خبریں

کشمیر مدعے پر لندن میں ہوا پرتشدد مظاہرہ، ہندوستانی ہائی کمیشن میں توڑپھوڑ

برٹن کے وزیر خارجہ ڈومنک راب نے پارلیامنٹ  میں کہا کہ ہندوستانی آئین کے آرٹیکل 370 کو ہٹائے جانے کے بعد سے کشمیر میں انسانی حقوق کی خلاف ورزی کے الزامات کی تفتیش ہونی چاہیے۔

مظاہرین کے حملے میں لندن واقع ہندوستانی ہائی کمیشن کی ٹوٹی کھڑکی(فوٹو : ٹوئٹر)

مظاہرین کے حملے میں لندن واقع ہندوستانی ہائی کمیشن کی ٹوٹی کھڑکی(فوٹو : ٹوئٹر)

نئی دہلی: جموں و کشمیر کے خصوصی ریاست کا درجہ ختم کئے جانے کو لےکر لندن میں چل رہا مظاہرہ تشدد آمیز ہو گیا اور منگل کو ہندوستانی ہائی کمیشن میں توڑپھوڑ کی گئی۔ مظاہرین نے ہائی کمیشن کی کھڑکیوں کو توڑ دیا۔ایک ٹوٹی ہوئی کھڑکی کی تصویر شیئر کرتے ہوئے ہائی کمیشن نے ٹوئٹر پر لکھا،’آج 3 ستمبر 2019 کو لندن میں ہندوستانی ہائی کمیشن کے باہر ایک اور تشدد آمیز مظاہرہ ہوا۔ اس سے احاطہ میں توڑ-پھوڑ ہوئی ہے۔ ‘

واضح ہو کہ، لندن میں ہندوستانی ہائی کمیشن کے باہر کشمیر مدعے پر دوسری بار مظاہرہ ہوا ہے۔ اس سے پہلے یوم آزادی کے دن 15 اگست کو  مظاہرہ میں تشدد آمیز جھڑپ ہو گئی تھی۔جن ستا کے مطابق، برٹش کشمیری تنظیموں  کے ممبروں نے کشمیر فریڈم مارچ کا انعقاد کیا۔ یہ مظاہرین برٹن کے کچھ رکن پارلیامان کی رہنمائی میں پارلیامینٹ اسکوائر ڈاؤننگ اسٹریٹ سے ہائی کمیشن کی عمارت تک گئے۔مظاہرین نے پاکستان مقبوضہ کشمیر (پی او کے) اور خالصتان کے پرچم اور تختیاں لےکر کہا، کشمیر میں گولی باری بند کرو، کشمیریوں کی گھیرابندی بند کرو، کشمیر پر کارروائی کے لئے اقوام متحدہ کا وقت آ گیا، کشمیر میں جنگی جرائم بند کرو۔

اس دوران مظاہرین نے ہمیں چاہیے آزادی جیسے نعرے بھی لگائے۔مظاہرین کی قیادت کر رہے برٹش رکن پارلیامان لیام برن نے کہا،’آپ ایک قانون سازمجلس کو خاموش رکھنے کی کوشش کر سکتے ہیں لیکن آپ لوگوں کو خاموش نہیں کرا سکتے۔ ہم اپنے شہر کی گلیوں میں مظاہرہ کرتے رہیں‌گے۔ ‘انہوں نے کہا، ہم ایسا تب تک کرتے رہیں‌گے جب تک اقوام متحدہ کشمیری لوگوں کو انصاف نہیں دیتا۔ اب دو طرفہ حل کا نظریہ ختم ہو چکا ہے۔ اب کثیرفریقی حل کا وقت ہے۔تشدد کی مذمت کرتے ہوئے لندن کے میئر صادق خان نے اس کو ناقابل قبول بتایا۔

ہندوستانی ہائی کمیشن کے ٹوئٹ پر رد عمل دیتے ہوئے صادق نے لکھا، ‘ میں اس ناقابل قبول عمل کی سخت تنقید کرتا ہوں اور کارروائی کے لئے پولیس کے سامنے اس  کو رکھوں‌گا۔ ’15 اگست کو جب ہندوستانی نژادکے لوگ یوم آزادی کے موقع پر جشن منا رہے تھے تب مظاہرین نے اس میں رکاوٹ ڈالنے کی کوشش کی تھی۔ اس دوران انہوں نے سفارت خانہ کی عمارت اور اس کے باہر اکٹھے ہندوستانیوں پر پتھر اور انڈے پھینکے تھے۔ہندوستانی نژاد کے ٹوری رکن پارلیامان شیلیش وارا نے منگل کو تشدد آمیزمظاہرہ کے مدعے کو ہاؤس آف کامنس میں پہلے پارلیامانی سیشن کے دوران اٹھایا تھا۔ اس دوران انہوں نے دوسری کمیونٹی کے ذریعے ہندوستانی کمیونٹی کے ممبروں پر حملے پرتشویش کا اظہار کیا تھا۔

برٹن کے وزیر خارجہ ڈومنک راب نے کہا، ‘ کوئی بھی تشدد قابل مذمت ہے۔ کسی خصوصی کمیونٹی کے خلاف اس ملک میں یا کہیں بھی تشدد نہیں ہونا چاہیے۔ اب ہمیں کشیدگی کم کرنے کی کوشش کرنی چاہیے۔ اس کے ساتھ ہی کشمیر ی عوام  اور ہندوستان-پاکستان کے درمیان بات چیت کو بڑھاوا دینا چاہیے۔ ‘خبر رساں ایجنسی اے این آئی کے مطابق، 15 اگست کے تشدد کو لےکر لندن پولیس نے اب تک کم سے کم چار لوگوں کو گرفتار کیا ہے۔دریں اثنابرٹن نے منگل کو کہا کہ ہندوستانی آئین کے آرٹیکل 370 کو ہٹائے جانے کے بعد سے کشمیر میں انسانی حقوق کی خلاف ورزی کے کسی بھی الزام کی’گہری، فوری اور شفاف ‘ تفتیش ہونی چاہیے۔

برٹن کے وزیر خارجہ ڈومنک راب نے لمبی گرمیوں کی چھٹی کے بعد قانون سازمجلس کے پہلے سیشن میں ہاؤس آف کامنس میں رکن پارلیامان سے کہا کہ انہوں نے سات اگست کو ہندوستان کے وزیر خارجہ ایس جئے شنکر کے ساتھ بات چیت کی تھی۔ بات چیت کے دوران انہوں نے تشویش  کا اظہار کیا تھا اورکہا تھا کہ  برٹن کشمیر میں حالات پر احتیاط سے نظر رکھے‌گا۔وزیر خارجہ زبانی سوال کا جواب دے رہے تھے۔ اس دوران کشمیر مدعے سے جڑے کئی سوال پوچھے گئے۔راب نے کہا کہ حراست، ممکنہ بد سلوکی اور مواصلات ٹھپ ہونے کا مدعا انہوں نے ہندوستانی وزیر خارجہ کے ساتھ اٹھایا۔ حکومت ہند نے واضح کیا ہے کہ وہ عارضی ہیں اور اس کی سخت ضرورت ہے۔

انہوں نے کہا کہ انسانی حقوق کی خلاف ورزی کے الزامات تشویش پیدا کرنے والے ہیں اور ان کی پوری طرح سے اور فوری طور پر تفتیش کی جانی چاہیے۔ہندوستان نے عالمی کمیونٹی سے واضح طور پر کہا ہے کہ آرٹیکل 370 کو ختم کرنا اس کا اندرونی معاملہ ہے۔وزیر نے برٹش رخ کو دوہراتے ہوئے کہا کہ کشمیر موضوع ہندوستان اور پاکستان کے درمیان کا دو طرفہ مدعا ہے۔ انہوں نے حالانکہ زور دیا کہ انسانی حقوق کی تشویش نے اس کو عالمی مدعا بنا دیا ہے۔