خبریں

بابری مسجد انہدام: خصوصی سی بی آئی عدالت نے تمام 32 ملزمین کو بری کیا

خصوصی سی بی آئی عدالت نےاپنے فیصلے میں کہا کہ سی بی آئی کافی  ثبوت نہیں دے سکی۔ بابری مسجد انہدام منصوبہ بند نہیں تھا اورغیر سماجی عناصرگنبد پر چڑھے تھے۔

ونئے کٹیار، ایل کے اڈوانی، اوما بھارتی، مرلی منوہر جوشی، کلیان سنگھ۔

ونئے کٹیار، ایل کے اڈوانی، اوما بھارتی، مرلی منوہر جوشی، کلیان سنگھ۔

نئی دہلی: خصوصی سی بی آئی عدالت نے 6 دسمبر 1992 کو ایودھیا میں بابری مسجد گرائے جانے کے معاملے میں فیصلہ سناتے ہوئے تمام 32 ملزمین کو بری کر دیا ہے۔این ڈی ٹی وی کے مطابق، فیصلہ سناتے ہوئے خصوصی سی بی آئی جج ایس کے یادو نے کہا انہدام منصوبہ بند نہیں تھا، یہ ایک حادثاتی  واقعہ  تھا۔ غیرسماجی عناصر گنبد پر چڑھے اور اسے گرادیا۔

فیصلے میں یہ کہا گیا کہ سی بی آئی کافی ثبوت نہیں دے سکی۔ملزمین کے خلاف کوئی پختہ ثبوت نہیں ملے، بلکہ ملزمین کی جانب سے مشتعل  بھیڑ کو روکنے کی کوشش کی گئی  تھی۔

سپریم کورٹ نے اس معاملے کی شنوائی پوری کرنے کے لیے 30 ستمبر تک کا وقت دیا تھا۔ اس معاملے میں بی جے پی   کے سینئر رہنما لال کرشن اڈوانی، مرلی منوہر جوشی سمیت 32 ملزم تھے۔خصوصی سی بی آئی عدالت کے جج ایس کے یادو نے 16 ستمبر کو اس معاملے کےتمام 32 ملزمین کو فیصلے کے دن عدالت میں موجود رہنے کو کہا تھا۔

ملزمین میں سینئر بی جے پی رہنما اورسابق نائب وزیر اعظم  اڈوانی،سابق مرکزی وزیر مرلی منوہر جوشی اور اوما بھارتی، یوپی کے سابق وزیر اعلیٰ  کلیان سنگھ کے علاوہ ونئے کٹیار اور سادھوی رتمبھرا شامل ہیں۔حالانکہ اڈوانی، جوشی، اوما بھارتی، کلیان سنگھ، نرتیہ گوپال داس سمیت چھ رہنما عدالت میں موجود نہیں تھے۔

اوما بھارتی اور کلیان سنگھ کوروناانفیکشن  کی چپیٹ میں آکر دو الگ الگ اسپتالوں میں بھرتی ہیں۔ فیصلے کے وقت باقی 26 ملزم عدالت میں موجود تھے۔کلیان سنگھ جب اتر پردیش کے وزیراعلیٰ تھے، تب ہی مسجد گرائی تھی۔ سنگھ پچھلے سال ستمبر میں اس معاملے کی شنوائی میں شامل ہوئے تھے۔ رام مندر نرمان ٹرسٹ کے جنرل سکریٹری  چنپت رائے بھی اس معاملے کے ملزمین میں سے ایک ہیں۔

سپریم کورٹ نے سی بی آئی عدالت کو معاملے کا نمٹارہ31 اگست تک کرنے کی ہدایت  دی تھی، لیکن گزشتہ22 اگست کو یہ مدت ایک مہینے کے لیے اور بڑھا کر 30 ستمبر کر دی گئی تھی۔سی بی آئی کی خصوصی عدالت نے اس معاملے کی روزانہ شنوائی کی تھی۔ سینٹرل  ایجنسی نے اس معاملے میں 351 گواہ اور تقریباً600 دستاویزی ثبوت عدالت میں پیش کیے۔

اس معاملے میں کل 48 لوگوں کے خلاف مقدمہ درج کیا گیا تھا جن میں سے 17 کی معاملے کی شنوائی کے دوران موت  ہو چکی ہے۔اس معاملے میں عدالت میں پیش ہوئے تمام ملزمین نے اپنے اوپر لگے تمام الزامات کو غلط اور بےبنیاد بتاتے ہوئے مرکز کی اس وقت  کی کانگریس سرکار پرمتعصبانہ رویہ کی وجہ  سے مقدمے درج کرانے کا الزام لگایا تھا۔

گزشتہ جولائی مہینے میں رام مندر تحریک  کے وقت قائد کے رول  میں رہے سابق نائب وزیر اعظم  لال کرشن اڈوانی اورسینئر بی جے پی رہنما مرلی منوہر جوشی نے ویڈیو کانفرنس کےذریعے اپنی گواہی دی تھی۔اڈوانی نے گزشہ 24 جولائی کو سی بی آئی عدالت میں درج کرائے گئے بیان میں تمام الزامات سے انکار کرتے ہوئے کہا تھا کہ وہ پوری طرح سے بے قصور ہیں اور انہیں سیاسی وجوہات سے اس معاملے میں گھسیٹا گیا ہے۔

عدالت کلیان سنگھ اور اوما بھارتی جیسے بڑے رہنماؤں کے بیان بھی درج کر چکی ہے۔ یہ دونوں عدالت کے سامنے پیش ہوئے تھے۔کلیان سنگھ نے گزشتہ13 جولائی کو سی بی آئی عدالت میں بیان درج کراتے ہوئے کہا تھا کہ اس وقت  کی کانگریس سرکار نےانتقامی جذبے سے ان کے خلاف مقدمہ درج کرایا ہے۔

انہوں نے دعویٰ کیا تھا کہ ان کی سرکار نے ایودھیا میں مسجد کی تین  سطحوں پرحفاظت یقینی بنائی تھی۔ان سے پہلے عدالت میں اپنا بیان درج کرانے والے سابق مرکزی وزیر مرلی منوہر جوشی نے بھی لگ بھگ ایسا ہی بیان دیتے ہوئے خود کوبے قصور بتایا تھا۔

ان تمام رہنماؤں نے عدالت میں خود کو معاملے میں غلط طریقے سے پھنسائے جانے کی دلیل دی ہے۔بتا دیں کہ کارسیوکوں نے چھ دسمبر 1992 کو ایودھیا واقع بابری مسجد کو گرا دیا تھا۔ ان کا ماننا تھا کہ اس مسجد کی تعمیربھگوان رام کی جنم بھومی پر بنے مندر کو توڑکر کی گئی  تھی۔

معاملے میں ملزم وشو ہندو پریشد کے رہنماؤں گری راج کشور، اشوک سنگھل اور وشنو ہری ڈالمیا کا مقدمے کے دوران انتقال ہو گیا۔ مسجد گرائے جانے کی کے وقت کلیان سنگھ اتر پردیش کے وزیراعلیٰ تھے۔

اس معاملے میں لال کرشن اڈوانی، مرلی منوہر جوشی، کلیان سنگھ، اوما بھارتی، ونئے کٹیار، سادھوی رتمبھرا، مہنت نرتیہ گوپال داس، ڈاکٹر رام ولاس ویدانتی، چنپت رائے، مہنت دھرم داس، ستیش پردھان، پون کمار پانڈے، للو سنگھ، پرکاش شرما، وجے بہادر سنگھ، سنتوش دوبے، گاندھی یادو، رام جی گپتا، برج بھوشن شرن سنگھ، کملیش ترپاٹھی، رام چندر کھتری، جے بھگوان گوئل، اوم پرکاش پانڈے، امر ناتھ گوئل، جئےبھان سنگھ پوییا، مہاراج سوامی ساکشی، ونئے کمار رائے، نوین بھائی شکلا، آراین شریواستو، آچاریہ دھمیندر دیو، سدھیر کمار ککڑ و دھرمیندر سنگھ گرجرملزم ہیں۔

معلوم ہو کہ پچھلے سال نومبر مہینے میں سابق چیف جسٹس رنجن گگوئی کی قیادت والی پانچ ججوں کی آئینی بنچ نے 40 دنوں کی شنوائی کے بعد نو نومبر کو بابری مسجدرام جنم بھومی زمینی  تنازعہ پر اپنا فیصلہ سناتے ہوئے متنازعہ  زمین پر مسلم فریق کا دعویٰ خارج کرتے ہوئے ہندوفریق  کو زمین دینے کو کہا تھا۔

متنازعہ زمین پر عدالت کا فیصلہ آنے اورمرکزی حکومت  کے ذریعےایودھیا میں رام مندرکی تعمیر کے لیے ٹرسٹ کا قیام  کرنے کے فیصلے بعد اوما بھارتی نے کہا تھا کہ اگر بابری مسجد کا ڈھانچہ نہیں ہٹایا جاتا، تو سچ لوگوں کے سامنے نہ آتا۔

(خبررساں  ایجنسی بھاشا سے ان پٹ کے ساتھ)