خبریں

کیا تفرقہ انگیز مواد کی وجہ سے ہی فیس بک نے رعایتی شرح پر بی جے پی  کے اشتہارات لگائے

بی جے پی حامی اور پولرائز کرنے والے اس کے مواد نے فیس بک کے الگورتھم پر سستی شرح پر اشتہارات حاصل کرنے میں مدد کی، جس کی وجہ سے بی جے پی  کی رسائی میں میں غیرمعمو لی  اضافہ ہوا۔

(تصویر: رائٹرس)

(تصویر: رائٹرس)

دی رپورٹرز کلیکٹو اور ایڈ واچ کے چار مضامین کی سیریز کا یہ آخری  حصہ ہے۔ پہلا، دوسرا اور تیسرا حصہ یہاں پڑھ سکتے ہیں۔

اکتوبر 2020 میں مشرقی ہندوستان کے صوبہ بہار کے اسمبلی انتخابات سے پہلے بھارتیہ جنتا پارٹی نے فیس بک پر ایک اشتہار شائع کیا، جس میں بالواسطہ طور پرحریف پارٹی راشٹریہ جنتا دل کے وزیر اعلیٰ کے امیدوار تیجسوی یادو پر ایک رہنما کے قتل میں رول  ہونے کا الزام لگایا گیا۔

اس اشتہار کی سرخی تھی؛ تیجسوی یادو نے راشٹریہ جنتا دل کے کارکن شکتی ملک کو دھمکی دی اور کہا، میں لالو پرساد یادو کا بیٹا اور نائب وزیر اعلیٰ رہا ہوں۔ اگر تم نے آواز اٹھائی تو میں تمہیں قتل کر دوں گا۔ دھمکی حقیقی تھی۔ شکتی ملک کو قتل کر دیا گیا۔

بہار پولیس کو بعد میں پتہ چلا کہ ملک کا قتل اس کے کاروباری حریفوں نے کیا ہے۔ لیکن صرف ایک دن میں فیس بک نے یہ اشتہار 150000-175000 بار دکھایا، بالخصوص بہار کے مرد ووٹروں کو۔

اس کے لیے بی جے پی نے فیس بک پر صرف 4250 روپے (56ڈالر)، یعنی  فی ویو 3 پیسے (ایک سینٹ سے کم) خرچ کیے، اور اسے وائرل کرانے میں کامیاب رہی۔

بی جے پی کے وائرل اشتہار میں الزام لگایا گیا  کہ الیکشن میں اپوزیشن پارٹی کے وزیر اعلیٰ کے عہدےکےدعویدار کا ایک لیڈر کے قتل میں رول  تھا۔ (بہ شکریہ: میٹا ایڈ لائبریری)

بی جے پی کے وائرل اشتہار میں الزام لگایا گیا  کہ الیکشن میں اپوزیشن پارٹی کے وزیر اعلیٰ کے عہدےکےدعویدار کا ایک لیڈر کے قتل میں رول  تھا۔ (بہ شکریہ: میٹا ایڈ لائبریری)

یہ کوئی واحد واقعہ نہیں ہے، جہاں بی جے پی انتہائی کم پیسوں میں ووٹروں تک اپنا پیغام پہنچانے میں کامیاب ہوئی۔ اس سیریز کے تیسرےحصے میں ہم نے یہ دکھایا ہے کہ بی جے پی کے لیے لگاتار کانگریس اور دیگر سیاسی جماعتوں کے مقابلے کم اشتہاری نرخ لگائے گئے، اس طرح اسے اپوزیشن کے مقابلے کم پیسوں میں زیادہ ووٹروں تک پہنچنے میں مدد ملی۔

سوال یہ ہے کہ فیس بک کا اشتہاری پلیٹ فارم بی جے پی کے حق میں کیوں ہے؟

اس سیریز کے تحت شائع ہوئی  رپورٹس میں اس بات کا  انکشاف کیا گیا ہے کہ فیس بک کی انتظامیہ کے اندر لوگوں نے بھارتیہ جنتا پارٹی (بی جے پی) کی طرفداری کی، لیکن پلیٹ فارم پر اشتہارات میں بی جے پی کو جو فائدہ ملا وہ کمپنی کے اندر کسی ایک یا چندافراد  کی وجہ سےنہیں ہو سکتا۔

اب تک رپورٹ نہیں کیے گئے شواہد ہمیں دکھاتے ہیں کہ بی جے پی کے اشتہارات کو ملنے والے فائدےکی  ممکنہ وجہ فیس بک کے ریاضیاتی ماڈل (الگورتھم) میں مضمر ہے،جس کو  صارفین کو ان کی نیوز فیڈ پر مصروف رکھنے کے لیے ڈیزائن کیا گیا ہے۔

فیس بک کی اشتہاری پالیسیوں سے پتہ چلتا ہے کہ کمپنی کے الگورتھم جو اشتہار کی فیس کا تعین کرتے ہیں وہ ان اشتہارات کے حق میں ہیں جن سے زیادہ ‘انگیجمنٹ’ یعنی لائیک، شیئرزیا تبصرے ملتے ہیں۔اس لیے اگر کسی سیاسی جماعت یا اس کے لیے پراکسی یا فرضی ناموں سے کام کرنے والے  ایڈورٹائزر نے خاطر خواہ اشتہارات دیےاور اکثر فیس بک پر انگیجمنٹ میں اضافہ کرنے والےجذباتی یا سیاسی مواد کے ساتھ جم کر تشہیر کی، تو یہ اشتہارات خودبہ خود  سستے پڑیں گے۔ وہیں اس کی طرح زیادہ رسائی حاصل کرنے کے لیےکسی  چھوٹی پارٹی کو زیادہ خرچ کرنا پڑے گا۔

اسی سسٹم نے سابق صدر ڈونالڈ ٹرمپ کو 2020 کے امریکی انتخابات میں جو بائیڈن کے مقابلے کم شرح پر اشتہارات دینےمیں مدد کی۔ ہندوستان میں اسی سسٹم  کا فائدہ بی جے پی کو ملتا نظر آرہا ہے۔

فیس بک پر بی جے پی کا زبردست دبدبہ ہے، جس کے فالوورز کی تعداد ہندوستان کی کسی بھی دوسری سیاسی جماعت سے زیادہ ہے۔  راست طور پر کہیں تو یہ سب سے زیادہ اشتہارات دیتی ہے۔ اس کے ساتھ ہی اس  پلیٹ فارم نے بی جے پی سے وابستہ گمنام اور سروگیٹ ایڈورٹائزر کو ہندوستانی انتخابی قانون اور اس کے اپنے رہنما خطوط کی خلاف ورزی کرتے ہوئے فیس بک پر پروپیگنڈہ کرنے کی اجازت دی۔

جیسا کہ ہم نے اس سیریز کے پہلے اور دوسرےحصے میں بتایا تھا کہ، ان سروگیٹ ایڈورٹائزر  کی بدولت انتخابات کے دوران بی جے پی کی وزیبلٹی تقریباً دوگنی ہوگئی،یہ وہ  اشتہارات تھے جن میں زیادہ تر غلط معلومات اور فرقہ وارانہ یا تفرقہ انگیز موادتھے۔

ماہرین کے مطابق، بی جے پی کی بالا دستی اور پولرائز کرنے والے اس کے مواد کی وجہ سے فیس بک کا ایڈورٹائزنگ الگورتھم اس کے اشتہارات کو انتہائی  کم شرح پر دکھائے گا۔ لیکن اس کے گمنام اور سروگیٹ  ایڈورٹائزر کا اثر اس سے کہیں زیادہ ہے، جس کی وجہ سے وہ اس شرح سےکافی نیچے ہوگاجس پر بی جے پی نے فیس بک پر اشتہارات کے لیے جگہ لی۔

بزنس ماڈل

ٹیلی ویژن اور پرنٹ میڈیا کے برعکس فیس بک کے پاس  ایڈورٹائزر کے لیے پہلے سے طے شدہ ریٹ کارڈ نہیں ہوتا۔ یہ ویوز پر مبنی  — یعنی فیس بک پر ٹارگیٹ کیے گئے  صارفین کے ایک گروپ کو اشتہار دکھانے کے موقع کی نیلامی کرتا ہے۔

فیس بک کے مطابق، اس کے الگورتھم دو چیزوں کی بنیاد پر اشتہارات  کی قیمت کا تعین کرتے ہیں، ٹارگیٹ آڈینس  کے دیکھنے کی قیمت کتنی ہے اور اشتہار کا مواد ان کے لیے کتنا ‘بامعنی’ ہے۔

اس آڈینس  کی تعریف ایڈورٹائزر کے ذریعہ منتخب کردہ ڈیموگرافی، رویے اور دیگرخصوصیات کی بنیاد پر کی جا سکتی ہے، یا ٹارگیٹیڈ نتائج حاصل کرنے کے لیے اسے وسیع پیمانے پر بھی بیان کیا جا سکتا ہے – مثلاً، 1000 ایپ ڈاؤن لوڈ کرنایاکسی  لنک پر دس لاکھ کلک۔ اس کے بعد فیس بک کے ذریعے صارفین کے بارے میں جمع کیے گئے ڈیٹا کی بنیاد پر ان پرعمل درآمد کیا جاتا ہے۔ ایڈورٹائزر فیس بک کو مطلوبہ آڈینس  کو تلاش کرنے کا کام سونپ سکتا ہے۔ یہ فیس بک کو ان کے لیے سب سے پرکشش پلیٹ فارم بنادیتا ہے۔

نیلامی کے دوران جب دو ایڈورٹائزرمخصوص خصوصیات کو ظاہر کرنے والے لوگوں کے گروپ کی ٹائم لائن میں داخل ہونے کا دعویٰ کرتے ہیں،تو اس میں سب سے زیادہ بولی لگانے والا جیت جاتا ہے۔ یہ سب سے مصروف گھنٹوں کے دوران اولا یا اوبر کی بڑھی ہوئی شرحوں کی طرح ہے،جب مانگ میں کمی آتی ہے، تب یہ ایڈورٹائزر کے لیے ‘ہیپی آور’ ہوجاتا ہے۔

لیکن جہاں تک فیس بک کا تعلق ہے،تو اس میں’کسی فرد کے لیے بامعنی اشتہارات، اس اشتہار کو پیچھے چھوڑ سکتے ہیں جس کی بولی زیادہ لگائی گئی ہو۔یہ جانکاری ایڈورٹائزر کے لیے فیس بک کے بزنس ہیلپ سینٹر کے پیج  پر دی گئی ہے۔

میٹا کے الگورتھم ان اشتہارات کوشرح میں چھوٹ دیتے ہیں جو اس کے خیال میں ہدف بنائے گئے صارفین کے لیے زیادہ 'بامعنی' ہوتےہیں۔ اس طرح یہ اشتہارات بہت سستے پڑتے ہیں۔ (ماخذ: میٹا بزنس ہیلپ سینٹرپیج)

میٹا کے الگورتھم ان اشتہارات کوشرح میں چھوٹ دیتے ہیں جو اس کے خیال میں ہدف بنائے گئے صارفین کے لیے زیادہ ‘بامعنی’ ہوتےہیں۔ اس طرح یہ اشتہارات بہت سستے پڑتے ہیں۔ (ماخذ: میٹا بزنس ہیلپ سینٹرپیج)

فیس بک کا الگورتھم کسی مواد کے بامعنی ہونے کا اندازہ ماضی میں کسی صارف کے ذریعےاس سے ملتے جلتے مواد کے لیے حاصل کیے گئے انگیجمنٹ کی بنیاد پر کرتا ہے۔

تمام سوشل میڈیا پلیٹ فارم اپنے صارفین کو ٹارگیٹیڈ اشتہارات فراہم کرتے ہیں۔ یہ ایک خوبی ہے جسے  ایڈورٹائزر پسند کرتے ہیں۔ اس سے فیس بک کے کاروبار کو بھی فائدہ ہوتا ہے، کیونکہ صارفین کو متوجہ کرنے والے اشتہارات  انہیں ٹائم لائن سے وابستہ  رکھتے ہیں۔ فیس بک اسے  ایڈورٹائزر اور صارفین دونوں کے لیےفائدے کے سودے کے طور پر پیش کرتا ہے۔

فیس بک اپنے سب سے بڑے کلائنٹ کو منظم طریقے سے رعایت دینے میں کوئی منفرد کام نہیں کر رہا ہے۔ بہت سے روایتی کاروباروں نے ہمیشہ سے ایسا کیا ہے۔ تو بہت سی جمہوریت میں فیس بک کی اشتہاراتی قیمتوں کی پالیسی پر سوال کیوں اٹھایا گیا ہے؟

لیکن ایک درست بزنس ماڈل کے طور پرسامنے آنے والی حکمت عملی جمہوریت کے لیے مسائل پیدا کر سکتی ہے، بالخصوص جب الگورتھم کی بنیادپرترجیح حاصل کرنے والے کلائنٹ جو پولرائزکرنے والے  پیغامات کی تشہیر کرنے  والی سیاسی پارٹی ہو۔

سابق سیاسی مشیراور’دی آرٹ آف کنجیورنگ الٹرنیٹ ریئلٹیز’ اور ‘ہاؤ ٹو ون ان انڈین الیکشن’ جیسی کتابوں کے مصنف شیوم شنکر سنگھ کہتے ہیں،اگر کوئی سیاسی پارٹی فیس بک کے الگورتھم سے کھیلناسیکھ جاتی ہے، تو وہ اپنے مواد کو  لوگوں کی ایک بڑی تعدادمیں پہنچا سکتی ہے، جس سے وہ اپنے بیانیہ(نیریٹو) کو بڑھا سکتی ہے اور سیاسی طور پر اس کا فائدہ اٹھا سکتی ہے۔

انہوں نے مزید کہا، اس الگورتھم کے ساتھ ہونے والےکھیل میں اکثرمواد کی اطلاعاتی  نوعیت جذباتی طور پر اشتعال انگیز مواد کی طرف لے جاتی ہے۔ اس طرح کے مواد کو الگورتھم کے ذریعے بڑھایا جاتا ہے اور اس سے ان سیاسی جماعتوں کو بھی زیادہ فائدہ ہوتا ہے جو ووٹروں کو پولرائز کرنا چاہتی ہیں۔

امریکہ میں یہ یقینی بنانے کے لیےالگ الگ ایڈورٹائزنگ پرائس  کے تعین کے لیے بھی سیاسی امیدواروں کے حق میں مقابلہ آرائی کو کم نہ کریں ،وہاں ایک قانون لازمی ہےکہ سبھی اشتہار ٹی وی اور براڈکاسٹ میڈیا سٹیشنوں کوتمام امیدواروں سےیکساں شرح لاگو کرنی ہوگی۔

سوشل میڈیا کو ابھی تک اس خصوصی قانون کے تحت ریگولیٹ نہیں کیا گیا ہے، لیکن وہاں اس پر بحث جاری ہے۔ ہندوستان  میں بھی الیکشن کمیشن کو سیاسی اشتہارات میں شفافیت لانے کی ضرورت ہے، لیکن سوشل میڈیا پر بھی اس کے معیارات کو نافذنہیں کیا گیا ہے۔

ہندوستان کے سابق چیف الیکشن کمشنر ایس وائی قریشی نے کہا،اگر یہ تجارتی اشتہارات کے ساتھ ہو رہا ہوتا تو یہ مکمل طور پر کاروباری اداروں اور پبلشرز کا اختیار ہے کہ وہ اشتہارات کے لیے کیا قیمت وصول کرنا چاہتے ہیں۔ لیکن سیاسی اشتہارات کو انتخابی قوانین کے مطابق ریگولیٹ کرنے کی ضرورت ہے۔

انہوں نے یہ بھی کہا کہ ہندوستان میں سوشل میڈیا پر ہونے والے پرچارکے لیے بہتر ریگولیشن کی ضرورت ہے، انہیں کم از کم روایتی پرنٹ اور براڈکاسٹ میڈیا کی طرح   ہونا چاہیے۔

سب سے اہم پارٹی ہونے کے فائدے

دسمبر 2019 میں ناردرن یونیورسٹی، یونیورسٹی آف کیلی فورنیا اور یونیورسٹی آف سدرن کیلی فورنیا اورغیر منافع بخش تنظیم اپٹرن کے محققین کےذریعے کی گئی ایک تحقیق نے دسمبر 2019 میں دکھایا کہ فیس بک کا اشتہار پیش کرنے والا الگورتھم سیاسی پولرائزیشن کی حوصلہ افزائی کرتا ہے۔

اس تحقیق میں کہا گیا، مہم کے لیے (اشتہارات) کی اس طرح کی نمائش [سیاستدانوں] کو فیس بک پر ان کی موجودہ بنیاد سے آگے جانے سے روک سکتی ہے، کیونکہ ایسےصارفین، جنہیں پلیٹ فارم ان کے نقطہ نظر سے میل کھانے والانہیں مانتا،کو اشتہار دکھانا حد سے زیادہ مہنگا ہوسکتا ہے۔

اس کانتیجہ یہ ہوتا ہے کہ فیس بک اپنے اشتہاراتی شرح کے تعین کے ماڈل کے ذریعےمختلف نقطہ نظریےتک رسائی کو کم سے کم کرکے ایک طرح سےاپنے صارفین کو ایک ہی سمت میں دیکھنے پر مجبور کرتا ہے۔ لہٰذا، ہندوستان میں جن لوگوں کی نشاندہی فیس بک ہندوتوا کی سیاست اور نریندر مودی کے حامیوں کے طور پر کرتا ہے، انہیں کم لاگت پر نشانہ بنایا جا سکتا ہے، بشرطیکہ اشتہار کا مواد بھی دونوں کی تعریف میں ہو۔

لیکن انہی ناظرین کو ہندوتوا سیاست اور مودی کی  تنقید کرنے والااشتہاردکھانا بہت مہنگا سودا ثابت ہو سکتا ہے۔

نارتھ ایسٹرن یونیورسٹی کے پیوتر سیپجنسکی اوراس مطالعہ کے ایک مصنف نے رپورٹز کلیکٹو کو بتایا کہ دونوں جماعتوں کے لیے اشتہارات کی قیمتوں میں کافی فرق ہو سکتا ہے، جو اس بات پر منحصر  ہے کہ وہ اپنےآڈینس کو کس طرح ٹارگیٹ کرتے ہیں۔

لیکن، انہوں نے مزید کہاکہ ، ایسی صورت حال میں جہاں دونوں جماعتیں ایک ہی آڈینس کو نشانہ بنا رہی ہوں، فیس بک پر جس پارٹی کو سب سے زیادہ حمایت حاصل ہے،اس کے لیے عام طور پر اس پارٹی کے مقابلے  اشتہار کی شرح کم ہوگی جس کے حامیوں کی تعداد بہت کم ہے۔

بی جے پی کے آفیشل پیج پر 1.67 کروڑ اور پارٹی لیڈر اور وزیر اعظم نریندر مودی کے فیس بک فالوورز کی تعداد 4.68 کروڑ ہے۔ فیس بک پر حامیوں کی اس بڑی تعداد کی وجہ سے بی جے پی کا مواد زیادہ لوگوں تک پہنچتا ہے۔ اس کے مقابلے  کانگریس کے پیج کے 62  لاکھ اور اس کے لیڈر راہل گاندھی کے صرف 47 لاکھ فالوورز ہیں۔

ہندوستان میں بی جے پی نے سب سے پہلے فیس بک کی طاقت کو پہچانا اور اس میں اپنے حریفوں سے زیادہ پیسہ لگایا۔ اس سے وابستہ تنظیمیں اور اس کے لیے فرضی ناموں سے کام کرنے والے سوشل میڈیا کے استعمال کے معاملے میں دوسروں سے کئی قدم آگے ہیں۔

سال 2014 کی لوک سبھا انتخابی مہم کے دوران ہندوستان میں فیس بک کے اعلیٰ عہدیداروں نے بی جے پی کے ساتھ بہت نزدیکی کے ساتھ کام کیا اور یہاں تک کہ پارٹی کارکنوں کو اپنی مہم کو مزید طاقتور بنانے کے لیے فیس بک کا استعمال کرنے کی تربیت بھی دی۔

فیس بک پر بی جے پی کا غلبہ ہونے کی وجہ سے فیس بک کاایڈ الگورتھم اس کے اشتہارات کو کم پیسوں میں زیادہ لوگوں کو دکھائے گا اور کم فالووز  والی پارٹیوں جیسے کہ کانگریس کی مہم کو باہر کر دے گا۔

دوسرے لفظوں  میں کہیں تو ایک طرف تو بی جے پی کے گمنام حامیوں اور سروگیٹس بے روک ٹوک بڑھائے گئے ، وہیں میٹا پلیٹ فارمز — فیس بک کے مالک — نے اس بات کو یقینی بنایا کہ بی جے پی حامی مواد کو ان کے پلیٹ فارم پر رعایتی شرح ملے۔

اگر یہ نظام جاری رہا تو فیس بک پر پہلے سے غالب بی جے پی کی حمایت کی بنیاد کئی گنا بڑھ جائے گی اور ہر انتخابی مہم کے بعد دوسری سیاسی جماعتیں پہلے سے کہیں زیادہ پسماندہ ہو جائیں گی۔

 ای میل پر بھیجے گئےتفصیلی سوالات کی فہرست کے جواب میں میٹا نے کہا، ہم اپنی پالیسیاں کسی فرد کی سیاسی حیثیت یا پارٹی سے وابستگی سے قطع نظریکساں طور پر لاگو کرتے ہیں۔انٹیگرٹی ورک یا کنٹینٹ کو فروغ دینے کے فیصلے کسی ایک فرد کے ذریعےیکطرفہ طور پر نہیں کیے جا سکتے ہیں اور نہ ہی کیے جاتے ہیں۔ بلکہ ان میں کمپنی میں موجود تمام مختلف خیالات  کوشامل  کیا جاتا ہے۔

حالاں کہ اس نے بی جے پی اور دیگر پارٹیوں کے اشتہارات پر الگورتھم کے ذریعہ لی گئی الف الگ  قیمتوں یا الگورتھم کو سیاسی پولرائزیشن سے جوڑنے والے مطالعہ کے بارے میں سوال کا جواب نہیں دیا۔ میٹا کا مکمل جواب یہاں پڑھا جا سکتا ہے۔

اس سلسلے میں بی جے پی کے چیف ترجمان انل بلونی اور آئی ٹی اور سوشل میڈیا کے سربراہ امیت مالویہ نے کئی بار یاد دہانی کے باوجود رپورٹرز کلیکٹیو کی طرف سے بھیجے گئے سوالوں کا جواب نہیں دیا۔الیکشن کمیشن کی جانب سے بھی کوئی جواب موصول نہیں ہوا۔

(نین تارا رنگناتھن ایڈ واچ کے ساتھ وابستہ ریسرچ اسکالر ہیں اور کمار سمبھو رپورٹرز کلیکٹو کے رکن ہیں۔)

اس  رپورٹ کو الجزیرہ انگریزی میں پڑھنے کے لیے یہاں کلک کیجیے۔