خبریں

پیگاسس متاثرہ صحافی کورٹ پہنچے، اسپائی ویئر کے استعمال پر سرکار کا پہلو رکھنے کی اپیل

اسرائیل کے این ایس اوگروپ کے پیگاسس اسپائی ویئر سےجاسوسی کےالزامات کے سامنے آنے کے بعد پہلی بار اس سے متاثرہ لوگوں نے سپریم کورٹ کا رخ کیا ہے۔صحافی پرنجوئے گہا ٹھاکرتا، ایس این ایم عابدی، پریم شنکر جھا، روپیش کمار سنگھ اور کارکن اپسا شتاکشی کی جانب سے سے یہ عرضیاں  دائر  کی گئی ہیں۔اس سے پہلےسینئر صحافی این رام اور ششی کمار نے بھی سپریم کورٹ میں پی آئی ایل  دائر کی تھی۔

(پرنجوئے گہا ٹھاکرتا، پریم شنکر جھا، ایس عابدی، روپیش کمار سنگھ اور اپسا شتاکشی)

(پرنجوئے گہا ٹھاکرتا، پریم شنکر جھا، ایس عابدی، روپیش کمار سنگھ اور اپسا شتاکشی)

نئی دہلی: ملک  کے چارصحافیوں اور ایک کارکن نے سپریم کورٹ میں عرضی  دائر کرکے کہا ہے کہ وہ مرکزی حکومت  کو پیگاسس اسپائی ویئر کے استعمال کو لےکر جانکاری دینے کی ہدایت  دیں۔

لائیولاء کی رپورٹ کے مطابق،صحافی پرنجوئےگہا ٹھاکرتا،ایس این ایم عابدی،پریم شنکر جھا، روپیش کمار سنگھ اور کارکن اپسا شتاکشی کا کہنا ہے کہ فارنسک جانچ میں تصدیق ہوئی ہے کہ پیگاسس اسپائی ویئر کے ذریعے ان کے فون کی ہیکنگ کی گئی تھی۔

صحافی ٹھاکرتا،عابدی اور جھا نے یکساں طرزپر تین الگ الگ عرضیاں  سپریم کورٹ میں دائر کی ہیں، جبکہ روپیش کمار سنگھ اور شتاکشی نے عدالت میں ایک عرضی  دائر کی ہے۔عرضی گزاروں  نے عدالت سے اپیل کی کہ وہ مرکزی حکومت کوعرضی گزار پر پیگاسس کے استعمال سے متعلق  سبھی طرح کی جانچ یااحکامات کی جانکاری سامنے رکھنے کی ہدایت  دے۔

انہوں نے اپنی عرضیوں  میں کہا ہے کہ سرکاری ایجنسیوں کےان اتھارائزڈسرولانس سے ان کے بنیادی حقوق کی خلاف ورزی ہوئی ہے،جس کی  ہمارے ہندوستانی آئین  میں ضمانت دی گئی ہے۔

ایسا پہلی بار ہوا ہے کہ پیگاسس سے ذاتی طور پر متاثرہ لوگوں نے سپریم کورٹ کا رخ کیا ہے۔ اس سے پہلے سینئرصحافی این رام اور ششی کمار نے پیگاسس اسپائی ویئرحملوں کی جانچ کے لیےسپریم کورٹ کے سامنے پی آئی ایل دائر کی تھی۔

چیف جسٹس این وی رمنا کی سربراہی  والی بنچ  پیگاسس معاملے سےمتعلق  تین الگ الگ عرضیوں  پر پانچ اگست کو شنوائی کرےگی۔ ان میں سینئر صحافی این رام اور ششی کمار کی عرضی  بھی شامل ہے، جس میں پیگاسس معاملے کی موجودہ یاسبکدوش جج سے آزادانہ جانچ کرانے کی گزارش  کی گئی ہے۔

پانچ صحافیوں کی جانب سے حال میں دائر کی گئی عرضیوں  میں عرضی گزاروں  کا کہنا ہے کہ ان کا ماننا ہے کہ حکومت ہند یا کسی  تیسرے فریق  نے ان کے فون کی سخت سرولانس اور ہیکنگ کی ہے۔عرضی  میں یہ بھی کہا گیا ہے کہ مرکزی حکومت نے ابھی تک اس سے انکار نہیں کیا ہے کہ انہوں نے اسرائیل کے این ایس او گروپ کے پیگاسس اسپائی ویئر کا استعمال نہیں کیا ہے۔

صحافی ٹھاکرتا کی عرضی  میں کہا گیا،‘حکومت  نے اس بات سے انکار نہیں کیا ہے کہ انہوں نے اسرائیل یا وہاں کے این ایس او گروپ سے پیگاسس اسپائی ویئر نہیں خریدا ہے۔’عرضی گزاروں کا کہنا ہے کہ غیرقانونی سرولانس کا ہماری اظہار رائے کی آزادی  کے بنیادی حق  پر منفی اثر پڑےگا۔ اس کے علاوہ پرائیویسی کے ان کے ذاتی حقوق  کی  بھی خلاف ورزی ہے۔

انہیں ڈر ہے کہ اس سے خبریوں اور وہسل بلوور سرکار کے غلط کام کو اجاگر کرنے سے گریز کریں گے۔ اس کے ساتھ ہی اس سے ملک  کےگورننس  میں شفافیت پر بھی منفی اثر پڑےگا۔

ٹھاکرتا کی عرضی  میں کہا گیا،‘جن لوگوں نے عرضی گزاروں کی ڈیوائس ہیک کی ہے، انہیں نہ صرف ان کی نجی زندگی  کی خفیہ  اور اندرونی  جانکاریاں حاصل  ہوئی ہیں، بلکہ ان کے خفیہ ذرائع  تک بھی ان کی پہنچ ہوئی ہے اور انہیں(عرضی گزار)کیا جانکاری  دی گئی، اس کی بھی جانکاری ہوئی ہے۔’

اس کے مطابق،‘عرضی گزارکو خدشہ  ہے کہ ان کے بنیادی حقوق کی خلاف ورزی کے نتیجے میں  ان کے کچھ ذرائع  کو اس کےمنفی انجام بھگتنے پڑیں گے اور پیگاسس اسپائی ویئر سےہندوستان  میں اظہاررائے  کی آزادی  کے حق  پر منفی اثر پڑےگا۔’

سینئرصحافی نے عدالت سے یہ بھی اپیل  کی کہ وہ مرکزی حکومت کو پیگاسس جیسے جاسوسی سافٹ ویئر یا سائبر ہتھیاروں سے ہندوستانی شہریوں  کو محفوظ  کرنے کے لیےمناسب قدم اٹھانے کی بھی ہدایت دے۔

عرضیوں میں فرانس کی صورتحال حال کی طرف بھی عدالت کی توجہ مبذول کرائی گئی، جہاں پر آفیشیل سائبر سیکیورٹی ایجنسی نے آن لائن ریسرچ پورٹل میدیاپار کےدو صحافیوں کی پیگاسس ہیکنگ کی تصدیق کی۔ عرضی میں یہ بھی کہا گیا کہ ہندوستان میں ابھی کوئی جانچ نہیں کی گئی اور حکومت ہند نے ابھی تک اس معاملے پر کوئی ردعمل نہیں دیا ہے۔

عرضی میں کہا گیا،‘حکومت ہندنے معاملے کی جانچ تو دور ابھی تک یہ بھی تسلیم نہیں کیا ہے کہ انہوں نے یا ان کی کسی ایجنسی نے پیگاسس مالویئر کبھی نہیں خریدایاملک کے صحافیوں، وکیلوں اور کارکنوں  کے خلاف کبھی اس کا استعمال نہیں کیا۔’

عرضی گزاروں نے عدالت سے اپیل کی ہے کہ وہ سرکار یا اس کی کسی ایجنسی کے ذریعے پیگاسس اسپائی ویئر کے استعمال کو غیرقانونی اورغیرآئینی قراردیں۔عرضی  میں عدالت سے گزارش  کی گئی ہے کہ وہ مرکزی حکومت  کو ضروری گائیڈ لائن جاری کرے تاکہ ہندوستانی شہریوں  کے پرائیویسی  کے حق کی حفاظت  کی جا سکے۔

عرضی گزاروں نے عدالت سے مرکزی حکومت کو یہ یقینی بنانے کی بھی ہدایت  دینےکی گزارش  کی ہے کہ پرائیویسی کی خلاف ورزی  اور ہیکنگ کی کسی بھی شکایت سے نمٹنے اور کسی بھی طرح کی خلاف ورزی  کے لیے سرکاری افسروں  کوسزادینے کے لیے جوڈیشیل نگرانی سسٹم  موجود رہے۔

گزشتہ  لگ بھگ ایک ہفتے سے ایک بین الاقوامی  میڈیا کنسورٹیم لگاتار پیگاسس سرولانس کو لےکر رپورٹ شائع کر رہا ہے۔ ان میں بتایا گیا کہ مرکزی وزیروں ،40 سے زیادہ صحافیوں، اپوزیشن رہنماؤں، ایک موجودہ جج، کئی کاروباریوں اور کارکنوں سمیت 300 سے زیادہ ہندوستانیوں  کےموبائل نمبر اس لیک کئے گئے ڈیٹابیس میں شامل تھے، جن کی پیگاسس سے ہیکنگ کی گئی یا وہ ممکنہ طور پرنشانے پر تھے۔

د ی وائر بھی اس کنسورٹیم کا حصہ ہے۔دی وائر نے فرانس کی غیرمنافع بخش فاربڈن اسٹوریز اور ایمنسٹی انٹرنیشنل سمیت دی واشنگٹن پوسٹ، دی گارڈین جیسے16دیگر انٹرنیشنل  میڈیااداروں کے ساتھ مل کر یہ رپورٹس شائع  کی ہیں۔

یہ جانچ دنیا بھر کے 50000 سے زیادہ لیک ہوئے موبائل نمبر پر مبنی تھی، جن کی اسرائیل کے این ایس اوگروپ کے پیگاسس اسپائی ویئر کے ذریعے جاسوسی کی جا رہی تھی۔ اس میں سے کچھ نمبروں کی ایمنسٹی انٹرنیشنل نےفارنسک جانچ کی ہے، جس میں یہ ثابت ہوا ہے کہ ان پر پیگاسس اسپائی ویئر سے حملہ ہوا تھا۔

(اس رپورٹ کو انگریزی میں پڑھنے کے لیےیہاں کلک کریں۔)