خبریں

کرناٹک: اپوزیشن کی مخالفت کے بعد نصاب سے ٹیپو سلطان اور اسلام سے متعلق ابواب ہٹانے پر روک

ریاستی حکومت نے کووڈ 19 کا حوالہ دیتے ہوئے پہلی سے 10ویں جماعت کےنصاب کو محدود کرنے کے لیے اسلام، عیسائی مذہب اورٹیپو سلطان سے متعلق ابواب  ہٹانےکی تجویز رکھی تھی۔ اس پر اپوزیشن پارٹیوں کا کہنا تھا کہ سرکار اپنے رائٹ ونگ  ایجنڈہ  کو آگے بڑھانے کے لیے ایسا کر رہی ہے۔

بی ایس ایڈی یورپا۔ (فوٹو: پی ٹی آئی)

بی ایس ایڈی یورپا۔ (فوٹو: پی ٹی آئی)

نئی دہلی: کرناٹک سرکار نے سوشل سائنس  کی نصابی کتابوں  سے کچھ ابواب  ہٹانے کی متنازعہ تجویز پر فی الحال روک لگا دی ہے۔ریاستی حکومت نے کووڈ 19 کا حوالہ دیتے ہوئے پہلی سے 10ویں جماعت کےنصاب کو محدود کرنے کے لیے اسلام، عیسائی مذہب، ٹیپو سلطان اور ان کے والد حیدر علی سے متعلق ابواب  سوشل سائنس کی نصابی کتابوں سے ہٹانےکی تجویز رکھی تھی۔

اپوزیشن نے اس کی شدیدمخالفت کی اور آخرکار اس فیصلے پر روک لگا دیا گیا ہے۔اعتراض  کے بعد ڈپارٹمنٹ آف پبلک انسٹرکشن نے بدھ کو کرناٹک کے پرائمری  اورسکینڈری ایجوکیشن کے وزیرایس سریش کمار کی ہدایت  پر ایک نیا نوٹیفیکشن جاری کیا گیا۔اس میں کہاگیا ہے کہ عالمی وباکووڈ 19کی وجہ سے2020-21 اکیڈمک سیشن  کو شروع کرنے میں تاخیرہو رہی ہے، اس لیےپہلی سے 10ویں جماعت کے کچھ ابواب  ہٹائے گئے تھے تاکہ نصاب 120 دن کے اکیڈمک سیشن  میں مکمل  ہو سکے۔

آرڈر میں کہا، پرائمری  اورسکینڈری ایجوکیشن کے وزیرکی ہدایت کے مطابق ابواب ہٹانے کے فیصلے کو فی الحال ملتوی کیا جاتا ہے۔ اس کا تجزیہ کرنے کے بعد ہٹائے گئے ابواب  ویب سائٹ پر ڈالے جائیں گے۔’دی  نیوز منٹ کے مطابق، اپوزیشن پارٹیوں اور کئی دانشوروں  نے الزام  لگایا کہ کرناٹک میں بی جے پی سرکار اپنے سیاسی  ایجنڈہ کو آگے بڑھانے کے لیے چھوٹے تعلیمی سال کے موقع کا فائدہ اٹھا رہی ہے۔

منگل کو کرناٹک کانگریس کے چیف اورسابق وزیر ڈی کے شیوکمار نے کرناٹک میں بی جے پی پر اپنے رائٹ ونگ  ایجنڈے کو آگے بڑھانے اور ٹیپو سلطان اور حیدر علی جیسی  تاریخی ہستیوں سے نفرت کرنے کاالزام  لگایا تھا۔ڈی کے شیوکمار نے کہا تھا، ‘کرناٹک میں بی جے پی  سرکار سب کچھ کو اپنے سیاسی  نظریے سے دیکھ رہی ہے۔ وہ اپنے ذاتی  ایجنڈہ کو تاریخ میں جگہ دلانا چاہتی ہے۔ اس کو قبول  نہیں کیا جا سکتا ہے۔’

انہوں نے کہا، ‘ٹیپو سلطان، حیدر علی، پیغمبر محمد یایہاں تک کہ آئین کو ماننا یا نہ ماننا یہ ان کے اوپر ہے، لیکن وہ ہماری تاریخ کی تشکیل  نہیں کر سکتے۔’ڈی کے شیوکمار نے یہ بھی کہا تھا کہ مسودہ کمیٹی  کے ذریعےنصاب کو بدلنے کی کوشش ہو رہی ہے۔ وہ اس طرح نصاب  میں کٹوتی کو دیکھنے کے لیے ایک کمیٹی بنائیں گے اور ریاستی  سرکار کے سامنے اس مدعے کو مضبوطی سے اٹھائیں گے۔

حالانکہ،بی جے پی نے اپنی سرکار کے اس قدم کا بچاؤ کرتے ہوئے دعویٰ کیا تھا کہ ان ابواب  کو ہٹانے کے پیچھے اس کا کوئی سیاسی  ایجنڈہ نہیں ہے۔ساتھ ہی یہ عارضی طور پر ہے۔ ریاستی بورڈ کےنصاب کے تحت دیگر جماعتوں  میں ٹیپو سلطان سے متعلق ابواب  کو پڑھانا جاری رہےگا۔

غورطلب ہے کہ کورونابحران  کے مدنظراسٹیٹ ریسرچ اینڈ ٹریننگ ڈپارٹمنٹ (ڈی ایس ای آرٹی)نے نصاب  میں 30فیصد کٹوتی کی سفارش کی تھی کیونکہ کرناٹک میں اسکول کالج اب ایک ستمبر سے کھلنے کی امید ہے۔بتادیں کہ 2020-2021 کے لیے اسکول تعلیمی کو چھوٹا کرتے ہوئے 120 دنوں کا کر دیا گیا ہے۔

معلوم ہو کہ بی جے پی  اور رائٹ ونگ ٹیپو کومذہبی شدت پسند بتاتے ہوئے سالگرہ کی تقاریب کی شدید مخالفت کرتے رہے ہیں۔یہ سوال اٹھائے جاتے رہے ہیں کہ کیا وہ(ٹیپو سلطان)مجاہد آزادی تھے یا پھر تاناشاہ؟ انہوں نے سماج کے لیے اپنی خدمات  دیں یا وہ شدت پسند تھے۔

مؤرخوں کے ایک طبقےکے مطابق، ٹیپو سلطان اپنے اقتدار میں ہندو مندروں کو مالی مدددیا کرتے تھے وہیں کچھ لوگوں کا ماننا ہے کہ ٹیپو سلطان نے لوگوں کا جبراًمذہب تبدیل کرایا اور ہندو مندروں کو لوٹا تھا۔سال 2019 میں بی جے پی نے اقتدار میں آتے ہی ٹیپو سلطان کی سالگرہ  پر منعقدہ ہونے والی تقریب کو رد کر دیا تھا۔بی ایس ایڈی یورپا کی قیادت  والی بی جے پی  سرکار نے اقتدار میں آنے کے تین دن کے اندریہ آرڈر پاس کیا تھا۔

(خبررساں  ایجنسی بھاشاکے ان پٹ کے ساتھ)