خبریں

کووڈ بحران: آدمی کو بھی میسر نہیں انساں ہونا …

اس مشکل وقت میں سرکاروں کی کاہلی تو اپنی جگہ پر ہے ہی، لوگوں کا آدمیت سے بالاترہوتے جانا بھی متاثرین کی پریشانیوں میں کئی گنا اضافہ کر رہا ہے۔اس کی وجہ سے ایک اور بڑا سوال سنگین ہوکر سامنے آ گیا ہے کہ کیا اس مہاماری کے جاتے جاتے ہم انسان بھی رہ جا ئیں گے؟

(فوٹو: پی ٹی آئی)

(فوٹو: پی ٹی آئی)

کوروناکی مہاماری ہمیں کتنا بھی ستا لے،آج نہیں تو کل اس کوچلے ہی جانا ہے۔کیونکہ یہ ماننے کی کوئی وجہ نہیں ہے کہ اب تک کی تاریخ میں ایسی جانے کتنی وباؤں  پر قابو پا چکی انسانی ذہانت اچانک  اس سے ہار جائےگی۔ وہ شکست کھاتی نظر بھی نہیں آ رہی ہے، نہ ہی ہاتھ پر ہاتھ دھر کر بیٹھ گئی ہے۔

لیکن اس بیچ ایک اور بڑا سوال سنگین ہوکر ہمارے سامنے آ گیا ہے کہ اس مہاماری کے جاتے جاتے ہم آدمی ہی نہیں رہ گئے تو؟ ممکنہ طور پر اسی اندیشے میں مبتلا دہلی ہائی کورٹ نے حال میں کورونا کی مشکلات  پر ایک شنوائی کے دوران کہا تھا کہ اس آفت کے وقت  میں ہمارااخلاقی  تانا بانا بہت حد تک منقسم  ہو گیا ہے۔

اس ٹوٹ پھوٹ  کا ہی نتیجہ ہے کہ ہمارے بیچ کے کئی  لوگ عام انسانی اقدار سے بھی بالاتر ہو چلے ہیں۔انفیکشن کے خوف سے گھبرائے ہوئےیہ لوگ جہاں اپنے متاثرہ رشتہ داروں سے ان کے آخری وقت تک میں آنکھیں پھیر رہ رہے ہیں، اس قدر کہ کئی  جانیں گنوانے والوں کی پروقار طریقے سےآخری وداعی بھی نہیں ہو پا رہی، وہیں خون کے رشتوں کی بھی کوئی اہمیت نہیں بچنے دے رہے۔

جن ستا آن لائن کی ایک خبر کے مطابق پچھلے دنوں اتر پردیش کے کانپور نگر کے کینٹ تھانہ حلقہ میں ایک بیٹا اپنی ماں کے متاثر ہوتے ہی اسے بہانے سے لے جاکر بہن کے گھر کے باہر سڑک پر چھوڑ آیا۔ اس ماں کی بےحس  بیٹی اور داماد نے بھی اس کی کوئی مدد نہیں کی، جس کی وجہ سے وہ تیز بخار کی حالت میں شدیدگرمی میں سڑک پر ہی پڑی رہی۔

سوشل میڈیا پر اس کا ویڈیو وائرل ہوا تو چکیری تھانے کی پولیس نے اسے لے جاکر اسپتال میں بھرتی کرایا۔ لیکن انہیں بچایا نہیں جا سکا اور موت کے بعد کوئی اس کی لاش لینے اسپتال بھی نہیں آیا۔دوسری طرف گزشتہ آٹھ مئی کو این ڈی ٹی وی انڈیا نےخبر دی کہ حیدرآباد میں شاردا نام کی خاتون کو اس کے بھائیوں نے محض انفیکشن کے شبہ میں گھر سے نکال دیا اور بھول گئے کہ ہر سال رکشا بندھن کے موقع  پر راکھی بندھواتے ہوئے اسے رکشا (حفاظت)  کا وچن دیتے رہے ہیں۔

اس مشکل وقت میں سرکاروں کی کاہلی تو اپنی جگہ پر ہے ہی، لوگوں کا یوں آدمیت سے بالاترہوتے جانا بھی کچھ کم المیہ کو جنم نہیں دے رہا۔ متاثرین کی پریشانیوں میں تو وہ کئی گنااضافہ کر رہا ہے۔

سینئر کالم نگار ویدپرتاپ ویدک نے اپنے ایک تبصرے میں اس کا ذکر کرتے ہوئے لکھا ہے کہ کچھ رہنما من کی باتیں ملور رہے ہیں، کچھ منھ کی باتیں پھینٹ رہے ہیں، لیکن کام کی بات کوئی نہیں کر رہا۔ملک کی سیاسی پارٹیوں کے لگ بھگ 15کروڑ ممبر اپنے اپنے گھروں میں بیٹھ کر مکھیاں مار رہے ہیں۔ خود کو مذہبی، ثقافتی اور سماجی خدمت گار کہنے والی تنظیم بھی گھروں میں دبکی ہوئی ہیں… ان کے برعکس، چھٹ پٹ ڈھنگ سے اورمقامی سطح  پر کچھ پرجوش کارکن انسانی خدمات  کے لیےپیش قدمی کر رہے ہیں۔

مثلاً،ممبئی کے شاہنواز شیخ اپنی22 لاکھ روپے کی کار بیچ کر اس کے پیسے سے ضرورت مندوں کو آکسیجن دستیاب کرا رہے ہیں۔ جودھپور کے نرمل گہلوت نے برائے نام فیس پرسانس بینک بنا دیا ہے، تو ایک گمنام کسان نے اپنےتین منزلہ گھر کو ہی اسپتال بنا دیا ہے۔

یہی کام کئی گرودوارے اور مسجدیں بھی کر رہی ہیں۔ ان کے لنگروں سے کئی  ضرورت مندوں کو مفت کھانا دستیاب کرایا جا رہا ہے اور اس کام میں وہ  کسی ذات ، مذہب یا زبان کی تفریق  نہیں کر رہے۔

خبروں کے مطابق، غازی آباد کے اندراپورم میں ایک گرودوارے میں کورونا مریضوں کے لیے‘آکسیجن لنگر’چلایا جا رہا ہے، جس میں ایک بڑے سے ٹینٹ میں بیڈ، آکسیجن سیلنڈر اور کانسینٹریٹر کا انتظام ہے۔گرودوارہ کمیٹی اور خالصہ ہیلپ کی جانب  سے چلائے جارہے اس گرودوارے میں70سے زیادہ ایسے آکسیجن کے ضرورت مند مریض ہر روز آ رہے ہیں، جنہیں اسپتالوں میں جگہ نہیں مل پا رہی۔

اسی طرح ممبئی میں سنگھ سبھا کا گرودوارہ کورونا متاثرین کی مدد کا مرکز بنا ہوا ہے۔ کئی دیگر گرودوارے بھی مریضوں و ضرورت مندوں کو کھانا راشن اور آکسیجن مہیا کرا رہے ہیں۔

اس طرح کےانسانی ہمدردی سےبھرپوراقدامات کورونا کی پہلی لہر کے دوران بھی کچھ کم نہیں ہوئے تھے۔ لیکن دوسری لہر کے دوران اسے آگے بڑھانے کے سلسلے میں کئی ناموراورمالدارمندرتنظیموں، آریہ سماج، رام کرشن مشن اور آرٹ آف لیونگ جیسی تنظیموں کا بہ مشکل ہی کہیں نام آ رہا ہے۔

انسانیت،قومیت اور حب الوطنی کا نعرہ لگانے والی ثقافتی تنظیموں اور سیاسی پارٹیوں کو اس قدر لقوہ مار گیا ہے کہ وہ  قومی  پیمانے پر متحرک  ہی نہیں ہو رہے۔

یقیناًہمارے وہ رہنما جو انتخابات میں بھاشن جھاڑتے تھکتے نہیں ہیں، اس مشکل گھڑی میں حزب اقتدار اورحزب اختلاف  کافرق کیے بغیرمتاثرین کی تکلیفیں کم کرنے والی خدمات میں لگ  جاتے تو کئی متاثرین کی آکسیجن، انجکشن، بیڈ اور دوا وغیرہ کی پریشانیاں اتنی سنگین نہیں ہوتیں۔

کیونکہ سیاست کتنی بھی پٹری سے اتر چکی ہو، سرکاری عملہ اب بھی عوامی نمائندہ کی عام لوگوں جتنی نافرمانی نہیں کرتا اور مجبوری میں یا بغیر مرضی کے ہی صحیح، ان کی اٹھائی پریشانیوں پرنسبتاًجلدی اور زیادہ دھیان دیتا ہے۔

سیاسی پارٹیوں کے کارکن اور رہنما گھروں میں دبکے نہیں ہوتے اور ان کی سیاست ٹوئٹر یا لیٹر تک محدود نہیں رہ گئی ہوتی تو ابھی ایمبولینس، دوا، انجکشن، آکسیجن سلینڈر اور اسپتال میں بھرتی کے لیے لُوٹے جا رہے عام لوگوں کا حوصلہ بھی خاصا بلند ہوتا۔

وہ اس کے لیے مل کر آواز اٹھا رہے ہوتے تو سرکاروں کے لیے اس طرح غیرحساس  بنے رہنا ممکن نہیں ہوتا، نہ ہی آفت کو موقع  بنا لینے والے کالابازاریوں، ملاوٹ خوروں اور جمع خوروں کی اس طرح طوطی بول پاتی، جو ابھی اس قدر بول رہی ہے کہ وہ جب جہاں چاہتے ہیں، دوا کوزہر بنا دیتے ہیں اور جہاں چاہتے ہیں دارو کو۔

ابھی ہمارے رہنما کیا کر رہے ہیں، اس کی ایک مثال بہار کا وہ کانڈ بھی ہے، جس میں جن ادھیکار پارٹی کے رہنما پپو یادو نے گزشتہ سات مئی کو بی جے پی رہنما راجیو پرتاپ روڈی کے دفتر کا ویڈیو پوسٹ کرانکشاف کیا تھا کہ جہاں ایک جانب ایمبولینس کے فقدان میں متاثرین اسپتال نہیں پہنچ پا رہے، وہاں ایم پی فنڈ سے خریدی گئی درجنوں ایمبولینس ڈرائیوروں کے فقدان میں کھڑی کر رکھی گئی ہیں۔

انہوں نے مذکورہ ایمبولینس چلانے کے لیے ڈرائیور بھی لا کھڑے کیے تھے۔ اس کا نتیجہ یہ ہوا کہ بہار کی نتیش سرکار نے انہیں ایک پرانے معاملے میں کورٹ میں پیش کر بیرپور جیل بھیج دیا، جہاں انہیں پانی، واش روم اور کموڈ جیسی ضروری سہولیات کے لیے بھی بھوک ہڑتال کرنی پڑ رہی ہے۔

اس سے صاف ہے کہ مہاماری کے وقت بھی ہمارےرہنما کس طرح اکبر الہ آبادی کی‘رنج لیڈر کو بہت ہے مگر آرام کے ساتھ’ کو بامعنی بنانے میں مصروف ہیں۔

ہماری جیسی کسی بھی جمہوریت  میں امید کی جاتی ہیں کہ جب بھی کوئی مصیبت آئےگی،عوامی نمائندے اپنی عوام کے ساتھ کھڑے ہو ں گے اور اس کے کام آئیں گے۔ لیکن آج ہمارے زیادہ تر عوامی نمائندے اوررہنما بےحد شرمناک ڈھنگ سے اس امید کو ناامید کرنے میں لگے ہیں۔

نہ وہ حالات کی سنگینی سمجھ کر اپنے سیاسی مفادات  سے پرے جانے کو تیار ہیں، نہ ہی عام آدمی کےلیے اپنی بےدلی ختم کرنے کو۔

سرکاروں کی کاہلی پر تو عدلیہ  سخت تبصرہ کرتے ہوئے آکسیجن سپلائی نہ ہونے سے مریضوں کی جان جانے کو کسی قتل عام  سے کم نہیں مان رہی اور یہ تک کہہ رہی ہیں کہ سرکاریں اندھی ہوکر شترمرگ کی طرح ریت میں سر ڈال کر بیٹھی رہ سکتی ہیں، عدلیہ نہیں، لیکن عوامی نمائندہ  کو چننے والی عوام کورونا کے وقت میں بھی نہیں سمجھ پا رہی کہ انہیں اکاؤنٹ ایبل یعنی جوابدہ کیسے بنائیں۔

ایسے میں یہ امید بھلا کیسے کی جائے کہ ہم اور ہمارے رہنما وقت رہتے خود سے پوچھیں گے کہ آج جب ہم صدی کے سب سے بڑے بحران سے دو چار ہیں، کیا اس سے جوجھنا صرف ڈاکٹروں، نرسوں اور طبی اہلکاروں  کا ہی کام ہے، جن کی تعدادمجموعی طورپر زیادہ سے زیادہ60 لاکھ ہے؟

اگر نہیں تو ہم اپناانسان ہونا اس امتحان  کی گھڑی میں نہیں تو بھلا اور کب ثابت کریں گے؟ ہمارے حوصلےاور فیاضی  جیسےانسانی اقدار اگر آج نہیں، جب سرکاریں اور سسٹم فیل ہو گئی ہیں، تو کس دن کام آئیں گے؟

بلاشبہ، مرزا غالب نے ایسے ہی بحران کے وقت کہا ہوگا،

 بسکہ دشوار ہے ہر کام کا آساں ہونا

 آدمی کو بھی میسر نہیں انساں ہونا

(کرشن پرتاپ سنگھ سینئر صحافی  ہیں۔)