خبریں

بی جے پی رہنماؤں کا پیغمبر اسلام پر تبصرہ: خلیجی ممالک نے ہندوستان کو تنقید کا نشانہ بنایا، سفارت کاروں کو طلب کیا

بی جے پی لیڈر نوپور شرما کی طرف سے پیغمبر اسلام کے بارے میں کیے گئے مبینہ قابل اعتراض تبصرے اور پارٹی ترجمان نوین جندل کے اسی طرح کے ‘توہین آمیز’ ٹوئٹس کی مذمت کرتے ہوئے خلیجی ممالک–قطر، کویت، ایران اور سعودی عرب کے علاوہ  پاکستان نے بھی ہندوستانی سفارت کاروں کو طلب کیا۔ وہیں ہندوستان نے ان تبصروں کو ‘فرنج’ عناصر کا تبصرہ بتاتے ہوئے  کہا کہ متنازعہ بیانات حکومت ہند کے خیالات کی عکاسی نہیں کرتے۔

Capture

(بائیں سے دائیں) کویت میں ہندوستانی سفیر سبی جارج، قطر میں ہندوستانی سفیر دیپک متل اور ایران میں ہندوستانی سفیر جی دھرمیندر۔ (فوٹو بہ شکریہ: ٹوئٹر)

نئی دہلی: اتوار کوجہاں ایک ہی دن خلیجی ممالک میں تعینات ہندوستان کے سفیروں کو ان ممالک نے  طلب کیا، وہیں کچھ دوسرے ممالک نے بی جے پی لیڈروں کی طرف سے پیغمبر اسلام کے بارے میں کیے گئے مبینہ قابل اعتراض تبصرے کی مذمت کی۔

قطر، ایران اور کویت نے پیغمبر اسلام کے بارے میں بھارتیہ جنتا پارٹی (بی جے پی)  رہنما کے متنازعہ تبصرے پر اتوار کو ہندوستانی سفیروں کو طلب کیا۔ خلیج کے اہم ممالک نے ان تبصروں کی مذمت کی اور اپنا اعتراض درج کرایا۔

شروعات قطر سے ہوئی، جس نے ہندوستانی سفیر کو طلب کیا اور احتجاجی خط دیتے ہوئے ہندوستانی حکومت سے پیغمبر اسلام کے بارے میں بی جے پی لیڈروں کےتبصرے پر معافی کا مطالبہ کیا۔

قطر اور کویت میں ہندوستانی سفارت خانوں کے ترجمان نے ایک پریس ریلیز میں کہا، سفیر نے بتایا کہ وہ ٹوئٹ کسی بھی طرح ہندوستانی حکومت کے خیالات کی عکاسی نہیں کرتے۔ یہ فرنج عناصر کے خیالات ہیں۔

ترجمان نے کہا کہ قطر میں ہندوستانی سفیر دیپک متل نے دفتر خارجہ میں ایک بیٹھک  کی جس میں ہندوستان میں بعض افراد کی جانب سے دوسرے مذاہب کے قابل احترام  شخصیات کو بدنام کرنے والے کچھ قابل اعتراض ٹوئٹ پر تشویش کا اظہار کیا گیا۔

اس سے پہلے، وزارت خارجہ نے ایک بیان میں کہا کہ وزیر مملکت برائے امور خارجہ سلطان بن سعد المراخی نے ہندوستان کے سفیر کےنوٹ سونپا۔

اس کے بعد، وزارت نے ہندوستان میں حکمراں جماعت کی طرف سے جاری اس بیان کا خیرمقدم کیا، جس میں اس نے پارٹی رہنما کو معطل کرنے کا اعلان کیا ہے۔

وزارت نے کہا کہ قطر ہندوستانی حکومت سے عوامی طور پر معافی اور ان تبصروں کی فوراً  مذمت کی توقع رکھتا ہے۔

ہندوستانی سفارت خانے کے ایک ترجمان نے یہاں کہا، توہین آمیز تبصرہ کرنے والوں کے خلاف پہلے ہی سخت کارروائی کی جا چکی ہے۔

اس نے کہا، ہماری تہذیبی وراثت اور تنوع میں اتحاد کی مضبوط ثقافتی روایات کے مطابق، ہندوستانی حکومت تمام مذاہب کا احترام کرتی ہے۔

ترجمان نے کہا کہ ہندوستان اور قطر کے تعلقات کے خلاف کام کرنے والے مفاد پرست لوگ ان توہین آمیز تبصروں کا استعمال کرکے لوگوں کو مشتعل کررہے ہیں۔ دونوں فریقوں کو ایسے شرپسند عناصر کے خلاف مل کر کام کرنا چاہیے جو دو طرفہ تعلقات کی مضبوطی کو نقصان پہنچانا چاہتے ہیں۔

قابل ذکر ہے کہ نائب صدر ایم وینکیا نائیڈو اس وقت قطر کے دورے پر ہیں اور اتوار کو انہوں نے قطر کے وزیر اعظم اور وزیر داخلہ شیخ خالد بن خلیفہ بن عبدالعزیز الثانی سے ملاقات کی تھی۔

کویت

اس کے بعد، کویت کے وزارت خارجہ نے کہا کہ کویت میں ہندوستانی سفیر سبی جارج کو اتوار کو طلب کیا گیا اور ایشیا معاملوں کے معاون وزیر خارجہ کی طرف سے ایک سرکاری احتجاجی نوٹ سونپا گیا۔

ایران میں ہندوستانی سفیر دھامو گدام کو اتوار کی شام تہران میں جنوبی ایشیا کے ڈائریکٹر جنرل نے وزارت خارجہ میں طلب کیا، جہاں متنازعہ تبصرے پر شدید احتجاج کیا گیا۔

نیم سرکاری خبر رساں ایجنسی ‘مہر’ کے مطابق ہندوستانی سفیر نے افسوس کا اظہار کرتے ہوئے پیغمبر اسلام کی کسی بھی توہین کو ناقابل قبول قرار دیا۔

قطر کی طرح کویت کے وزارت خارجہ نے بھی حکمراں جماعت کی جانب سے اہلکار کی معطلی کا خیرمقدم کیا،  لیکن الگ سے معافی کا مطالبہ بھی  کیا۔

وہاں کی سرکاری خبر رساں ایجنسی کونا نے رپورٹ میں کہا، وزارت نے ان غیر معقول بیانات کے لیے حکمران جماعت کی جانب سےمجرم کو معطل کرنے کے فیصلے کا خیرمقدم کیا ہے۔ تاہم، وزارت نے اس طرح کے شدت پسند اور قابل مذمت بیانات کے لیے مجرم کی جانب سے عوامی طور پر معافی کا مطالبہ کیا ہے۔

کویت کے وزارت خارجہ نے کہا کہ اس طرح کا عمل اسلام کی واضح  طور پرپرامن فطرت ، پیغام اور ہندوستان سمیت تہذیبوں اور اقوام کی تعمیر میں اس کے کردار کے تئیں  لاعلمی کو ظاہر کرتا ہے۔

ایران

اس کے ساتھ ہی ایران نے بھی اس تبصرہ پر اپنا اعتراض درج کرایا ہے۔

وزارت خارجہ کی جانب سے جاری بیان میں کہا گیا ہے کہ ہندوستانی سفیر جی دھرمیندر کو اتوار کی سہ پہر کو جنوبی ایشیا کے ڈائریکٹر جنرل نے ایک احتجاجی نوٹ سونپا۔

ایران کے ریڈ آؤٹ کے مطابق، اس کے بعددھرمیندر نے کہا کہ ان کے ملک نے پیغمبر کے بارے میں ‘ناقابل قبول’ تبصرےپر افسوس  کا اظہار کیاہے۔ انہوں نے یہ بھی کہا کہ جس شخص نے قابل اعتراض تبصرہ کیاتھا، اس کے پاس کوئی سرکاری عہدہ نہیں تھا اور اسے حکمراں جماعت سے بھی نکالا جا چکا  ہے۔

ہندوستانی ایلچی نے اس بات پر بھی زور دیا کہ یہ بیانات ہندوستانی حکومت کے خیالات کی عکاسی نہیں کرتے، جو تمام مذاہب کا احترام  کرتی ہے۔

بی جے پی نے متنازعہ بیانات سے کنارہ کیا

تبصروں پر مسلم کمیونٹی کے احتجاج کے درمیان بی جے پی نے ایک طرح سے دونوں لیڈروں کے بیانات سے کنارہ کشی اختیار کرتے ہوئے کہا کہ وہ تمام مذاہب کا احترام کرتی ہے اور کسی بھی مذہب کے قابل احترام لوگوں کی توہین کو قبول نہیں کرتی ہے۔

ان متنازعہ تبصروں کی وجہ سے عرب ممالک میں ہندوستانی مصنوعات کے بائیکاٹ کے لیے ٹوئٹر پر مہم بھی چلائی گئی تھی۔

نوین جندل اور نوپور شرما۔ (تصویر: پی ٹی آئی)

نوین جندل اور نوپور شرما۔ (تصویر: پی ٹی آئی)

قابل ذکر ہے کہ اس دوران بی جے پی نے پیغمبر اسلام کے بارے میں متنازعہ بیانات کے لیے اتوار کو قومی ترجمان نوپور شرما کو پارٹی سے معطل کر دیا، جبکہ دہلی یونٹ کے میڈیا سربراہ نوین کمار جندل کو پارٹی سے نکال دیا۔

بی جے پی کے جنرل سکریٹری ارون سنگھ نے ایک بیان جاری کرتے ہوئے کہا کہ ان کی پارٹی ایسے کسی خیال کو قبول نہیں کرتی جس سے کسی مذہب یا فرقے کے جذبات کو ٹھیس پہنچے۔

پارٹی کی تادیبی کمیٹی کی طرف سے جاری ایک خط میں کہا گیا ہے کہ شرما نے مختلف ایشوز پر پارٹی کی رائے کے برعکس خیالات پیش کیے ہیں، جو اس کے آئین کی صریح خلاف ورزی ہے۔

اس کے بعد نوپور شرما نے اپنا بیان واپس لیتے ہوئے کہا، میرے سامنے بار بار اس طرح سے ہمارے مہادیو شیوجی کی توہین کو میں  برداشت نہیں کر پائی اور میں نے غصے میں کچھ باتیں کہہ دیں۔ اگر میرے الفاظ سے کسی کے مذہبی جذبات مجروح ہوئے ہیں تو میں اپنے الفاظ واپس لیتی ہوں۔ میرا مقصد کبھی کسی کو تکلیف دینا نہیں تھا۔

ساتھ ہی پارٹی سے نکالے جانے کے  بعددہلی یونٹ کے ترجمان نوین کمار جندل نے اتوار کو کہا کہ وہ کسی کے مذہبی جذبات کو ٹھیس پہنچانے کا ارادہ نہیں رکھتے تھے۔

سعودی عرب

قطر، ایران اور کویت کے بعد سعودی عرب نے بھی سوموار کو  پیغمبر اسلام محمد کے خلاف متنازعہ تبصرے کی تنقید کی اور سبھی  سے ‘عقائد اور مذاہب کا احترام’ کرنے کی اپیل کی۔

سعودی عرب کے وزارت خارجہ نے ایک بیان جاری کرتے ہوئے بی جے پی کے ترجمان کے تبصرے کی مذمت کی اور کہا کہ ان سے پیغمبر اسلام کی توہین ہوئی ہے۔

وزارت خارجہ نے  ‘ اسلام کی علامتوں کے خلاف تعصبات کے تئیں اپنے اعتراضات’ کا اعادہ کیا۔ اس نے ‘تمام قابل احترام شخصیات اور علامتوں’ کے خلاف تعصب کو فروغ دینے والی ہر چیز کو خارج کیا۔

بی جے پی کے اپنے ترجمان کو معطل کرنے کے قدم کا خیرمقدم کرتے ہوئے، وزارت نے ‘عقائد اور مذاہب کے احترام کے لیے سعودی عرب کے موقف کو دہرایا۔

پاکستان

دریں اثنا، پاکستان کے وزیر اعظم شہباز شریف نے بھی اتوار کو  پیغمبر اسلام  کے خلاف مبینہ طور پر ‘تکلیف دہ’ تبصرے کی مذمت کی۔

شہبازشریف نے ٹوئٹ کیا کہ ، میں اپنے  پیارے نبی کے بارے میں ہندوستان کے بی جے پی رہنما کی طرف سے کیے گئے ہتک آمیز تبصرے کی شدید مذمت کرتا ہوں۔

انہوں نے یہ بھی الزام لگایا کہ ہندوستان کی موجودہ حکومت مذہبی آزادی اور بالخصوص مسلمانوں کے حقوق کو کچل رہی ہے۔

انہوں نے کہا،یہ بار بار کہا گیا ہے کہ مودی کی قیادت میں ہندوستان مذہبی آزادی کو کچل رہا ہے اور مسلمانوں پر ظلم کر رہا ہے۔ دنیا کو اس طرف توجہ دینی چاہیے اور ہندوستان کی سخت سرزنش کرنی چاہیے۔ پیغمبر  سے ہماری عقیدت سب سے زیادہ ہے۔

اس کے بعد، پاکستان نے سوموار کو کہا کہ اس نے ہندوستانی  ہائی کمیشن کے انچارج کو متنازعہ تبصروں پر اپنا احتجاج درج کرانے کے لیے طلب کیا۔

دفتر خارجہ (ایف او) نے ایک بیان جاری کرتے ہوئے کہا کہ ہندوستانی سفارت کار کو بتایا گیا کہ یہ بیانات کلی طور پر ناقابل قبول ہیں اور اس سے نہ صرف پاکستانی عوام بلکہ دنیا بھر کے مسلمانوں کے جذبات مجروح ہوئے ہیں۔

ایف او نے ہندوستانی سفارت کار کو بتایا کہ حکومت پاکستان ہندوستان میں حکمران جماعت بی جے پی کے دو سینئر عہدیداروں کے انتہائی توہین آمیز بیانات کی شدید مذمت کرتا ہے اور اسے پوری طرح سے مسترد کرتا ہے۔

اس نے کہا، ہندوستانی سفارت کار کو بتایا گیا کہ پاکستان بی جے پی حکومت کی طرف سے مذکورہ عہدیداروں کے خلاف دیر سے اور لاپرواہی سے کی گئی تادیبی کارروائی کی مذمت کرتا ہے۔ اس قدم سے مسلمانوں کے درد کو کم نہیں کیا جا سکتا۔

پاکستان کے دفتر خارجہ نے کہا کہ پاکستان ہندوستان میں ‘مسلمانوں کے خلاف تشویشناک  طور پربڑھتے ہوئے فرقہ وارانہ تشدد اور نفرت ‘کو لے کر فکرمند ہے۔

ایف او نے کہا، مسلم مخالف توہین آمیز جذبات کا مرکزی دھارے میں تیزی سے آنا اور بیہودہ  تاریخی دعووں کا حوالہ دیتے ہوئے مسلمانوں کو ان کی قدیم عبادت گاہوں سے محروم کرنے کی بڑھتی ہوئی کوششیں، ہندوستانی معاشرے میں اندر تک پیوست تعصب کے واضح نتائج کے علاوہ اورکچھ  نہیں ہیں۔

پاکستان نے بی جے پی کی قیادت اور حکومت ہند سے اپیل کی کہ وہ بی جے پی کے کارکنوں کے توہین آمیز تبصروں  کی سختی سے مذمت کرے اور اس بات کو یقینی بنائیں کہ پیغمبر اسلام کی شان پر حملہ کرنے کے لیے  ان کے خلاف فیصلہ کن اور ٹھوس اقدامات کرتے ہوئے انہیں جوابدہ بنایا جائے۔

ایف او کے مطابق، پاکستان نے عالمی برادری سےہندوستان میں ‘مسلمانوں کے خلاف ہندوتوا سے متاثر تعصب میں خطرناک اضافہ’ کا نوٹس لینے اور ‘اقلیتوں کے خلاف انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں’ کو روکنے کے لیے ہندوستانی حکام پر دباؤ بنانے کی اپیل کی۔

دریں اثنا، ہندوستان نے سوموار کو پاکستان کے وزیر اعظم اور وزارت خارجہ کے بیانات کو خارج کر دیا۔

ہندوستان  نے کہا کہ ہندوستانی حکومت تمام مذاہب کا احترام کرتی ہے اور پڑوسی ملک کو اپنی اقلیتوں کی حفاظت اور بہبود پر توجہ دینی چاہیے۔

اس سلسلے میں میڈیا کے سوالات پر وزارت خارجہ کے ترجمان ارندم باگچی نے کہا کہ اقلیتوں کے حقوق کی مسلسل خلاف ورزی کرنےوالے ایک ملک کا دوسرے ملک میں اقلیتوں کے ساتھ ہورہے سلوک پر تبصرہ کرنا کسی کے گلے نہیں اتر رہا ہے۔

انہوں نے کہا کہ دنیا پاکستان میں ہندوؤں، سکھوں، عیسائیوں، احمدیوں اور دیگر اقلیتی برادریوں پر منظم ظلم و ستم کی گواہ ہے۔

باگچی نے کہا کہ ہندوستانی حکومت تمام مذاہب کا احترام کرتی ہے، جبکہ پاکستان میں بنیاد پرستوں کو سراہا جاتا ہے اور ان کے اعزاز میں یادگاریں تعمیر کی جاتی ہیں۔

ترجمان نے کہا کہ ہم پاکستان سے کہتے ہیں کہ وہ خوف پھیلانے والے پروپیگنڈے میں ملوث ہونے اور ہندوستان میں فرقہ وارانہ ہم آہنگی کو بگاڑنے کی کوشش کرنے کے بجائے اپنے یہاں  اقلیتی برادریوں کے تحفظ اور بہبود پر توجہ دے۔

بحرین اور افغانستان

دریں اثنا، سوموار کو بحرین کے وزارت خارجہ نے پارٹی کے ترجمان کو معطل کرنے کے بی جے پی کے فیصلے کا خیرمقدم کیااور اس بات پر زور دیا کہ پیغمبر اسلام کی توہین کرنے والے تبصروں  کی مذمت کی جانی چاہیے کیونکہ یہ مسلمانوں کے جذبات اورمذہبی منافرت کو بھڑکاتے ہیں۔

وزارت نے ایک بیان میں تمام مذہبی عقائد، علامتوں اور شخصیات کے احترام پر زور دیا اور کہا کہ عالمی برادری کو تحمل، رواداری اور مذاہب اور تہذیبوں کے درمیان مکالمے کو فروغ دینے اور ان بنیاد پرست نظریات کا مقابلہ کرنے کے لیے کے لیے ٹھوس کوششیں کرنی چاہیے، جوسیڈیشن اور مذہبی، فرقہ وارانہ یا نسلی نفرت کو ہوا دیتے ہیں۔

دوسری جانب افغانستان کی سب سے بڑی آزاد خبر رساں ایجنسی ‘پزواک نیوز’ نے اطلاع دی ہے کہ افغانستان کی طالبان کی قیادت والی عبوری حکومت نے پیغمبر اسلام کے خلاف توہین آمیز کلمات کی شدید مذمت کی ہے۔

خبر رساں ایجنسی کے مطابق، حکومتی ترجمان ذبیح اللہ مجاہد نے ٹوئٹر پر کہا کہ امارت اسلامیہ افغانستان ہندوستان میں حکمران جماعت کے ایک عہدیدار کی جانب سے پیغمبر اسلام کے خلاف توہین آمیز الفاظ کے استعمال کی شدید مذمت کرتا ہے۔

انہوں نے کہا کہ ہم حکومت ہند سے گزارش کرتے ہیں کہ ایسے شدت پسندوں کو اسلام کی توہین کرنے اور مسلمانوں کے جذبات کو بھڑکانے کی اجازت نہ دیں۔

آرگنائزیشن آف اسلامک کو آپریشن (او آئی سی)

اسی دن، آرگنائزیشن آف اسلامک کو آپریشن (او آئی سی) نے بھی بی جے پی رہنماؤں کے متنازعہ بیان کی مذمت کرتے ہوئے کہا کہ یہ بیان ہندوستان میں بڑھتی ہوئی مسلم مخالف سرگرمیوں کے درمیان آیا ہے۔

او آئی سی سکریٹریٹ کی طرف سے جاری بیان میں کہا گیا ہے کہ ، اس بدکلامی  کوہندوستان میں اسلام کے خلاف بڑھتی ہوئی نفرت اوربداخلاقی، مسلمانوں کے خلاف منظم کارروائیوں – جیسے کئی ریاستوں میں تعلیمی اداروں میں حجاب پر پابندی کا فیصلہ، ان کی ملکیت کو مسمار کرنے کے ساتھ ساتھ  ان کے خلاف بڑھتے تشدد کی روشنی میں دیکھا جانا چاہیے۔

تنظیم نے حکومت ہند سے اپیل کی کہ وہ پیغمبر اسلام کے خلاف توہین آمیز الفاظ کے خلاف اقدامات کرے اور ہندوستان کی مسلم کمیونٹی کے تحفظ کو یقینی بنائے۔

بیان میں مزید کہا گیا کہ ،سکریٹریٹ بین الاقوامی برادری،بالخصوص اقوام متحدہ کی مشینری اور انسانی حقوق کونسل کے خصوصی عمل سے اپیل کرتا ہے کہ وہ ہندوستان میں مسلمانوں کو نشانہ بنانے والے اقدامات سے نمٹنے کے لیے ضروری اقدامات کرے۔

تاہم تنظیم کے اس بیان کے خلاف ہندوستان  نے سوموار کو تنظیم کو نشانہ بنایا۔

وزارت خارجہ کے ترجمان ارندم باگچی نے کہا کہ ہندوستان او آئی سی سکریٹریٹ کے’غیر ضروری اور چھوٹی سوچ والےتبصرے’ کو سرے سے خارج کرتا ہے اور اس بات پر زور دیتا ہے کہ نئی دہلی تمام مذاہب کا سب سے زیادہ احترام کرتا ہے۔

باگچی نے کہا، کچھ افراد کی طرف سے ایک قابل احترام شخصیت کے خلاف جارحانہ ٹوئٹ اور نامناسب تبصرے کیے گئے تھے۔ یہ تبصرے کسی بھی طرح سے حکومت ہند کے خیالات کی نمائندگی نہیں کرتے۔

انہوں نے کہا کہ متعلقہ اداروں کی جانب سے ان لوگوں کے خلاف پہلے ہی سخت کارروائی کی جا چکی ہے۔

باگچی نے کہا، یہ افسوسناک ہے کہ او آئی سی سکریٹریٹ نے ایک بار پھر سے گمراہ کن اور شرارتی تبصرہ کیا ہے۔اس سے ان کے ذاتی مفادات کی ایماء پر تفرقہ انگیز ایجنڈہ بے نقاب ہوتا ہے۔ ہم او آئی سی سکریٹریٹ سے گزارش کرتے  ہیں کہ وہ فرقہ وارانہ رخ کو آگے بڑھانا بند کرے اور تمام مذاہب اور عقائد کا احترام کرے۔

(خبر رساں ایجنسی بھاشا کے ان پٹ کے ساتھ)