خبریں

اتر پردیش: ’ٹھاکر‘ لکھا جوتا فروخت کر نے پر مسلم دکاندار گرفتار، تنازعہ کے بعد رہا

معاملہ اتر پردیش کے بلندشہر کا ہے۔ بجرنگ دل کےکنوینر نے دکاندار ناصر پرفرقہ وارانہ ہم آہنگی کو خراب نے کا الزام  لگاتے ہوئے معاملہ درج کرایا تھا۔ ٹھاکر فٹ ویئر کمپنی کے مالک نے کہا کہ یہ نام ان کے داداجی سےمنسوب  ہے۔ کسی سیاست  کے لیے نہیں بدلیں  گے۔

ناصر۔ (فوٹو: ویڈیو اسکرین گریب)

ناصر۔ (فوٹو: ویڈیو اسکرین گریب)

اتر پردیش کے بلندشہر میں منگل کو پولیس نے ایک مسلم دکاندار کو سول پر ‘ٹھاکر’لکھاہوا جوتافروخت کرنے  کے الزام  میں حراست میں لے لیا۔ ان پرفرقہ وارانہ کشیدگی کو بھڑ کانے کا الزام  لگایا گیا ہے۔بتا دیں کہ ‘ٹھاکر’ایک عام ہندو نام ہے جس کا استعمال مبینہ اشرافیہ کمیونٹی  کے سلسلے میں کیا جاتا ہے۔

دکاندار ناصر کے خلاف سنگھ پریوار سے وابستہ ایک کارکن نے جوتے کے سول پر ‘ٹھاکر’ لکھے ہونے پر اعتراض کرتے ہوئے معاملہ درج کرایا تھا۔بلندشہر کے گلوتھی قصبے میں بجرنگ دل کے کنوینر وشال چوہان نے دکاندار ناصر کے خلاف معاملہ درج کرایا تھا۔

انہوں نے میڈیا کو بتایا، ‘ہم اس کے دکان پر گئے اور اس کو پولیس کے حوالے کر دیا۔’

ناصر کے خلاف آئی پی سی کی دفعہ153-اے (مختلف گروپس  کے بیچ نفرت، دشمنی یا نفرت کے احساس  کو بڑھاوا دینا)، 323(جان بوجھ کر چوٹ پہنچانا)اور 504(امن و امان میں  خلل پیدا کرنے کے ارادے سے جان بوجھ کر توہین کرنا)کے تحت معاملہ درج کیا گیا۔

سوشل میڈیا پر شیئر کئے جا رہے ایک ویڈیو میں ناصر پولیس سے کہتے نظر آ رہے ہیں کہ وہ لفظ جوتا بنانے والی کمپنی نے لکھا ہے اور ان کا اس سے کوئی تعلق  نہیں ہے۔جب جانچ کے دوران ان کے خلاف بدامنی  کو بڑھاوا دینے کا کوئی ثبوت نہیں ملا تب بلندشہر پولیس نے دکاندار کو جانے دیا۔

اس بیچ، ٹھاکر فٹ ویئر کمپنی کے مالک نریندر ترلوکنی نے بدھ کی  صبح دی  وائر کو بتایا کہ واقعہ  کے سلسلے میں پولیس سے ان کی کوئی بات نہیں ہوئی ہے۔جوتےبنانے والی یہ کمپنی ترلوکنی کے دادا، ٹھاکرداس ترلوکنی کے نام پر ہے۔

تقریباً60 سال پرانی کمپنی شروع سے ہی ٹھاکر لفظ چھپے ہوئے جوتے بیچ رہی ہے اور آن لائن اسٹور کے ساتھ اس کی فروخت  میں بھی تیزی آئی ہے۔ اتر پردیش کے آگرہ واقع کمپنی ملک  بھر میں جوتے بیچتی ہے۔ترلوکنی نے دی  وائر کو بتایا کہ وہ ہر مہینے 10 ہزار سے زیادہ جوتے بناتے ہیں اور اس سے اچھا خاصہ  منافع ہوتا ہے۔

کمپنی کے پروڈکٹ  امیزون،فلپ کارٹ، اسنیپ ڈیل، منترا، پے ٹی ایم اور شاپ کلوز جیسے کئی آن لائن شاپنگ پلیٹ فارم پردستیاب  ہیں۔حالانکہ کمپنی سے متعلق جانکاری اس کی ویب سائٹ پر ہونے کے باوجود پولیس نے ابھی تک کمپنی سے پوچھ تاچھ نہیں کی ہے۔ ویب سائٹ پر کمپنی کا فون نمبر اور اس کےصدردفتر کا پتہ دیا ہوا ہے۔

ترلوکنی نے کہا،‘ہماری کمپنی رجسٹرڈ ہے اور نام پر ہمارا کاپی رائٹ بھی ہے، لیکن اگر پولیس ہمارے پیچھے آتی ہے تو ہمارے وکیل دیکھیں گے۔ ٹھاکر نام ہمارے داداجی سے منسوب ہے اور ہم کسی سیاست کے لیے اسے نہیں بدلیں  گے۔’

بلندشہر کے ایس ایس پی  سنتوش کمار نے دی  وائر سے کہا، ‘جب کچھ گراہکوں نے ایسے جوتے بیچنے پر اعتراض کیا تب دکاندار نے ان سے جھگڑا کر لیا۔ انہوں نے اسے قابل اعتراض  بتاتے ہوئے اس کے خلاف شکایت درج کرا دی۔ ہم نے دونوں فریق  کو پولیس اسٹیشن بلایا اور جانچ کی۔ ہم نے پایا کہ اس کے خلاف الزام درست نہیں تھے اور اس لیے ہم نے اسے جانے دیا۔ اس نے جان بوجھ کر ایسا نہیں کیا تھا۔’

پولیس والوں نے آگے کہا کہ ناصر جس صنعت کار کے جوتے بیچ رہے تھے اس کا پتہ نہیں لگایا جا سکا۔

ٹھاکرفٹ ویئر کمپنی کے خلاف کسی کارروائی کے بارے میں پوچھنے پر کمار نے کہا کہ اگر اس سے کسی کے جذبات  مجروح ہوئے ہیں تو پولیس اسے دیکھےگی۔ لیکن ناصر کے معاملے میں جانچ اس لیے اہم  تھی، کیونکہ دونوں فریق الگ الگ کمیونٹی(مذہب)سے تھے اور اس سے کچھ برا ہو سکتا تھا۔

(اس خبر کو انگریزی میں پڑھنے کے لیےیہاں کلک کریں)