خبریں

کرناٹک بی جے پی نے حجاب کے سلسلے میں عدالت کا رخ  کرنے والی لڑکیوں کی ذاتی تفصیلات ٹوئٹر پر شیئر کی

بی جے پی کی کرناٹک یونٹ نے انگریزی اور کنڑ زبانوں میں ایک ٹوئٹ کرکے حجاب کےسلسلے میں  عدالت جانے والی طالبات کی ذاتی تفصیلات شیئر کر دی تھیں، جس میں ان کے نام، پتے اور ان کےاہل خانہ کے نام کے ساتھ ذاتی تفصیلات  شامل تھیں۔ تاہم اس تنازعہ کے بعد انہیں ٹوئٹر سے ہٹا دیا گیا۔

حجاب پہننے کی حمایت میں احتجاجی مظاہرہ۔ (فائل فوٹو: پی ٹی آئی)

حجاب پہننے کی حمایت میں احتجاجی مظاہرہ۔ (فائل فوٹو: پی ٹی آئی)

نئی دہلی : بی جے پی کی کرناٹک یونٹ نے مبینہ طور پر اُڈوپی کی ان لڑکیوں کے پتے کے ساتھ ذاتی معلومات شیئر کر دی تھیں ، جنہوں نے کلاس میں حجاب پہننے پر پابندی عائ کیے جانے کے خلاف کرناٹک ہائی کورٹ کا رخ کیا ہے۔

تاہم اس پر تنقید کے بعد بی جے پی نے انگریزی کے ساتھ کنڑ میں کیے گئے اس ٹوئٹ کو ہٹا دیا ہے۔

بی جے پی کرناٹک نے انگریزی میں ایک ٹوئٹ میں کانگریس کو نشانہ بناتے ہوئے کہا تھا، حجاب تنازعہ میں شامل یہ پانچوں لڑکیاں نابالغ ہیں۔ کیا کانگریس لیڈرسونیا، راہل اور پرینکا کا ان نابالغ لڑکیوں کا استعمال اپنے سیاسی طور پر بنے رہنے کے لیے کرنے کو لےکر  ان کے اندر کوئی احساس جرم  نہیں ہے؟ وہ الیکشن جیتنے کے لیے کتنے نیچے  جائیں گے؟ پرینکا گاندھی کے لیے کیا یہی ‘لڑکی ہوں، لڑ سکتی ہوں’کےمعنی  ہیں؟

پارٹی نے اس ٹوئٹ کے ساتھ ایک اسکرین شاٹ شیئر کیا، جس میں عدالت کا رخ کرنے والی  لڑکیوں کی ذاتی تفصیلات،نام، پتے اور ان کے اہل خانہ کے نام شامل تھے۔

پارٹی نے یہ ٹوئٹ کنڑ زبان میں بھی کیا تھا،  لیکن فی الحال ان دونوں ٹوئٹس کو ہٹا دیا گیا ہے۔ تاہم اس ٹوئٹ کےسامنے آنے اور اسے ہٹانے کے بعد بھی پارٹی کو تنقید کا نشانہ بنایا جا رہا ہے۔

دی نیوز منٹ کی رپورٹ کے مطابق ، کنڑ میں کیے گئے  ٹوئٹ کے مقابلے انگریزی میں کیا گیا ٹوئٹ زیادہ دیر تک عوامی رہا۔

انہیں ہٹائے جانے کے بعد ان ٹوئٹس کی جگہ لکھے گئے پیغام میں کہا گیا کہ ‘یہ ٹوئٹ ٹوئٹر کے قوانین کی خلاف ورزی کی وجہ سے اب دستیاب نہیں ہے۔ اس کے بارے میں مزید جانیں۔’

اطلاعات کے مطابق،کرناٹک بی جے پی کے صدر نلن کمارکٹیل نے بھی یہی ٹوئٹ شیئر کیا تھا،  لیکن اب ان کے اکاؤنٹ پر بھی یہی پیغام نظر آرہا ہے۔

حالاں کہ، ان ٹوئٹس کے بعد پارٹی کو تنقید کا سامنا کرنا پڑ رہا ہے۔ شیوسینا کی رکن پارلیامنٹ پرینکا چترویدی نے نابالغ طالبات کے نام اور پتے کو عام کرنے کو مجرمانہ فعل قرار دیا ہے۔

چترویدی نے بی جے پی کی کرناٹک یونٹ کے اس قدم کے خلاف سخت ردعمل ظاہر کرتے ہوئے ٹوئٹ کیا،بے شرم کرناٹک بی جے پی نے اپوزیشن پر حملہ کرنے کے لیے نابالغ لڑکیوں کاپتہ  شیئر کیا ہے۔ کیا آپ کو احساس ہے کہ یہ کتنا غیرحساس ، بیہودہ اور قابل رحم ہے؟ میں پولیس کے ڈائریکٹر جنرل کرناٹک اور ٹوئٹر انڈیا سے درخواست کرتی ہوں کہ وہ اس پر کارروائی کریں اور متعلقہ ٹوئٹ کو حذف کر دیں۔

اس کے ساتھ ہی انہوں نے اس معاملے میں حکومت ہند کی وزارت انفارمیشن ٹکنالوجی سے مداخلت کا بھی مطالبہ کیا۔ راجیہ سبھا رکن نے نیشنل کمیشن فار پروٹیکشن آف چائلڈ رائٹس سے بھی مطالبہ کیا کہ وہ اس معاملے کا فوراً نوٹس لے۔

چترویدی نے کہا، نابالغوں کا نام اور پتہ شیئر کرنا ایک مجرمانہ فعل ہے۔ یہ ناقابل قبول ہے۔

غور طلب ہے کہ حجاب کا تنازعہ سب سے پہلے اُڈوپی ضلع کے ایک سرکاری پری یونیورسٹی کالج میں اس وقت شروع ہوا  جب پچھلے سال دسمبر میں چھ لڑکیاں حجاب پہن کر کلاس میں آئیں اور ان کے جواب میں ہندو طالبعلم بھگوا پہن کر کالج آنے لگے۔

دھیرے دھیرےیہ تنازعہ  ریاست کے دیگر حصوں میں پھیل گیا، اورکئی مقامات پر تعلیمی اداروں میں کشیدگی پیدا ہوئی اور تشدد کے واقعات رونما ہوئے۔

 اس تنازعہ کے بیچ  ایک طالبہ نے کرناٹک ہائی کورٹ میں رٹ پٹیشن دائر کرکے کلاس روم کے اندر حجاب پہننے کا حق دینے کی درخواست  کی تھی۔

درخواست میں یہ اعلان کرنے کا مطالبہ کیا گیا ہے کہ حجاب پہننا آئین ہند کے آرٹیکل 14 اور 25 کے تحت ایک بنیادی حق ہے اور یہ اسلام کا ایک لازمی عمل ہے۔

حجاب کے معاملے کی سماعت  کر رہی کرناٹک ہائی کورٹ کی تین ججوں کی بنچ نے  10 فروری کو معاملے کے حل ہونے تک طالبعلموں سےتعلیمی اداروں کے احاطے میں مذہبی لباس پہننے پر اصرار نہ کرنے کے لیے کہا تھا ۔ اس فیصلے کے خلاف سپریم کورٹ میں درخواست دائر کی گئی ہے۔

اس کی فوری سماعت سے انکار کرتے ہوئے سپریم کورٹ نے گیارہ فروری کو کہا کہ وہ ہر شہری کے آئینی حقوق کا تحفظ کرے گی اور کرناٹک ہائی کورٹ کی ہدایت کو چیلنج کرنے والی عرضیوں پر ‘صحیح وقت’پر غور کرے گی۔جس میں طلباء سے تعلیمی اداروں میں  کسی بھی قسم کا مذہبی لباس نہیں پہننے کے لیے کہا گیا ہے۔

(خبر رساں ایجنسی بھاشا کے  ان پٹ کے ساتھ)