خبریں

بلقیس کیس: ’اچھے سلوک‘ کی وجہ سے رہا ہونے والے مجرموں پر پیرول کے دوران کئی الزامات لگے تھے

ایک رپورٹ کے مطابق، 2002 کے گجرات فسادات میں بلقیس بانو کے ساتھ گینگ ریپ  اور اس کے خاندان کے افراد کے قتل کے 11 قصورواروں میں سے کچھ کے خلاف پیرول پر باہر رہتے ہوئے ‘عورت کی توہین’ کے الزام میں ایک  ایف آئی آر درج کی گئی اور دو شکایتیں بھی پولیس کو موصول ہوئی تھیں۔ ان پر گواہوں کو دھمکانے کا  الزام  بھی لگاتھا۔

15 اگست کو مجرموں کی جیل سے رہائی کے بعد ان کا خیرمقدم کیا گیا۔ (تصویر: پی ٹی آئی)

15 اگست کو مجرموں کی جیل سے رہائی کے بعد ان کا خیرمقدم کیا گیا۔ (تصویر: پی ٹی آئی)

نئی دہلی: 2002 کے گجرات فسادات میں بلقیس بانو کے ساتھ  گینگ ریپ  اور اس کے خاندان کو لوگوں کوقتل کرنے کے قصوروار  11 افراد کی جلد رہائی کا دفاع کرتے ہوئے گجرات حکومت نے ‘اچھے سلوک’ اور مرکزی حکومت  کی منظوری کا حوالہ دیا ہے۔

تاہم، ‘اچھے سلوک’ کے دعووں پر مجرموں کے خلاف سامنے آنے والی ایف آئی آر نے سوالات کھڑے کر دیے ہیں۔ قابل ذکر ہے کہ قبل از وقت رہائی سےپہلے مجرموں  نے  ہزاروں دن پیرول پر گزارے تھے۔

انڈین ایکسپریس کی ایک رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ 15 اگست 2022 کو رہائی سے قبل11 میں سے 10 مجرم پیرول، فرلو اور عارضی ضمانت پر 1000 دنوں سے زیادہ جیل سے باہر تھے۔ وہیں، 11 واں مجرم 998 دنوں تک جیل سے باہر تھا۔

سزا کے دوران سب سے زیادہ وقت تک رمیش چاندنا 1576 دن (چار سال سے زیادہ) تک جیل سے باہر رہا، جس میں 1198 دن پیرول اور 378 دن کی فرلو شامل ہے۔

گجرات حکومت کے حلف نامے میں کہا گیا ہے کہ 11 مجرم اوسطاً 1176 دن جیل سے باہر رہے۔

تاہم، این ڈی ٹی وی کے مطابق، متعدد ایف آئی آر اور پولیس شکایتوں کی جانچ پڑتال کے بعد یہ بات سامنے آئی کہ مجرموں کے خلاف پیرول پر باہر رہنے کے دوران گواہوں کو ڈرانے دھمکانے اور ہراساں  کرنے کے الزامات ہیں۔

حالاں کہ، ان کے اچھے سلوک کے دفاع میں گجرات حکومت نے یہ بھی دعویٰ کیا تھا کہ جیل میں  رہنے اور پیرول پر باہر جانے  کے دوران  مجرموں کی طرف سے کسی غلط کام کا کوئی ثبوت نہیں ہے۔

جبکہ سال 2017-21 کے درمیان بلقیس بانو کیس میں چار گواہوں نے ملزمین کے خلاف دو شکایتیں اور ایف آئی آر درج کرائی تھیں۔

این ڈی ٹی وی نے ایک ایف آئی آر اور دو پولیس شکایتوں کا تجزیہ کیا ہے۔

ایف آئی آر کے بارے میں بات کریں تو6 جولائی 2020 کو جب رادھےشیام شاہ اور میتیش بھائی بھٹ نامی دونوں مجرم پیرول پر باہر تھے، تو ان کے خلاف ایف آئی آر درج کی گئی تھی۔

ایف آئی آر داہود کے رادھیکاپور پولیس اسٹیشن میں تعزیرات ہند (آئی پی سی) کی دفعہ 354 (عورت کی توہین)، 504 (دھمکی دینا)، 506 (2) (جان سے مارنے کی دھمکی) اور 114 (اکسانے) کے تحت درج کی گئی تھی۔

ایف آئی آرسبیرا بین پٹیل اور بلقیس بانو معاملے کے ایک گواہ پنٹو بھائی نے درج کرائی تھی۔

ایف آئی آر میں کہا گیا ہے کہ دونوں مجرم اور رادھے شیام کے بھائی آشیش سمیت تین لوگوں نےسبیرا  بین، ان کی بیٹی عارفہ  اور گواہ پنٹو بھائی کو دھمکی دی تھی کہ انہوں نے بیانات دے کر انہیں پھنسایا ہے۔

اسی طرح، کیس کے ایک اور گواہ منصوری عبدالرزاق نے بھی 1 جنوری 2021 کو داہود پولیس میں شکایت درج کرائی تھی، جس میں مجرم چمن لال بھٹ پر پیرول پر باہر آنے کے بعد اسے ڈرانے دھمکانے کا الزام لگایا گیا تھا۔

یہ شکایت کبھی ایف آئی آر میں تبدیل نہیں ہوئی۔

دو دیگر گواہوں، گھانچی آدم بھائی اسماعیل بھائی اور گھانچی امتیاز بھائی یوسف بھائی نے 28 جولائی 2017 کو ایک اور مجرم گووند نائی کے خلاف شکایت درج کرائی تھی۔

شکایت کنندگان کا الزام تھا کہ ملزمین نے انہیں سمجھوتہ نہ کرنے کی صورت میں جان سے مارنے کی دھمکی دی تھی۔ نائی اس دوران پیرول پر باہر تھا۔ یہ شکایت بھی کبھی ایف آئی آر میں تبدیل نہیں ہوئی۔

بتادیں کہ مجرموں کو 15 اگست 2022 کو یوم آزادی کے موقع پر 2002 میں ہوئے  بلقیس بانو گینگ ریپ  اور اس کی بچی سمیت خاندان کے سات افراد کے قتل  کے معاملے میں عمر قید کی سزا کاٹ رہے  تمام 11 مجرموں کی سزا معاف کر دی گئی تھی اور ان کو رہا کر دیا گیا تھا۔

سوشل میڈیا پر سامنے آئے ایک ویڈیو میں ریپ  اور قتل کے لیے قصوروار ٹھہرائے گئے  ان لوگوں  کا استقبال مٹھائی کھلا کر کیا جا رہا ہے۔ جس پر کارکنوں نے شدید غم و غصے کا اظہار کیا تھا۔اس کے علاوہ سینکڑوں خواتین کارکنوں سمیت 6000 سے زائد افراد نے سپریم کورٹ سے مجرموں کی سزا کی معافی کے فیصلے کو رد کرنے کی اپیل کی تھی۔

اس سے قبل منگل (18 اکتوبر) کو سپریم کورٹ نے مجرموں کی رہائی کے خلاف دائر عرضیوں  کے جواب میں گجرات حکومت کی طرف سے جمع کرائے گئے جواب کی تنقید کرتے ہوئے کہا تھا کہ اس میں کئی فیصلوں کا حوالہ دیا گیا ہے لیکن حقائق پر مبنی بیانات غائب ہیں۔

جسٹس اجے رستوگی اور سی ٹی روی کمار کی بنچ نے کہا، ہم نے کوئی ایسا جوابی حلف نامہ نہیں دیکھا ہے جس میں کئی فیصلوں کا حوالہ دیا گیا ہو۔ حقائق  پر مبنی بیان دیا جانا چاہیے تھا۔ بہت بوجھل جواب۔ حقائق پر مبنی بیان کہاں ہے، دماغ کا استعمال کہاں ہے؟’

بنچ نے ہدایت دی کہ گجرات حکومت کی طرف سے داخل کردہ جواب تمام فریقوں کو دستیاب کرایا جائے۔

ریاستی حکومت نے کمیونسٹ پارٹی آف انڈیا-مارکسسٹ (سی پی آئی-ایم) لیڈر سبھاشنی علی، آزاد صحافی ریوتی لال اور لکھنؤ یونیورسٹی کی سابق وائس چانسلر روپ ریکھا ورما کی طرف سے مجرموں کی رہائی کے خلاف دائر کی گئی پی آئی ایل  پر اپنا جواب داخل کیا تھا۔

خیال رہے کہ  17 اکتوبر کو عدالت کے سامنے گجرات سرکار نے  بتایا کہ 11 جولائی 2022 کو لکھے گئے خط کے توسط سے مرکزی وزارت داخلہ کے ذریعےگجرات فسادات کے دوران بلقیس بانو کے گینگ ریپ اور ان کے رشتہ داروں کے قتل کے قصوروار ٹھہرائے  گئے گیارہ لوگوں کی  سزا معافی اور قبل از وقت رہائی کو منظور دی گئی تھی۔

دریں اثنا، گجرات حکومت نے اپنے حلف نامے میں کہا تھا کہ ،ان کا [مجرموں کا] سلوک اچھا پایا گیا تھا، اور انہیں اس بنیاد پر رہا کیا گیا کہ وہ  قید میں  چودہ سال گزار چکے تھے۔

گجرات حکومت نے عدالت عظمیٰ کے سامنےبتایاکہ معافی کا فیصلہ 9 جولائی 1992 کی اس کی معافی  پالیسی کے مطابق لیا گیا تھا، ‘جس کی ہدایت  عدالت عظمیٰ نے دی  تھی’ نہ کہ ‘آزادی کے امرت مہوتسو’ کے حصے کے طور پر’ قیدیوں کو  دینے والے سرکلر کے تحت۔

وہیں، گزشتہ دنوں  مرکزی وزیر پرہلاد جوشی نے بھی مجرموں کے دفاع میں ایک بیان میں کہا تھا کہ انہیں اچھے سلوک کی وجہ سے رہا کیا گیاتھا۔

حلف نامے میں کہا گیا ہے کہ چونکہ درخواست گزار ایک اجنبی اور کیس میں تیسرا فریق ہے، اس لیے اسے مجاز اتھارٹی کی طرف سے جاری سزا کی معافی کے حکم کو چیلنج کرنے کا کوئی حق نہیں ہے۔

گجرات حکومت نے یہ کہتے ہوئے اس عرضی کو خارج کرنے کا مطالبہ بھی کیا تھا کہ اس معافی کو چیلنج کرنے والے درخواست گزار کچھ نہیں بلکہ ‘دوسروں کے کام میں رکاوٹ ڈالنے والے’ ہیں اور ‘ان کا اس سے کچھ لینا دینا نہیں ہے’ اور عرضی ‘سیاسی سازش’ کا حصہ  ہے۔

مجرم رادھے شیام نے بھی اسے اور 10 دیگر مجرموں کو سزا میں دی گئی چھوٹ  کو چیلنج کرنے والے عرضی گزاروں کے دائرہ اختیار پر سوال اٹھاتے ہوئے  25 ستمبر کو کہا تھا کہ  اس معاملے میں عرضی گزار ‘پوری طرح  اجنبی’ ہیں۔

آر ٹی آئی درخواستوں کے باوجود سزا معافی کی جانکاری نہیں دی: بلقیس کے شوہر

دریں اثنا، بلقیس بانو کے شوہر نے کہا ہے کہ انہوں نے آر ٹی آئی کے تحت مجرموں کی رہائی سے متعلق جانکاری مانگی تھی، جو انہیں نہیں دی گئی۔

ٹائمز آف انڈیا کی خبر کے مطابق، بلقیس بانو اور کیس کے گواہ رزاق منصوری نے سزامعافی کے فوراً بعد مختلف حکام سے اس حوالے سے جانکاری مانگی تھی۔ ان کا دعویٰ ہے کہ یہ معلومات صرف اس وقت سامنے آئیں جب ریاستی حکومت نے سپریم کورٹ میں حلف نامہ داخل کیا۔

بلقیس کے شوہر یعقوب پٹیل نے الزام لگایا،جب سپریم کورٹ نے جانکاری مانگی تو انہوں نے (ریاستی حکومت) کہا کہ انہوں نے مرکزی حکومت سے اجازت  لے لی ہے۔ جب ہم نے جانکاری  مانگی تو ہمیں ایک کاغذ تک  نہیں دیا گیا۔

منصوری نے کہا کہ انہوں نے سزامعافی کے فوراً بعد پنچ محل ضلع کلکٹر کو ایک آر ٹی آئی درخواست دی تھی۔ انہوں نے کہا، تاہم، ہمیں ابھی تک کوئی اطلاع نہیں ملی ہے۔ دو ماہ سے زیادہ ہو گیا ہے۔

انہوں نے کہا کہ بلقیس نے بھی اگست کے مہینے میں مختلف سرکاری افسروں، یہاں تک کہ ریاست کے محکمہ داخلہ کو بھی آر ٹی آئی درخواست بھیجی تھی۔

انہوں نے بتایا کہ غلطی سے وہ ریاستی محکمہ داخلہ کو بھیجے گئے آر ٹی آئی میں 20 روپے کا ڈاک ٹکٹ نہیں چسپاں کر سکے۔ منصوری نے کہا، ہمیں ایک خط ملا جس میں 20 روپے دیے جانے کا ذکر تھا۔ بلقیس نے 20 روپے کا منی آرڈر بھیجا، لیکن اسے واپس بھیج دیا گیا۔

منصوری نے کہا کہ بلقیس کی طرف سے دیگر عہدیداروں کو بھیجی گئی آر ٹی آئی درخواستوں کا کوئی جواب نہیں آیا ہے۔

(خبر رساں ایجنسی بھاشاکے ان پٹ کے ساتھ)