فکر و نظر

نوٹ بندی کے دوران لائی گئی پردھان منتری غریب کلیان یوجنا کے پیسے کا کیا ہوا، حکومت کو نہیں پتہ

مودی حکومت کے دعوے اور ان کی زمینی حقیقت پر اسپیشل سیریز: پردھان منتری غریب کلیان یوجنا کے تحت فرد کو غیراعلانیہ آمدنی کا 30 فیصدی کی شرح سے ٹیکس، ٹیکس کی رقم کا 33 فیصدی سر چارج اور غیراعلانیہ آمدنی کا 10 فیصدی جرمانے کے طور پر دینا تھا۔ اس اسکیم کو دسمبر 2016 سے 10 مئی 2017 تک کے لئے لایا گیا تھا۔

نئی دہلی: سوچیے۔ اگر ہندوستان میں غریب نہ ہوتے تو کیا ہوتا؟ کچھ ہوتا یا نہ ہوتا لیکن اتنا تو طے تھا کہ ہماری سیاست کافی بے رس ہو جاتی۔ یہ غریب ہی ہیں، جن کی وجہ سے ہندوستان کی سیاست اتنی دلچسپ بنی ہوئی ہے۔چاہے وہ اندرا گاندھی کی غریبی ہٹاؤ کا نعرہ ہو یا منموہن سنگھ کا منریگا ہو یا پھر نریندر مودی کے ذریعے شروع کی گئی پردھان منتری غریب کلیان یوجنا ہو۔ غریب ہی ہیں جو پچھلے 70 سالوں سے ہندوستانی سیاست کی لہلہاتی فصل کو کھاد-پانی مہیا کراتے آ رہے ہیں۔8 نومبر 2016، ہندوستانی سیاسی تاریخ کا ایک ایسا دن، جس کو شاید ہی کبھی بھلایا جا سکے‌گا۔ اس دن وزیر اعظم نریندر مودی نے نوٹ بندی کا اعلان کیا تھا۔ یہ اقتصادی حادثہ، اقتصادی آفت ثابت ہوا یا اقتصادی طور پر گیم چینجر بنا، اس کا حساب کتاب تاریخ کے صفحات میں جب کیا جائے‌گا، تب کیا جائے‌گا۔

فی الحال، ہم نوٹ بندی کے دوران ہی شروع کی گئی  ایک دوسری اسکیم کی بات کرتے ہیں۔ اس اسکیم کا نام ہے پردھان منتری غریب کلیان یوجنا۔دراصل، اس اسکیم  کے پیچھے نیک مقصد رہا ہویا نہ رہا ہو، لیکن سیاست ضرور تھی۔ وہ ایسے کہ اچانک نوٹ بندی کے اعلان سے پورے ملک میں ایک طرح کی اتھل پتھل مچ گئی تھی۔غریب سے لےکرمتوسط طبقہ تک پریشان تھا۔ حالانکہ، وزیر اعظم نے عوام سے 50 دن کی مہلت مانگی تھی اور یہ یقین دہانی کرائی تھی کہ سب کچھ ٹھیک ہو جائے‌گا، ملک سے کالا دھن ختم ہو جائے‌گا، ایماندار کو کوئی دقت نہیں آئے‌گی، وغیرہ وغیرہ۔

لیکن، نوٹ بندی کے اعلان کے ایک مہینے بعد تک بھی جس طرح سے روز روز حکومت اصول بدل رہی تھی، اس سے صاف ہو گیا تھا کہ نوٹ بندی کے اعلان سے پہلے حکومت کی تیاری پوری نہیں تھی۔نتیجتاً، عام لوگوں کے دل میں کہیں ایک بےچینی اور غصہ کا تاثر پیدا تو ہوا ہی تھا۔ اسی بےچینی اور غصے کو چینلائز کرنے کے لئے حکومت نے نومبر 2016 ختم ہوتے ہوتے پردھان منتری غریب کلیان یوجنا (پی ایم جی کے وائی) نام کی ایک اسکیم کا اعلان کیا۔

یعنی، حکومت نے عوام کے درمیان یہ پیغام دینے کی کوشش کی کہ وہ غریب کا خیر خواہ ہے اور نوٹ بندی کا سب سے زیادہ فائدہ غریبوں کو ہی ہوگا۔آخر یہ پی ایم جی کے وائی کیا ہے؟ پی ایم جی کے وائی اصل میں ایک رضاکارانہ اسکیم ہے، جس کے لئے مالی بل میں ترمیم کی گئی تھی۔ اس اسکیم کو دسمبر 2016 سے 31 مارچ 2017 کے لئے لایا گیا تھا۔بعد میں اس اسکیم کو 10 مئی 2017 تک بڑھا دیا گیا تھا کیونکہ اس کو امید کے مطابق عوامی ردعمل نہیں مل پا رہا تھا۔

21 جولائی 2017 کو پارلیامان میں وزیر مملکت برائے امور خزانہ سنتوش کمار گنگوار کے ایک تحریری جواب کے مطابق، ‘پی ایم جی کے وائی یوجنا کے تحت کسی آدمی کو اپنی غیراعلانیہ آمدنی کا 30 فیصدی شرح سے ٹیکس کا، ٹیکس کی رقم کا 33 فیصدی سر چارج اور غیراعلانیہ آمدنی کا 10 فیصدی جرمانے کے طور پر دینا ہوگا۔ اس کے علاوہ، غیراعلانیہ آمدنی کا کم سے کم 25 فیصدی’پردھان منتری غریب کلیان ڈپازٹ اسکیم، 2016 ‘ میں جمع کرنا تھا۔ اس آدمی کو اس جمع رقم پر کوئی سود نہیں ملے‌گا اور یہ پیسہ چار سال کی مدت کے لئے لاک-ان رہے‌گا۔ ‘یعنی، کل ملاکرغیراعلانیہ آمدنی کا 49.9 فیصدی ٹیکس کے طور پر دینا تھا اور باقی کا 25 فیصدی بنا سود کے جمع کرنا تھا۔ اس کے بعد جو پیسہ بچتا ہے، وہ غیراعلانیہ آمدنی اعلان کرنے والا شخص استعمال کر سکتا تھا۔

بہر حال، جیسا کہ اس اسکیم کا نام ہے، ‘غریب کلیان’، تو یہ ظاہر تھا کہ اس پیسے سے غریبوں کے فائدے کے لئے کوئی اسکیم بنائی جانی چاہیے یا کوئی کام کیا جانا چاہیے۔تو ایسے میں یہ جاننا ضروری تھا کہ ان پیسوں کا کیا ہوا۔ اس لئے ہم نے آر ٹی آئی کے تحت حکومت سے کچھ سوال پوچھے۔ آر ٹی آئی کے تحت ہم نے وزارت خزانہ سے پی ایم جی کے وائی کے تحت یکجا پیسہ اور اس پیسے کے استعمال کے بارے میں سوال پوچھے۔حکومت ہند کے ریونیو محکمے سے جواب آیا کہ اسکیم کے تحت 2066 کروڑ روپے جمع کئے گئے ہیں اور اس کو ‘ہندوستان کے  خزانہ ‘ میں جمع کر دیا گیا ہے۔

اس اسکیم کے تحت یکجا فنڈ کو کہاں اور کیسے خرچ کیا گیا، تو اس بارے میں وزارت خزانہ نے واضح طور پر بتایا ہے کہ اس کے بارے میں کوئی جانکاری دستیاب نہیں ہے۔ دیگر محکمہ جات، جیسے پی ایف سی-1 یا پی ایف سی-2 سے بھی اسی طرح کے جواب ملے۔آگے ہم نے پی ایم جی کے وائی جمع اسکیم کے بارے میں یہ جاننے کی کوشش کی کہ کب کب اس اسکیم میں کتنا پیسہ آیا؟ پرنسپل چیف کنٹرولر آف اکاؤنٹ نے بتایا کہ چار سالوں کے لاک-ان مدت کے لئے کل جمع رقم 1915.76 کروڑ روپے تھی۔ اس میں 31 مارچ 2017 تک، 1905.51 کروڑ جمع کئے گئے تھے۔

ایک اپریل سے 10 مئی 2017 تک 10.06 کروڑ روپے کی رقم جمع کی گئی۔ حیرانی کی بات ہے کہ مالی سال 2018سے19 کے دوران بھی کھاتا نمبر 002800112 کے تحت 9 لاکھ روپے کی رقم جمع کی گئی ہے جو کہ پی ایم جی کے وائی ڈپازٹ کی طرح ہی ہے۔غور طلب ہے کہ 10 مئی 2017 کو ہی پی ایم جی کے وائی کو بند کر دیا گیا تھا۔ ہمیں ملے کئی جوابات سے بھی یہ صاف ہوا ہے کہ اس اسکیم کے تحت جمع کی گئی رقم کے استعمال کو لےکر حکومت کی طرف سے کوئی واضح ہدایت نہیں ملی تھی۔اب ایک دلچسپ حقیقت پر غور کیجئے۔ ہم نے جب آر ٹی آئی کے تحت یہ پوچھا کہ پی ایم جی کے وائی یوجنا کی تشہیرو توسیع پر کتنا خرچ کیا گیا تو پتا چلا کہ صرف اس اسکیم کی تشہیر پر ہی کروڑوں روپے خرچ‌کے دئے گئے۔

حکومت کالا دھن کے خلاف جنگ چھیڑے ہوئی ہے، ایسا نظریہ بنانے کے لئے حکومت نے اس دوران (نوٹ بندی کے ٹھیک بعد) مختلف اشتہارات پر 60 کروڑ روپے سے زیادہ خرچ کئے۔اس رقم میں سے تقریباً 18.94 کروڑ روپے اکیلے پرنٹ اور الکٹرانک میڈیا میں پی ایم جی کے وائی کی تشہیر پر خرچ کئے گئے۔ حکومت نے یہ نظریہ بنانے کی پرزور کوشش کی کہ اس نے ملک اور غریبوں کے مفاد کے لئے یہ سب کچھ کیا ہے اور اس لئے غریبوں کے لئے ایسی خاص اسکیم لےکر آئی ہے۔لیکن، حکومت کے خود کے جواب سے یہ کہیں بھی پتہ نہیں چلتا ہے کہ غریب کلیان یوجنا کے پیسے کا واقعی غریب کلیان پروگرام یا پالیسی سے کوئی سیدھا لینا-دینا ہے۔

ہاں، یہ ضرور تھا کہ اس اسکیم کے اعلان سے عام لوگوں کے درمیان ایک پرسیپشن (نظریہ) بنانے کی کوشش کی گئی کہ نوٹ بندی سے غریبوں کو سب سے زیادہ فائدہ ہوا ہے یا ہوگا۔لوگوں کے درمیان یہ پیغام بھی دینے کی ایک کامیاب کوشش کی گئی کہ نوٹ بندی سے امیروں/بےایمان کا پیسہ لےکر غریبوں کے فائدے میں لگایا جائے‌گا۔ شاید اسی لئے اسی دوران پردھان منتری غریب کلیان یوجنا نام سے ایک اسکیم کی بھی شروعات کر دی گئی۔لیکن، اس اسکیم کے تحت جمع پیسے کا واقعی غریبوں کے فائدے کے لئے کہاں اور کیسے استعمال ہوا، اس کے بارے میں کوئی جانکاری کسی کے پاس نہیں ہے۔ کم سے کم آرٹی آئی  کے تحت تو ایسی کوئی جانکاری عوامی نہیں ہو سکی ہے۔

(مودی حکومت کی اہم اسکیموں کا تجزیہ  کرتی کتاب وعدہ-فراموشی کے اقتباسات خصوصی اجازت کے ساتھ شائع کیے جا رہے ہیں ۔ آرٹی آئی سے ملی جانکاری کے مطابق یہ کتاب سنجے باسو ، نیرج کمار اور ششی شیکھر نے مل کر لکھی ہے۔)