خبریں

 ماؤسٹ لنک معاملے میں ڈی یو کے سابق پروفیسر سائی بابا کوبری کیا گیا، فوراً رہائی کا حکم

گڑھ چرولی کی ایک عدالت نے 2017 میں جی این سائی بابا اور پانچ دیگر کو ماؤنوازوں سے تعلق رکھنے اور ملک کے خلاف جنگ چھیڑنے جیسی سرگرمیوں میں ملوث ہونے کا قصور وار ٹھہرایا تھا۔ بامبے ہائی کورٹ نے تمام لوگوں کو بری کرتے ہوئے کہا کہ ‘قومی سلامتی کے لیے مبینہ خطرہ’ کے نام پر قانون کو طاق پر نہیں رکھا جا سکتا۔

جی این سائی بابا۔(فائل فوٹو بہ شکریہ: اے این آئی)

جی این سائی بابا۔(فائل فوٹو بہ شکریہ: اے این آئی)

نئی دہلی: بامبے ہائی کورٹ کی ناگپور بنچ نے جمعہ کو دہلی یونیورسٹی (ڈی یو) کے سابق پروفیسر جی این سائی بابا کو مبینہ طور پر ماؤنوازوں سے تعلق رکھنے کے معاملے میں بری کر دیا اور انہیں جیل سے فوراً رہا کرنے کا حکم دیا۔

جسٹس روہت دیو اور جسٹس انل پنسارے کی ایک ڈویژن بنچ نے سائی بابا کو مجرم قرار دینے اور  عمر قید کی سزا سنانے کے نچلی  عدالت کے 2017 کے فیصلے  کو چیلنج دینے والی ان کی عرضی قبول کرلی۔

سائی بابا 90 فیصد جسمانی معذوری کی وجہ سے وہیل چیئر کا سہارا لیتے ہیں۔ انہیں ناگپور سینٹرل جیل کے بدنام زمانہ انڈا سیل میں رکھا گیا ہے۔ گزشتہ برسوں میں جیل میں مناسب علاج اور سہولیات فراہم نہ کیے جانے  کا معاملہ سائی بابا کے وکیلوں  نے کئی بار اٹھایا تھا۔

رپورٹ کے مطابق، انہیں بری کرتے ہوئے عدالت نے کہا کہ ‘قومی سلامتی کے لیے مبینہ خطرہ’ کے نام پر قانون طاق پر نہیں رکھا جا سکتا۔

ہائی کورٹ کی بنچ نے حکم دیا کہ اگر درخواست گزار کسی اور کیس میں ملزم نہیں ہیں تو انہیں فوراً جیل سے رہا کیا جائے۔

معاملے میں سائی بابا اور دیگر کی طرف سے ایڈوکیٹ نہال سنگھ راٹھوڑ پیش ہوئے تھے۔ بنچ نے اس معاملے میں پانچ دیگر مجرموں – مہیش ترکی، پانڈو نروٹے، ہیم مشرا، پرشانت راہی اور وجے این ترکی کی عرضی بھی منظور کر لی اور انہیں بری کر دیا۔ ان درخواست گزاروں میں سے ایک پانڈو نروٹے کی معاملے کی سماعت ملتوی ہونے کے دوران گزشتہ اگست کے مہینے میں موت ہو گئی تھی۔

اس وقت نروٹے کے وکیلوں نے الزام لگایا تھا کہ جیل حکام نے وقت پر طبی سہولیات فراہم نہیں کی۔ انہوں نے کہا تھا کہ نروٹے کی حالت خراب ہونے کے بعد ہی انہیں اسپتال لے جایا گیا۔

سائی بابا کو بری کرنے کے بارے میں فون پر دی وائر سے بات کرتے ہوئےسائی بابا کی اہلیہ اے ایم وسنتا نے کہا، یہ جیت وکیلوں اور ان تمام لوگوں کے بغیر ممکن نہیں تھی جنہوں نے اتنے سالوں تک سائی بابا اور میرا ساتھ دیا۔ یہ ایک لمبی لڑائی  تھی، لیکن مجھے خوشی ہے کہ آخرکار انصاف ہوا۔

غور طلب ہے کہ مہاراشٹر کے گڑھ چرولی ضلع کی ایک سیشن عدالت نے مارچ 2017 میں سائی بابا، ایک صحافی اور جواہر لعل نہرو یونیورسٹی (جے این یو) کے ایک طالبعلم سمیت دیگر کو ماؤنوازوں سے مبینہ تعلقات  اور ملک کے خلاف جنگ چھیڑنے کی سرگرمیوں میں ملوث ہونے کا قصور وار ٹھہراتے ہوئے  عمر قید کی سزا سنائی تھی۔

عدالت نے سائی بابا اور دیگر کو یو اے پی اے اور آئی پی سی کی مختلف دفعات کے تحت مجرم قرار دیا تھا۔

ٹرائل کورٹ کا فیصلہ 22 گواہوں کے بیانات پر مبنی تھا، جن میں سے ایک آزاد گواہ کے علاوہ باقی سب پولیس کے گواہ تھے۔

سائی بابا کی سزا کے بعد کے سالوں میں ٹرائل کورٹ میں ان  کے وکیل رہے سریندر گاڈلنگ،  ان کے ساتھی ڈی یو پروفیسر ہینی بابو اور ان کے قریبی دوست رونا ولسن کو بھی یو اے پی اے الزامات کے تحت گرفتار کیا گیا تھا۔ جب گاڈلنگ عدالت میں ان کا مقدمہ لڑ رہے تھے،  تب بابو اور ولسن نے ان کی رہائی کے لیے ایک مہم شروع کی تھی۔ تینوں کو 2018 کے ایلگار پریشد کیس میں کلیدی  ملزم کے طور پرنامزد کیا گیا ہے۔

ہینی بابو کی اہلیہ اور دہلی یونیورسٹی کی پروفیسر جینی روینا نے کہا کہ سائی بابا اور دیگر کے بری ہونے سے انہیں اچانک بڑی امیدیں نظر آ رہی ہیں۔ روینا نے دی وائر کو بتایا،آخرکار، ایلگار پریشد کا معاملہ کافی حد تک سائی بابا کے کیس پر منحصر تھا۔ سائی بابا کے بری ہونے سے ہمیں ان تمام لوگوں کی بے گناہی ثابت کرنے میں مدد ملے گی جو ایلگار پریشد کیس میں ملزم ہیں۔

قابل ذکر ہے کہ 3 اپریل 2021 کو دہلی یونیورسٹی کے رام لال آنند کالج نے سائی بابا کو کالج میں اسسٹنٹ پروفیسر کے عہدے سے ہٹا دیا تھا۔ انہوں نے سال 2003 میں کالج جوائن کیا تھا اور 2014 میں انہیں  مہاراشٹر پولیس کے گرفتار کرنے کے بعد سسپنڈ کردیا گیاتھا۔

 (خبر رساں ایجنسی بھاشاکے ان پٹ کے ساتھ)