خبریں

گائے کو قومی جانور قرار دینے کے لیے قانون بنے، یہ بنیادی حق میں شامل ہو: الہ آباد ہائی کورٹ

گئو کشی کے ملزم کی ضمانت عرضی کو خارج کرتے ہوئے الہ آباد ہائی کورٹ کے جج شیکھر کمار یادو نے کہا کہ جب گائے کی فلاح ہوگی،تبھی ملک کی ترقی ہوگی۔انہوں نے یہ بھی کہا کہ سائنسدانوں کا خیالتھا کہ گائے واحد جانور ہے، جو آکسیجن لیتی اور چھوڑتی ہے۔

علامتی تصویر، فوٹو: پی ٹی آئی

علامتی تصویر، فوٹو: پی ٹی آئی

نئی دہلی: الہ آباد ہائی کورٹ نے گئو کشی کے ایک معاملے کی شنوائی کرتے ہوئے بدھ کو کہا کہ پارلیامنٹ کو گائے کو‘قومی جانور’قرار دینے کے لیے قانون بنانا چاہیے اور گائےکو بنیادی حقوق  کے دائرے میں شامل کرنا چاہیے۔

جج شیکھر کمار یادو نے عرضی گزار جاوید کی ضمانت عرضی خارج کرتے ہوئے یہ تبصرہ  کیا۔ جاوید پر الزام ہے کہ انہوں نے اپنے دوسرےساتھیوں کے ساتھ مل کرکھلیندر سنگھ کی گائے چرائی اور اس کو ذبح کر دیا۔

عرضی گزار کے وکیل نے دلیل دی کہ جاوید بے قصور ہیں اور ان پر لگائے گئے الزام جھوٹے ہیں اور ان کے خلاف پولیس سے مل کر جھوٹا مقدمہ درج کرایا گیا ہے۔ جاوید آٹھ مارچ سے جیل میں بند ہیں۔

سرکاری وکیل نے ضمانت عرضی کی یہ کہتے ہوئے مخالفت کی کہ عرضی گزار کے خلاف لگائے گئے الزام صحیح ہیں اور ملزم کو ٹارچ کی روشنی میں دیکھا اور پہچانا گیا۔

انہوں نے کہا کہ ملزم جاوید، شریک ملزم شعیب، ریحان، ارکان اور دو تین نامعلوم  لوگوں کو گائے کو ذبح  کرکےگوشت  اکٹھا کرتے ہوئے دیکھا گیا۔ یہ لوگ اپنی موٹر سائیکل موقع پر چھوڑکر بھاگ گئے تھے۔

بار اینڈ بنچ کی رپورٹ کےمطابق،گائے کی حفاظت  کا کام صرف ایک مذہب اور طبقہ  کا نہیں ہے، گائے ہندوستان  کی ثقافت  ہے اور اس  کو بچانے کا کام  ملک میں رہنے والے ہر شہری  کا ہے چاہے وہ کسی بھی مذہب  کا ہو۔

عدالت نے اپنے فیصلے میں کہا، ‘جب گائے کی فلاح  ہوگی، تبھی ملک  کی فلاح  ہوگی۔’

جج نے دعویٰ کیا کہ ہندوستان واحد ایسا ملک ہے جہاں الگ الگ طبقوں  کے لوگ رہتے ہیں، لیکن وہ سب ملک  کے بارے میں ایک ہی طرح سوچتے ہیں۔

جج نے کہا،‘ایسے میں جب ہر کوئی ہندوستان  کو متحد کرنے اور اس کے عقیدے کی حمایت میں  ایک قدم آگے بڑھاتا ہے تو کچھ لوگ جن کاعقیدہ  اوریقین ملک کے مفادمیں بالکل بھی نہیں ہے، وہ ملک  میں اس طرح کی بات کرکے ہی ملک کو کمزور کرتے ہیں۔ مذکورہ حالات کو دیکھتے ہوئے عرضی گزار  کےخلاف پہلی نظر میں جرم ثابت  ہوتا ہے۔’

عدالت نے مزید کہا، ‘ملزم کو ضمانت دینے سے ہم آہنگی پر اثرپڑ سکتا ہے۔عرضی گزار کا یہ پہلا جرم  نہیں ہے۔ اس سے پہلے بھی اس نے گئو کشی کی تھی، جس سے سماجی ہم آہنگی بگڑ گئی تھی۔ اگر ضمانت پر رہا ہوا تو ملزم پھر سے وہی جرم  کرےگا۔’

جج نے یہ بھی کہا کہ صوبے میں گئوشالاؤں کو ٹھیک سے نہیں رکھا جا رہا ہے۔ سرکارگئوشالائیں بنواتی بھی ہے، لیکن جن لوگوں کو گائے کی دیکھ بھال کرنی ہوتی ہے، وہ ان کی دیکھ بھال نہیں کرتے ہیں۔ اسی طرح سے نجی گئو شالائیں بھی آج ایک دکھاوا بن کر رہ گئی ہیں، جس میں لوگ گائے کو بڑھاوا دینے کے نام پر عوام  سے چندہ اور سرکار سے مدد لیتے ہیں، لیکن اپنے مفاد کے لیے خرچ کرتے ہیں، گائے کی پرواہ نہیں کرتے ہیں۔

عدالت نے آگے کہا، ‘ہندوستانی تہذیب میں گائے کی ایک اہم جگہ  ہے اورگائے کو ہندوستان میں ماں کے روپ میں جانا جاتا ہے۔ وید، پران، رامائن وغیرہ میں گائے کی بڑی اہمیت بتائی  گئی ہے۔ اسی وجہ  سے گائے ہماری تہذیب کی بنیاد ہے۔’

عدالت نے کہا، ‘گائے کی اہمیت کو صرف ہندوؤں نے سمجھا ہو، ایسا نہیں ہے۔ مسلمانوں نے بھی گائے کو ہندوستانی تہذیب کا اہم  حصہ مانا اور مسلم حکمرانوں نے اپنےدور حکومت  میں گئو کشی  پر پابندی لگائی تھی۔’

لائیولاء کی رپورٹ کے مطابق، جج نے کہا، ‘پانچ مسلم حکمرانوں نے گئو کشی پر پابندی  لگا دی تھی۔ بابر، ہمایوں اور اکبر نے بھی اپنے مذہبی  تہواروں میں اس کی قربانی  پر روک لگا دی تھی۔ میسور کے نواب حیدر علی نے گئو کشی کو جرم بنا دیا تھا۔’

عدالت نے کہا، ‘ہمارے ملک میں ایسی سینکڑوں مثالیں  ہیں کہ جب بھی ہم اپنی تہذیب کو بھولے تو باہر والوں  نے ہم پر حملہ  کرکے ہمیں غلام بنا لیا اور آج بھی اگر ہم نہیں جاگے تو ہمیں طالبان کے سفاکانہ حملےاور افغانستان پر قبضے کو نہیں بھولنا چاہیے۔’

عدالت نے کہا، ‘کورٹ نے نوٹ کیا کہ کیسےدستورسازاسمبلی کےمباحثوں کے دوران یہ بحث ہوئی کہ گائے کی حفاظت کو ایک بنیادی حق بنایا جائے، لیکن ایسا ہوا نہیں بلکہ آئین  کے آرٹیکل 48 میں گئو کشی پر روک کو مرکز کی فہرست  میں رکھنے کے بجائے صوبے کی فہرست میں رکھ دیا گیا اور یہی وجہ  ہے کہ آج بھی ہندوستان  کے کئی صوبے ایسے ہیں جہاں گئو کشی پر روک نہیں ہے۔’

جج نے کہا، ‘گائے کو آئین کے پارٹ3 کے تحت بنیادی حقوق  کے دائرے میں لایا جائے۔’

عدالت نے کہا، ‘موجودہ مقدمے میں گائے کی چوری کرکے اس کو ذبح کیا گیا ہے، جس کا سر الگ پڑا ہوا تھا اورگوشت بھی رکھا ہوا تھا۔بنیادی حق صرف گائے کا گوشت  کھانے والوں کاخصوصی اختیار نہیں ہے۔ جو لوگ گائے کی پوجا کرتے ہیں اور مالی طور پراس پر منحصر ہیں، انہیں بھی بامعنی زندگی جینے کا حق  ہے۔ گائے کا گوشت  کھانے کا حق  کبھی بنیادی حق نہیں ہو سکتا۔’

عدالت نے کہا کہ صدق دل  سے گائے کی حفاظت  اور اس کی دیکھ بھال کرنے کی ضرورت ہے۔ سرکار کو بھی اس پر سنجیدگی سے غور کرنا ہوگا۔

عدالت نے کہا کہ سرکار کو ایسے لوگوں کے خلاف بھی قانون بنانا ہوگا جو جھوٹے طور پر گائے کی حفاظت کی بات گئو شالہ بناکر کرتے تو ہیں، لیکن گئو رکشا سے ان کا کوئی سروکار نہیں ہے اور ان کاواحد مقصد اس کے نام پر پیسہ کمانے کا ہوتا ہے۔

لائیو لاء کی رپورٹ کےمطابق، جج شیکھر کمار یادوکے فیصلے میں یہ بھی کہا گیا ہے کہ سائنسدانوں کا ماننا تھا کہ گائے واحد جانور ہے جو آکسیجن لیتی اور چھوڑتی ہے۔

بتا دیں کہ جون، 2020 میں اتر پردیش اسمبلی نے ایک آرڈیننس پاس  کیا تھا، جس میں گئو کشی کے لیےزیادہ سے زیادہ 10 سال کی قید  اور 5 لاکھ روپے تک کے جرما نے کا اہتمام  تھا۔

اکتوبر2020 میں الہ آباد ہائی کورٹ کی ایک دوسری بنچ نے پایا تھا کہ صوبے کے گئو کشی قانون کا باربار غلط استعمال  ہونے کا خطرہ  تھا۔ کئی مواقع پر عدالت نے کہا ہے کہ ایک ملزم کے قبضے میں پائے گئے گوشت کو بنا کسی جانچ کے بیف مانا جاتا تھا۔

پچھلے کچھ سالوں میں ہندوستان  کے کئی علاقوں میں جانوروں کی تجارت یا جانوروں کی کھال کا کام کرنے والے مسلمانوں اورپسماندہ کمیونٹی  کے لوگوں کو خود کوگئورکشک کہنے والے لوگوں نے شدید طور پر تشدد کا نشانہ بنایا ہے۔

(خبررساں  ایجنسی بھاشاکے ان پٹ کے ساتھ)