خبریں

آرٹیکل 370: چیلنج دینے والی عرضیوں کو بڑی بنچ کے پاس بھیجنے سے سپریم کورٹ کا انکار

23 جنوری کی شنوائی کے دوران آرٹیکل 370 کے اہتماموں  کو رد کئے جانے کے جواز کو چیلنج دینی والی عرضیوں  کو پیش کرنے والے وکیلوں نے مانگ کی تھی کہ جموں وکشمیر کے خصوصی درجے کو ختم کرنے کو چیلنج  دینے والے معاملوں کو سات ججوں کی بڑی بنچ کے پاس بھیجا جائے کیونکہ آرٹیکل 370 سے جڑے پچھلے دو فیصلے پانچ ججوں کی بنچ کے ذریعے  دیے گئے تھے اور دونوں میں تنازعہ  تھا۔

Supreme-Court_PTI

نئی دہلی: سپریم کورٹ نے سوموار کو کہا کہ آرٹیکل 370 کے اہتماموں  کو رد کئے جانے کے جواز کو چیلنج دینی والی عرضیوں  کو سات  ججوں  کی بڑی بنچ کو بھیجنے کی کوئی وجہ نہیں ہے۔انڈین ایکسپریس کے مطابق، جسٹس این وی رمن کی صدارت والی پانچ ججوں کی بنچ  معاملے کی شنوائی جاری رکھے گی۔

عدالت نے کہا کہ 1959 کے پریم ناتھ کول بنام جموں وکشمیر اور 1970 کے سمپت پرکاش بنام جموں و کشمیر معاملے کے دونوں فیصلوں میں آرٹیکل 370 کی فطرت اور حدود کے بارے میں خیالات  کے درمیان  کوئی سیدھا تنازعہ  نہیں ہے، اس لئے کسی بڑی بنچ  کی ضرورت نہیں ہے۔

23 جنوری کی شنوائی کے دوران پیپلس یونین فار سول لبرٹیز کی طرف سے پیش ہوتے ہوئے وکیل سنجے پارکھ نے سردار ولبھ بھائی پٹیل سمیت  مجلس دستور سازکے ممبروں کے بیان پڑھے جو آرٹیکل 370 کو بنائے رکھنے کے ارادے پر آئین بنانے والوں کے ارادے پر روشنی  ڈالتے ہیں۔ وہیں، جموں و کشمیر بار ایسوسی ایشن کی طرف سے پیش ہوئے سینئر وکیل جفر شاہ نے کہا کہ ہندوستان اور جموں وکشمیر آئین ایک دوسرے کے مساوی ہیں۔

پاریکھ اور شاہ دونوں نے مانگ کی تھی کہ جموں وکشمیر کے خصوصی درجے کو ختم کرنے کو چیلنج دینے والے معاملوں کو سات ججوں کی بڑی بنچ کے پاس بھیجا جائے کیونکہ آرٹیکل 370 سے جڑے پچھلے دو فیصلے پانچ ججوں کی بنچ کے ذریعے  دیے گئے تھے اور دونوں میں تنازعہ  تھا۔

مرکزی حکومت  کی طرف سے پیش ہوتے ہوئے اٹارنی جنرل کے کے وینگوپال نے بنچ کو بتایا کہ آرٹیکل 370 کے اہتماموں کو رد کرنا اب ناممکن بن گیا ہے اور اس کو قبول کرنا واحد آپشن  بچ گیا ہے۔پچھلے دو فیصلوں کا ذکر کرتے ہوئے وینگوپال نے کہا کہ وہ ایک دوسرے سے جڑے ہوئے نہیں تھے اور الگ الگ مدعوں سے جڑے ہیں۔

بتا دیں کہ، پچھلے سال 5 اگست کو مرکزی حکومت نے پارلیامنٹ میں ایک تجویز  لاکر آرٹیکل 370کے زیادہ تر اہتماموں  کو ختم کر دیا تھا اور جموں و کشمیر کو دو یونین ٹریٹری میں بانٹ دیا تھا۔ حکومت  کے اس فیصلے کو چیلنج کرتے ہوئے سپریم کورٹ میں کم سے کم 23 رعرضیاں  داخل کی گئی ہیں۔