خبریں

لاک ڈاؤن کے خلاف مزدوروں کے احتجاج سے متعلق ویڈیو رپورٹ پر یوٹیوب نے ’ملت ٹائمز‘ کو بلاک کیا

نیوز ویب سائٹ ‘ملت ٹائمز’نے9 اپریل کو مہاراشٹر میں کووڈ 19 لاک ڈاؤن کے خلاف احتجاج  پر ایک ویڈیو رپورٹ شائع  کی تھی۔ اس کے چیف ایڈیٹر نے بتایا کہ اکثر مظاہرین دہاڑی مزدور تھے۔ وہ وزیر اعلیٰ کی رہائش گاہ  کے پاس احتجاج  کر رہے تھے اور ان مسائل  کے بارے میں بول رہے تھے، جن کا سامنا وہ  لاک ڈاؤن کی وجہ سے کریں گے۔

یوٹیوب کے ذریعے بلاک  کیے گئے ویڈیو کا اسکرین گریب جس کو ملت ٹائمس نے فیس بک پرشیئر کیا تھا۔

یوٹیوب کے ذریعے بلاک  کیے گئے ویڈیو کا اسکرین گریب جس کو ملت ٹائمس نے فیس بک پرشیئر کیا تھا۔

نئی دہلی: مہاراشٹر میں کووڈ 19 لاک ڈاؤن کے خلاف احتجاج  پر ایک ویڈیورپورٹ شائع  ہونے کے بعد ویڈیو شیئرنگ پلیٹ فارم یوٹیوب نے نیوز ویب سائٹ ‘ملت ٹائمز’کے چینل کو بلاک کر دیا ہے۔‘پیپل کانٹنیو پروٹیسٹ اگینسٹ لاک ڈاؤن، گھیراؤ سی ایمس ہاؤس’کے عنوان سے رپورٹ 9 اپریل کو شائع ہوئی تھی۔ اس ویڈیو رپورٹ میں کووڈ 19 کے اعدادوشمارپرقابو پانےکے لیے مہاراشٹر حکومت کے قدم کے خلاف لوگوں کی شکایتوں کو دکھانے والے کلپ تھے۔

کمیونٹی گائیڈ لائن کی خلاف ورزی  کا حوالہ دیتے ہوئے یوٹیوب نے 9 اپریل کو ویڈیو کو ہٹا دیا۔ سائٹ نے کہا کہ یہ یوٹیوب کی میڈیکل مس انفارمیشن پالیسی کی خلاف ورزی  کرتی ہے۔

‘ملت ٹائمز’کے یوٹیوب چینل پر 90 دن کی پابندی عائد کی گئی ہےاور اس مدت میں کسی بھی کمیونٹی گائیڈ لائن کی خلاف ورزی کرنے پر سخت  کارروائی کی وارننگ  دی گئی ہے۔‘ملت ٹائمز’کے چیف ایڈیٹر شمس تبریز نے د ی وائر سے کہا کہ اکثر مظاہرین دہاڑی  مزدور تھے۔

انہوں نے مزید کہا، ‘وہ  مہاراشٹر کے وزیر اعلیٰ کی رہائش گاہ کے پاس احتجاج  کر رہے تھے اور ان مسائل پر بول رہے تھے، جن کا سامنا وہ  لاک ڈاؤن کی وجہ سے کریں گے۔’تبریز نے کہا کہ مزدور پچھلے سال کے واقعات کودہرائے جانے کو لےکر ڈرے ہوئے تھے۔

انہوں نے کہا، ‘وہ  ڈرے ہوئے تھے، حقیقت  میں ہم سب جانتے ہیں کہ ملک گیر لاک ڈاؤن (سال 2020 میں)کے دوران مزدوروں کے ساتھ کیا ہوا۔ انہوں نے جو بھی کہا اس کو ٹھیک ویسے ہی پیش کیا گیا۔ یہ ان کے خیالات تھے، نہ کہ کوئی فیک نیوز۔’

‘ملت ٹائمز’کے یوٹیوب چینل کے آٹھ لاکھ سبسکرائبر ہیں۔ وہیں ان کے فیس بک پیج کےپانچ لاکھ سے زیادہ فالوور ہیں۔اتوار کو ‘ملت ٹائمز’نے ٹوئٹ کرکے کہا، ‘ہم اب ایک ہفتےتک وہاں ویڈیو اپ لوڈ نہیں کر سکتے، لیکن ہم کام کرنا جاری رکھیں گے۔’

واضح ہو کہ سال 2016 میں شروع کی گئی ویب سائٹ اکثر یوٹیوب اور فیس بک پر سینسرشپ کا سامنا کرتی رہتی ہے۔

تبریزنے د ی وائر کو بتایا،‘یوٹیوب نے پہلے بھی ہمارے ویڈیو ہٹا دیے ہیں۔ ایک ویڈیو میں گائے کا گوشت کھانے کے الزام  میں ایک مسلمان کی ماب لنچنگ کی رپورٹ تھی اور دوسری  ویڈیورپورٹ دہلی کے فسادات(فروری 2020)پر مبنی تھی۔ فسادات  بہت خراب تھے اور ہم نے اس کی بربریت کودکھانے کی کوشش کی تھی، لیکن اسے ہٹا دیا گیا تھا۔’

تبریز کو لگتا ہے کہ یوٹیوب اور فیس بک اکثر چھوٹے میڈیا پلیٹ فارم کو نشانہ بناتے ہیں جو مین اسٹریم میڈیا کے ذریعےنظرانداز کیے جانے والےمسائل کو اٹھاتے ہیں۔

انہوں نے مزید کہا، ‘کسی بھی معاملے میں چھوٹے سوشل میڈیا چینلوں کے پاس محدود وسائل ہیں اور یہ سینسرشپ ضابطہ  اسے اور بھی بدتر بناتے ہیں۔ سبھی بڑے چینل ہر وقت فرقہ وارانہ  مباحث دکھاتے ہیں، جو یوٹیوب پر بھی دستیاب کرائےجاتے ہیں۔ ان کے خلاف کبھی کوئی کارروائی نہیں کی جاتی۔’

ایک ای میل کے ذریعے تبریز نے یوٹیوب کو پابندی ختم کرکے چینل کو پھر سے ایکٹو اور ان بلاک کرنے کی گزارش  کی ہے۔تبریزنے ای میل میں کہاہے، ‘جس ویڈیو پر یہ کارروائی کی گئی وہ سچائی ہے اورحقائق پر مبنی ہے۔ اس میں نہ تو کووڈ 19 پر فرضی خبر ہے اور نہ ہی غلط جانکاری  ہے۔’

تبریزنے دی  وائر کو بتایا،‘ہم یوٹیوب کے ردعمل کے منتظر ہیں۔ تب تک ہم اپنے کام کو شائع کرنے کے متبادل تلاش کر لیں گے۔’دی  وائر نےیوٹیوب اور گوگل سے رابطہ  کیا ہے اور ان کی جانب سے ردعمل  ملنے پرا سٹوری کو اپ ڈیٹ کیا جائےگا۔

دریں اثنا ملت ٹائمز نے اپنی ویب سائٹ پر جانکاری دی ہے کہ’یوٹیوب نے ملت ٹائمز کا چینل بند کردیاہے جس کے بعد ملت ٹائمز کی انتظامیہ نے یہ فیصلہ کیاہے کہ اب ہم اپنی ویڈیوز بھی ایپ پر ہی اپلوڈ کریں گے تاکہ ہم مکمل آزادی کے ساتھ اپنی بات کہہ سکیں اور اپنے ناظرین وقارئین تک بہ آسانی سچ پہونچاسکیں ۔’

(اس رپورٹ کو انگریزی میں پڑھنے کے لیےیہاں کلک کریں)