسی دنیا کو ایک مقام تک پہنچا دیا…مودی نے نہرو کی نفی کرنے کے لیے خیالی سائنٹفک باتوں اور ضعیف الاعتقادی کا سہارا لیا، جبکہ نہرو سائنسی فکر کی ترویج و اشاعت کے لیے پہچانے جاتے ہیں۔

میں اس میں یہ جوڑنا چاہتا ہوں کہ ہندوستان میں کی جانے والی سوشل سائنس کے شعبے میں اعلیٰ پائے کی تحقیقی روایت کو بھی مودی سرکار نے خطرے میں ڈال دیا ہے۔ نہرو کی فکر سے متاثر سنگھ مخالف نظریہ سازوں کے لیے مارکسزم سیکڑوں دانشورانہ طریقہ فکر میں سے ایک ہے۔ اسی لیے ڈی آر گاڈگل اور آندرے بیٹیل اپنے اپنے شعبہ جات بالترتیب معاشیات اور سماجیات کے بھابھا اور سارا بھائی ہیں۔ دونوں بلا کے لبرل اور مارکسزم مخالف ہیں۔ گاڈگل اور بیٹیل (اور انہیں کی طرح دیگر بھی) عدم مساوات، تعلیم، صحت اور دیہی ترقی جیسے موضوعات پر سنجیدہ تحقیق کے حامی ہیں۔ جس سے عوام الناس کے لیے بنائی جانے والی پالیسیز حقائق کی بنیاد پر طے کی جائیں، نہ کہ آئیڈیالوجی کی بنیاد پر۔ ہمارے تعلیمی و تحقیقی اداروں میں سنگھی گھس پیٹھ کے بعد اس روایت کو بھی سخت خطرہ پیدا ہو گیا ہے۔

سائنس اور وظائف کو فروغ دینے کے معاملے میں بھی مودی سرکار، این ڈی اے سرکار اول سے پیچھے ہی نظر آتی ہے۔ اٹل بہاری واجپائی کے ذریعے چنے گئے وزرا میں سے کچھ مطالعہ اور مہارت کا پورا احترام کرتے تھے۔ این ڈی اے سرکار اول کے وزیر برائے ترقی انسانی وسائل ڈاکٹر ایم ایم جوشی خود فزکس میں پی ایچ ڈی تھے۔ ان کے ساتھی وزراء میں جارج فرنانڈیز، یشونت سنہا اور ایل کے اڈوانی تواریخ اور عوامی پالیسیز سے متعلق کتب پڑھنے پڑھانے کا معاملہ رکھتے تھے۔ جسونت سنگھ اور ارون شوری نہ صرف سنجیدہ کتابیں پڑھتے تھے، بلکہ انہوں نے کتابیں لکھی بھی ہیں۔ اس کے برخلاف مجھے یقین ہی نہیں ہے کہ موجودہ سرکار میں کوئی ایک وزیر بھی (وزیر اعظم بھی اس سے مستثنیٰ نہیں ہیں) ایسا ہے، جسے تواریخ، ادب یا سائنس میں گہری دلچسپی ہو۔ مجھے تعجب ہوگا اگر ان میں سے کوئی بھی اخبار کے علاوہ کچھ اور پڑھتا ہو؛ بلکہ ان میں سے کچھ تو فیس بک، وہاٹس ایپ یا ٹوئٹر سے شاید ہی آگے بڑھتے ہوں۔ ایک اور تعجب انگیز بات یہ ہے کہ جب یونیورسیٹیز کے چانسلرس یا تحقیقی اداروں کے ڈائریکٹرس کی تقرری کا معاملہ آیا تو یہاں بھی انہوں نے اعلیٰ درجے کے دانشوروں کے بجائے تیسرے درجے کے نظریہ سازوں کو چنا۔

چونکہ تعلیم و تعلم کا کام ناچیز نے پچیس سال پہلے ہی چھوڑ دیا تھا، سو علم کے تئیں مودی سرکار کا یہ بد بختانہ رویہ راقم کے کیریئر کا کچھ نہیں بگاڑ سکا۔ البتہ اس ماحول سے مجھے دکھ ضرور ہوا۔ میری پوری تعلیم ہندوستان کی یونیورسٹیز میں ہوئی، جن کی خود مختاری (جب تک میں پڑھتا تھا) کا نہ صرف احترام کیا جاتا تھا بلکہ اس کی حوصلہ افزائی کی جاتی تھی۔ اب ایک غیر ملحقہ آزاد کام کرنے والے کے طور پر میں اپنے دانشور دوستوں اور رفیق کاروں کو ذاتی طور پر نیز کام کاج کو لے کر پریشان دیکھتا ہوں۔ ایک مخصوص سیاسی نظریہ رکھنے والا طبقہ انہیں اور ان اداروں کو نشانہ بناتا ہے، جن کے لیے انہوں نے اپنی زندگی وقف کر دی ہیں۔

نریندر مودی کے مرکز میں بر سر اقتدار آنے کے ایک سال بعد میں نے لکھا تھا کہ ملک کی اب تک کی سرکاروں میں ان کی سرکار ‘فہم و دانش کی بے حد مخالف’ ہے۔ تب سے اب تک مودی سرکار نے کوئی ایسا کام نہیں کیا، جس سے مجھے اپنے اس خیال کو بدلنا یا اس پر پھر سے غور کرنا پڑے۔ بلکہ بہت سی باتیں میرے اس خیال کی توثیق بی کرتی نظر آتی ہیں۔ نریندر مودی کی قیادت میں جب سے یہ سرکار گدی نشین ہوئی ہے، تب سے ملک میں سائنس اور دانشوری پر متواتر سرجیکل اسٹرائیک ہو رہے ہیں۔ یہ حملے ان حملوں سے زیادہ سخت و نقصاندہ ہیں جو دہشت گردی اور کالے دھن پر کیے گئے ہیں۔

علم اور اختراع کو اہمیت دینے والے ہمارے اعلیٰ درجے کے اداروں کو بہت منظم ڈھنگ سے نشانہ بنایا گیا۔ مودی سرکار نے ملک و قوم کے سماجی اور معاشی مستقبل کو سخت نقصان پہنچایا ہے۔ موجودہ وقت  اور آئندہ پیدا ہونے والی نسلوں کو دانشوری کے خلاف اس وحشیانہ، متشدد جنگ کی قیمت چکانی پڑےگی۔

(انگریزی سے ترجمہ: جاوید عالم)