کشمیر میں چاہے کانگریس ہو یا مقامی نیشنل کانفرنس یا پیپلز ڈیموکریٹک پارٹی یا آزادی پسند،سبھی خود کو13 جولائی کے شہدا ء کے وارث قرار دے رہے ہیں۔لیکن حقیقت یہ ہے کہ شہداء کی قربانیوں کی حق ادائیگی میں مسلسل تساہل سے کام لیا جارہاہے۔
ہندوستان میں کچھ عرصہ سے جس طرح تاریخ کو از سر نو ترتیب دینے اور اس کو مسخ کرنے کا کام ہو رہا ہے، اس کی لپیٹ میں کشمیر کی تحریک آزادی کے یادگار لمحے بھی آر ہے ہیں۔ کم و بیش پچھلی آدھی صدی سے کشمیر کی سبھی سیاسی جماعتیں چاہے ہندوستان نواز ہو یا آزادی پسند، 13جولائی کواستحصال، جبر و استبداد اور غلامی کے خلاف ایک علامتی قومی دن کے طور پر مناتے آئے ہیں۔ جبر و استبداد کی چکی میں کشمیری عوام تقریباً ساڑھے چار سو سالوں سے پس رہی ہے۔ مغل فرمانراو اکبر کے جنرل بھگوان سنگھ نے جب کشمیر کے آخری تاجدار یوسف شاہ چک کو دھوکے سے لاہور بلاکر اور پھر قید کرکے بہار جلا وطن کیا، تبھی سے ہی کشمیر پر گورنروں کے ذریعے ہی حکومت کی جا رہی ہے۔
کچھ عرصے سے دہلی اور جموں میں مقیم چند نام نہاد دانشور 13 جولائی 1931 کے واقعات کو فرقہ وارانہ رنگ میں پیش کرنے کی کوششیں کر رہے ہیں۔پیوپلز ڈیموکریٹک پارٹی (پی ڈی پی) اور بھارتیہ جنتا پارٹی (بی جے پی) کی پچھلی مخلوط حکومت کے دوران پروٹوکول کی سرعام خلاف ورزی کرتے ہوئے بی جے پی سے تعلق رکھنے والے وزراء نے اس دن کو منانے سے انکار کیا۔ یہ درست ہے کہ وادی کشمیر میں نوے فی صدآبادی مسلمانوں پر مشتمل ہے اور جاگیردارانہ لوٹ کھسوٹ کا وہی سب سے زیادہ شکار تھے،اس لئے انہوں نے تحریک حریت میں حصہ لیااورقربانیاں دیں۔لیکن حقیقت یہ ہے کہ یہ تحریک جموں وکشمیر میں بسنے والے سارے فرقوں اورسارے علاقوں کی مظلوم عوام کی آزادی اوربیداری کے لئے تھی۔ اس میں ہرگز کوئی فرقہ وارانہ یا علاقائی جذبہ کار فرمانہ تھا۔
بھارت اور پاکستان کے دانشور حضرات کشمیر کی تحریک آزادی یا مسائل کشمیر کو 1947میں رونما پذیر واقعات سے جوڑتے ہیں۔ یہ ایک حقیقت ہے کہ کشمیر یوں کی آزادی کی راہ کو 1947کے واقعات نے طویل اور پیچیدہ کردیا، مگر آزادی کیلئے ان کی تڑپ صدیوں سے جاری تھی اور وقتاً فوقتاً اس کا اظہار بھی کرتے آئے ہیں۔ شاید کم ہی افراد کو معلوم ہوگا کہ دنیا کی پہلی منظم ٹریڈ یونین تحریک کا سہرا دور ولایت میں نہیں بلکہ پڑوس میں کشمیر کے سر جاتا ہے۔
مئی 1886شکاگو کی ہئے مارکیٹ میں مزدوروں کے خلاف تشدد کے واقعہ سے21برس قبل 29 اپریل 1865کو سری نگر کی سڑکیں بد نصیب شال بننے والے کاریگروں کے خون سے لالہ زار ہوگئی تھیں۔اسی طرح کا ایک دوسرا واقعہ 20 جولائی 1924کو سرینگر کی سلک فیکٹری میں پیش آیا، جب وہاں مزدوروں نے احمد آباد اور بمبئی کے مل ورکروں کی طرز پر کام کی مدت طے کرنے، بہتر اجرت، اور ایک استحصالی کلرک کی معزولی کا مطالبہ لے کر ایجی ٹیشن کی۔ یہاں بھی ڈوگرہ فوج نے فیکٹری پر دھاوا بول کرمزدوروں کو زد و کوب کیا اور ان کے لیڈروں کو گرفتار کرکے دور دراز کی جیلوں میں پہنچایا گیا۔ ان میں سے شاید ہی کسی کو زندہ واپس آنا نصیب ہوا۔ ان غریب مزدوروں سے ہمدردی جتانے کے بجائے، 1924کے ہندوستان ٹائمز کی خبر ہے، کہ سلک فیکٹری کے مسلمان مزدوروں نے ہندو سپروائزروں کو یرغمال بنایا، اور ان کے تحت کام کرنے سے انکار کیا۔ اکثر ہندو قلم کاروں نے اس واقعہ کو اسی طرح پیش کرکے اس کو فرقہ وارانہ رنگت دینے کی کوشش کرکے انتہائی متعصبانہ ذہنیت کی عکاسی کی ہے۔
29اپریل اور 20جولائی کے یہ دن تو اب کشمیر ی بھی خود بھول گئے ہیں۔ اب دہلی اورجموں میں 13جولائی کے یوم شہدا ء کو بھی غلط اور فرقہ وارانہ رنگ میں پیش کرکے اس کو بھی بھلانے کی سعی ہو رہی ہے۔ 13جولائی 1931 کو رونما پذیر واقعات اجتماعی بغاوت کا تسلسل تھا۔ یہ بغاوت استحصال، جبر واستبداد، لوٹ کھسوٹ اورغلامی کے خلاف تھی جو پیشتر کئی صدیوں سے مغلوں،پٹھانوں، سکھ حکمرانوں اور پھر ڈوگرہ شاہی نے کشمیری عوام سے روارکھی تھی۔یہ دن نہ صرف ایک اہم باب کی حیثیت رکھتاہے بلکہ یہ عوام کے لاشعور کا حصہ بن چکاہے۔بیسیویں صدی کی دوسری اورتیسری دہائی محکوم اوردبی کچلی قوموں کا سامراج کے خلاف جدو جہد کا دورتھا۔پونچھ میں توہین قرآن کے ایک واقعہ نے ایک طرح سے تحریک کو مہمیز عطا کی۔ اس کے خلاف ا ایک احتجاجی اجتماع خانقاء معلی سری نگر میں منعقد ہوا،جس میں ایک غیر ریاستی باشندے عبدالقدیر نے بھی تقریر کی، جس سے عوام میں انتہائی جوش اورجذبہ پیدا ہوگیاحکومت نے اس تحریک کو جبراً کچل دینے کا فیصلہ کیا اوردیگر جابرانہ اقدامات کے علاوہ عبدالقدیر کے خلاف 124الف(بغاوت) کا مقدمہ چلایا گیا۔
عوام اس قدر مشتعل تھی کہ حکمرانوں کو کھلی عدالت میں یہ مقدمہ چلانے کی ہمت نہ ہوئی اور سینٹرل جیل سری نگر کی چار دیواری کے اندرہی مقدمہ شروع کیا گیا۔ تاریخ پیشی پر شہر سری نگر اور مضافات کے ہزاروں لوگ مقدمہ کی کارروائی سننے کے لئے جیل کے سامنے جمع ہوگئے۔ سماعت کے دوران باہر لوگوں کا اڑدھام نماز کی ادائیگی کی تیاری کررہا تھا تو سپاہیوں نے جیل کی دیوار پر کھڑے ہوئے اذان دینے والے شخص کو گولی مار کر شہید کردیا اور اس کے بعد اندھا دھند فائرنگ سے مزید20افراد کو شہید کردیا گیا۔یہ تاریخی حقیقت ہے کہ ان تمام شہدا ء نے سینوں پر گولیاں کھائیں۔یہ کوئی حادثاتی سانحہ نہیں تھا بلکہ صدیوں کی مسلسل مزاحمت کا ایک خونیں پڑاؤ تھا۔ شہیدوں کو زیارت گاہ نقش بند میں، جسے اب مزار شہداء بھی کہاجاتا ہے،دفنا یا گیا۔
یہاں پر ہر سال شہیدوں کی قبروں پر گل پاشی کی جاتی ہے۔ جلسے ہوتے ہیں اورپارٹیوں اور نظریاتی وفاداریوں سے بالاترہوکر شہیدوں کو خراج عقیدت پیش کیاجاتا ہے۔ یہ تحریک بالآخر ڈوگرہ تانا شاہی کو بہا کر لے گئی۔ مگر مطلق العنانی کے خاتمے کے ساتھ ہی جنت نما کہلائی جانے والی یہ ریاست امن و سکون اور ترقی وخوشحالی کی آماجگاہ نہ بن سکی۔ ”عوامی دور“ میں بھی کشمیری عوام کے کرب اور اضطراب کی کیفیت میں کوئی بڑی تبدیلی واقع نہ ہوئی۔بالخصوص گزشتہ تیس برس کے دوران ریاست میں ہزاروں لوگ اپنی متاع جاں سے ہاتھ دھوبیٹھے اور ہزاروں لوگ عمر بھر کیلئے معذو ہوگئے۔
گزشتہ 65سال کی تاریخ کا غالباً سب سے المناک پہلو یہ ہے کہ یہاں کے سیاست دانوں نے ہمیشہ اپنے نجی اور گروہی مفادات کیلئے سادہ لوح عوام کا استحصال کرنے میں کوئی جھجک محسوس نہیں کی۔ حتیٰ کہ سیاستدانوں نے اپنا دبدبہ بنائے رکھنے کیلئے اور عوام کے سروں پر سوار رہنے کیلئے انہیں جانوروں کے نام دے کر دہائیوں تک ایک دوسرے سے باہم دست و گریباں رکھنے میں بھی کوئی عار محسوس نہیں کیا۔ایک اور بدقسمتی یہ ہے کہ بھارت اور پاکستان کے حکمرانوں نے بھی مسئلہ کشمیر کو ایک انسانی مسئلے کے طور پر قبول کرنے کےبجائے اسے اپنی انا اور مفادات کی بھینٹ چڑھایا۔ اس ریاست کی آبادی مسلسل خوف میں جی رہی ہے۔ریاست کے معاملات میں ایجنسیوں کی مسلسل مداخلت بلکہ مداخلت بے جا کی وجہ سے یہاں ہمہ وقت شکوک و شبہات کی فضا قائم رہتی ہے۔
کشمیر میں چاہے کانگریس ہو یا مقامی نیشنل کانفرنس یا پیپلز ڈیموکریٹک پارٹی یا آزادی پسند،سبھی خود کو13 جولائی کے شہدا ء کے وارث قرار دے رہے ہیں۔لیکن حقیقت یہ ہے کہ شہداء کی قربانیوں کی حق ادائیگی میں مسلسل تساہل سے کام لیا جارہاہے۔ 1931کے شہدا کا مشن ابھی تشنہ تکمیل ہے۔مسئلہ کشمیر کے حتمی حل تک اس ریاست کے لوگوں کیلئے سکون و اطمینان کی زندگی جینا محال ہے کیونکہ اس مسئلے کے حل طلب رہنے تک یہاں سیاسی بے یقینی بھی قائم رہے گی اور اقتصادی ترقی کی راہیں بھی مسدود رہیں گی۔وقت کا تقاضا ہے کہ ہندوستان کے حکمران اس مسئلے کو اپنے مفادات اور انا کی بھینٹ نہ چڑھاتے ہوئے دور اندیشی اور انسان نوازی کا ثبوت دے کر اس مسئلے کے حل کے لیے آگے آئیں اور ریاست کے مظلوم عوام کا مسلسل کرب ختم کرنے میں اپنا کردار ادا کریں۔
Categories: فکر و نظر