عالمی خبریں

افغانستان: شمالی اتحاد اور ہندوستان کے روابط کی کہانی

احمد شاہ مسعود کے ساتھ متواتر ملاقاتوں کے بعد متھو کمار نے نئی دہلی میں حکمرانوں کومتنبہ کیا تھا کہ کسی بھی صورت میں کبھی بھی افغانستان میں براہ راست مداخلت یا فوج بھیجنے کی غلطی نہ کی جائے۔ ہندوستان ابھی بھی اس پالیسی کو تھامے ہوئے ہے، کیونکہ افغان قوم غیر ملکی افواج کو اپنی زمین پر برداشت نہیں کرتی ہے۔

علامتی تصویر، فوٹو: رائٹرس

علامتی تصویر، فوٹو: رائٹرس

چھبیس (26)ستمبر، 1996کو جب طالبان نے برہان الدین ربانی اور احمد شاہ مسعود کی افواج کو شکست دےکر کابل پر قبضہ کرکے سابق صدر نجیب اللہ کو ہلاک کردیا، اس کے ایک ہفتے بعد تاجکستان کے دارالحکومت دوشنبہ میں رات گئے ہندوستانی سفیر بھرت راج متھو کمار کے گھر پر فون کی گھنٹی بجی۔

دوسری طرف معزول شدہ کابل انتظامیہ کے دوشنبہ میں نمائندے اور افغانستان کے موجودہ نائب صدر امر اللہ صالح لائن پر تھے۔ انہوں نے سفیر سے گزارش کی کہ’کمانڈر'(احمد شاہ مسعود) چند لمحے قبل دوشنبہ پہنچ گئے ہیں اور وہ ہندوستان کے سفیر سے ملاقات کرنا چاہتے ہیں۔

ویسے تو دوشنبہ میں موجود سبھی ممالک کے سفراء کابل کے حالات کسی عینی شاہد سے سننے کے لیے بے تاب تھے، مگر کمار نے میٹنگ کی حامی بھرنے سے قبل نئی دہلی میں سینئر حکام سے اجازت طلب کرنے کے لیے مہلت مانگی۔ اگلے ہی دن بذریعہ تار ایک مختصر سا جواب آیا کہ’غور سے سنو، ایمانداری کے ساتھ واپس رپورٹ کرو اور رول بک میں جائے بغیر اپنی صوابدید پر فیصلہ کرو۔’

بتایا گیا کہ وزیر خارجہ اندر کمار گجرال نے خود  اس ملاقات کی منظوری دی تھی۔لہذا اسی شام کو احمد شاہ مسعود دوشنبہ میں موجو داپنی رہائش گاہ کے ڈرائنگ روم میں خشک میووں اور چائے سے ہندوستانی سفیر کی تواضع کر کے ان کو بتا رہے تھےکہ طالبان کے خلاف جنگ میں ان کو ہندوستان  کی مدد درکار ہے۔ امراللہ صالح مسعود کی گفتگو کا انگریزی میں ترجمہ کر رہے تھے۔

یہ یقین کرنے کے لیے کہ صالح ترجمہ ایمانداری کے ساتھ کر رہے ہیں، ہندوستانی سفیر اپنے نائب ڈاکٹر ایس اے قریشی کو ساتھ لےکر گئے تھے، جو پشتو، دری اور فارسی بخوبی جانتے تھے۔ وہ ایک کونے میں گفتگو سن رہے تھے اور ان کو ہدایت تھی کہ غلط ترجمہ کی صورت میں وہ سفیر کو بعد میں خبردار کردیں۔

اسی پہلی ہی میٹنگ میں مسعود نے اپنی چترالی ٹوپی میز پر رکھ کر سفیر کو بتایا کہ وہ اس ٹوپی کے برابر زمین بھی طالبان اور ان کے غیر ملکی اتحادیوں کو دینے کے روادار نہیں ہیں اور وہ افغانستان پر مکمل کنٹرول حاصل کرنے تک جدوجہد کرتے رہیں گے۔ متھو کمار نے واپس دہلی  پیغام بھیجا کہ شمالی اتحاد تو ہندوستان کی ہی جنگ لڑ رہا ہے، اس لیے ان کی حمایت کرنا ملکی مفاد میں ہے۔ ‘طالبان کے ساتھ جنگ کا مطلب پاکستان کے ساتھ جنگ ہے۔ یہ دراصل ہماری ہی جنگ ہے، جو احمد شاہ مسعود لڑ رہا ہے۔’

خیر دہلی نے شمالی اتحاد کی مدد کی حامی بھر لی او ر روس کی مدد سے تاجکستان میں فراخور اور بعد میں آئینی مستقر ہندوستانی فضائیہ کے لیے مہیا کئے گئے۔ مسعود کے مطالبات کی فہرست طویل ہوتی گئی، مگر ہندوستانی سفیر نے ان کو متنبہ کیا کہ نئی دہلی ایک حد تک ہی مدد کرسکتا ہے۔ متھو کمار نے اعلیٰ افسران کو ایک پیغام میں بالی ووڈ کا مشہور ڈائیلاگ بھیج کر یہ باور کرانے کی کوشش کی کہ شمالی اتحاد کو کامیابی کے لیے ہندوستان کی اشد مدد درکار ہے۔

سفیر نے پیغام دیا؛’ہم نے اس کو (احمد شاہ مسعودکو) لیکوڈ (مائع) آکسیجن میں ڈبو دیا ہے۔ لیکوڈ اس کو زندہ نہیں رہنے دےگا، آکسیجن اس کو مرنے نہیں دیگا۔’تب تک اندر کمار گجرال کا تختہ پلٹ گیا تھا اور وزیر اعظم اٹل بہاری واجپائی کی بھارتیہ جنتا پارٹی کی قیادت والی مخلوط حکومت بر سراقتدار آگئی تھی۔

اس حکومت میں وزیر خارجہ جسونت سنگھ تاجکستان سے آئے پیغامات کو خود ہی ڈیل کرتے تھے۔ ان کا حکم تھا کہ آدھی رات گئے بھی اگر کوئی پیغام آئے، تو ان کو جگا کر مطلع کیا جائے۔ بھاری ہتھیاروں کے بغیر ہندوستان نے توپ و مارٹروں کے لیے ایمونیشن، کشمیر کے عسکریت پسندوں سے ضبط کی گئی بندوقیں و کلاشنکوف و دیگر اسلحہ، گرم کپڑے، جوتے، ادویات وغیرہ کی ترسیل متواتر بذریعہ تاجسکستان روانہ کی۔ تاہم احمد شاہ مسعود کو رقوم لندن میں ان کے برادر ولی مسعود کے ذریعے پہنچائی جاتی تھی۔

تاجک کسٹم حکام فراخور سے افغانستان کی بارڈ کے اس پار ساز و سامان لے جانے میں مدد کرتے تھے۔مسعود کی افواج کے پاس 10ہیلی کاپٹر بھی تھے۔ جن کی مرمت اور پرزے مہیا کروانے کی ذمہ داری ہندوستان نے لی تھی۔ 1996سے 1999کے دوران بھارت نے دو ایم آئی۔8ہیلی کاپٹر شمالی اتحاد کو گفٹ کئے۔ لیکن شمالی اتحاد کیلئے سب سے اہم مدد فراخور میں ہندوستان کی طرف سے قائم ملٹری اسپتال تھا۔ جس پر ہندوستان نے 7.5ملین ڈالر کی خطیر رقم خرچ کی تھی۔ ا

س میں 30بیڈ کے علاوہ آٹھ مریضوں کے لیے آئی سی یو کی بھی سہولیت دستیاب تھی۔ اس اسپتال کے صحن میں ہی ایک ہیلی پیڈ بھی بنایا گیا تھا، تاکہ زخمیوں کو جلد علاج و معالجہ کی سہولیت فراہم کی جاسکے۔ جنوری 1999میں ویت نام کے دورہ سے واپسی پر وزیراعظم واجپائی کے اصرار پر تاجکستان کے صدر ایمامولی رحمون دہلی میں لنچ کے لیے رکے۔

واجپائی نے ان سے فراخور کے علاوہ آئینی فضائی مستقر ہندوستان کو دینے کی گزارش کی جو منظور کی گئی۔ یہ ہوائی اڈہ سویت یونین کے دور میں خاصی اہمیت کا حامل تھا، مگر اس کا اب کوئی پرسان حال نہیں تھا۔ گو کہ ہندوستان نے اس بیس پر اپنے جہاز تو نہیں رکھے ہیں، مگر وہاں ایک گروپ کیپٹن اور چار دیگر افسران کو متعین کیاہوا ہے۔

فراخور کے ہی اسپتال میں احمد شاہ مسعود نے 9ستمبر 2001کو آخری سانس لی۔ افغانستان کے تکہار صوبہ کے خواجہ بہاوالدین میں جب مسعود پر خود کش حملہ کیا گیا تو ہیلی کاپٹر میں ان کو فراخور کے ہندوستانی اسپتال ہی لے جایا گیا۔ بتایا جاتا ہے کہ ان کی موت ہیلی کاپٹر میں ہی واقع ہوئی تھی اور ہندوستانی ڈاکٹرو ں نے اس کی بس تصدیق ہی کی۔

تب تک متھو کمار دوشنبہ سے ٹرانسفر ہوکر بیلا روس کے دارالحکومت منسک پہنچ گئے تھے۔امر اللہ صالح نے ان کو فون پر مسعود پر حملہ سے آگاہ کرکے مدد کی درخواست کی۔ اسی دن متھو کمار شادی کے بندھن میں بندھنے والے تھے اور تقریب کا اہتمام کیا گیا تھا۔ مہمان وغیرہ آچکے تھے، کہ یہ خبر سن کر کوئی وجہ بتائے بغیر انہوں نے تقریب منسوخ کردی۔

اس کے کئی روز بعد مسعود کی ہلاکت کا اعلان کیا گیا۔ افغانستان پر امریکی فوج کشی کے بعد فراخور میں موجود اس اسپتال کو بند کرکے مزار شریف منتقل کردیا گیا۔

اپنی موت سے پانچ ماہ قبل احمد شاہ مسعود چار روزہ دورہ پر نئی دہلی وارد ہو گئے تھے۔ ان کا یہ دور انتہائی خفیہ رکھا گیا تھا۔ اپنی کتاب اے کال ٹو آنر میں جسونت سنگھ رقم طراز ہیں کہ یہ دورہ نہایت حساس تھا۔ ان کا کہنا تھا کہ شمالی اتحاد کو ہندوستانی مدد کے کئی اسرار ابھی بھی پردہ راز میں ہیں۔

متھو کمار کے مطابق احمد شاہ مسعود طالبان سے زیادہ غیر ملکی عسکریوں سے نفرت کا اظہار کرتے تھے۔ ان کا کہنا تھا کہ افغانستان کا پورا مسئلہ ہی غیر ملکیوں کی موجودگی کی وجہ سے ہے اور ان کا مقصد ان کو باہر نکالنا ہے۔ مزار شریف میں1998میں طالبان کی طرف سے ایرانی سفارت کاروں کے قتل کے بعد ایران نے دو لاکھ 50ہزار فوج افغانستان کی سرحدوں پر جمع کی اور انہوں نے سفارت کاروں کے خون کا بدلہ لینے کے لیے فوج کشی کی پوری تیاری کر دی تھی۔

مگر ہندوستانی سفیر کے مطابق احمد شاہ مسعود کی مداخلت کی وجہ سے ہی ایران نے فوج کشی سے احتراز کیا۔ مسعود نے طہرا ن میں حکمرانوں تک پیغام پہنچایا کہ چونکہ وہ خود غیر ملکی عسکریوں سے بر سرپیکار ہیں، اس لیے وہ ایرانی مداخلت کی حمایت نہیں کر سکتے ہیں۔

احمد شاہ مسعود کے ساتھ متواتر ملاقاتوں کے بعد متھو کمار نے نئی دہلی میں حکمرانوں کومتنبہ کیا تھا کہ کسی بھی صورت میں کبھی بھی افغانستان میں براہ راست مداخلت یا فوج بھیجنے کی غلطی نہ کی جائے۔ ہندوستان ابھی بھی اس پالیسی کو تھامے ہوئے ہے، کیونکہ افغان قوم غیر ملکی افواج کو اپنی زمین پر برداشت نہیں کرتی ہے۔

مگر کیاامریکہ کی مدد کرکے اور بدستور اس کو اپنے ملک میں رہنے کی درخواست کرنے والے افغان حکمران بشمول امراللہ صالح اپنے استاد یا مربی احمد شاہ مسعود کا سبق بھول نہیں گئے ہیں؟  ان کے کردار اور امریکی آشیر واد کے اندر پنپتی اقربا پروری اور بد عنوانی کے ریکارڈ کو دیکھ کر کمانڈر کی روح تڑپتی ہوگی۔

کیاہی  اچھا ہوتا کہ طالبان سمیت افغانستان کے سبھی فریق اس ملک کے باسیوں کی فلاح و بہبود کے نام پر یکجا ہوکر واقعی اس ملک کو ایشاء کا دل و نقیب بنانے میں واقعی اپنا کردار ادا کریں۔