خبریں

نظام الدین مرکز سے کورنٹائن کیے گئے لوگوں کا الزام، مدت پوری ہو نے پر بھی نہیں چھوڑ رہی حکومت

نظام الدین مرکز میں کو رونا انفیکشن ملنے کے بعد یہاں آئے تبلیغی جماعت کے ہزار لوگوں کو نریلا کے ایک سینٹر میں کورنٹائن کیا گیا تھا۔ ملک کے مختلف حصوں سےآئے ان لوگوں کا کہنا ہے کہ اکثر لوگوں کی کووڈ 19رپورٹ نگیٹو ہونے اور کورنٹائن کی طے مدت پوری ہونے کے باوجود انہیں گھر نہیں جانے دیا جا رہا ہے۔

دہلی کے نریلا کورنٹائن سینٹر میں تبلیغی جماعت کے لوگ۔ (فوٹو: دی  وائر)

دہلی کے نریلا کورنٹائن سینٹر میں تبلیغی جماعت کے لوگ۔ (فوٹو: دی  وائر)

نئی دہلی: میرٹھ(اترپردیش) کے رہنے والے دو دوست محمد بابر اور محمدایاز 12ویں کا بورڈ اگزام  دےکر تبلیغی جماعت کے اجتماع میں شامل ہونے کے لیے 18 مارچ کو دہلی آئے تھے۔حالانکہ کچھ ہی دن بعد نظام الدین مرکز، جہاں جماعت کا اجتماع ہوا تھا، میں کو رونا انفیکشن کے معاملوں کاانکشاف ہوا اور جماعت کے دوسرےلوگوں  کی طرح ان دونوں دوستوں کو بھی کورنٹائن سینٹر میں ڈال دیا گیا۔

بابر اور ایاز اس وقت ملک کے سب سے بڑے کورنٹائن سینٹر میں سے ایک دہلی کے نریلا کورنٹائن سینٹر میں رہ رہے ہیں۔ انہیں یہاں آئے تقریباً 40 دن ہو گئے ہیں اور انہوں نے کورنٹائن میں رہنے کی مدت بھی پوری کر لی ہے، لیکن ابھی تک انہیں اپنے گھروں کو جانے نہیں دیا جا رہا ہے۔

بابر بتاتے ہیں، ‘مجھے ایک اپریل کو یہاں لایا گیا تھا۔ دو بار کو رونا کا ٹیسٹ کیا جا چکا ہے اور دونوں بار میری رپورٹ نگیٹو آئی ہے۔ تب بھی ہمیں نہیں جانے دیا جا رہا۔ جب میں ان سے پوچھتا ہوں کہ ہمیں کب جانے دیں گے تو یہ کہتے ہیں کہ بس کچھ دن اور رک جاؤ پھر چلے جانا۔’

یہ بے بسی صرف بابر کی ہی نہیں ہے، بلکہ یہاں لائے گئے کئی جماعت کے لوگوں  کا الزام ہے کہ ان کی ٹیسٹ رپورٹ نگیٹو آنے کے باوجود انہیں یہاں سے جانے نہیں دیا جا رہا ہے۔ڈی ڈی اے کی اس 14 منزلہ عمارت میں جماعت کے کل 932 لوگوں کو کورنٹائن کیا گیا ہے، جہاں کئی ایل آئی جی فلیٹس میں انہیں رکھا گیا ہے۔ ایک فلیٹ میں دو لوگ رہ رہے ہیں، جہاں دو کمرے اور ایک باتھ روم ہیں۔

اس بلڈنگ کو تین بلاک اے، بی اور سی میں بانٹا گیا ہے، جہاں اے اور سی میں نگیٹو پائے گئے لوگ ہیں اور بی بلاک میں پازیٹو، جن کی تعداد 472 ہے۔اٹھارہ  سالہ  بابر کہتے ہیں،‘آپ ہی ذرا سوچیے کہ اگر ایک کمرے میں آپ کو ایک مہینے سے زیادہ وقت کے لیے بند کر دیا جائے تو کیا حالت ہوگی۔ ہمیں یہاں اخبار وغیرہ بھی نہیں ملتا ہے۔ ٹی وی بھی نہیں ہے۔ دین کی کتابوں کے سہارے دن کاٹ رہے ہیں۔’

بابر اسٹوڈنٹ ہیں اور 29 فروری کو انٹر میڈیٹ کا آخری پیپر دےکر وہ دہلی آئے تھے۔ وہ آگے کہتے ہیں، ‘ہمارے پاس کئی لوگوں کے فون آتے رہتے ہیں، وہ  بڑی بدتمیزی سے بات کرتے ہیں۔ میں بتا نہیں سکتا کہ وہ کن لفظوں  کا استعمال کرتے ہیں۔ اس میں ہماری کیاغلطی ہے۔ مجھے پتہ بھی نہیں تھا کہ ایسا کچھ ہونے والا ہے، نہیں تو میں آتا ہی نہیں۔’

ان کی ہی طرح اتراکھنڈ سے 34 لوگ جماعت کے اجتماع  میں شامل ہونے آئے تھے۔ ان میں 31 سالہ محمد حسیب بھی شامل تھے۔ وے میکینکل انجینئر ہیں اور روڑکی کے بھگوان پور تحصیل میں ایک کوچنگ سینٹر چلاتے ہیں۔اس وقت وہ بھی نریلا کورنٹائن سینٹر میں ہیں۔ وہ کہتے ہیں،‘ہمیں یہاں 31 مارچ کو لایا گیا تھا۔ میری کو رونا رپورٹ نگیٹو ہے۔ صرف میں ہی نہیں، میرے اس بلاک میں 280 لوگ ہیں اور سبھی کی رپورٹ نگیٹو آئی ہے۔’

حسیب نے بتایا کہ دو دن پہلے یہاں کے اسٹاف نے بتایا کہ ان لوگوں کو چھوڑنے کی کارروائی شروع کی جا چکی ہے، حالانکہ ابھی صاف نہیں ہے کہ کب تک انہیں چھوڑا جائےگا۔وہ کہتے ہیں، ‘پہلے تو ہمیں یہاں یہ بول کر لایا گیا تھا کہ 14 دن رکھا جائےگا۔ بعد میں کہا کہ حکومت نے مدت بڑھاکر 28 دن کر دی ہے۔ ہم نے یہ بھی مان لیا۔ اب وہ ٹائم بھی پورا ہو گیا ہے، تب بھی پتہ نہیں چل رہا کہ کب جانے دیں گے۔ اسٹاف کہہ رہے ہیں کہ ہمارے ڈسچارج پیپر بنائے جا رہے ہیں، اس میں وقت لگےگا۔’

حسیب ایک مارچ کو دہلی آئے تھے اور وہ نظام الدین مرکز میں رہ رہے تھے۔ انہوں نے بتایا کہ اتنے دن بیت جانے کے بعد بھی انہیں نہ چھوڑنے کی وجہ سے ان کے گھر والے کافی پریشان ہیں۔انہوں نے کہا، ‘ہم ایک بار کھڑکی سے باہر جھانکنے کی کوشش کرتے ہیں تو کنٹرولر ڈانٹ دیتے ہیں کہ بند کرو اسے، باہر نہیں دیکھنا ہے۔ اب کیا کریں، اسی حالت  میں رہنا ہے یہاں۔’

کورنٹائن سینٹر کے ایک کمرے میں چھڑکاؤ کرتااسٹاف۔ (فوٹو: دی  وائر)

کورنٹائن سینٹر کے ایک کمرے میں چھڑکاؤ کرتااسٹاف۔ (فوٹو: دی  وائر)

حالانکہ حسیب یہ بھی کہتے ہیں کہ کورنٹائن سینٹر میں انتظامات بہتر ہیں۔ کھانا وغیرہ بھی وقت پر ملتا ہے، اسٹاف کاسلوک بھی اچھا رہا ہے۔ لیکن ان کی جو ٹیسٹنگ کی گئی، اس کی کوئی رپورٹ ابھی تک نہیں دی گئی ہے۔ بس بتا دیا گیا ہے کہ رپورٹ نگیٹو آئی۔انہوں نے کہا، ‘یہی ٹھیک سے سمجھ نہیں آیا کہ کس بنیاد پر کسے پازیٹو یا نگیٹو کہا جا رہا۔ کسی کو پازیٹو کہہ دیا، کسی کو نگیٹو کہہ دیا۔ لیکن اس کا کوئی ریکارڈ نہیں دیا۔’

تمل ناڈو کے ترچی کے رہنے والے 44 سالہ محمد حنیفہ کپڑے کے ایک دکان میں کام کرتے ہیں اور 19 مارچ کو اپنے تین ساتھیوں کے ساتھ جماعت کے اجتماؑع میں شامل ہونے دہلی آئے تھے، لیکن مرکز میں کو رونا انفیکشن معاملوں کے آنے پر انہیں بھی کورنٹائن سینٹر آنا پڑا۔

وہ بتاتے ہیں، ‘ہم تینوں لوگوں کی رپورٹ نگیٹو آئی ہے، لیکن ابھی چھوڑنے کے بارے میں انہوں نے کچھ بتایا نہیں ہے۔ گھر پر میری بیوی  اور ایک بیٹا ہے، دونوں کافی پریشان ہیں۔’اس سینٹر میں موجود دہلی حکومت کے ایک اہلکار نے نام نہ لکھنے کی شرط پر بتایا،‘یہاں کورنٹائن کئے گئے این آر آئی اور غیر ملکی  لوگوں کو مدت ختم  ہوتے ہی گھر بھیج دیا گیا تھا۔ لیکن انہیں ابھی تک جانے نہیں دیا گیا ہے۔ ایک دن ایک بلاک کے لوگوں نے اجتماعی طور پر احتجاجاً کھانا لینے سے منع کر دیا تھا۔ پھر جماعت کے مولانا کو بلاکر باقی لوگوں کو سمجھایا گیا اور فائنل ٹیسٹ کرکے چھوڑنے کی یقین دہانی پر ہی بات بنی۔’

دہلی حکومت نے مارچ 2020 میں ڈی ڈی اے کی اس بلڈنگ کو کورنٹائن سینٹر میں بدل دیا تھا۔ شروع میں یہاں پر 250 غیر ملکی شہریوں کو رکھا گیا تھا۔ بعد میں اس کی صلاحیت  بڑھائی گئی اور نظام الدین مرکز سے لائے گئے تقریباً 1000 لوگوں کو یہاں رکھا گیا۔ریاستی حکومت کے ڈاکٹروں اور میڈیکل پیشہ وروں  کو راحت دیتے ہوئے 16 اپریل سے فوج نے صبح 8 سے شام 8 بجے تک یہاں کے انتظامات دیکھنے کی ذمہ داری اٹھائی۔ فوج کی ٹیم میں 40 اہلکار شامل ہیں، جس میں چھ میڈیکل پیشہ ور شامل ہیں، ساتھ ہی 18 پیرامیڈیکل اسٹاف نے رضاکارانہ طور پرکیمپس کےاند رہنے کے لیے کہا۔

یہاں رہ رہے لوگوں نے تو کسی اسٹاف کے سلوک اور رویے کے بارے میں کچھ نہیں کہا لیکن ان کو لےکر کام کرنے والوں کے من میں سب ٹھیک ہو، ایسا بھی نہیں ہے۔اس اہلکار نے آگے بتایا، ‘میں نے نوٹ کیا کہ ہماری ٹیم کے ممبروں  میں ہی نہیں بلکہ یہاں لگے پولیس والوں، صاف صفائی والوں، اندر تک کھانا اورسامان پہنچانے والوں میں ان لوگوں کے لیے عجیب سی نفرت بھری ہوئی ہے۔ ایک دن ایک مولانا صاحب تین چار بار پانچ منزل اتر کر صرف اس لیے آئے کہ انہیں تھوڑا نمک چاہیے تھا۔ پر وہ بھی دستیاب نہیں کرایا گیا۔’

اس بیچ الزام یہ بھی لگ رہا ہے کہ سینٹر کے اسٹاف کو ہر دن 12-12 گھنٹے کام کرنا پڑتا ہے، جو ایک بار لگ گئے ہیں، انہی سے لگاتار کام کرایا جا رہا ہے۔ اس کی وجہ سے لوگ پریشان ہیں اور سوال کر رہے ہیں کہ ان کی ڈیوٹی روٹیٹ کیوں نہیں کی جا رہی؟اس سینٹر پر پلمبر کا کام کر رہے نریلا باشندہ  دلیپ سنگھ کہتے ہیں،‘یہاں 12-12 گھنٹے کا کام کراتے ہیں، لیکن ایسا کچھ نہیں ہے کہ یہ زیادہ پیسے دیں گے۔ مجھے ایک دن میں صرف 500 روپے ملتے ہیں۔ لیکن اب کیا کریں، مجبوری ہے، کرنا پڑےگا۔’

(فوٹو: دی  وائر)

(فوٹو: دی  وائر)

دہلی کے وزیر صحت ستیندر جین نے جمعہ  کو کہا کہ انہوں نے تبلیغی جماعت کے لوگوں کو چھوڑنے کا حکم دے دیا ہے۔ لیکن اسے لےکر دہلی حکومت کا رول  سوالوں کے گھیرے میں ہے۔اس سے پہلے ریاستی حکومت نے 17 اپریل اور تین مئی کو مرکزی وزات داخلہ کوخط لکھ کر یہ پوچھا تھا کہ تبلیغی جماعت کے ممبروں  کو کورنٹائن سے چھوڑنے کے لیے کیا ‘ہدایت  اور پروٹوکال’ ہیں۔

حالانکہ عآپ حکومت نے یہ صاف نہیں کیا کہ انہوں نے صرف جماعت کے ہی لوگوں کو چھوڑنے کے لیے ‘الگ سے احکامات’ کی کیوں مانگ کی۔اس سے پہلے جین نے کہا تھا کہ کورنٹائن پیریڈ مکمل  ہونے کے بعد بھی تبلیغی جماعت کے لوگوں کو اس لیے نہیں چھوڑا گیا تھا کیونکہ تین مئی تک ملک بھر میں مکمل  لاک ڈاؤن جاری تھا۔

نریلا کورنٹائن سینٹر کو لےکر دہلی ہائی کورٹ میں ایک عرضی  بھی دائر کی گئی ہے جس میں یہ الزام لگایا گیا ہے کہ سینٹر میں صاف صفائی اور یہاں پر کام کر رہے اسٹاف کا خیال نہیں رکھا جا رہا ہے۔ ریاستی حکومت کا دعویٰ ہے کہ سینٹر میں پوری سہولیات مہیا کرائی جا رہی ہے۔

دہلی میں تبلیغی جماعت کے کل 3013 ممبرکورنٹائن سینٹر میں رہ رہے ہیں۔ اس میں سے 567 غیر ملکی شہری  اور 2446 ہندوستانی  ہیں۔کو روناانفیکشن کے معاملے سامنے آنے کے بعد حکومت نے نظام الدین واقع مرکز کی بلڈنگ سے 2346 لوگوں کو نکالا تھا۔ اس میں سے 536 لوگوں کو اسپتال میں شفٹ کیا گیا اور باقی لوگوں کو کورنٹائن سینٹر بھیج دیا گیا تھا۔