فکر و نظر

خصوصی رپورٹ: مودی حکومت نہیں مان رہی سائنسدانوں کی بات، حالات ہو رہے ہیں بدتر

خصوصی مضمون : چھ ہفتوں کے لاک ڈاؤن کے با وجود، نہ تو سرکار نے  گھر گھر جاکر نگرانی کرنے لیے کوئی میکا نزم تیار کیا ہے، اور نہ ہی لاک ڈاؤن ہٹانے کے لیے آئی سی ایم آر کےمشوروں  پر عمل کر رہی ہے۔

(علامتی تصویر، فوٹو: پی ٹی آئی)

(علامتی تصویر، فوٹو: پی ٹی آئی)

ہر ضلع میں گھر گھر جا کر نگرانی (سرولانس) کریں اور کووڈ- 19 کے علامات والے لوگوں کی تشخیص کریں۔  ٹیسٹ کے نتائج کا انتظار کیے بغیر، انہیں جتنی جلدی ممکن ہو  کورنٹائن کریں۔ اگر کسی ضلع میں فعال نگرانی عمل میں لانے اور علامات والے لوگوں کو کورنٹائن کرنے کے بعد، کووڈ-19 کے معاملے میں 40 فیصد کی کمی آ تی ہے اور میڈیکل انفرا اسٹرکچر مستقبل میں آنے والے معاملوں سے نپٹنے کے لیے تیار ہو ، تب ہی لاک ڈاؤن میں ڈھیل دی جائے۔

 یہ بات آئی سی ایم آر(انڈین کونسل آف میڈیکل ریسرچ)نے سرکار کو صلاح دیتے ہوے کہی تھی۔  یعنی اگر مندرجہ بالا شرائط پورے ہوتے ہیں، تب ہی لاک ڈاؤن (ہر ضلع میں) ہٹایا جائے۔ اپریل کے پہلے ہفتے میں آئی سی ایم آر کے ذریعے سرکار کو دیے گئے ایک پریزنٹیشن کا آرٹیکل 14 نے تجزیہ کیا ہے۔ اس پریزنٹیشن میں، دنیا کے سخت ترین لاک ڈاؤن میں ڈھیل دیے جانے کےمعیارات طےکیے گئے تھے۔

سائنس دانوں نے یہ وارننگ دی تھی کہ بس یہی ایک “مؤثر طریقہ کار”ہے، اور اگر ان پر عمل نہیں کیا گیا تو”متاثرین  کی تعداد میں پھر اضافہ ہو جائے گا”۔ انہوں نے یہ بھی واضح کر دیا تھا کہ “مقامی سطح پر نگرانی اور ڈیٹاکے بغیر”لاک ڈاؤن میں چھوٹ دینا مناسب نہیں ہوگا۔

pahla

چھ ہفتوں کے لاک ڈاؤن اور دوبار توسیع کے با وجود، نہ تو سرکار نے ملکی پیمانہ پر گھر گھر جاکر نگرانی کرنے لیے کوئی میکا نزم تیار کیا ہے، اور نہ ہی لاک ڈاؤن ہٹانے کے لیے آئی سی ایم آر کے ذریعے سجھا ئے گئے طریقہ کار(ڈیسیزن میکنگ ٹری) پر سرکار عمل کر رہی ہے۔ اس کے برعکس لاک ڈاؤن کے اثرکا اندازہ لگانے اور لاک ڈاؤن (پورے ملک کے 700 اضلاع میں)میں چھوٹ دینے کی غرض سے، سرکار نے غیر واضح فیصلے کیے۔ (جس کی تفصیلات ریاستی حکومتوں کو بھی نہیں دی گئی ہے)۔

 ماہرین کا کہنا ہے کہ ان کے مشوروں پر عمل نہ کرنے کا نتیجہ یہ ہوا ہے کہ لاک ڈاؤن کے با وجود متاثرین کی تعداد میں شدیداضافہ ہو گیا ہے۔

جب 24 مارچ کو لاک ڈاؤن شروع ہوا تھا، تب ملک میں کووڈ-19 کے 618 ایکٹیو کیسیز تھے۔ اور 11 مئی تک 67000 کیسیز ہو چکے ہیں، یعنی 10741 فیصد کا اضافہ۔7 مئی کو، 60 فیصد معاملے 15 بڑے شہروں، (بشمول دہلی، ممبئی، چنئی اور احمدآباد)میں تھے۔ ان شہروں میں لاک ڈاؤن برقرار ہے۔ پھر بھی معاملے بڑھ رہے ہیں۔ممبئی میں جب لاک ڈاؤن شروع ہوا تھا، تب وہاں 67 معا ملے تھے، اور 11 مئی تک یہاں 13000 سے زیادہ معاملے ہو چکے ہیں، یعنی 19303 فیصد کا اضافہ۔ اسی طرح لاک ڈاؤن شروع ہونے کے وقت دہلی میں صرف 35 ایکٹو کیسیز تھے، اور 11 مئی تک یہ تعداد بڑھ کر 7233 ہو گئی ہے، یعنی 20565 فیصد کا اضافہ۔ احمد آباد میں 25 مارچ کو 14معاملے تھے، لیکن 11 مئی تک یہ تعداد بڑ ھ کر 5818 ہو گئی ہے، یعنی 41457 فیصد کا اضافہ۔

اسی درمیان، مہاراشٹرمیں، آخر کار افسران نے یہ قبول کر لیا کہ ریاست کے چند علاقوں میں کمیونٹی ٹرانس میشن ہو رہا ہے۔ اڑیسہ میں کووڈ19- کے معاملے ایک ہفتے میں دوگنا ہو گئے ہیں۔ 24 اپریل کو مرکزی حکومت کے ذریعے کیا گیا یہ دعویٰ کہ 16 مئی کے آتے آتے، ہندوستان میں کووڈ-19 کے نئے معاملے آنا بند ہو جائیں گے، غلط ثابت ہوا۔

گزشتہ 30اپریل کو جاری وزارت صحت کے ایک آرڈر کے مطابق، مرکز نے پابندیوں میں نرمی دینے کے لیے اضلاع کی درجہ بندی ( ریڈ زون، آرینج زون اور گرین زون)کرنے کا فیصلہ کیا۔ اور یہ فیصلہ جن پیمانوں کی بنیاد پر لیا گیا وہ یہ تھے؛ کووڈ-19 کے ایکٹو معاملے، ایک ضلع میں معاملے کی تعداد کو دو گنا ہونے میں کتنے دن لگتے ہیں،”ٹیسٹنگ کتنی ہو رہی ہے”، اور “سرولانس فیڈ بیک”۔    ریڈ زون میں سخت ترین لاک ڈاؤن/پابندیاں ہوں گی، جبکہ گرین زون میں سب سے کم۔


یہ بھی پڑھیں:کیا اپنی ناکامی چھپانے کے لیے مودی حکومت نے لاک ڈاؤن کا سہارا لیا؟


آرٹیکل 14 نے ہندوستان کے وزیر صحت ہرش وردھن، ہیلتھ سکریٹری پریتی سدان، آئی سی ایم آر کے ڈا ئریکٹر جنرل بلرام بھارگو، آئی سی ایم آر کے چیف آف ایپی ڈیمولوجی گنگا کھیڑکر سے ان کا رد عمل لینے کی کوشش کی اور یہ پوچھا کہ وہ پیمانے کیا ہیں جن کی بنیاد پر وزارت نے اضلاع کی درجہ بندی تین زون میں کی ہے، اور انہوں نے آئی سی ایم آر کے مشوروں پر کیوں عمل نہیں کیا۔   گرچہ سکریٹری نے ہمارے ای میل کو وزارت کے دیگر لوگوں بشمول آئی سی ایم آر کو فاروارڈ کر دیا، مگر کسی نے کوئی جواب نہیں دیا۔ اگر ہمیں ان کا کوئی جواب آ تا ہے، تو ہم اس اسٹوری کو اپڈیٹ کر یں گے۔

گزشتہ 30 اپریل کے آرڈر میں، سرکار نے ریاستوں کو یہ نہیں بتا یا کہ پا بندیوں کو ہٹا نے کے لیے ، ان چار پیمانوں کا ایک ساتھ کیسے استعمال کیا جائے گا۔  وزارت صحت کے آرڈر میں بس یہ لکھا تھا کہ،یہ مزید واضح کیا جا تا ہے کہ ریاستی سطح کے’فیلڈ فیڈ بیک اور اضافی تجزیے’ کی بنیاد پر، ریاستیں اگر مناسب سمجھیں تو مزید ریڈ اور آرینج زون بنا سکتی ہیں۔  تاہم، وزارت نے اضلا ع کی جو درجہ بندی (ریڈ/ آرینچ) کی ہے، ان میں ریاستیں اپنے طور پر کوئی رعایت نہیں دے سکتیں۔

ایک دن کے بعد، یعنی 1 مئی کو، وزارت داخلہ نے لاک ڈاؤن کو بڑھا دیا، اور وزارت صحت کے مندرجہ بالا آرڈر کو نا فذ کرنے کی بات دوہرائی۔ریاست اور یونین ٹریٹری کسی بھی ایسے ضلع کی زمرہ بندی کو کم نہیں کر سکتے کو وزارت صحت کی  جانب سے ریڈ زون اور آرینج زون کی فہرست میں شامل ہیں ۔اس سے یہ بھی صاف نہیں ہو پایا کہ فیصلے آخر کس بنیاد پر لیے گئے۔

کئی مواقع رائیگاں چلے گئے

گزشتہ 23 اپریل کو، آرٹیکل 14  کی  ایک تحقیق سے یہ منکشف ہوا تھا کہ آئی سی ایم آر نے اپریل کے پہلے ہفتے میں، حکومت کو یہ انتباہ کیا تھا کہ بڑے پیمانے پر ہندوستان میں “جنرلائزڈ ٹرانس میشن”ہونا ناگزیر ہے، لہذا “لاک ڈاؤن کا بہترین استعمال” یہی ہے کہ اس دورانیہ کا فائدہ اٹھا کر ملک کے ہیلتھ انفرا اسٹرکچر کو اس بحران سے نپٹنے کے لیے تیار کر لیا جائے۔

آئی سی ایم آر نے متعدد سائنسی طریقہ کار سجھا ئے تھے۔ جیسے کہ گھر گھر جاکر نگرانی کی جائے، اور کووڈ-19 کے ہر دو مشکوک مریض میں سے، ایک کو کمیونٹی سطح پر کو رنٹائن کیا جائے۔ سائنس دانوں نے یہ صاف کر دیا تھا کہ ان طریقہ کار کو اپنائے بغیر، لاک ڈاؤن کا فائدہ محض “عارضی” ہے۔

آئی سی ایم آر کی جانب سے یہ سفارشات تب پیش کی گئیں، جب سرکار نے ان کی پچھلی سفا رشات(سخت لاک ڈاؤن نہ کیا جائے)کو نظر انداز کر دیا تھا، جس کے بارے میں ہم نے 24 اپریل کو رپورٹ کی تھی۔ سائنس دانوں نے فروری میں ہی یہ کہا تھا کہ چین کی طرح کا لاک ڈاؤن، ہندوستان میں نافذ کرنا ٹھیک نہیں ہوگا۔  انہوں نے یہ واضح کر دیا تھا کہ اس طرح کے سخت لاک ڈاؤن کی طویل مدتی (سماجی، معاشی اور نفسیاتی)اثرات مرتب ہوں گے۔انہوں نے یہ سجھا یا تھا کہ اس کے بر عکس سرکار میڈیکل انفرا اسٹرکچر تیار کرے، اور کمیونٹی سطح پر لوگوں کی نگرانی اور انہیں کو رنٹائن کرنے کے انتظامات وقت رہتے کرلے، تاکہ پینڈمک کا مقابلہ آسانی سے کیا جا سکے۔

بہر حال، سرکار نے ان انتباہ کو نظر انداز کیا اور بغیر کسی تیاری  (سائنسی طور  پر تسلیم شدہ) کے 24 مارچ کو صرف چار گھنٹے کی نوٹس پرپورے ملک میں لاک ڈاؤن نافذ کرنے کا اعلان کر دیا۔  نتیجتاً غریبوں اور مزدورں کے لیے روزگار کا بحران پیدا ہو گیا۔

جب لاک ڈاؤن آخر کار نافذ کر ہی دیا گیا، تو آئی سی ایم آرکے سائنس دانوں نے پھر سرکار کو چند سائنسی طریقہ کار بتائے۔


یہ بھی پڑھیں:مودی حکومت نے لاک ڈاؤن کے اعلان سے پہلے اپنے سائنسدانوں کی بات کیوں نہیں سنی؟


انہوں نے یہ کہا کہ “لاک ڈاؤن کا بہترین استعمال” کرتے ہوے ملک کو بڑے پیمانے پر وائرس کے ٹرانس میشن (جو کہ چند ماہرین کے مطابق شروع ہو چکا ہے)کا مقابلہ کرنے کے لیے تیار کیا جائے۔ اس کے علاوہ انہوں نےلاک ڈاؤن سے نکلنے کے لیے ایک “ڈیسیزن میکنگ ٹری” پیش کیا۔ مگر سرکار نے ان تدابیر پر عمل نہیں کیا۔

سرکار کے متعدد آرڈرز اور گائیڈ لائنز، جو اب تک جاری ہوئے ہیں، سے یہ ظاہر ہو تا ہے کہ آئی سی ایم آر کے سائنٹفک میکانزم کو نافذ کرنے میں نا کامیاب ہونے کے بعد، سرکار نے اب کچھ ہونے پر ردعمل ظاہر کرنے والی حکمت عملی کو اپنا لیاہے۔

کے شری ناتھ ریڈی (صدر، پبلک ہیلتھ فاؤنڈیشن آف انڈیا/ممبرنیشنل ٹاسک ٖفورس برائے کووڈ-19) کہتے ہیں؛گرچہ کوئی خاص علاج دستیاب نہیں ہے، لیکن اگر آپ معاملوں کی نشاندہی اور انہیں آئی سو لیٹ کرنا چاہتے ہیں، تو ان کی تشخیص بہت اہم ہے۔ یہی وجہ ہے کہ سبھی زون میں نگرانی کو برقرار رکھنا ہی زیادہ بہتر بات ہے۔

سائنٹفک سفارشات سے انحراف

اپریل کے پہلے ہفتے میں، آئی سی ایم آر کے ‘ڈیسیزن میکنگ ٹری’ کو سرکار کے سامنے پیش کر تے ہوے، نیتی آیوگ کے ممبر ونود کے پال نے کہا کہ سرکا ر کو ان اقدامات (ملک بھر میں گھر گھر جاکر نگرانی کرنا اور لوگوں کو کو رنٹائن کرنے کے لیے میکانزم بنانا)کی تیاری  میں ایک اور ہفتہ لگے گا۔

دریں  اثنا، سرکار نے یہ بتا یا کہ وبا کنٹرول میں ہے۔ لیکن، اندرونی طور پر، سرکار نے یہ قبول کیا کہ بد ترین صورت حال کا سامنے آنا ابھی باقی ہے۔

گزشتہ 14 اپریل کے ایک نوٹ میں، آئی سی ایم آر کے ڈائریکٹر جنرل بھارگونے ریاستی حکومتوں کو مخاطب کرتے ہے لکھا ہے کہ ؛بھارت میں کووڈ-19 کے معاملے کی تعداد تیزی سے بڑھ رہی ہے۔

اسی دن، مرکز نے پہلی بار اضلاع کو ریڈ، آرینج اور گرین زون میں بانٹا تھا، حالانکہ اس وقت سرکار نے چار میں سے صرف ایک پیمانے کا استعمال کیا، جس کو بعد میں ریڈ زون کی نشاندہی کے لیے استعمال کیا گیا۔ یعنی وہ اضلاع جہاں کیسیز کی تعداد چار دن سے کم میں دو گنا ہو رہے ہیں۔

doosra

وہ علاقے جہاں 28 دنوں تک  نئے کیس نہیں آئے ہیں، وہ گرین زون کے زمرے میں آئیں گے۔ اس کے علاوہ، سارے علاقے آرینج زون میں شمار ہوں گے۔

اگر ریڈ زون میں 14 دنوں تک کوئی نیا معاملہ نہیں آ تا ہے، تو اس کوآرینج زون میں شمار کیا جا سکتا ہے۔ اگر اگلے 14 دنوں تک بھی کوئی نیا معاملہ رپورٹ نہیں ہوتا ہے، تب اسے گرین زون میں تبدیل کیا جاسکتا ہے۔

‘اس وقت بہت سارے اضلا ع یہ مان رہے تھے کہ ان کے یہاں کوئی کیس نہیں ہے۔ ہاں یہ بات سچ ہے۔ مگرحقیقت یہ ہے کہ وہ زیادہ ٹیسٹ نہیں کر رہے تھے۔ وہ کیسوں کا پتہ لگانے کے لیے کو ئی نگرانی بھی نہیں کر رہے تھے۔ لہذا اس کا مطلب یہ نہیں ہے کہ ان اضلاع میں کووڈ -19 سے متاثر لوگ نہیں ہیں۔’ یہ بات کووڈ -19 ٹاسک فورس کے ایک ممبر نے نام نہ ظاہر کرنے کی شرط پر بتائی ہے۔

مثال کے طور پر، 23 اپریل کو، جب ریاست کے دو کووڈ مریضوں میں سے ایک کی رپورٹ نگیٹو آ گئی تو تریپورہ کے وزیر اعلیٰ بپلب دیو نے اپنی ریاست کو کورونا فری اعلان کر دیا۔ لیکن اس کے بعد، دو ہفتوں میں، پازیٹو معاملوں کی تعداد 62 ہو گئی، یہ تب ہوا جب ریاست نے بی ایس ایف کے جوانوں کی ٹیسٹنگ شروع کردی۔ 10 مئی تک وہاں 100 پازیٹو کیسیز پائے جا چکے تھے۔

لاک ڈاؤن کی پہلی توسیع کے دورانیہ میں، یعنی 15 اپریل اور 1 مئی کے بیچ، سرکار نے ملکی پیمانہ پر (یا شہری سطح پر بھی) گھر گھر جاکر نگرانی کرنے اور کووڈ -19 کے علامات والے لوگوں کو کو رنٹائن کرنے کے حوالے سے کوئی میکانزم تیار نہیں کیا تھا۔ ایسا کرنے کے لیے آئی سی ایم آر نے فروری میں ہی کہا تھا، اور پھر اپریل کے پہلے ہفتے میں بھی یہی سفا رش کی تھی۔اس کے بر عکس 17 اپریل کے بعد سرکار نے اس کام کو اس علاقے تک محدود رکھا، جہاں بڑی تعداد میں معاملےرپورٹ ہو رہے تھے۔

 ریڈی کہتے ہیں؛آندھرا پردیش اور کیرالہ میں، وارڈ اور گاؤں کے لحاظ سےرضاکار ہیں، جو لاک ڈاؤن میں بھی ہفتے میں ایک بار گھروں کا دورہ کر رہے ہیں اور لوگوں سے علامات کے بارے میں پوچھ رہے ہیں۔ اس کام کے لیے ڈاکٹر کی ضرورت نہیں ہے۔ آشا ورکرز بھی یہ کام کر سکتے ہیں۔

اسی درمیان، پورے ملک میں ٹیسٹ کرنے کی رفتار بڑھ گئی۔ نتیجتاً یہ بھید کھل گیا کہ سرکار کی جو حکمت عملی تھی وہ ناکام ثابت ہوئی ہے۔

اگلے 15 دنوں میں، جب لاک ڈاؤن کا دوسرامرحلہ ختم ہونے کو تھا، تب بھی وائرس کا پھیلاؤ پہلے کی  بہ نسبت زیادہ تیزی سے ہو رہا تھا۔ 14 اپریل کو 12000 ایکٹو کیسیز تھے۔ 30 اپریل کو 33000۔ اور 9 مئی تک 60000۔  اس کے بعد سرکار نے ایک بار پھر اپنی حکمت عملی بدلی۔

نئی بنیاد

گزشتہ 1 مئی کو مرکزی وزارت داخلہ نے 12صفحات پر مشتمل آرڈر جاری کیا، جس میں زون کی درجہ بندی کے لیے چار پیمانے متعین کیے گئے۔ یعنی پہلے ایک پیمانہ تھا، جس میں اضافہ کیا گیا اور چار پیمانے متعین کیے گئے۔

آرڈر کا خلاصہ ملاحظہ کریں؛اضلاع کو ریڈ زون یا ہاٹ اسپاٹ، مرکزی وزارت صحت قراردےگی۔ یہ جن بنیاد/پیمانے پر کیا جائے گا وہ یہ ہیں؛کل معاملوں کی تعداد، کیسیز کے دو گنا ہونے کی رفتار، ٹیسٹنگ کی مقدار اور سرولانس فیڈ بیک۔

نہ تو اپنے آرڈر میں اور نہ ہی ریاست کے لیے مجوزہ ہدایات میں، سرکار نے یہ تفصیل سے بتا یا کہ وہ کیوں ان پیمانوں کا استعمال کر رہی ہے۔ اور لاک ڈاؤن میں ڈھیل دینے یا اس کو ختم کرنے کے لیے، ان پیمانوں کا کیسے استعمال کیا جائے گا۔

ایک ریاست ( جس نے با ضابطہ مرکز سے زون بنانے کی پالیسی پر نظر ثانی کی گزارش کی ہے۔)کے ایک آفیسر نے نام نہ ظاہر کرنے کی شرط پر یہ کہا ہے کہ؛لاک ڈاؤن کا مقصد یہ ہے کہ جب انفیکشن اپنے عروج پر جائے، تو ہاسپٹل میں داخل کیے جانے والے اور کو رنٹائن کیے جانے والے لوگوں کی تعداد، دستیاب گنجائش سے کم رہے۔ کسی ڈسٹرکٹ میں میڈیکل اور کو رنٹائن کرنے کے لیے دستیاب گنجائش کا تخمینہ لگائے بغیر، ان پیمانوں کا کو کئی مطلب نہیں ہے۔ کسی ضلع میں اگر صرف 50 بیڈز ہیں، اور وہاں ایک وقت میں 500 کیسیز ہیں، تو اس ضلع کے لیے یہ بہت زیادہ ہے۔ ہاں اگر وہاں بیڈ کی تعداد 1000 ہے، تو پھر حا لات کو قا بو میں کیا جا سکتا ہے۔ ایسی صورت میں، پابندیاں ہٹائی جا سکتی ہیں۔ مگر مرکزی حکومت کے جوفرمان ہیں، اس سے کچھ بھی صاف نہیں ہے کہ وہ کیسے ان پیمانوں کا استعمال کر رہی ہے۔

نگرانی

ماہرین نے آرٹیکل 14 کو یہ بتایا ہےکہ 30 اپریل کےسرکاری آرڈر سے، ‘سرولانس فیڈ بیک’اورگھرگھر جا کر نگرانی (سرولانس)کرنے کی آئی سی ایم آر کی سفارش کے بیچ کنفیوژن پیدا ہونا بعید نہیں ہے۔  اگر سرکار اپنے آرڈر میں’سرویلانس فیڈ بیک’ کا ذکر کرہی ہے، تو کیا اس کا یہ مطلب ہے کہ وہ آئی سی ایم آر کی سفارشات پر عمل کر رہی تھی؟   ماہرین (وہ جو سرکار میں ہیں، اور وہ بھی جو سرکار میں نہیں ہیں) کہتے ہیں کہ ایسا نہیں ہے۔

آئی سی ایم آر نے یہ سفارش کی تھی کہ ملک کے 700 اضلاع میں ہفتے میں دو بار گھر گھر جاکر سروے کیا جائے اور کووڈ-19 کے علامات والے لوگوں کی نشاندہی کی جائے۔ اس نے ‘سینٹینل سرولانس’ کی بھی سفارش کی تھی، یعنی سرکار کووڈ -19 کے ممکنہ مریضوں کے نمونوں کی ہاسپٹل، کلینک اور بخار کی جانچ کرنے والوں  کیمپوں میں جانچ کرےگی اور اس طرح کسی خاص علاقہ میں انفیکشن کی رفتار کا اندازہ لگائے گی۔

گزشتہ 17 اپریل کی ایڈ وائزری  مطابق، مرکزی حکومت نے صرف ‘کنٹنمنٹ زون’میں ہی گھر گھر جا کر سروے کرنے کو ضروری قرار دیا ہے۔ یعنی وہ علاقہ جہاں کم از کم ایک پازیٹو کیس ہے۔ ایسے زون (صرف ایک علاقہ، نہ کہ پورا ڈسٹرکٹ)کو با ہر سے سیل کر کے ایکٹو کیس کی تلاش کی جائے گی ۔

مرکز نے یہ بھی سفارش کی کہ ملحقہ علاقے یعنی ‘بفر زون’ میں کیس کی تلاشی نہ کی جا ئے۔ مزید یہ بھی کہ 30 اپریل کو مرکز نے کنٹنمنٹ زون کی تعریف کو تبدیل کر دیا اور کہا کہ یہ عمارتوں کا چھو ٹا گرو پ ہو سکتا ہے، گلیاں ہو سکتی ہیں، یا ایک پولیس اسٹیشن کا دائرہ بھی ہو سکتا ہے۔

آئی سی ایم آر ٹاسک فورس کے ممبر ( جن کا اوپر ذکر ہو چکا ہے)نے یہ بھی کہا کہ ‘اب بہت دیر ہو چکی ہے۔ اب اگر آئی سی ایم آر کے مشوروں پر عمل بھی کیا جائے، تو کوئی فائدہ نہیں ہوگا۔ لاک ڈاؤن کی وجہ سے معاشی بحران پیدا ہو رہا ہے۔ سرکار نے پینڈمک سے لڑنے کے لیے اپنی الگ حکت عملی اپنائی ہے۔ یہ کہنا مشکل ہے کہ ہمیں اور کتنا انتظار کرنا ہو گا جب حکومت، لاک ڈاؤن ختم ہونے سے قبل، آئی سی ایم آر کی سفارشات (گھر گھر جاکر نگرانی کرنا، ممکنہ مریضوں کو کورنٹائن کرنا اور میڈیل انفرا اسٹرکچر تیار کرنا) پر عمل کرےگی۔ اس کوآپ ہائبرڈ اپروچ کا نام دے سکتے ہیں۔’

کچھ ریاستوں(آندھرا پردیش، کیرالہ، مہاراشٹر)نے گھر گھر جا کر سروے کرنے کا کام کیا ہے، لیکن وہ مکمل نہیں ہو پایا ہے۔ دہلی میں بھی یہ کام ہو رہا ہے۔ تاہم، آئی سی ایم آر کی صلاح کے بر عکس کووڈ-19 کے علامات والے لوگوں کی جانچ ان کے گھر پر ہو رہی ہے، جبکہ انہیں کورنٹائن کرنا چاہیے تھا۔صرف ان لوگوں کو کورنٹائن کیا جا رہا ہے، جن کی جانچ پازیٹو آئی ہے۔

(مضمون نگار آزاد صحافی ہیں اور دی رپورٹرزکلیکٹو کے ممبر ہیں۔)(انگریزی سے ترجمہ،سید کاشف)