فکر و نظر

نیا سال: کیا کہیں کوئی امید ہے …  

نئے سال میں اصل تشویش ہندوستان میں ہندو ذہن کی تشکیل ہے جو احساس برتری کے نشے میں دھت ہے۔ مسلمان بے یارومددگار ہیں۔ چند دانشور ہی ان کے ساتھ ہیں۔ کشمیر میں مسلمانوں کو ان کے حقوق سے محروم کیا جا رہا ہے۔ آسام میں ان کو حاشیے میں دھکیلا جا رہا ہے اور پورے ملک میں قانون اور غنڈوں کی ملی بھگت  سے ان کو ہراساں  کیا جا رہا ہے۔

(علامتی  تصویر: پی ٹی آئی)

(علامتی  تصویر: پی ٹی آئی)

‘نئے سال میں کن مسائل، چیلنجز اور امیدوں کے ساتھ داخل ہو رہے ہیں؟’، دوست کا سوال تھا۔ عام طور پر نئے سال کے ارادوں کا ذکر ہوتا ہے۔ لیکن ایک معاشرہ یا ملک  کے طور پر ہم کچھ ارادے کریں اور وہ کارآمد ہوں ،اس سے پہلے اپنی حالت  کا ایمانداری سے جائزہ لینا ضروری ہے۔

سب سے بڑی تشویش کیا ہے؟ کچھ لوگ کہتے ہیں کہ معاشرے میں برادریوں کے درمیان بڑھتی ہوئی خلیج۔ بنیادی طور پر ہندو مسلم کے درمیان علیحدگی۔ لیکن ایسا کہنے سے بھرم پیدا ہوتا ہے کہ اس میں قصور دونوں فریق ہے۔ بات  یہ نہیں ہے۔

اصل تشویش ہندوستان میں ایک ایسے ہندو ذہن کی تشکیل ہے جو احساس برتری کے نشے میں دھت ہے۔ باقی باتیں اسی سے متعلق ہیں۔ احساس برتری میں مبتلا ذہن بیرونی اثرات سے خوفزدہ، تنگ اور بند ہوتاہے۔ جس کی وجہ سے وہ کمزور بھی ہو جاتا ہے۔

ماننا برا لگتا ہے، لیکن یہ سچ ہے کہ آج کا عام ہندو ذہن بیرونی اور غیر ملکی کے تئیں تعصب  اور نفرت سے بھرا ہوا ہے۔ باہری طرح طرح  کے ہو سکتے ہیں۔ وہ مسلمان ہیں اور عیسائی بھی۔ ان کے ساتھ رشتہ  عداوت  کا ہی ہو سکتا ہے۔

ہندومت یا سناتن دھرم (یہ کیا ہے، اس کے ماننے والے بھی نہیں بتا سکتے، حالانکہ وہ اس پر فخر کرتے ہوں) چونکہ یہ دنیا کا بہترین، فیاض  اور عدم تشدد پر مبنی مذہب ہے، اس لیے ہندو اسے ایک جھوٹا الزام اور پروپیگنڈہ سمجھتے ہیں کہ وہ علیحدگی پسند ہیں اوریہ کہ وہ  زیادہ  پرتشدد ہوتے جا رہے ہیں۔ وہ اپنے بارے میں یہ سن کر مزید غصے میں آجاتے ہیں۔

ایک اور تشویش کی بات یہ ہے کہ انہوں نے تاریخ کے باقی ماندہ فرض کو پورا کرنے یعنی اپنے آباؤ اجداد کی شکست کا بدلہ لینے کے نام پر اپنی نفرت اور تشدد کو جائز قرار دینا شروع کر دیا ہے۔ اب وہ خود کو ایک جگا ہوا ہندو کہتے ہیں۔

یہ ہندو احساس برتری  باقی مذہبی برادریوں کوکمتر اور باہر ی مانتی ہے۔ اس کے ساتھ ہی  نسلی تفاخر کی واپسی ایک اور تشویشناک بات ہے۔ سماجی انصاف کے خلاف ایک طرح کی اشرافیہ ذہنیت ایک  دوسری طرح  کے تشدد کو جنم دے رہی ہے۔

ہندو سماج، جو صرف مسلمانوں اور عیسائیوں کے خلاف متحد نظر آتا ہے، بری طرح بکھرا ہوا ہے اور نسلی منافرت اور مقابلہ بازی، جس کو تشدد میں بدلتے دیر نہیں لگتی، اب اس کی فطرت ہے۔ ذات پات کی مختلف تنظیموں کا جنم،نسلی تہواروں میں شدت پسندی  آج کی خاصیت ہے۔پہلے جس نسلی تفاخر کے بارے میں بات کرنے میں ہچکچاہٹ ہوتی تھی، اب وہ فخر کی بات ہے۔ اور یہ سب نئی نسل کی بات  ہے۔

اس طرح ہمارا ملک اور معاشرہ بے مثال ٹوٹ پھوٹ کا شکار ہے۔ آج کسی مشترکہ سماجی یا قومی مفاد کا تصور کرنا محال ہے۔ ہندوستان کی عوام  جیسا کوئی تصور ناممکن ہے۔

اسی وجہ سے جب کسان اپنے مفادات کے لیے سڑک پر آئے تو حکومت اور میڈیا نے یہ ثابت کرنے کی کوشش کی کہ وہ کسان نہیں خالصتانی ہیں۔ کسان مفاد نام کی کوئی چیز نہیں ہے۔ ایک حد تک وہ شمالی ہندوستان کے ہندوؤں میں اس تحریک کے لیے شکوک  وشبہات کے بیج بونے میں کامیاب ہو گئے۔

دوسری بڑی تشویش کی بات یہ ہے کہ احساس برتری  کے نشے میں دھت  ہندو سماج اب حقیقت کی پہچان بھولنے لگا ہے۔ ایک طرح سے وہ زوال  کا شکار ہے۔ معلومات کی کمی اسے پریشان نہیں کرتی، وہ معلومات دینے والے کو کاٹنے کے لیے دوڑتا ہے، کیونکہ وہ  اس کا نشہ   توڑ دیتی ہے اور وہ یہ نہیں چاہتا۔ وہ برتری کی نشہ آور لذت کو ترک نہیں کرنا چاہتا۔

اس سے جڑی دوسری تشویش معاشرے میں علم و آگہی کا ختم ہونا ہے۔ علم کی طاقت سے انکار، اس کی  جگہ خود کو برتر ٹھہرانے والے نظریات کو ہی علم کا درجہ دیا جا رہا ہے۔

ہندوستان کی تاریخ دنیا میں سب سے قدیم ہے، یہ 12000 سال پرانی تاریخ ہے، ہندوستان کا اصل مذہب ہندو مت ہے، سنسکرت دنیا کی زبانوں کی ماں ہے، یہ سب اب سرکاری علم ہیں۔

علم کی طاقت کے زوال کے لیے ضروری تھا کہ دانشور طبقے کو عوام دشمن بنا کر پیش کیا جائے کیونکہ وہ عوام کے اس نشہ کو توڑنا چاہتا ہے۔ ان کو اپنی خوشی کی راہ میں رکاوٹ سمجھ کرعوام ان کے خلاف کسی بھی حملے میں اسٹیٹ کے ساتھ ہے۔

اس احساس برتری  کا سہارا لے کر اور اس کی ترجمان اور محافظ بن کر بھارتیہ جنتا پارٹی نے ہندو اکثریت پسندی کو جمہوریت کا محرک بنا دیا ہے۔ دوسری سیاسی جماعتیں اسےچیلنج کرنےمیں خود کواہل  نہیں پا رہی  ہیں۔

اس کی وجہ سے ہندوستانی جمہوریت تعطل کا شکار ہے۔ یہ اکثریت پسندی  شمالی ہندوستان کی دین ہے، لیکن   اس کی آبادی زیادہ ہونے کی وجہ سے باقی ہندوستان  کوبھی اس کا شکار ہونا پڑ رہا ہے۔

یہ تشویش صرف اس سال کی نہیں ہے بلکہ اس سال یہ مزید شدت اختیار کر گئی ہے کہ پروپیگنڈے، نفرت انگیز پروپیگنڈے نے معلومات، تجزیہ اور مکالمے کو راندہ درگاہ کر دیا ہے۔ پوراذرائع ابلاغ  مسلم دشمنی کا کارخانہ بن چکا ہے۔ چونکہ وہ ایسا ہے اس لیے وہ بنیادی طور پر دلت مخالف ہے اور غریب مخالف بھی۔ وہ کسی بھی عوامی تحریک کے خلاف ہے۔

مسلمان بے یارومددگار ہیں۔چند دانشور اس کے ساتھ ہیں۔ صرف بی جے پی ہی نہیں، پورا سیاسی نظام ان کے خلاف ہے۔ کشمیر میں مسلمانوں کو حقوق سے محروم کیا جا رہا ہے، آسام میں محصور کیا جا رہا ہے اور قانون اور غنڈوں کی ملی بھگت سے ملک بھر میں ان کو ہراساں  کیا جا رہا ہے۔

جیسا کہ پریم چند نے ایک صدی پہلے کہا تھا، کوئی بھی عزت نفس رکھنے والی قوم  اس توہین اور ایذا رسانی کو صرف ایک حد تک برداشت کر سکتی ہے۔ مسلمانوں نے اب تک ہندوستان کی جمہوری قدروں پر یقین کیا ہے، لیکن جس طرح سے آئینی ادارے اکثریت پسند ہوتے جارہے ہیں، اس یقین کی بھی اپنی حد ہوگی۔ پولیس اور انتظامیہ کا اکثریت پسند ہونا تشویش کی سب سے بڑی وجہ ہے۔

ایک تشویش انصاف کے احساس کے کھو جانے کی ہے۔ بلڈوزر فوری انصاف کی علامت بن چکا ہے۔ یہ سماجی جبلت بہت خطرناک ہے۔ اس سمت میں عدلیہ کی بے حسی اس تشویش میں مزید اضافہ کرتی ہے۔ اس کے علاوہ خود عدلیہ میں اکثریت پسندی  کا رجحان ، جو حجاب، ریزرویشن، گیان واپی یا متھرا جیسے فیصلوں سے ظاہر ہے، تشویشناک ہے۔

یہ بنیادی خدشات ہیں۔ بے روزگاری، معاشی ناہمواری، تعطل بھی تشویش کا باعث ہیں، لیکن ہندو سماج کو دیکھیں تو ایسا نہیں لگتا۔ جب تک وہ قوم پرست روحانیت کے فریب سے آزاد نہیں ہوگا، دنیا اسے قبول نہیں کر سکتی۔

سب سے بڑا چیلنج ہندو ذہن کو اس نشہ سے آزاد کرنا ہے۔ اس کے لیے یہ چیلنج ہے کہ وہ اس دیوار کو گرا دے جو میڈیا نے اس کے اور حقیقت کے درمیان کھڑی کر دی ہے۔ یعنی معلومات اور علم کی ایک قسم کی عوامی مہم چلانا بھی چیلنج ہے۔ علم کے خیال کو زندہ رکھنے کا چیلنج بہت بڑا ہے۔ جب علم کے تمام مراکز اور وسائل قوم پرستوں کے قبضے میں ہوں گے تو یہ کیسے ہو گا؟

کیا سیاسی جماعتیں اکثریتی فتنہ کا مقابلہ کر پائیں گی؟ کیا وہ مسلمانوں اور عیسائیوں کی سیاسی سرگرمی کو قبول کریں گے؟ کیا وہ دیکھ رہے ہیں کہ اب عام مسابقتی پارلیامانی سیاست کا وقت نہیں ہے؟ اب ان کا کام صرف خود کو بچانا نہیں بلکہ پوری ادارہ جاتی جمہوریت کو بچانا ہے۔ ان کے سامنے چیلنج یہ ہے کہ وہ اس سیاسی لمحے کو پہچانیں اور اس کے مطابق اپنے  فرائض کا تعین کریں۔

کیا کہیں امید ہے؟اول تو امید کا  کوئی متبادل نہیں لیکن  اس کے ذرائع ہیں۔ مسلمان بے یارومددگار اور وسائل سے محروم ہونے کے باوجود انصاف کے لیے لڑ رہے ہیں۔ تمام اداروں کے خلاف یابے حس ہونے کی وجہ سے انہیں اس میں کتنا خطرہ مول لینا پڑتا ہے! ایک طرح سے وہ عدالتوں کو بھی حوصلہ دے رہے ہیں۔ عدلیہ دیر سے  ہی سہی اپنی خود مختاری کے لیے  محتاط نظر آرہی ہے، یہ امید کی ایک اور وجہ ہے۔

‘بھارت جوڑو یاترا’ نے سیاسی امیدیں جگائی ہیں۔ کانگریس پارٹی کاخود پر یقین لوٹنا ہندوستان کی جمہوریت کے لیے اچھی خبر ہے۔ سیاست کا مطلب عوام سے مکالمہ ہے، یہ صرف کانگریس ہی نہیں، دوسری پارٹیوں کو بھی اس کی یاد آئی ہے، یہ امید کی بات ہے۔

تمام تر جبر کے باوجود اب آزاد صحافیوں کی ایک قابل ذکر تعداد ابلاغ کے پل بنانے میں مصروف ہیں۔ طلباء کورونا انفیکشن کے بعد کیمپس میں واپس آرہے ہیں۔ کیمپس ان کی وجہ سے زندہ ہو رہا ہے۔ اکثریتی خود مختاری کو یقینی طور پریہاں سے چیلنج کیا جائے گا۔

جو لوگ امید کی یقین دہانی چاہتے ہیں انہیں اتر پردیش کے فیروز پور کے ان مسلم خاندانوں سے ملنا چاہیے، جو گزشتہ تین سالوں سے اپنے مقتولین کے لیے انصاف کی جنگ لڑ رہے ہیں۔ وہ یہ جنگ انصاف کے لیے کر رہے ہیں کیونکہ اس کے بغیر وہ اپنی نظر میں انسان کے درجے سے گر جائیں گے۔ انصاف کے لیےیہ جدوجہد ہی امید ہے۔

(اپوروانند دہلی یونیورسٹی میں پڑھاتے ہیں۔)