فکر و نظر

لاک ڈاؤن میں پھنسے مزدور نے کہا-مودی کی نظروں میں ہم کیڑے ہی ہیں نا، تو ویسی ہی موت مریں  گے

گزشتہ دنوں لاک ڈاؤن میں مہاجر مزدوروں کی صورتحال کو لےکر کچھ سماجی کارکنوں نے سپریم کورٹ میں عرضی دائر کی تھی اور ایک تنظیم کے مزدوروں سے متعلق سروے کے اعدادوشمار پیش کیے تھے۔ اس پر عدالت کا کہنا تھا کہ وہ کسی بھی نجی ادارےکے مطالعہ  پر بھروسہ نہیں کرےگی کیونکہ سرکار کی رپورٹ اس سے الگ تصویر پیش کرتی ہے۔

(فوٹو: پی ٹی آئی)

(فوٹو: پی ٹی آئی)

کو رونا وبا سے تحفظ کے لیے مرکزی حکومت نے 24 مارچ کی رات  سے لاک ڈاؤن کا اعلان کر دیا۔ جسمانی اور اقتصادی سرگرمیوں پر پوری طرح سے روک لگا دی گئی۔اس اعلان سے پہلے کروڑوں مزدوروں اور محروم  طبقے کا کوئی دھیان نہیں رکھا گیا۔لاک ڈاؤن نافذ ہونے کے تین ہفتے بعد اسٹرینڈیڈ ورکرس ایکشن نیٹ ورک (سوین)نے 11159 مہاجر مزدوروں پر کی گئی اپنی سروے رپورٹ جاری کی ہے۔ اس سروے میں مزدوروں کے حالات کا جو منظرسامنے آیا ہے، ڈراونا ہے۔ لاک ڈاؤن نے انہیں ہر طرح سے توڑ دیا ہے۔

سوین کی رپورٹ بھوک کے غیرمعمولی  بحران  کی طرف اشارہ کرتی ہے۔ اس ادارےنے جن مزدوروں سے بات کی، ان میں سے تقریباً 50 فیصدی لوگوں کے پاس محض ایک دن کا کھانا بچا ہے۔ وہی، 70 فیصدی مزدوروں کے پاس محض 2 دن کا کھانا باقی ہے۔یہ لاک ڈاؤن اور کھانے کا بحران غیر متعینہ مدت کے لیے ہے، اس لیے مزدور ضرورت سے کم کھانا کھا رہے ہیں۔ بنگلور میں 240 مزدوروں کے ایک گروپ نے سوین کو بتایا، ‘ہمارے پاس اناج بہت زیادہ نہیں ہے، اس لیے ہم فی الحال دن میں محض ایک بار کھانا کھا رہے ہیں تاکہ زیادہ دن تک کھانا چل سکے۔’

ایسی کئی مثالیں ہیں جو بتاتی ہیں کہ مزدوروں کو بھو ک مری کی نوبت آچکی ہے۔ بہار کے رہنے والے سجیت کمار پنجاب کے بھتھنڈا میں پھنسے ہوئے ہیں۔ 3 اپریل کو جب ان سے بات ہوئی تھی، تب انہوں نے کہا کہ چار دن سے انہیں کچھ بھی کھانے کو نصیب نہیں ہوا تھا۔اسی طرح نوئیڈا میں رہنے والی یاسمین دسویں کی اسٹوڈنٹ ہیں۔ وہ بتاتی ہیں،‘ہمارے گھر میں چار بچہ ہیں ان کے لیے دودھ کی ضرورت ہوتی ہے، لیکن کہیں بھی کچھ نہیں ملتا۔ ایسے میں پانی میں چینی ڈال کر انہیں پلایا جا رہا ہے۔’

لمبی قطاریں

سروے میں بتایا گیا ہے کہ 96 فیصدی لوگوں کے پاس کوئی سرکاری مدد نہیں پہنچی ہے اور 70 فیصدی لوگ ایسے ہیں جن کے پاس کسی بھی میڈیم  سے کھانا -راشن نہیں پہنچا۔بہار کے مظفر پور ضلع کے رہنے والے سریش دہلی میں مزدوری کرتے ہیں۔ انہیں کئی بار سرکاری مدد سے کھانا ملا ہے لیکن ان کا کہنا ہے، ‘کھانا لینے کے لیے لمبی لائنیں لگی ہوتی ہیں اور اکثر ہماری باری آتےآتے کھانا ختم ہو چکا ہوتا ہے۔’

دل محمد گاڑی چلانے کا کام کرتے ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ ایک بار وہ سرکاری کھانا لینے کے لیے اپنے دو بچوں کے ساتھ گئے تھے۔ وہاں انہیں چار گھنٹے انتظار کرنا پڑا اور جب ان کی باری آئی تو کھانا ختم ہو گیا تھا۔ ایسے میں انہیں محض 4 کیلے ہی نصیب ہوئے۔مزدوروں کے اوپر کھانا کے ساتھ ساتھ نقدی کا بحران بھی آ گیا ہے۔ سوین کے مطالعہ کے مطابق 78 فیصدی لوگوں کے پاس محض 300 روپے سے بھی کم پیسہ بچا ہے۔ ہیں۔ اسی طرح 70 فیصدی لوگوں کے پاس پورے لاک ڈاؤن کی مدت کے لیے 200 سے بھی کم روپے بچے ہیں۔

بہار کے مظفر پور ضلع کی افسانہ خاتون حیدرآباد میں پھنسی ہوئی ہیں۔ وہ بتاتی ہیں،‘میری بچی 1 سال کی ہے اور میرے شوہر ذہنی  طور پر بیمار ہیں۔ مجھے ان کے لیے دوا خریدنے کی ضرورت ہے، لیکن پیسے نہیں ہیں کہ خرید سکیں۔’اس سروے کے مطابق، تقریباً 98 فیصدی لوگوں کے پاس سرکار کی طرف سے کسی بھی فنڈ کا پیسہ نہیں پہنچا ہے۔ 89 فیصدی مزدوروں کو ان کے مالکوں نے لاک ڈاؤن کے بعد سے کوئی پیسے نہیں دیے۔

اسی طرح 9 فیصدی لوگوں کو مالکوں نے جزوی طور پرادائیگی کی ہے۔ کچھ مالکوں نے اپنے مزدوروں کو راشن تو دیا ہے، لیکن اس کے عوض  پیسے بھی دینے ہوں گے۔ شکایت نہ کرنے کے لیے مالکوں نے انہیں بری طرح دھمکایا بھی ہے۔

ناامیدی کے بادل

سوین کی رپورٹ بتاتی ہے کہ لاک ڈاؤن کے دوسرے مرحلہ میں مزدوروں کے بیچ غیر تحفظی اور غیر یقینی  کا احساس  بڑھا ہے۔ 50 فیصدی مزدوروں  کے پاس ایک دن سے بھی کم وقت کا راشن ہے۔ 46 فیصدی مزدوروں کے پاس بالکل بھی پیسے یا کھانا نہیں ہیں۔پانچ میں سے چار مزدوروں کو لاک ڈاؤن کے دوسرے مرحلہ تک کوئی راشن نہیں ملا تھا۔ 64 فیصدی مزدوروں کے پاس 100 روپے سے بھی کم پیسے بچے ہیں۔ وہیں، 74 فیصدی لوگوں کے پاس ان کی روز کی دہاڑی کا بس آدھا حصہ ہی بچا ہوا ہے، جس کے سہارے لاک ڈاؤن کا پورا وقت کاٹنا ہے۔

محض 6 فیصدی مزدوروں کو ان کی  پوری مزدوری  ملی ہے جبکہ 16 فیصدی لوگوں کو مالکوں نے جزوی  ادائیگی  کی ہے۔ 78 فیصدی لوگوں کو ان کے مالکوں نے لاک ڈاؤن نافذ ہونے کے بعد سے کوئی ادائیگی  نہیں کی۔لاک ڈاؤن کے پہلے مرحلہ میں 89 فیصدی لوگوں کو کوئی مزدوری نہیں ملی۔ اسی طرح 99 فیصدی سیلف روزگار سے لگے لوگوں کی آمدنی لاک ڈاؤن کے بعد سے پوری طرح ٹھپ ہو گئی ہے۔

اسی طرح 41 فیصدی مزدوروں کا کہنا ہے کہ ان کے اوپر گھر کا کرایہ اور لون چکانے جیسی ذمہ داریاں ہیں اور گاؤں واپس لوٹنے کے لیے پیسے نہیں ہیں تو انہیں شہر میں ہی رکنا پڑےگا۔ ایک تہائی مزدور اپنے موجودہ مالکوں کے ساتھ ہی کام کرنا چاہتے ہیں تو ایک تہائی لوگ اس پس و پیش میں ہیں کہ آگے کیا کریں۔

تقریباً 16 فیصدی لوگوں نے کچھ وقت کے لیے گاؤں لوٹ جانے کامنصوبہ  بنایا ہے تو 13 فیصدی لوگوں کا کہنا ہے کہ اب وہ اپنے گاؤں گھر میں ہی کوئی کام ڈھونڈیں گے۔تقریباً 5 فیصدی مزدوروں کا کہنا ہے کہ شہر میں کچھ پیسے کما لینے کے بعد وہ گاؤں لوٹ جائیں گے۔مزدوروں کی بے عزتی اور ان کونظر انداز کیے جانے   سےحیران ممبئی میں رہنے والے جھارکھنڈ کے ایک مزدور کا کہنا ہے، ‘مودی کی نظروں میں ہم کیڑے ہی ہیں نا، تو ویسی ہی موت مریں گی۔’

لاک ڈاؤن نافذ ہونے کے بعد وکیل پرشانت بھوشن اور چیرل ڈیسوزا نے سپریم کورٹ میں میرے اور سماجی کارکن انجلی بھاردواج کی طرف سے ایک پی آئی ایل دائر کی۔ اس میں لاک ڈاؤن سےمتاثر مزدوروں کے وقار کے ساتھ جینے کے حق(آرٹیکل19) کی حفاظت کرنے کی بات کہی گئی تھی۔

اس میں لاک ڈاؤن سے متاثر مزدوروں کو فوری راحت دینے کی مانگ کی گئی تھی۔ اس میں بنیادی طور پر کہا گیا تھا کہ مرکز اور ریاستی  حکومتیں مل کر سبھی مہاجر مزدوروں کو 7 دنوں کے اندر کم ازکم  مزدوری دیں اور لاک ڈاؤن کی پوری مدت تک اس کو جاری رکھا جائے۔

اس ادائیگی  میں ہر طرح کے مزدوروں کو شامل کیا جائے۔ بھلے ہی وہ مزدور کسی ٹھیکیدار کے ساتھ کام کرتا ہو یا پھر سیلف امپلائیڈ، سرکار سب کو مزدوری دے۔ اس عرضی میں ان  کی پہچان کے لیے اپنی طرف سے مصدقہ یا خود کی پہچان کی مدد لینے کے لیے کہا گیا تھا کیونکہ سرکار کے پاس ایسا کوئی ریکارڈ نہیں ہے جس میں متاثر مزدوروں کا کوئی اعداد وشمار ہو۔

(فوٹو: پی ٹی آئی)

(فوٹو: پی ٹی آئی)

ناکافی سرکاری مدد

اس عرضی میں ہم نے مرکزی حکومت کی جانب سے دی جا رہی ناکافی مدد کی طرف بھی سپریم کورٹ کا دھیان دلایا تھا۔ تب سرکار نے کورٹ سے کہا کہ اس نے 1.70 لاکھ کروڑ کے مالی پیکیج کااعلان کر دیا ہے۔اس پر ہمارا جواب تھا کہ یہ پیکیج ناکافی  ہے اور جی ڈی پی کامحض 1 فیصدی حصہ ہی اس میں خرچ کیاجا رہا ہے۔ جبکہ یہ المیہ بہت بڑا ہے، اس سے نپٹنے کے لیے یہ پیکیج بہت چھوٹا ہے۔

آگے عرضی گزاروں نے کہا کہ سرکار نے موجودہ منصوبوں  میں ہی تھوڑی بہت اصلاح  کرکے راحت پیکیج کااعلان کر دیا ہے۔ منریگا کے تحت مزدوری میں اضافہ اور تعمیری کاموں میں لگے ورکرس کے کھاتے میں پیسےبھیجنا بھی اسی طرح کا فیصلہ ہے۔سرکار نے 5 کیلو اناج اور 1 کیلو دال غریبوں کو دینے کا فیصلہ کیا ہے، لیکن اس کا فائدہ  بڑے پیمانے پر مہاجر مزدوروں کو نہیں مل سکےگا کیونکہ ان کا راشن کارڈ اپنے گاؤں کے پتے پر ہے۔

اسی طرح 20.4 کروڑ خواتین کے جن دھن کھاتے میں 500 روپے کی ادائیگی بھی بالکل ناکافی  ہے۔ اس میں دو طرح کی پریشانیاں ہیں۔ پہلا تو یہ کہ 500 روپے کی رقم  اس بحران کے وقت بہت کم ہے اور دوسرا یہ کہ یہ فائدہ  صرف ان لوگوں کو ہی مل سکےگا جن کا جندھن کھاتا چالو ہے۔اسی طرح جن ساہس کی طرف سے 3196 مہاجر مزدوروں کے اوپر کیے گئے ایک فوری سروے میں پتہ چلا کہ نارتھ اینڈ سینٹرل انڈیا  کے حصوں سے آئے ان مزدوروں کے پاس کوئی لیبر کارڈ نہیں ہے جس سے سرکاری فائدہ  مل سکے۔

راحت پیکیج کے نام پر سرکار کی جملے بازی

سرکار کا دعویٰ ہے کہ اس نے مالی  پیکیج میں ہر غریب کا دھیان رکھا ہے جس میں مہاجر مزدور اور ان کے اہل خانہ بھی شامل ہیں۔ سرکار نے کہا کہ مزدوروں کو اپنے گاؤں لوٹنے کی ضرورت نہیں تھی، سرکار ان کی دیکھ بھال کر رہی تھی اور گاؤں میں ان کے اہل خانہ کی دیکھ بھال بھی ہو رہی تھی۔

اس کے ساتھ ساتھ مرکزی حکومت نے بتایا کہ اس نے ریاستی حکومتوں  کو ہدایت  دی ہے کہ جو مزدور کورنٹائن ہیں، ان کی دیکھ بھال کرتے ہوئے انہیں کھانا، ٹھہرنے اور علاج  کی مکمل سہولت دی جائے۔عرضی گزاروں  نے سرکاری کی اس دلیل کا بھی جواب دیا۔ ہم نے کہا کہ سرکار کے خود کے اعدادوشمار بتاتے ہیں کہ مہاجر مزدوروں کی تعداد کے برابر راحت کیمپ یا شیلٹر ہوم  سرکار نے نہیں بنائے ہیں۔

سرکار نے سپریم کورٹ کو بتایا کہ اس کے پاس 26476 راحت کیمپ ہیں جس میں 1037027 لوگ رہ رہے ہیں۔ ان راحت کیمپوں  کا 59 فیصدی حصہ تو صرف کیرل میں ہے۔ جن 15 لاکھ لوگوں کو سرکار نے کھانا پہنچانے کی بات کہی ہے اس میں سے 51 فیصدی مستفید تو صرف ہریانہ اور دہلی سے ہیں۔

ااندازے کے مطابق ہندوستان میں مہاجر مزدوروں کی تعداد 4 کروڑ سے 12 کروڑ کے بیچ ہے۔ اگر ہم مہاجر مزدروں کی تعداد 4 کروڑ ہی مان لیں تو بھی 25 لاکھ لوگوں کو شیلٹر ہوم یا راحت کیمپوں  میں رکھ کر ہم صرف 6 فیصدی لوگوں تک ہی فی الحال فائدہ  پہنچا رہے ہیں۔

عرضی میں 29 مارچ کے اس سرکاری فیصلے کے بارے میں بھی بات کی گئی، جس میں سرکار نے سبھی سرکاری اور نجی مالکوں  کو ہدایت دی تھا کہ لاک ڈاؤن کے دوران اپنےمزدوروں کی  تنخواہ  نہ کاٹیں۔ سرکار نے یہ بھی کہا تھا کہ اس وقت کوئی مکان مالک اپنے کرایہ اروں پر پیسے دینے کا دباؤ نہ بنائے۔

اس پر عرضی گزاروں  نے کورٹ کو کہا کہ 29 مارچ کے فیصلے میں سرکار نے اپنی ذمہ داریوں سے پلا جھاڑتے ہوئے مزدوروں کی مدد کا ذمہ ان کے مالکوں اور مکان مالکوں کے اوپر ڈال دیا ہے۔ سرکار نے یہ نہیں بتایا کہ وہ انہیں نافذ کیسے کرےگی اور اس کی خلاف ورزی کرنے والے پر کیا کارروائی ہوگی۔

اس کے علاوہ سرکار نے مہاجر مزدوروں کے ایک بڑے طبقے سلیف امپلائیڈ لوگوں کو پوری طرح نظرانداز کیا ہے۔ انہیں کسی سے کوئی سیلری نہیں ملتی۔ ریہڑی پٹری والے، رکشہ  چالک، دھوبی، کوڑا اٹھانے والے اور سیکس ورکرس ایسے ہی مزدور ہیں۔

اس کے ساتھ ساتھ سرکار نے بے قاعدگی سے کام کرنے والے دہاڑی مزدوروں کا بھی کوئی دھیان نہیں رکھا۔ ریسرچ بتاتے ہیں کہ ان آرگنائزڈ سیکٹر میں کام کرنے والےمزدوروں میں محض 17 فیصدی لوگ ہی رجسٹرڈ ہیں۔ ایسے میں باقی کے 83 فیصدی مزدوروں کے مفادکی حفاظت کسی بھی صورت میں سرکار کے اس راحت پیکیج سے نہیں ہوگی۔

کورٹ سے بھی مایوسی

گزشتہ 7 اپریل کو اس عرضی کی شنوائی کرتے ہوئے سپریم کورٹ کے چیف جسٹس نے پوچھا کہ جب مزدوروں کو کھانا مل ہی رہا ہے تو پیسے دینے کی کیاضرورت ہے؟سپریم کورٹ کی بنچ نے کہا کہ ایسے بحران کے وقت میں وہ سرکار کے فیصلے میں دخل نہیں دینا چاہتی۔ وکیل پرشانت بھوشن کے ذریعےشیلٹرہوم اور کھاناتقسیم کرنے والے مراکز کی بدحالی پر سوال اٹھائے جانے پر کورٹ نے کہا کہ وہ اس عرضی کو خارج کرتی ہے اور کورٹ سرکار سے کہے گی کہ وہ ایسی شکایتوں کے لیے ہیلپ لائن بنائے۔

معاملے کی آخری شنوائی میں عرضی گزاروں  نے سپریم کورٹ کی نئی بنچ کے سامنے سوین کے سروے اور ریسرچ  کو رکھا۔ لیکن، کورٹ سوین کی رپورٹ کو سننے کو بالکل تیار نہیں تھی۔کورٹ کا کہنا تھا کہ وہ کسی بھی نجی ادارے کے مطالعہ  پر بھروسہ نہیں کرےگی کیونکہ سرکار کی رپورٹ ان رپورٹس سے الگ ایک الگ ہی تصویر پیش کرتی ہے۔ اسی کے ساتھ کورٹ نے مزدوروں کو بنا کوئی راحت دیے ہی اس پی آئی ایل کو رد کر دیا۔

کورٹ نے اپنے فیصلے میں کہا، ‘ہم حکومت ہند کو کہتے ہیں کہ وہ ان معاملوں کو دیکھے اور اس عرضی میں اٹھائے  گئے مسائل  کاحل کرے۔’روزی روٹی سے دور کروڑوں مزدور آج شہروں میں پھنسے ہوئے ہیں۔ لمبی قطاروں میں لگ کر وہ ایک وقت کے کھانا کا جگاڑ کر رہے ہیں۔ سینکڑوں کیلومیٹر دور پیدل چل کر وہ اپنے گاؤں پہنچنا چاہتے ہیں تاکہ اس مشکل وقت میں اہل خانہ کے ساتھ رہیں۔

انہیں نہیں پتہ کہ ان کے اہل خانہ اور بچوں کے آس پاس اندھیرے نے کتنا بھیانک روپ لے لیا ہے۔ عزت کے ساتھ دو روٹی پا لینا ان مزدوروں کے لیے کو رونا سے بھی بڑی چیلنج بن گیا ہے۔اس مضمون  میں پیش کیے گئےاکثر تحقیقی مطالات  کے لیے چیرل ڈی سوزہ اور مصباح راشد کاشکریہ اداکرتا ہوں۔

(مضمون نگار سابق آئی اے ایس اورسماجی کارکن  ہیں۔)