خبریں

لاک ڈاؤن میں 42 فیصدی مہاجر مزدوروں کے پاس ایک دن کا بھی راشن نہیں: سروے

سروے میں شامل 3196 مہاجر مزدوروں میں سے 31 فیصدی  لوگوں نے بتایا کہ ان کےاوپر قرض ہے اور اب روزگار ختم ہونے کی وجہ سے  وہ اس کی بھرپائی نہیں کر پائیں‌گے۔مزدوروں کو ڈر ہے کہ اس کی وجہ سے  ان پر حملہ ہو سکتا ہے کیونکہ زیادہ تر قرض ساہوکاروں سے لئے گئے ہیں۔

image

نئی دہلی: کورونا وائرس کے بڑھتے انفیکشن کی وجہ سے نافذ کئے گئے لاک ڈاؤن کی وجہ سے لوگوں کو ،بالخصوص مہاجر مزدوروں کو کئی طرح کی مشکلوں کا سامنا کرنا پڑرہا ہے۔ عالم یہ ہے کہ 42 فیصدی  گھروں میں ایک دن کا بھی راشن نہیں ہے۔غیر سرکاری تنظیم جن سہس کے ذریعے 3196 مہاجر مزدوروں کے درمیان کئے گئےمطالعے سے یہ جانکاری سامنے آئی ہے۔ ادارہ نے ٹیلی فون پربات چیت کے ذریعے یہ سروےکیا ہے۔ اس کے مطابق مزدوروں نے بتایا کہ اگر لاک ڈاؤن 21 دن سے زیادہ رہتا ہے تواس میں سے 66 فیصد لوگ اپنا گھر نہیں چلا پائیں‌گے۔

سروے میں ایک اور اہم بات یہ سامنے آئی ہے کہ ایک تہائی مزدور لاک ڈاؤن کی وجہ سے شہروں میں پھنسے ہوئے ہیں جہاں پر نہ تو پانی ہے، نہ کھانا اور نہ ہی پیسہ۔جو مزدور اپنے گاؤں پہنچ بھی گئے ہیں وہ بھی پیسے اور راشن کے مسائل سے جوجھ رہےہیں۔اس کے علاوہ کل 31 فیصد مزدوروں نے بتایا کہ ان کے اوپر قرض ہے اور اب روزگار ختم ہونے کی وجہ سے وہ اس کی بھرپائی نہیں کر پائیں‌گے۔ اس میں سے زیادہ ترقرض ساہوکاروں سے لئے گئے ہیں۔ ایسے لون کی تعداد بینکوں سے لئے گئے لون کے مقابلےتقریباً تین گنا زیادہ ہے۔

اسی طرح 79 فیصد مزدوروں کو یہ فکر ستا رہی ہے کہ وہ مستقبل میں قرض کو واپس کرنے کے لائق نہیں  ہوں‌گے۔ حالانکہ بڑی فکر کی بات یہ ہے کہ اس میں سے 50فیصد لوگ اس ڈر میں ہیں کہ اگر وہ لون نہیں چکا پائیں‌گے تو ان پر حملہ ہو سکتا ہے، جس کے بڑے تشدد میں تبدیل ہونے کا امکان ہے۔

گزشتہ 24 مارچ، 2020 کو مرکزی وزارت مزدور اور روزگار نے ریاستی حکومتوں اور یونین ٹریٹری  کو ایک ہدایت جاری کی کہ وہ بی او سی ڈبلیو(عمارت اور دیگر تعمیراتی مزدور) سیس ایکٹ کے تحت مزدور فلاح و بہبود بورڈ کےذریعے جمع سیس فنڈ سے ڈی بی ٹی کے ذریعے تعمیراتی مزدوروں کے کھاتوں میں پیسے ڈالےجائیں۔

حالانکہ اس سروے میں پایا گیا ہے کہ 94 فیصد مزدوروں کے پاس شناختی کارڈ نہیں ہے۔ اس کی وجہ سے ریاست کے ذریعے اعلان کئے گئے32000 کروڑ روپے کے بی او سی ڈبلیو فنڈ میں سے ایسے مزدوروں کو کوئی فائدہ نہیں مل پائے‌گا۔سروے کے مطابق مہاجر مزدوروں کو جو فوری  راحت چاہیے، وہ ہے راشن۔ اس کےعلاوہ وہ اپنے کھاتے میں ہر مہینے کچھ رقم دینے کا وعدہ چاہتے ہیں۔ تقریباً 83فیصد لوگوں نے فکر ظاہر کی کہ بند کے بعد ان کو کوئی کام نہیں ملے‌گا۔ اس سروے میں یہ بھی پتہ  چلتا ہے کہ 55 فیصد مزدور 200-400 روپے روزانہ کماتے تھے جس سے ایک فیملی کے چار لوگوں کی پرورش ہوتی تھی۔ وہیں 39 فیصد لوگوں نے بتایا کہ وہ 400-600روپے روزانہ کما پاتے تھے۔

اس کا مطلب ہے کہ زیادہ تر مزدوروں کو طےشدہ کم سےکم مزدوری سے بھی کم تنخواہ مل رہی ہے۔ سال 2011 کی مردم شماری کے مطابق ہندوستان کی آبادی کا 37 فیصدحصہ یعنی کہ 45 کروڑ لوگ ‘ اندرونی مہاجر ‘ ہیں۔جن سہس نے یہ سروے 27 مارچ سے 29 مارچ، 2020 کے بیچ میں کرایا تھا۔