فکر و نظر

امریکی انتخابات: ہندوستانی اور یہودی کمیونٹی کی اہمیت

ہندوستان  اور اسرائیل کی موجودہ حکومتیں ٹرمپ کی سب سے زیادہ حمایتی ہیں۔ وزیر اعظم نریندر مودی نے تو ٹرمپ کے لیے امریکہ اور پھر ہندوستان میں جلسوں کا بھی اہتمام کیا۔

جو بائیڈن، فوٹو : رائٹرس

جو بائیڈن، فوٹو : رائٹرس

امریکی صدارتی انتخابات میں یوں تو صرف امریکی شہری ہی ووٹنگ میں حصہ لیتے ہیں، مگر لگتا ہے کہ پوری دنیا ہی انتخابی مہم میں مصروف ہے۔ امریکہ کے مفادات اور اس کے فوجی اڈے دنیا میں اس قدرپھیلے ہوئے ہیں، کہ ہر ملک کو لگتا ہے کہ اسی کے ہاں الیکشن ہے۔

جہاں یورپی ممالک، کنیڈا، ایران اور جنوبی امریکہ کے متعدد ممالک ڈیموکریٹک امیداوار جوائے بائیڈن کی کامیابی کی آس لگائے ہوئے ہیں، وہیں الگ الگ وجوہات کی بنا پر ہندوستان، اسرائیل، عرب ممالک و ترکی ڈونالڈ ٹرمپ کی وہائٹ ہاوس میں واپسی کے منتظر ہیں۔ ہندوستان  اور اسرائیل کی موجودہ حکومتیں ٹرمپ کی سب سے زیادہ حمایتی ہیں۔ وزیر اعظم نریندر مودی نے تو ٹرمپ کے لیے امریکہ اور پھر ہندوستان  میں جلسوں کا بھی اہتمام کیا۔

ٹرمپ نے بھی انتخابی مہم میں ہندوستانی اور یہودی کمیونٹی کو لبھانے کے لیے مودی اور اسرائیلی وزیر اعظم بنجامن نتن یاہو کے ساتھ اپنی تصویروں کی نمائش بھی کی۔ پچھلے ایک ماہ سے اب جس طرح رائے عامہ کے جائزوں میں متواتر بائیڈن کی جیت کی پیشن گوئی کی جارہی ہے، اس سے امریکہ میں آباد ہندوستانی  اور یہودی کمیونٹی نے بالترتیب ہندوستان  اور اسرائیل کی حکومتوں کو خبردار کیا ہے کہ وہ کسی ایک امیدوار کے حق میں کسی بھی مہم کا حصہ بننے سے گریز کریں۔

امریکہ-ہندوستان  سیکورٹی کونسل کے سربراہ رمیش کپور نے وزیر اعظم مودی کو بتایا ہے کہ وہ اپنے سارے انڈے کسی ایک ہی امیدوار کی ٹوکری میں ڈالنے سے باز آجائیں۔ امریکین جیوش کمیٹی کے سربراہان نے بھی نتن یاہو کو کچھ ایسی ہی صلاح دی ہے۔ کپور کا کہنا ہے کہ 2016کے امریکی انتخابات میں ہندوستان  نے سبھی داؤ ہنری کلنٹن پر لگائے تھے۔

حتیٰ کہ ٹرمپ کے انتخابی مشیر شلبھ کمار جب انتخابی مہم کے دوران نئی دہلی وارد ہوئے تھے، تو وزیر اعظم اور وزیر خارجہ نے ان سے ملنے سے ہی انکار کردیاتھا۔ کپور کا کہنا ہے کہ ہندوستانی حکومت ایک با رپھر وہی غلطی دہرا رہی ہے۔  انہوں نے راقم کو بتایا کہ پچھلے انتخابات کے بعد ان کو ٹرمپ انتظامیہ میں جگہ بنانے اور ہندوستان  کی اہمیت جتانے کے لیے خاصا وقت لگا۔

اسی طرح واشنگٹن میں اسرائیلی اخبار حارٹز کے کالم نگار خیمی شالیز کے مطابق رائے عامہ کے جائزوں میں بائیڈن کو 2016میں ہنری کلنٹن کے مقابلے میں واضح اور دوگنی برتری حاصل ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ اتنا زیادہ فرق ٹرمپ کے لیے پاٹنا مشکل ہوگا، تاآنکہ وہ اپنی زنبیل سے آخری وقت کوئی ایسی چیز نکالیں، جس سے پانسہ پلٹ جائےگا۔ ان کا کہنا ہے کہ ٹرمپ اس طرح کے خلاف توقع حیران کردینے والے کام کرنے کے عادی ہیں۔ اس لیےیہ کہنا بجا ہوگا کہ بائیڈن کامیابی کی راہ پر گامزن تو ہے، مگر ڈگر پنگھٹ کی ابھی بھی کٹھن ہے۔

گو کہ امریکہ میں ہندوستانی اور یہودی آبادی نہایت ہی قلیل ہے، مگر دولت، ثروت، آٹھ اعلیٰ آئیوی لیگ یونیورسٹیوں میں ان کی موجودگی، امریکی تھنک ٹینکوں پر ان کی پکڑکے علاوہ عدلیہ اور سیاست میں ان کی فعال شرکت کی وجہ سے،کسی بھی صدارتی امیدوار کے لیے ان کو نظر انداز کرنا ناممکن سا ہوتا ہے۔ 2019کی امریکن جیوش ائیر بک کے مطابق ملک میں یہودی آبادی 6.97ملین یعنی محض دو فی صد ہے۔

اسی طرح ہند نژاد آبادی بھی بس 4.4ملین ہے۔ امریکہ کی کل آبادی 331ملین ہے۔ گو کہ امریکہ میں چینی نژاد 5ملین، فلپائنی 4ملین، پاکستانی ساڑھے پانچ لاکھ اور بنگلہ دیشی ایک لاکھ 85ہزار ہیں، مگر سسٹم میں ان کی عدم موجودگی اور تنظیمی صلاحتوں سے محرومی اور اکثر اوقات ایک دوسرے سے ہی برسرپیکار رہنے کی وجہ وہ ووٹنگ پر کچھ زیادہ اثر انداز نہیں ہو پاتے ہیں۔

تارکین وطن میں ہندوستانی کمیونٹی کی آبادی میں2011کے بعد سے 38گنا اضافہ ہوا ہے۔ 2000 کے بعد تو ہندی نژاد ووٹروں میں147فیصد کا اضافہ ہوا ہے۔ اس کے علاوہ یہ کمیونٹی امیدواروں کو فنڈز بھی کافی تعداد میں مہیا کرواتی ہے۔ ہندوستانی کمیونٹی نے اب تک تقریباً3ملین ڈالر کی رقوم الیکشن فنڈ کے لیے فراہم کی ہیں۔ 2016کے انتخابات میں ایک ہندوستانی صنعت کار شلبھ کمار نے اکیلے ہی ٹرمپ کی انتخابی مہم کے لیے8.9لاکھ ڈالر کی رقم فراہم کی تھی۔

امریکہ-ہندوستان اسٹریجک پارٹنرس فورم کے سربراہ مکیش آگہی کے مطابق گو کہ ہندوستانی تارکین وطن کی تعداد قلیل ہے، مگر ووٹنگ میں بڑھ چڑھ کر حصہ لینے سے وہ انتخابی نتائج پر اثر انداز ہوتے ہیں۔ ان کاکہنا ہے کہ امریکی انتخابات میں دیکھا گیا ہے کہ امیر اور تعلیم یافتہ افراد ووٹنگ میں زیادہ حصہ لیتے ہیں۔ 2016کے انتخابات کا ذکر کرتے ہوئے، انہوں نے بتایا کہ جن افراد کی سالانہ آمد نی ڈیڑھ لاکھ ڈالر سے زیادہ تھی، ان کی 78فیصد آبادی نے ووٹنگ میں حصہ لیا، جبکہ دس ہزار ڈالر سے کم آمدنی والے افراد میں صرف 41فیصد نے پولنگ بوتھ تک آنے کی زحمت گوارہ کی۔

چونکہ ہندوستانی اور یہودی کمیونٹی اعلیٰ تعلیم یافتہ اور امیر ہیں، اس لیے وہ ووٹنگ میں خاصی دلچسپی لیتے ہیں۔ آگہی کے مطابق ٹرمپ نے یقیناً ہندوستانی ووٹوں میں سیندھ لگائی ہے۔ پچھلی باران کو 22فیصد ہندوستانی  تارکین وطن کے ووٹ ملے تھے، اس بار یہ شرح28فیصد ہوسکتی ہے۔ مگر یہ تعداد شاید ہی ان کے نتیجے پر اثر انداز ہوگی۔

دوسری طرف ہندوستانیوں کی نئی نسل کو ہندوستان-امریکہ تعلقات سے کوئی دلچسپی نہیں ہے۔وہ عام امریکیوں کی طرح داخلی ایشوز کو لےکر ہی امیدوار کی تقدیر کا فیصلہ کرتے ہیں۔ آگہی کے مطابق اس وقت ان کے دماغ میں صحت عامہ سے منسلک ایشوز اور ٹرمپ انتظامیہ کی کورونا وائرس وبا سے نمٹنے میں ناکامی ہی گردش کر رہی ہے۔

گو کہ ہندوستانی حکومت بائیڈن کے حالیہ بیانات جس میں انہوں نے شہریت مخالف قانون، جس میں مسلمانوں سے تفریق برتی گئی ہے، اور جموں و کشمیر کی خصوصی آئینی حثیت کو ختم کرنے جیسے اقدام کی کھل کر مخالفت کی ہے، سے سخت خائف ہے، مگر کپور کا کہنا ہے کہ دیگر امور پر ڈیموکریٹک امیدوار کا رویہ ہندوستان کے تئیں خاصہ نرم ہے۔ ہاں، حقوق انسانی کے حوالے سے ڈیموکریٹک پارٹی کا موقف سخت ہے۔

ان کا کہنا ہے کہ خطے میں ہندوستان کی اہمیت کے پیش نظر بائیڈن کی پالیسی ہمہ جہتی ہوگی اور چین سے نمٹنے کے لیے چار ملکی اتحاد آسٹریلیا، جاپان، ہندوستان  اور امریکہ کو مزید جہت ملے گی۔ہندوستان  کے تئیں بائیڈن کی خدمات کا ذکر کرتے ہوئے کپور کا کہنا ہے کہ 1975میں پہلے جوہری دھماکوں کے بعد جب امریکی کانگریس میں ہندوستان پر اقتصادی پابندیاں لگانے کی قرار داد پیش ہوئی توبس ایک ووٹ سے مستر د ہوئی۔ وہ ایک ووٹ، جس نے ہندوستان کو پابندیوں سے بچایا،  نئے سینیٹر جوائے بائیڈن کا تھا۔

اسی طرح 2005میں صدر  جارج بش اور وزیر اعظم من موہن سنگھ نے جوہری معاہدہ پر دستخط تو کئے، مگر جوہری تکنیک کے عدم پھیلاؤ  کی ٹریٹی کا حصہ نہ ہوتے ہوئے ہندوستان  کو کسی بھی قسم کی رعایت دینے کی امریکی کانگریس میں ڈیمو کریٹس نے خاصی مخالفت کی۔ اس وقت پھر بائیڈن نے ہی اپنی پارٹی کے اراکین پارلیامان کو منوا کر 2008میں ہندوستان  کوچھوٹ دلوانے کا قانون پاس کروالیا۔

ہندوستانی  لابی ان دنوں  واشنگٹن میں امیدوارں کو اپنی خواہشات کی فہرست فراہم کر رہی ہے اس میں یہ وعدہ لیا جا رہا ہے کہ اقتدار میں آنے کے بعد وہ ایکسپورٹ کنٹرول ایکٹ پاس کرواکے ہندوستان  کو ناٹو پلس پانچ کے اتحاد میں چھٹے ملک کی حیثیت سے داخل کریں گے۔ اس اتحاد میں ناٹو ممبران کے علاہ اسرائیل، آسٹریلیا، نیوزی لینڈ اور جاپان شامل ہیں۔ یعنی کوارڈ کے بعد ہندوستان ا مریکہ کی قیادت میں ایک اور اتحاد کی ممبرشپ کا خواہا ں ہے۔ دوسری طرف یہودی لابی کا کہنا ہے کہ اسرائیل یا ان کو کسی بھی امیدوار کی کامیابی سے کوئی فرق نہیں پڑنے والا ہے۔

ہاں ٹرمپ کی عدم موجودگی میں نتن یاہو کی ذاتی مشغولیات متاثر ہو جائیں گی۔ واشنگٹن پوسٹ نے حال ہی میں انکشاف کیا تھا کہ نتن یاہو اپنے تمام میلے کپڑے جہاز میں بھر کر وہائٹ ہاوس کی لانڈر ی میں فری  دھلوانے کے لیے لاتے ہیں۔ خیمی شالیز کے مطابق بائیڈن بھی عرب مماک کو اسرائیل کے ساتھ تعلقات کو معمول پر لانے کے لیےآمادہ کرتے رہیں گے۔ مگر انسانی حقوق سے متعلق ان کے سخت موقف کی زد میں عرب ممالک آسکتے ہیں۔

دوسرا ایران پر اگر انہوں نے بارک اوبامہ کے موقف کی تقلید کی، تو عرب ممالک کے لیے سخت امتحان ہوگا۔ اس لیے عرب ممالک اسرائیل اور امریکہ میں موجودیہودی لابی پر دباؤ ڈال رہے ہیں، کہ یا تو ٹرمپ کی کامیابی یقینی بنائی جائے، یا بائیڈن کی ٹیم پر اثر انداز ہوکر ان کو جوہری ایشو پر ایرا ن کے ساتھ گفت و شنید کرنے سے باز رکھا جائے۔

واشنگٹن میں مقیم یہودی صحافی آلیسن کاپلان سومر نے راقم کو بتایا کہ صدراتی مباحثہ کے دوران ٹرمپ نے جس طرح سفید فام نسل پرست گرپوں کی مذمت کرنے سے انکار کردیا، اس نے یہودی کمیونٹی کو خاصہ مضطرب کر دیا ہے۔ یہ گروپس آئے د ن ان کی عبادت گاہوں کو نشانہ بنارہے ہیں۔ اس لئے یہودیوں کا ایک بڑا طبقہ ٹرمپ کی حمایت کرنے سے گریزا ں ہے، اور وہ اس کے لیےنتن یاہو کی اپیلوں کو بھی نظر انداز کر رہے ہیں۔

امریکی انتخا بات کے حوالے سے ایک دلچسپ بات یہ ہے کہ یہ ضروری نہیں ہے کہ عوام کی جانب سے زیادہ ووٹ حاصل کرنے والا امیدوارہی ملک کا  صدر بنے۔اس کی وجہ یہ ہے کہ امریکہ میں صدر کا انتخاب براہِ راست عام ووٹر نہیں کرتے بلکہ یہ کام الیکٹورل کالج کا ہے۔یعنی جب امریکی عوام نومبر میں  ووٹ ڈالنے جائیں گے، تو دراصل وہ 538ایسے افراد کے لیے ووٹ ڈالیں گے،جو مل کر الیکٹورل کالج بنائیں گے، اور پھر دسمبر میں وہ صدر منتخب کریں گے۔

ماضی میں یہ الیکٹرز اپنی مرضی سے بھی ووٹ ڈال سکتے تھے لیکن اب اکثر ریاستوں میں قانونی طور پر یہ الیکٹرز صرف اسی امیدوار کے لیے ووٹ ڈال سکتے ہیں جس کے نام پر انھوں نے ووٹ لیے ہیں۔یہ سسٹم اسی لئے ترتیب دیا گیا تھا کہ امریکی آئین کے خالقوں کو خدشہ تھا کہ کہیں کوئی نااہل امیدوار بے خبر اور بھولے بھالے عوام کو بہلا پھسلا کر ملک کی باگ ڈور نہ سنبھالے۔ ہر ریاست کی کانگریس میں جتنی سیٹیں ہوتی ہیں اور اس کے جتنے سینیٹر سینیٹ میں ہوتے ہیں اتنے  ہی اس کے الیکٹورل کالج میں الیکٹرز ہوتے ہیں۔

عموماً ریاستیں اپنے تمام الیکٹورل کالج ووٹ اسی امیدوار کو دیتی ہیں جسے ریاست میں عوام کے زیادہ ووٹ ملے ہوں۔ اگر ٹیکساس میں رپبلکن امیدوار نے 50.1 فیصد ووٹ لیے ہیں تو ریاست کے تمام 38 الیکٹورل ووٹ اس امیدوار کے نام ہو جائیں گے۔ عین ممکن ہے کہ کوئی امیدوار قومی سطح پر ووٹرز میں سب سے زیادہ مقبول رہا ہو لیکن وہ صدر بننے کے لیے درکار 270 الیکٹورل ووٹ حاصل نہ کر سکے۔2016 میں ڈونالڈ ٹرمپ نے ہلیری کلنٹن سے 30 لاکھ ووٹ کم حاصل کیے تھے لیکن وہ صدر بنے کیونکہ انھوں نے الیکٹورل کالج میں اکثریت حاصل کی۔

سال 2000 میں جارج ڈبلیو بش نے 271 الیکٹورل ووٹوں سے کامیابی حاصل کی جبکہ صدارتی انتخاب میں ناکام رہنے والے ان کے مدِمقابل ڈیموکریٹ امیدوار ایل گور کو ان سے پانچ لاکھ عوامی ووٹ زیادہ ملے تھے۔اس کے علاوہ19 ویں صدی میں تین امیدوار  جان کوئنسی ایڈمز، ردرفرڈ بی ہیز اور بنجامن ہیریسن عوامی ووٹ حاصل کیے بغیر صدر بنے تھے۔