خبریں

کشمیر: آئینی سرجیکل اسٹرائیک کے دو سال

دو سال قبل یہ بھی بتایا گیا تھا کہ  پچاس ہزار نوکریاں فوری طور فراہم کی جائیں گی۔تاہم دوسال بعد صورتحال یہ ہے جموں وکشمیر میں بےروزگار نوجوانوں کی تعداد 6لاکھ سے زائد ہے جن میں ساڑھے تین لاکھ کشمیر اور تقریباًاڑھائی لاکھ جموں صوبہ سے تعلق رکھتے ہیں۔ایک طرف ترقی و خوشحالی کی باتیں ہورہی ہیں تو دوسری جانب عملی طور یہاں روزگار کے مواقع محدود کیے جارہے ہیں۔

فوٹو: رائٹرس

فوٹو: رائٹرس

دو سال قبل 5 اگست، 2019کووزیر اعظم نریندر مودی نے  ایک طرح سے آئینی سرجیکل اسٹرئیک کر کے ہندوستانی آئین کی دفعہ 370 اور دفعہ 35 اے کاالعدم کرکے جموں و کشمیر کی خصوصی آئینی حیثیت کو ختم کرنے کا تو اعلان کردیا، مگر اس سے ہندوستان  کو یا کشمیری عوام کو کیا حاصل ہوا، اس کا کوئی خاطر خواہ جواب حکومت کو سوجھ نہیں رہا ہے۔ خصوصی حیثیت کو ختم کرنے کے علاوہ ریاست کو تقسیم کرکے لداخ اور اور جموں اور کشمیرکو براہ راست نئی دہلی کے زیرانتظام کردیا گیا۔

ہندوستان کے سابق وزیر خارجہ یشونت سنہا کی قیادت میں حال ہی میں فکر مند شہریوں یعنی Concerned Citizens Groupکے چار رکنی وفد نے کشمیر کا دورہ کرنے کے بعد ایک رپورٹ جاری کی ہے، جس میں بتایا گیا کہ دو سال قبل جموں و کشمیر کو ضم کرنے کے وقت جو وعدے کیے گئے تھے وہ سب ہوا ہو گئے ہیں اور شاید ہی کسی وعدہ کو عملی جامہ پہنایا جا سکا ہے۔

اس وفد میں فضائیہ کے سابق نائب سربراہ کپل کاک، سماجی کارکن سوشوبھا بھاروے اور معروف صحافی بھارت بھوشن شامل تھے۔ یہ ا س گروپ کا کشمیر کا نواں دورہ تھا۔اس وفد کے مطابق اگست 2019میں اٹھائے گئے اقدامات کے خلاف اب لداخ اور جموں میں بھی عدم اطمینان تیزی سے پھیل رہا ہے اور ان علاقوں سے بھی اب کم از کم ریاستی درجہ کی واپسی کا مطالبہ شدت اختیار کرتا جا رہا ہے۔

رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ پچھلے دو سالوں سے رونما ہوئے واقعات کی وجہ سے کشمیر میں عوام سیاست سے متنفر ہو گئے ہیں۔ نو سیاسی پارٹیوں کی جو میٹنگ وزیر اعظم مودی نے دہلی میں بلائی تھی، اس کے متعلق عوام میں کوئی جوش و خروش نہیں تھا۔ مودی کا یہ کہنا کہ اس میٹنگ کے بعد دل سے دوری اور دہلی سے دوری کم ہو جائےگی، کشمیر میں مذاق کا موضوع بن چکا ہے۔

سول سوسائٹی کے ایک کارکن نے وفد کو بتایا کہ یہ دوری اب کئی صدیوں پر محیط ہو چکی ہے اور اس کو پاٹنا مشکل ہی نہیں بلکہ اب ناممکن ہے۔ اس وفد کے مطابق سب سے خطرناک پہلو کشمیر میں یہ ہے کہ لوگوں میں یہ بات گھر کر چکی ہے کہ اپنے خیالات کا اظہار کرنا ان کے لیے خطرناک ہے۔ اسی کے ساتھ عدالتی نظام سے عوام کا بھروسہ اٹھ چکا ہے۔

لوگ اب اپنے تنازعات کو نمٹانے کے لیے عدالتوں کا رخ نہیں کرتے ہیں۔ سیاستدان، عدالتیں، حتیٰ کہ آزادی پسند قیادت بھی اپنی افادیت عوام کی نظروں میں کھو چکی ہے۔ دور دور تک ہاتھ پکڑنے یا رہنمائی کے لیےکوئی نظر نہیں آرہا ہے، جو یقیناً ایک خطرنا ک رجحان ہے۔

دورہ کے دوران اس وفد کو تیکھے سوالات اور عوام کی ناراضگی کا بھی سامنا کرنا پڑا۔ کپل کاک کے مطابق ان سے سوال کیا گیا کہ جب کشمیریوں کے حقوق پر دن دہاڑے ہندوستانی  پارلیامان میں ڈاکہ پڑ رہا تھا تو ہندوستانی  سول سوسائٹی کہا ں تھی؟ وہ سڑکوں پر احتجاج کرنے کیوں نہیں اتری؟

یشونت سنہا کے بقول ان سے پوچھا گیا کہ کیا بھارت کے لبرل سیاستدان اور عوام اتنے ہندو انتہاپسندو ں کی مربی تنظیم راشٹریہ سیویم سیوک سنگھ یعنی آر ایس ایس اور اس کی سیاسی شاخ بھارتیہ جنتا پارٹی سے اتنے خوفزدہ ہیں؟ کئی افراد نے اس وفد سے بات کرنے سے ہی منع کردیا، جو کشمیریوں کی روایتی مہمان نوازی کے بالکل الٹ ہے۔

کئی افراد نے اس وفد کو بتایا کہ آر ایس ایس اپنا ہندوتو ایجنڈہ کشمیر پر لاگو کرنا چاہتی ہے، جو اس کا تہذیبی پروجیکٹ ہے۔ وہ پچھلے آٹھ سو سالوں کے مسلم کلچر کا ہر ایک نشان مٹانا چاہتی ہے۔ ان افراد نے بتایا کہ وہ آرایس ایس کی گیم کو اچھی طرح سمجھتے ہیں۔ ہندوستان کی دیگر ریاستوں میں انتخابات کے لیے کشمیر کا رڈ استعمال کرنا گویا ایسا ہو گیا ہے کہ اس خطہ کو ہندو توا کے لیے ایک لیبارٹری بنایا گیا ہے۔

کئی دانشورں نے اس گروپ کو بتایا کہ افغانستان سے امریکی افواج کے انخلا ء سےہندوستان  کے سیکیورٹی اداروں میں واضح پریشانی دیکھی جاسکتی ہے۔ ایک اور دانشور نے بتایا کہ 2019سے قبل، ہندوستان  کو صرف مسئلہ کشمیر سے واسطہ  تھا، مگر اب اس نے اپنے لئے کئی سردرد مول لیے ہیں۔

اس کے لیے اب لداخ میں کرگل اور لہیہ کے درمیان کشیدگی، اور جموں میں ہندو آبادی میں بڑھتی بے اطمینانی سے بھی نمٹنا پڑ رہا ہے۔ آبادیاتی تناسب کو بگاڑنے کا جو عمل مسلمان آبادی کو بے کس کرنے کے لیے شروع کیا گیا تھا وہ اب جموں کی ہندو آبادی، جو بی جے پی کا ووٹ بینک ہے، کو کھڑک رہا ہے۔

جو لوگ ہندوستان  کو دنیا میں ایک آئیڈیل کے بطور پیش کرتے تھے، وہ اس سے خطرہ محسوس کر رہے ہیں۔ ان کاخیال تھا کہ حکومتی اعداد شمار کے مطابق پچھلے دو سالوں سے عسکریت پسندوں کی تعداد 200کے لگ بھگ بتائی جار ہی ہے۔ آخر سات لاکھ افواج ان سے نمٹنے میں ناکام کیوں ہے؟

سوپور میں ایک انجینئر نے اس وفد کو بتایا کہ 2019سے قبل ہندوستان کے تئیں اس کا رویہ دیگر اس کے ہم جماعتوں اور دوستوں کے مقابلے نرم اور ہمدردی کا تھا۔اس کا خیال تھا کہ ہندوستان  ایک بڑا  اور پاکستان کے مقابلے وسائل سے مالا مال ملک ہے اور اس میں کشمیریوں کو پھلنے پھولنے کے لیے زیادہ گنجائش ہے۔”مگر اب لگتا ہے کہ ہمیں دھوکہ دیا گیا ہے۔

آخر اپنے آپ کو جمہوری ملک کہلوانے والا کس طرح ہم سے پوچھے بغیر اتنا بڑا فیصلہ کرسکتا ہے؟ کشمیر میں اب کوئی ہند نواز نہیں ہے۔“ان کو بتایا گیا کہ کشمیر اب  ایک آرویلین ریاست  بن چکی ہے، جہاں کچھ جانور وں کو زیادہ حقوق حاصل ہیں۔ وگرنہ سبھی کو جانوروں کی طرح ہانکا جا رہا ہے۔

ویسے تو کشمیر پر پچھلی چار صدیوں سے غیر ریاستی گورنروں کے ذریعے حکومت کی جا ررہی ہے، مگر یہ احساس اب زیادہ شدت اختیار کرتا جا رہا ہے۔ چونکہ مقامی افسر شاہی میں کشمیری مسلمانوں کی نمائندگی برائے نا م ہے، اسی لیے اب سیاسی حکومت کی عدم موجودگی کی وجہ سے باہر سے افسروں کو حکومتی نظام چلانے کے لیے لایا گیا ہے۔

یہ وفد گاندربل میں سجاد رشید صوفی سے ملا، جس کو صرف اس بات پر گرفتار کیا گیا تھا کہ اس نے ایک عوامی دربار میں گورنر کے مقامی کشمیری مشیر کو بتایا کہ ان کی توقعات اس سے وابستہ ہیں نہ کہ اس کے ساتھ آئی ہوئی غیر ریاستی ڈپٹی کمشنر سے۔ بس اس ڈپٹی کمشنر نے اپنے دفتر واپس پہنچتے ہی اس کی گرفتاری کے احکامات دیے۔

اس وفد کو بتایا گیا کہ سیاسی حکمران بھی انتہائی کرپٹ ہوتے تھے، پیسے کے بغیر کام نہیں ہوپاتے تھے، مگر اب ریکارڈ ٹوٹ چکے ہیں۔ کسی احتساب کی عدم موجودگی کی وجہ سے لوٹ کھسوٹ انتہا تک پہنچ چکی ہے۔ کشمیر اکانومک کونسل کے مطابق پچھلے 23ماہ میں لاک ڈاؤن کی وجہ سے 70ہزار کروڑ روپے کا نقصان ہوا ہے۔ اس میں 50ہزار کروڑ بزنس بند ہونے کی وجہ سے اور پھر 20ہزار کروڑ عوام میں قوت خرید کم ہونے کی وجہ سے ہوا۔

بزنس کے لیے حالات دگرگوں ہے۔ بینک اب تاجروں پر بھروسہ نہیں کرتے ہیں۔ اس پر طرہ کہ جموں و کشمیر بینک پرانے قرضوں کی وصولی کے لیے لوگوں کے دکان و مکان قرق کر رہا ہے۔ 2019-20میں 30سے 40فیصد سیب کی پیداوار خراب ہو گئی۔ چونکہ ہارٹی کلچر ریاست کی اقتصادیات کی ریڑھ کی ہڈی کا درجہ رکھتا ہے اس لیے اس سے مقامی اقتصادیات بری طرح متاثر ہو ئی ہے۔

دو سال قبل یہ بھی بتایا گیا تھا کہ  پچاس ہزار نوکریاں فوری طور فراہم کی جائیں گی۔  تاہم دوسال بعد صورتحال یہ ہے جموں وکشمیر میں بےروزگار نوجوانوں کی تعداد 6لاکھ سے زائد ہے جن میں ساڑھے تین لاکھ کشمیر اور تقریباًاڑھائی لاکھ جموں صوبہ سے تعلق رکھتے ہیں۔ایک طرف ترقی و خوشحالی کی باتیں ہورہی ہیں تو دوسری جانب عملی طور یہاں روزگار کے مواقع محدود کیے جارہے ہیں۔

گزشتہ دو برس سے جاری لاک ڈاؤن کی وجہ سے نجی سیکٹر میں پہلے ہی رجسٹرڈ 5لاکھ لوگ نوکریوں سے ہاتھ دھو چکے ہیں اور یوں بےروزگاروں کی فوج میں مزید اضافہ ہوا ہے۔ کشمیر کی روایتی صنعتیں بھی دم توڑ رہی ہیں جن میں دستکاری،کشیدہ کاری،پیپر ماشی،کانی شال،نوربافی،قالین بافی،سوزنی کاری سمیت دیگر کئی مروجہ ہنر شامل ہیں  نابود ہورہی ہیں۔

ایک کمیونٹی لیڈر نے اس وفد کو بتایا کہ نوجوانوں میں عسکریت جوائن کرنے کا رجحان بڑھ رہا ہے۔ ان کی شکایت تھی کہ پاکستان عسکریت کو حمایت دینے سے گریزاں ہے اور اس کے بدلے چونکہ دیگرمحاذ پر بھی کوئی پیش رفت نظر نہیں آتی ہے، اس وجہ سے پاکستان کے تئیں ناراضگی پھیل رہی ہے۔

پلوامہ کے ایک سوشل ورکر نے بتایا کہ آرمی کے ہاتھوں پریشان حال جوانوں کے لیے بس دو ہی آپشن بچے ہیں کہ یا تو خودکشی کریں یا عسکریت جوائن کریں۔ معلوم ہوا کہ کشمیر میں حالیہ عرصے سے خود کشیوں کے رجحان میں اضافہ ہوا ہے، جو یقیناً تشویش ناک صورت حال ہے۔

کشمیریوں کو ایک خول میں بند کرنے کی سمت میں اب خبریں اڑائی جا رہی ہیں کہ پاکستان میں زیر تعلیم کشمیری  طالب علم بنیاد پرستی اور انتہا پسندی کی طرف مائل ہو رہے ہیں، اس لیے ان کا قافیہ تنگ کیا جا رہا ہے۔ وفد کو لوگوں نے بتایا کہ کشمیر میں انتہا پسندی کے رجحان کا پروپیگنڈہ کیا جا رہا ہے، مگر خود ہندوستان میں جس قسم کی انتہا پسندی پھیل رہی ہے، تو پورے خطے کے لیے سم قاتل ہے۔