خبریں

امریکی رکن پارلیامان کو حکومت سے نہیں ملی کشمیر جانے کی اجازت، اپنی آنکھوں سے دیکھنا چاہتے تھے حالات

ہندوستانی حکومت  سے جموں و کشمیر جانے کی اجازت نہ ملنے کے باوجود امریکہ کی ڈیموکریٹک پارٹی کے رکن پارلیامان کریس وان ہولن اس ہفتے ہندوستان آئے۔انہوں نے افسروں اور سول سوسائٹی  کےلوگوں سے ملاقات کی۔

مرکزی وزیر پرکاش جاویڈکر اور امریکی رکن پارلیامان کرس وان ہولن،فوٹو: ٹوئٹر

مرکزی وزیر پرکاش جاویڈکر اور امریکی رکن پارلیامان کرس وان ہولن،فوٹو: ٹوئٹر

نئی دہلی: جموں و کشمیر کے حالات پر اپنی کھلی رائے رکھنے والے ڈیموکریٹک پارٹی کے ایک اہم امریکی رکن پارلیامان  کریس وان ہولن اپنی آنکھوں سے کشمیر کے حالات دیکھنے کے لئے وہاں جانا چاہتے تھے۔حالانکہ ،ہندوستانی حکومت نے انہیں وہاں جانے کی اجازت نہیں دی۔واضح ہو کہ،جموں و کشمیر کو خصوصی ریاست کا درجہ دینے والے آرٹیکل 370 کے بیشتر اہتمام کو 5 اگست کو ختم کر دیا گیا تھا،اس کے بعد سے وہاں پابندیاں عائد ہیں۔کراچی میں پیدا ہوئے ہولن نے اپنی اسکولی تعلیم سری لنکا کے کوڈائی کنل سےحاصل کی تھی،جبکہ ان کے والد وہاں امریکی ڈپلومیٹ کے طور پر تعینات تھے۔

حالانکہ ،کشمیر کے سفر کی اجازت نہیں  ملنے کے باوجود ہولن ہندوستان آئے۔جمعرات اور جمعہ کو انہوں نے افسروں اورسول سوسائٹی کےلوگوں سے ملاقات کی۔وزیر ماحولیات پرکاش جاویڈکر نے ٹوئٹ کرکےہولن سے ملاقات کرنے اور ان کے ساتھ ماحولیات اور آب و ہوا کی تبدیلی سے جڑے مختلف مدعوں پر چر چہ کرنے کی جانکاری دی۔

انڈین ایکسپریس کے مطابق،وان ہولن نے کہا،’میں کشمیر کا دورا کر کے اپنی آنکھوں سے دیکھنا چاہتا تھا کہ کیا ہو رہا ہے،لیکن ہندوستانی حکومت کی طرف سے  اجازت نہیں دی گئی۔ہم نے تقریباً ایک ہفتہ پہلے ہندوستانی حکومت سے رابطہ کیا تھا۔لیکن بتایا گیا کہ وہاں جانے کا صحیح وقت نہیں ہے۔’پورے ہندوستان میں سفر کر چکے ہولن کبھی جموں و کشمیر نہیں گئے۔انہوں نے کہا ،’میں نے سوچا تھا کہ وہاں جا کر خود حالات دیکھنا بہتر  ہوگا۔میری ذاتی رائے ہے کہ اگر آپ کے پاس چھپانے کے لیے کچھ نہیں ہے ،تو ریاست میں آنے والوں کو اجازت دینے سے  ڈرنے  کی کوئی بات نہیں ہے۔ میں صرف یہ نتیجہ نکال سکتا ہوں کہ ہندوستانی حکومت نہیں چاہتی کہ ہم دیکھیں کہ وہاں کیا ہو رہا ہے۔’

اس پر ہندوستانی حکومت کی جانب سے کوئی سرکاری بیان نہیں آیا ہے۔حالانکہ،سرکاری ذرائع کا کہنا ہے کہ غیر ملکیوں کی حفاظت کا خیال رکھتے ہوئے انہیں صلاح دی گئی کہ وہ وہاں نہ جائیں۔ان کے انتخابی حلقہ میری لینڈ میں امریکہ کی سب سے بڑی مسلم آبادی رہتی ہے،جس میں  پاکستانی اور ہندوستانی -امریکی مسلم کی اچھی خاصی تعداد ہے۔

House Committee on Appropriations  کے ممبر کے طور پر انہوں  نے اپروپریشن بل میں جموں و کشمیر پر سخت بات چیت کو شامل کرنے میں   اہم کردار نبھایا،جسے گزشتہ ہفتہ اتفاق رائے سے منظور کیا گیا تھا۔انہوں نے کہا کہ کمیٹی نے کشمیر میں موجود ہ انسانی بحران پر تشویش کا اظہار  کیا اور ہندوستانی حکومت سے ٹیلی فون اور انٹر نیٹ  خدمات کو مکمل طور سے بحال کرنے کی مانگ کی۔اس کے ساتھ ہی کمیٹی نے جموں و کشمیر میں لگی پابندی اور کرفیو کو ہٹانے اور حراست میں لیے گئے لوگوں کو چھوڑنے کی بھی مانگ کی ہے۔

واضح ہو کہ،گزشتہ مہینہ امریکی وزارت خارجہ نے جموں و کشمیر میں سیاسی رہنماؤں کو حراست میں لینے اور مواصلاتی ذرائع پر پابندی لگائے جانے کے بعد بڑی تعداد میں لوگوں کو حراست میں لینے پرتشویش کا اظہار  کرتے ہوئے ہندوستان سے انسانی حقوق کی عزت کرنے کی اپیل کی تھی۔امریکہ نے ہندوستانی افسروں سے ریاست کے مقامی رہنماؤں سے سیاسی بات چیت شروع کرنے اور جلد از جلد انتخاب کرانے کو بھی کہاتھا۔

اس کے بعد کشمیر میں انسانی حقوق کی صورتحال کو لے کر ایک ہندوستانی-امریکی خاتون رکن پارلیامان  پرمیلا جیسوال سمیت دو امریکی رکن پارلیامان نے تشویش کا اظہار کرتے ہوئے وزیر خارجہ مائیک پومپیوسے اپیل کی تھی کہ وہ کشمیر میں مواصلات کے ذرائع کو فوراً بحال کرنے اورحراست میں لیے گئے سبھی لوگوں کو چھوڑنے کے لیے ہندوستانی حکومت پر دباؤ ڈالیں۔