خبریں

بابری انہدام فیصلہ: ملزم رہنما بو لے-سچ کی جیت، اپوزیشن نے کہا-وہی قاتل، وہی منصف، عدالت اس کی

بابری مسجد انہدام معاملے میں سی بی آئی کی خصوصی عدالت کے ذریعے تمام ملزمین کو بری کرنے کے بعد بی جے پی کےسینئررہنما مرلی منوہر جوشی نے کہا کہ اب یہ تنازعہ ختم  ہونا چاہیے اور سارے ملک کو عظیم الشان  رام مندر کی تعمیر کے لیےتیاررہنا چاہیے۔اپوزیشن نے اس فیصلہ  کوغیرمعقول بتایا ہے۔

2005 میں لال کرشن اڈوانی، مرلی منوہر جوشی، اوما بھارتی، ونئے کٹیار اور اشوک سنگھل۔ (فائل فوٹو: پی ٹی آئی)

2005 میں لال کرشن اڈوانی، مرلی منوہر جوشی، اوما بھارتی، ونئے کٹیار اور اشوک سنگھل۔ (فائل فوٹو: پی ٹی آئی)

نئی دہلی:بابری مسجد انہدام معاملے میں سی بی آئی کی خصوصی عدالت کے ذریعےتمام ملزمین کو بری کیے جانے کے فیصلے کے بعد بی جے پی کے بزرگ رہنمااورملک  کے سابق نائب وزیر اعظم  لال کرشن اڈوانی نے جئے شری رام کا نعرہ لگایا۔انہوں نے عدالت کے فیصلے کا خیرمقدم کرتے ہوئے کہا کہ یہ فیصلہ  انہی دیگر فیصلوں کے موافق  ہیں جس نے ایودھیا میں رام مندر کی تعمیر کے ان کے خواب کو شرمندہ تعبیر کیا ہے۔

اڈوانی نے فیصلے کے بعد ایک ویڈیو پیغام میں کہا، ‘خصوصی عدالت کا آج کا جو فیصلہ ہوا ہے، وہ بے حد اہم  ہے۔ وہ ہم سب کے لیے خوشی کی بات ہے۔ جب ہم نے عدالت کا فیصلہ سنا تو ہم نے جئے شری رام کا نعرہ لگاکر اس کااستقبال کیا۔’انہوں نے بعد میں بیان جاری کرکے کہا، ‘یہ فیصلہ انہی دیگر فیصلوں کے نقش قدم  پر ہے جس نے ایودھیا میں رام مندرکی تعمیر کے ان کے خواب کو شرمندہ تعبیر کیا۔’

عدالت کے فیصلے کے بعداڈوانی(92)اپنے کمرے سے باہر نکلے اور جئے شری رام کا نعرہ لگاتے ہوئے میڈیا کا خیرمقدم کیا۔عدالت جب اپنا فیصلہ سنا رہی تھی اس وقت اڈوانی اپنے گھر کے ممبروں  کے ساتھ ٹیلی ویژن دیکھ رہے تھے۔ ان کی بیٹی پرتبھا اڈوانی ان کا ہاتھ پکڑے تھیں۔

بتا دیں کہ سی بی آئی کی خصوصی عدالت نے چھ دسمبر 1992 کو ایودھیا میں بابری مسجد گرائے جانے کے معاملے میں بدھ کو اپنا فیصلہ سناتے ہوئے تمام 32ملزمین کو بری کر دیا ہے۔خصوصی سی بی آئی جج ایس کے یادو نے کہا انہدام منصوبہ بند نہیں تھا، یہ ایک حادثاتی  واقعہ  تھا۔ غیرسماجی عناصر گنبد پر چڑھے اور اسے گرادیا۔

فیصلے میں یہ کہا گیا کہ سی بی آئی کافی ثبوت نہیں دے سکی۔ملزمین کے خلاف کوئی پختہ ثبوت نہیں ملے، بلکہ ملزمین کی جانب سے مشتعل  بھیڑ کو روکنے کی کوشش کی گئی  تھی۔سپریم کورٹ نے اس معاملے کی شنوائی پوری کرنے کے لیے 30 ستمبر تک کاوقت دیا تھا۔ اس معاملے میں بی جے پی کے سینئررہنما لال کرشن اڈوانی، مرلی منوہر جوشی سمیت 32 ملزم تھے۔

بی جے پی کے سینئررہنما اورسابق مرکزی وزیرمرلی منوہر جوشی نے بابری مسجد انہدام معاملے میں سی بی آئی کی خصوصی عدالت کے ذریعے سنائے گئے فیصلے کوتاریخی  بتایا ہے۔سینئررہنما مرلی منوہر جوشی نے فیصلے کے بعد صحافیوں سے بات چیت میں کہا، ‘عدالت نے ایک تاریخی  فیصلہ دیا ہے۔’

انہوں نے کہا، ‘میں سمجھتا ہوں کہ اس کے بعد یہ تنازعہ ختم  ہونا چاہیے۔ سارے ملک کو عظیم الشان  رام مندر کی تعمیر کے لیےتیار ہونا چاہیے۔ میں اس موقع پر ایک ہی بات کہوں گا کہ جئے جئے شری رام اور سب کو سنمتی دے بھگوان۔’بی جے پی رہنما نے اس معاملے میں ان کی جانب  سے پیش ہوئے وکیل کو شکریہ اداکرتے ہوئے کہا کہ انہوں نے صحیح حقائق کو عدالت کےسامنے رکھا۔

انہوں نے کہا، ‘ان کی محنت تھی جس سے اس پیچیدہ معاملے میں بھرپور کوششوں کے بعد سی بی آئی اپنا حزب نہیں رکھ پائی اور جج نے سچ کو سب کے سامنے رکھ دیا۔’جوشی نے کہا کہ اس فیصلے نے یہ ثابت کر دیا ہے کہ ہمارے پروگرام  کسی سازش کے تحت نہیں تھے۔

وہیں،وزیر دفاع اور بی جے پی کے سابق قومی صدر راجناتھ سنگھ نے اس فیصلے کاخیرمقدم  کرتے ہوئے اسے انصاف  کی جیت بتایا۔

انہوں نے ٹوئٹ کرکے کہا، ‘لکھنؤ کی خصوصی عدالت کے ذریعے بابری مسجد انہدام معاملے میں لال کرشن اڈوانی، کلیان سنگھ، ڈاکٹر مرلی منوہر جوشی، اوما بھارتی سمیت 32 لوگوں کے کسی بھی سازش  میں شامل نہیں ہونے کے فیصلے کا میں استقبال کرتا ہوں۔ اس فیصلہ  سے یہ ثابت ہوا ہے کہ دیر سے ہی سہی مگر انصاف  کی جیت ہوئی ہے۔’

وہیں، اتر پردیش کے وزیراعلیٰ یوگی آدتیہ ناتھ نے بابری مسجد انہدام معاملے میں سی بی آئی کی خصوصی عدالت کے فیصلے کا خیرمقدم کرتے ہوئے کہا کہ ستیہ میو جیتے کے مطابق ستیہ کی جیت ہوئی ہے۔

یوگی آدتیہ ناتھ نے ٹوئٹ کرکے کہا، ‘ستیہ میو جیتے۔ سی بی آئی کی خصوصی عدالت کے فیصلہ کا استقبال ہے۔اس وقت کی کانگریس سرکار کے ذریعےسیاسی تعصب  کے تحت  قابل احترام سنتوں، بی جے پی رہنماؤں، وشو ہندو پریشد کے عہدیداروں ، سماجی کارکنوں کو جھوٹے مقدموں میں پھنساکر بدنام کیا گیا۔ اس سازش  کے لیے انہیں عوام  سے معافی مانگنی چاہیے۔’

مدھیہ پردیش کے وزیر اعلیٰ  شیوراج سنگھ چوہان نے بھی کہا کہ ‘آخرکار سچائی  کی چیت  ہوئی ہے۔’

چوہان نے ٹوئٹ کیا،‘آخرکارسچائی  کی جیت ہوئی۔ اس وقت کی  کانگریس سرکار نے تعصب کے تحت ہمارے سنت، مہاتما، سینئررہنماؤں پر جھوٹے الزام  لگائے تھے، وہ بے بنیاد ثابت ہوئے ہیں۔ خصوصی عدالت کے فیصلے سے دودھ کا دودھ اور پانی کا پانی ہو گیا۔ ہم عدالت کے فیصلے کاخیرمقدم کرتے ہیں۔’

اس سے پہلے ایک دیگر ٹوئٹ میں انہوں نے لکھا، ‘یہ فیصلہ انہیں دیگرفیصلوں کے موافق ہیں جس نے ایودھیا میں رام مندر کی تعمیر  کے ان کے خواب کو شرمندہ تعبیر کیا۔ سچائی پریشان ہو سکتی ہے، لیکن  ہار نہیں سکتی۔ آج ایک بار پھر سچائی کی جیت ہوئی ہے۔ ہندوستانی عدلیہ کی جئے۔’

وہیں، بی جے پی نے تمام  ملزمین کو بری کرنے کے فیصلے کا خیرمقدم  کرتے ہوئے اس کو سچائی  کی جیت قرار دیا۔عدالت کے فیصلے کے فوراً بعد بی جے پی کے بی ایل سنتوش نے ٹوئٹ کیا،‘بابری انہدام معاملے میں عدالت نے تمام32ملزموں کو بری کر دیا ہے۔ عدالت نے انہدام کے پیچھے کسی طرح کی سازش  ہونے کی بات کو خارج کیا ہے۔ عدالت نے مانا ہے کہ انہدام اکساوے کے فوری ردعمل کانتیجہ  تھا۔سچائی  کی جیت ہوتی ہے۔’

وہیں، بابری معاملے میں عدالت کے فیصلے کا خیرمقدم کرتے ہوئے آر ایس ایس کے سریش بھیاجی جوشی نے کہا،‘سی بی آئی کی خصوصی عدالت کے ذریعےمتنازعہ ڈھانچے کے انہدام معاملے میں ملزم تمام قصورواروں  کو عزت کے ساتھ  بری کرنے کے فیصلے کا آر ایس ایس خیرمقدم  کرتا ہے۔’

وشو ہندو پریشدنے بابری مسجد انہدام معاملے میں تمام ملزمین کو بری کرنے کو سچائی  کی جیت  بتایا ہے۔وی ایچ پی کے وشنو سداشیو کوکجے نے کہا، ‘ہم عدالت کے فیصلے کا خیرمقدم  کرتے ہیں۔ سچائی  کی جیت  ہوئی ہے۔’انہوں نے کہا، ‘بابری مسجد انہدام کے واقعہ  کو لےکر عدالت کا فیصلہ آنے میں تقریباً 28 سال لگے لیکن یہ بات پہلے سے صاف ہے کہ یہ واقعہ منصوبہ بند نہیں تھا اور ملک بھر سے کارسیوکوں کو ڈھانچہ گرانے کے لیے ایودھیا نہیں بلایا گیا تھا۔’

مدھیہ پردیش اور راجستھان ہائی کورٹس کے سابق جج  رہے کوکجے نے کہا، ‘بابری انہدام کا واقعہ  اچانک ہوا تھا۔ اس وقت ہندو کمیونٹی  کے لوگ رام مندر معاملے میں کانگریس کے رویے سے بے حد غصے میں  تھے۔’انہوں  نے کہا کہ ان کی تنظیم  نے ایودھیا میں رام جنم بھومی پر مندر کی تعمیر  کی مانگ کو لےکر گزرے برسوں  میں جتنی بھی تحریک کی ۔ وہ آئین اور قانون کا احترام  کرتے ہوئے ختم  ہوئے تھے۔

انہوں نے کہا، ‘بابری مسجد انہدام کے واقعہ  کو لےکروی ایچ پی  پر جو الزام  لگائے گئے، وہ  مضحکہ خیز تھے۔’وہیں، اس بابری مسجد انہدام معاملے میں خود ملزم رہے شیوسینا کے سابق ایم پی  ستیش پردھان نے اسے سچائی کی جیت بتایا ہے۔ٹھانے کے سابق میئر ستیش پردھان (80)نے ویڈیو کانفرنسنگ کے ذریعےشنوائی میں حصہ لینے کے بعد کہا، سچائی کی جیت ہوئی ہے۔ پردھان نے کہا، سچ کی ہمیشہ جیت ہوتی ہے۔ عدلیہ میں ہمارا پورا بھروسہ ہے۔

وہیں، کارسیوکوں میں شامل رہے مقامی بی جے پی رہنما اوم پرکاش شرما نے بھی عدالت کے فیصلے کا خیرمقدم  کیا ہے۔

بابری مسجد گرائےئے جانے کے واقعہ  کو اب بھلا دینے کی ضرورت ہے: سنجے راؤت

ادھر شیوسینا ایم پی  سنجے راؤت نے کہا کہ رام جنم بھومی مالکانہ حق معاملے میں2019 میں سپریم کورٹ  کا فیصلہ آنے کے بعد بابری مسجد گرائے جانے کے معاملے نے اپنی اہمیت کھو دی تھی۔راؤت نے صحافیوں  سے بات چیت میں کہا کہ بابری مسجد گرائے جانے کے واقعہ کو اب بھلا دینے کی ضرورت ہے۔

راؤت نے کہا، ‘رام مندر پرسپریم کورٹ  کے فیصلے اور اس سال (اگست میں)وزیر اعظم کے ذریعے مندر کا بھومی پوجن کیے جانے کے بعد خصوصی عدالت میں اس معاملے نے اپنی اہمیت کھو دی تھی۔’انہوں نے کہا،‘یہ فیصلہ متوقع تھا۔ میں شیوسینا اور پارٹی صدر ادھو ٹھاکرے کی جانب  سے عدالت کے اس فیصلے کا خیرمقدم کرتا ہوں۔’

راؤت نے یہ بھی کہا کہ اگربابری مسجد گرائی  نہیں گئی ہوتی تو ایودھیا میں رام مندر کا بھومی پوجن ممکن نہیں ہوتا… ہمیں اس واقعہ کو بھلانا ہے۔اکھل بھارتیہ اکھاڑا پریشد نے بابری فیصلے کا خیرمقدم کرتے ہوئے کہا کہ اس فیصلے سے سادھو سنت ہی نہیں پورا سناتن دھرم اور ہندو سماج بے حدخوش ہے۔

اپوزیشن  نے کی تنقیدکہا وہی قاتل، وہی منصف، عدالت اس کی

حالانکہ، بابری مسجد انہدام معاملے میں سی بی آئی کی خصوصی عدالت کے فیصلے کی کئی اپوزیشن رہنماؤں نے تنقید کی ہے۔

کانگریس نے اس فیصلے کو پچھلے سال آئے سپریم کورٹ کے فیصلے کے الٹ قرار دیتے ہوئے کہا کہ آئین ، سماجی ہم آہنگی اور بھائی چارے میں یقین  کرنے والا ہر شخص امید کرتا ہے کہ اس ‘غیر معقول فیصلے’ کے خلاف ریاستی سرکارمرکزی حکومت ہائی کورٹ  میں اپیل دائر کرےگی۔

پارٹی کے ترجمان  رندیپ سرجےوالا نے صحافیوں  سے کہا، ‘بابری مسجد انہدام معاملے میں تمام قصورواروں  کو بری کرنے کا خصوصی عدالت کا فیصلہ سپریم کورٹ کے فیصلہ  اور آئین  سے پرے ہے۔ سپریم کورٹ کی پانچ ججوں کی بنچ کے 9 نومبر، 2019 کے فیصلہ کے مطابق بابری مسجد کو گرایا جانا ایک غیرقانونی جرم  تھا۔ لیکن خصوصی عدالت نے سب کو بری کر دیا۔ خصوصی عدالت کا فیصلہ صاف طور پر سپریم کورٹ  کے فیصلے کے بھی الٹ ہے۔ ‘

انہوں نے الزام  لگایا ، ‘پوراملک  جانتا ہے کہ بی جے پی آر ایس ایس اور ان کے رہنماؤں نے سیاسی  فائدے کے لیے ملک اور سماج کی فرقہ وارانہ ہم آہنگی کو توڑنے کی  ایک گھنونی  سازش کی تھی۔ اس وقت کی اتر پردیش کی بی جے پی سرکار بھی فرقہ وارانہ ہم آہنگی کو خراب  کرنے کی اس سازش میں شامل تھی۔’

سرجےوالا نے کہا، ‘یہاں تک کہ اس وقت جھوٹا حلف نامہ  دےکر سپریم کورٹ  کو ورغلایا گیا۔ ان سب پہلوؤں،حقائق  اور شواہد کو پرکھنے کے بعد ہی سپریم کورٹ نے مسجد کو گرایا جانا غیرقانونی جرم  ٹھہرایا تھا۔ ‘

انہوں نے کہا، ‘آئین ، سماجی ہم آہنگی اور بھائی چارے میں یقین  کرنے والا ہر شخص امید کرتا ہے کہ اس ‘غیر معقول فیصلے’ کے خلاف ریاستی سرکارمرکزی حکومت ہائی کورٹ  میں اپیل دائر کرےگی اور بغیر کسی جانبداری یا تعصب کے ملک کے آئین  اور قانون پر عمل کرے گی۔’

وہیں آل انڈیا مجلس اتحادالمسلمین(اے آئی ایم آئی ایم )کے صدر اور لوک سبھا ایم پی  اسدالدین اویسی نے ٹوئٹ کرکے عدالت کے اس فیصلے کو تنقید کا نشانہ بنایا۔

انہوں نے ٹوئٹ کرکے کہا، ‘وہی قاتل، وہی منصف، عدالت اس کی، وہ شاہد۔ بہت سے فیصلوں میں اب طرفداری بھی ہوتی ہے۔’

انہوں نے کہا کہ ہندوستانی عدلیہ  کے لیے یہ افسوس ناک  دن ہے۔ اب عدالت کہہ رہی ہے کہ کوئی سازش نہیں تھی۔

اویسی نے سلسلےوار کئی ٹوئٹ کرکے کہا، ‘یہ انصاف کا معاملہ ہے۔ یہ یقینی بنانے کا معاملہ ہے کہ بابری مسجد انہدام کے ذمہ دار لوگوں کو قصوروار ٹھہرایا جانا چاہیے لیکن انہیں قبل میں وزیر داخلہ  اور ایچ آرڈی منسٹربناکر سیاسی طور پرنوازاگیا۔ بی جے پی اس مدعے کی وجہ سے اقتدار میں ہیں۔’

(خبررساں  ایجنسی بھاشاکے ان پٹ کے ساتھ)