فکر و نظر

آبادی کے عدم توازن کے بارے میں آر ایس ایس سربراہ کی بات محض ایک سیاسی پروپیگنڈہ ہے

سال  1995 کے بعد  2020 میں تمام برادریوں  میں مسلم خواتین کی برتھ ریٹ  میں سب سے تیز گراوٹ درج  کی گئی۔ نتیجتاً ان کی آبادی میں اضافے کی شرح میں بھی کمی آئی۔ ایک سیاسی پروپیگنڈہ کے تحت مسلمانوں کی آبادی میں اضافے کی بات کرتے ہوئے خوف اور اندیشہ پیدا کر کے ہندوؤں کو پولرائزکیا جا رہا ہے۔

(علامتی تصویر: رائٹرس)

(علامتی تصویر: رائٹرس)

سرسنگھ چالک موہن بھاگوت نے وجئے دشمی کو آر ایس ایس کے یوم تاسیس کے موقع پر منعقد تقریب میں ایک بار پھر بالواسطہ طور پر مسلمانوں کی بڑھتی ہوئی آبادی کے بارے میں بیان دیا۔ انہوں نے کہا کہ مذہبی عدم توازن بڑھ رہا ہے۔ یہ ملک کے لیے خطرہ ہے۔ برادریوں کی آبادی کے عدم توازن کے باعث ہی جنوبی سوڈان، کوسوو اور شمالی سوڈان کے ممالک الگ ہو ئے ہیں۔

سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ کیا ہندوستان میں کمیونٹی کی آبادی کا عدم توازن واقعی بڑھ رہا ہے؟ کیا مسلمانوں کی آبادی بہت تیزی سے بڑھ رہی ہے؟ کیا آنے والے وقت میں مسلمان ہندوؤں کو پیچھے چھوڑ کر اکثریت میں آجائیں گے؟ کیا مسلمان ملک کی سالمیت کے لیے خطرہ ہیں؟ کیا مسلمانوں کا مقصد ہندوستان کو ایک مسلم ملک بنانا ہے؟

درحقیقت دائیں بازو کی سخت گیر ہندوتوا تنظیمیں ایسی افواہیں پھیلا کر ہندوؤں کے ذہنوں میں مسلسل خوف پیدا کرتی ہیں۔ ان تنظیموں نے یہ پروپیگنڈہ پھیلایا  ہےکہ مسلمان ہندوستان کو دارالاسلام میں تبدیل کرنا چاہتے ہیں۔ ان کا ہدف غزوہ ہند ہے۔

بھارتیہ جنتا پارٹی اور آر ایس ایس، کانگریس اور دیگر سیکولر سیاسی جماعتوں پر مسلمانوں کی اپیزمنٹ  کا الزام لگاتی رہی ہیں۔ اپیزمنٹ مسلمانوں کے خلاف ہندوتوا کا ایک منصوبہ بند اور طویل مدتی ایجنڈہ ہے۔ پولرائزیشن کے لیے ہندوؤں میں خوف پیدا کرکے مسلمانوں کے خلاف نفرت پیدا کی جاتی ہے۔

پچھلے چند سالوں میں اس میں تیزی آئی ہے۔ سوشل میڈیا، وہاٹس ایپ کے ذریعے ‘تھوڑے ڈرانے والے’ پیغامات پھیلا کر ہندوؤں کے سامنے مسلمانوں کی بڑھتی ہوئی آبادی کا خوف پیدا کیا جا رہا ہے۔ آج کل مبینہ طور پر ہندو مذہبی رہنماؤں کی مسلمانوں کے خلاف زہر فشانی کے ویڈیوز سامنے آ رہے ہیں۔ دھرم سنسد میں کھلے عام مسلمانوں کے قتل عام کا اعلان کیا جا رہا ہے۔

یکساں سول کوڈ کی طرح آر ایس ایس یکساں آبادی کی پالیسی کا مسئلہ اٹھاتا رہا ہے۔ دراصل، آدی واسی  اور مسلمانوں کو ذاتی قوانین کے تحت ایک سے زیادہ بیویاں رکھنے کا حق حاصل ہے۔ آر ایس ایس اور ہندوتوا تنظیموں کا کہنا ہے کہ مسلمان مردوں کی چار بیویاں ہوتی ہیں۔ مسلمان ان سے زیادہ بچے پیدا کرکے اپنی آبادی بڑھا رہے ہیں۔

آر ایس ایس کے دوسرے سرسنگھ چالک ایم ایس گولوالکر (1946-1973) نے 23 اگست 1972 کو روزنامہ ‘دی مدر لینڈ’ کے ایڈیٹر کےآر ملکانی کو ایک انٹرویو میں کہا تھا، چار بیویاں رکھنے کے حق کی وجہ سےمسلم آبادی میں غیر متناسب اضافہ ہو رہا ہے۔ میرے خیال میں یہ ایک منفی نظریہ ہے۔

گجرات (2002) میں مسلمانوں کے قتل عام کے بعد ریلیف کیمپ فراہم کرنے کے سوال پر اس وقت کے وزیر اعلیٰ نریندر مودی نے کہا تھا، ہم پانچ، ہمارے پچیس کے لیے کیا کرنا چاہیے!ان کا مطلب  تھا کہ ایک مسلمان مرداپنی  چار بیویوں سے پچیس بچے پیدا کرتا ہے۔ پروین توگڑیا، دتاتریہ ہوس بولے (2013) اور راجیشور سنگھ وغیرہ وقتاً فوقتاً یہی باتیں دہراتے رہے ہیں۔

سال 2014 کے انتخابات جیت کر اقتدار میں آنے کے بعد بی جے پی-سنگھ نے اس بیانیے کو مزید جارحانہ انداز میں آگے بڑھایا۔ خاص طور پر انتخابات کے دوران ہندوؤں میں خوف پیدا کرنے کے لیے ناشائستہ، قابل اعتراض اور فحش زبان استعمال کی جاتی ہے۔

بی جے پی کے رکن پارلیامنٹ ساکشی مہاراج نے 2017 میں ایک جلسہ عام میں کہا تھا،  چار بیویاں اور 40 بچے والے اس ملک میں آبادی میں اضافے کے لیےذمہ دار ہیں۔

سال 2018 میں مرکزی وزیر گریراج سنگھ نے کہا کہ، ملک کی بڑھتی ہوئی آبادی، خاص طور پر مسلمانوں کی آبادی ، ملک کے سماجی تانے بانے، سماجی ہم آہنگی اور  ملک کی ترقی کے لیے خطرہ ہے۔

یہی نہیں، ساکشی مہاراج اور سادھوی رتمبھرا جیسے نام نہاد سیاسی سادھو سنت ہندو خواتین کو تین اور چار بچے پیدا کرنے کا مشورہ دیتے ہیں۔ تقریروں کے علاوہ،اس بیانیہ کو گاڑھا کرنے کے لیے 2019 میں دو بار کے بی جے پی کے ایم پی  راکیش سنہا اور اجے بھٹ پارلیامنٹ میں آبادی کنٹرول کے لیے ایک پرائیویٹ بل بھی لے کر  آئے۔

اب واپس اصل سوال کی طرف۔ کیا واقعی مسلمانوں کی آبادی بہت تیزی سے بڑھ رہی ہے؟ کیا مسلم آبادی ہندوؤں کو پیچھے چھوڑ دے گی؟

یہ درست ہے کہ مسلمانوں کی آبادی 1951 میں 9.8 فیصد سے 60 سالوں میں بڑھ کر 2011 میں 14.2 فیصد ہوگئی۔ دوسری طرف ہندوؤں کی آبادی 84 فیصد سے کم ہو کر 79.8 فیصد ہو گئی۔ اس کا مطلب ہے کہ مسلمانوں کی آبادی میں 4 فیصد اضافہ ہونے میں 60 سال لگے۔ ظاہر ہے 40 فیصد بڑھنے میں 600 سال لگیں گے۔ یہ بھی اسی صورت میں ممکن ہے جب مسلمانوں کی آبادی یکساں طور پر بڑھتی رہے۔ جبکہ یہ کبھی ممکن نہیں ہے۔

درحقیقت، گزشتہ دہائیوں میں مسلم خواتین کی شرح پیدائش (برتھ ریٹ )میں تیزی سے گراوٹ  آئی ہے۔ نیشنل فیملی ہیلتھ سروے (این ایف ایچ ایس) کا ڈیٹا اس بات کا گواہ ہے۔ این ایف ایچ ایس1– ( (1992-93) میں مسلم خواتین کے لیے کل فرٹیلیٹی ریٹ (ٹی ایف آر) 4.4 اور ہندو خواتین کی 3.3 تھی۔ این ایف ایچ ایس –2  ( (1998-99میں مسلمانوں کی ٹی ایف آر 3.6 اور ہندوؤں کی  2.8 پر آگئی۔

سال 2005-06 میں جاری کردہ این ایف ایچ ایس–3 کے اعداد و شمار کے مطابق، مسلمانوں کی ٹی ایف آر 3.4 اور ہندوؤں کی 2.6 تھی۔ جبکہ 2014-15 میں ہوئے این ایف ایچ ایس4– میں مسلمانوں کی ٹی ایف آر میں بڑی گراوٹ آئی۔یہ .8 پوائنٹس گھٹ کر 2.6 رہ گئی۔ جبکہ ہندوؤں کی ٹی ایف آر .5 گھٹ کر 2.1 ہوگئی۔

امریکہ میں پیو ریسرچ سنٹر کی سینئر محقق اسٹیفنی کریمر (2021) کے مطابق، پچھلے پچیس سالوں میں یہ پہلا موقع ہے کہ مسلم خواتین کی شرح پیدائش کم ہوکرفی عورت دو بچوں کے قریب پہنچ گئی ہے۔اسی طرح دہلی یونیورسٹی کے وائس چانسلر پروفیسر دنیش سنگھ اور کے آر منگلم یونیورسٹی کے پروفیسر اجے کمار نے ایک ریاضیاتی ماڈل کے ذریعے یہ نتیجہ اخذ کیا ہے کہ مسلمانوں کی آبادی ہندو آبادی سے کبھی آگے نہیں بڑھ سکتی، در حقیقت دونوں کی آبادی میں یہ فرق کبھی صفر نہیں ہو سکتا۔ (دیکھئے وائی سی قریشی، دی متھ آف پاپولیشن، ص: 346-351)

دراصل آبادی میں اضافے کا تعلق ناخواندگی اور غربت سے ہے، کسی دھرم یا مذہب سے نہیں۔ سچر کمیٹی کی رپورٹ (2005-06) کے مطابق مسلم کمیونٹی سماجی، معاشی اور تعلیمی لحاظ سے پسماندہ اور حاشیے پر ہے۔ بیداری کی کمی اور صحت کی خدمات کی عدم دستیابی کی وجہ سے مسلم کمیونٹی کی ترقی کی شرح زیادہ ہے۔ جیسے جیسے تعلیم اور بیداری میں اضافہ ہو رہا ہے، مسلم خواتین میں شرح پیدائش کم ہو رہی ہے۔

سال 1995 کے بعد 2020 میں یعنی 25 سال بعد تمام برادریوں میں مسلم خواتین کی شرح پیدائش (برتھ ریٹ ) میں سب سے تیزی سے کمی ریکارڈ کی گئی ہے۔ نتیجتاً ان کی آبادی میں اضافے کی شرح میں بھی کمی آئی ہے۔ اس لیے مسلمانوں کی تیزی سے آبادی میں اضافے کی باتیں صرف سیاسی پروپیگنڈہ ہیں۔ اس کے ذریعے ہندوؤں میں خوف اور اندیشہ پیدا کرکے ان کا پولرائزیشن  کیا جا رہا ہے۔ یہ سیاسی اقتدار پر قبضہ کرنے کی  ایک سازش ہے۔

اس سے دائیں بازو کی ہندوتوا سیاست کوجیت ضرور مل رہی ہے، لیکن سماج اس کی بڑی قیمت چکا رہا ہے۔ سماجی ہم آہنگی اور بھروسہ ٹوٹ رہا ہے۔ مشکل یہ ہے کہ سیاسی ایجنڈوں کے لیےپیدا کی جارہی  اس تقسیم کو ختم کرنے میں صدیاں لگ جائیں گی۔ اس کا خمیازہ عام ہندو مسلم کو بھگتنا پڑے گا۔

اقتدار میں بیٹھے لوگ زیڈ کیٹیگری کی سکیورٹی میں ہوتے ہیں لیکن سماج  آپسی  بھائی چارے اور اعتماد پر چلتا ہے۔ اگر آپسی بھروسہ ٹوٹ گیا اور ہم آہنگی نہیں رہی  تو یہ قوم اور ثقافت دونوں کے لیے خطرناک ہوگا۔

(روی کانت لکھنؤ یونیورسٹی میں ہندی پڑھاتے ہیں۔)