خبریں

سپریم کورٹ نے ہلدوانی میں 4500 مکانات کو ہٹانے کے اتراکھنڈ ہائی کورٹ کے فیصلے  پر روک لگائی

گزشتہ 20 دسمبر 2022 کو اتراکھنڈ ہائی کورٹ نے ہلدوانی کے بن بھول پورہ علاقے میں مبینہ طور پر ریلوے کی زمین پر آباد تقریباً 4500 مکانات کو ہٹانے کا فیصلہ سنایا تھا۔ اس کے خلاف وہاں کے مکینوں نے احتجاجی مظاہرہ شروع کرتے ہوئے سپریم کورٹ سے رجوع کیا تھا۔ لوگوں کا دعویٰ ہے کہ ان کے پاس زمین کے مالکانہ حقوق ہیں اور وہ 40 سال سے زیادہ عرصے سے یہاں رہ رہے ہیں۔

جمعرات کو نئی دہلی میں سپریم کورٹ کی جانب سے ہائی کورٹ کے بے دخلی کے حکم پر روک لگانے کے بعد لوگ جشن منا رہے ہیں۔ (تصویر: پی ٹی آئی)

جمعرات کو نئی دہلی میں سپریم کورٹ کی جانب سے ہائی کورٹ کے بے دخلی کے حکم پر روک لگانے کے بعد لوگ جشن منا رہے ہیں۔ (تصویر: پی ٹی آئی)

نئی دہلی: سپریم کورٹ نے جمعرات کو اتراکھنڈ ہائی کورٹ کے اس فیصلے پر روک لگا دی ہے، جس میں مبینہ طور پر ہلدوانی میں ریلوے کی زمین قبضہ  کرنے والوں کو بے دخل کرنے کی ہدایت دی گئی تھی۔

ریلوے کے مطابق، اس کی 29 ایکڑ سے زائد اراضی پر 4 ہزار 365 تجاوزات ہیں،  جبکہ متنازعہ اراضی کے مکین تجاوزات ہٹانے کے حکم کے خلاف احتجاجی مظاہرہ کر رہے ہیں۔ ان کا دعویٰ ہے کہ ان کے پاس زمین کے مالکانہ حقوق ہیں۔

ہائی کورٹ کے فیصلے کے بعد ہلدوانی ریلوے اسٹیشن کے قریب کے علاقے میں رہنے والے  4000 سے زیادہ خاندانوں کو بے دخلی کا سامنا کرنا پڑا، اس دعویٰ کے باوجودکہ وہ 40 سال سے زیادہ عرصے سے ریلوے لائنوں کے قریب زمین پر رہ رہے ہیں۔ رپورٹس میں کہا گیا ہے کہ اس زمین پر سرکاری اسکول بھی بنے ہیں۔

احتجاجی مظاہرہ  کے درمیان کچھ لوگوں نے راحت کے لیے سپریم کورٹ سے رجوع کیا تھا۔

لائیو لا نے اپنی ایک رپورٹ میں بتایا ہے کہ جسٹس سنجے کشن کول اور ابھے ایس اوکا کی بنچ نے کہا ہے کہ سات دنوں میں 50000  لوگوں کو نہیں ہٹایاجا سکتا۔

عدالت عظمیٰ اس حقیقت کے بارے میں ‘خاص طور پر فکر مند’ تھی کہ کئی دہائیوں سے علاقے کے مکینوں نے 1947 میں ہجرت کے بعد نیلامی سے لیز اور خریداری کے ذریعے زمین کا دعویٰ کیا تھا۔

جسٹس کول نے کہا، ‘لوگ اتنے سالوں تک وہاں رہے۔ کچھ بازآبادی کرنی ہوگی ۔وہاں  ادارے ہیں۔ آپ کیسے کہہ سکتے ہیں کہ انہیں سات دن میں ہٹا دیں۔

جسٹس کول نے کہا کہ یہ مان لیں کہ یہ ریلوے کی زمین ہے، حقیقت یہ ہے کہ کچھ لوگ وہاں 50 سال سے زیادہ عرصے سے رہ رہے ہیں اور کچھ نے نیلامی میں زمین خریدی ہے۔ ایسے حقائق ہیں جن سے بالترتیب باز آبادی  اور اراضی کے حصول کے ذریعے سے نمٹایا جانا ہے۔

بنچ نے کہا کہ یہ ایک ‘انسانی مسئلہ’ ہے اور اس کا مناسب حل تلاش کرنے کی ضرورت ہے۔ سپریم کورٹ نے اتراکھنڈ حکومت اور ریلوے کو قابل عمل حل تلاش کرنے کی ہدایت دیتے ہوئے معاملے کی سماعت 7 فروری 2023 تک ملتوی کر دی۔

جسٹس اوکا نے کہا کہ اتراکھنڈ ہائی کورٹ کا حکم متاثرہ فریقوں کو سنے بغیر منظور کیا گیا۔

سپریم کورٹ نے ہلدوانی میں تجاوزات ہٹانے کے ہائی کورٹ کے حکم کے خلاف دائر درخواستوں پر ریلوے اور اتراکھنڈ حکومت سے بھی جواب طلب کیا ہے۔

بنچ نے کہا، ‘نوٹس جاری کیا جاتا ہے۔ اس دوران اس حکم پر روک رہے گی جسے چیلنج کیا گیا ہے۔

بنچ نے کہا، ‘ہم سمجھتے ہیں کہ ان لوگوں کو الگ کرنے کے لیے ایک عملی انتظام ضروری ہے جن کا زمین پر کوئی حق نہ ہو۔ ساتھ ہی، ریلوے کی ضرورت کو قبول کرتے ہوئے بحالی کا منصوبہ بھی ضروری ہے، جو پہلے سے ہی موجود ہو سکتا ہے۔

سپریم کورٹ نے کہا، ‘زمین کی نوعیت، زمین کی ملکیت، دیے گئے حقوق کی نوعیت سے کئی زاویے پیدا ہوتے ہیں۔ ہم آپ سے کہنا چاہتے ہیں کہ کچھ حل تلاش کیجیے۔ یہ ایک انسانی مسئلہ ہے۔

این ڈی ٹی وی کے مطابق، لوگوں کو بے دخل کرنے کے لیے ہائی کورٹ کی طرف سے طاقت کے استعمال کی تجویز کا حوالہ دیتے ہوئے سپریم کورٹ نے کہا، ‘یہ کہنا درست نہیں ہوگا کہ دہائیوں سے وہاں رہ رہے لوگوں کو نکالنے کے لیےنیم فوجی دستوں کو تعینات کیا جائے۔’

ریلوے کے مطابق، اس کی زمین پر 4365 خاندانوں نے تجاوزات کر رکھی ہیں۔ متنازعہ زمین پر 4000 سے زائد خاندانوں سے تعلق رکھنے والے تقریباً 50,000 افراد رہائش پذیر ہیں جن میں سے زیادہ تر مسلمان ہیں۔

بنچ نے کہا کہ ریلوے کی طرف سے پیش ہونے والے ایڈیشنل سالیسٹر جنرل ایشوریہ بھاٹی نے ریلوے کی ضروریات پر زور دیا ہے۔ سپریم کورٹ نے کہا کہ جس معاملے پر غور کیا جانا ہے اس میں ریاستی حکومت کا موقف بھی شامل ہے کہ کیا پوری زمین ریلوے کی ہے یا کیا  ریاستی حکومت زمین کے ایک حصے کا دعویٰ کر رہی ہے۔

عدالت عظمیٰ نے کہا کہ اس کے علاوہ زمین پر قبضہ کرنے والوں کے لیز یا لیز ہولڈ یا نیلامی میں خریدنے کے حق کا دعویٰ کرنے کے مسائل بھی ہیں۔

دی وائر نے اپنی ایک رپورٹ میں بتایا تھا کہ کس طرح ہائی کورٹ کا حکم خطے میں زمین کی ملکیت پر طویل عرصے سے جاری قانونی جنگ کے پس منظر کے خلاف آیا تھا۔ یہ علاقہ مسلم کمیونٹی کی زیادہ تر محنت کش طبقے کی آبادی کا گھر ہے۔

دی وائر کے ذریعے حاصل کی گئی عرضی میں کہا گیا ہے کہ متنازعہ زمین دراصل نزول زمین ہے۔ اس سے مراد غیر زرعی زمین ہے، جو حکومت کی ملکیت ہے، جو لوگوں کو لیز پر دی جا سکتی ہے اور بعض صورتوں میں فری ہولڈ کے طور پر بھی دی جا سکتی ہے۔ یہ نکتہ جمعرات کو عدالت میں درخواست گزاروں کی طرف سے پیش ہونے والے سینئر ایڈووکیٹ سلمان خورشید نے اجاگر کیا۔

غورطلب  ہے کہ 20 دسمبر 2022 کو شرت کمار کی سربراہی میں اتراکھنڈ ہائی کورٹ کی بنچ نے بن بھول پورہ میں 4500 مکانات کو ہٹانے کا حکم دیا تھا۔ اس کے بعد 30 دسمبر کو ڈویژنل ریلوے مینجر عزت نگر کی طرف سے ایک پبلک نوٹس جاری کیا گیا، جس میں رہائشیوں سے کہا گیا کہ وہ ایک ہفتے کے اندر علاقہ خالی کر دیں۔

اس کے خلاف احتجاج کرتے ہوئے ہلدوانی کے کچھ باشندوں نے سپریم کورٹ کا رخ کیا تھا۔ رہائشیوں نے اپنی درخواست میں استدلال کیا ہے کہ ہائی کورٹ نے اس حقیقت کا علم ہونے کے باوجودمتنازعہ فیصلہ کرنے  میں سنگین غلطی کی کہ درخواست گزاروں سمیت رہائشیوں کے مالکانہ حقوق سے متعلق کچھ کارروائی ڈسٹرکٹ مجسٹریٹ کے سامنے زیر التوا ہے۔

ہلدوانی کے بن بھول پورہ میں ریلوے کی مبینہ طور پر 29 ایکڑ سے زیادہ اراضی پر مذہبی مقامات، اسکول، کاروباری ادارے اور رہائش  ہیں۔

درخواستوں میں سے ایک میں کہا گیا ہے، ‘گزارش کی جاتی ہے کہ ہائی کورٹ نے اس بات کا جائزہ نہ لے کرسنگین غلطی کی ہے کہ ریلوے حکام کی طرف سے اس کے سامنے 7 اپریل 2021 کو  پیش کردہ  مبینہ حد بندی کی رپورٹ ایک ڈھکوسلہ ہے، اس طرح یہ ظاہر ہوتا ہے کہ کوئی حد بندی نہیں تھی۔’

درخواست میں کہا گیا ہے، متعلقہ فیصلے میں حد بندی رپورٹ کے کورنگ لیٹر کو پڑھنے کے باوجود رپورٹ کے ان اصل حقائق پر غور نہیں کیا گیا، جس میں صرف تمام رہائشیوں کے نام اور پتےشامل تھے۔

رہائشیوں نے دلیل دی ہے کہ ریلوے اور ریاستی حکام کے ذریعہ اختیار کردہ ‘من مانی اور غیر قانونی’ طریقہ کار کے  ساتھ ساتھ ہائی کورٹ کی جانب سے اسے برقرار رکھنے کےنتیجے میں ان کے پناہ کے حق کی سنگین خلاف ورزی ہوئی ہے ۔

درخواست گزاروں نے دعویٰ کیا ہے کہ ان کے پاس قانونی  دستاویز ہیں، جو واضح طور پر ان کے مالکانہ حق اور قانونی ملکیت کو ثابت کرتے ہیں۔

اس میں کہا گیا ہے، ‘یہ بھی عرض کیا جاتا ہے کہ ہائی کورٹ کو ریاست کے خلاف ووٹ بینک کی سیاست کے الزامات لگانے کے بجائے ان تمام دستاویزوں پر ڈھنگ سے غور کرنا چاہیے تھا۔ اس کے علاوہ مقامی رہائشیوں کے نام ہاؤس ٹیکس رجسٹر میں میونسپل ریکارڈ میں درج ہیں اور وہ باقاعدگی سے ہاؤس ٹیکس ادا کر رہے ہیں۔

بہت سے رہائشیوں کا دعویٰ ہے کہ 1947 میں تقسیم کے دوران ہندوستان چھوڑنے والوں کے گھر حکومت نے نیلام کیے اور انہوں نے خریدے۔

روی شنکر جوشی کی مفاد عامہ کی عرضی پر سماعت کرتے ہوئے9 نومبر 2016 کو ہائی کورٹ نے 10 ہفتوں کے اندر ریلوے کی زمین سے تجاوزات ہٹانے کا حکم دیا تھا۔

عدالت نے کہا تھا کہ تمام تجاوزات کو ریلوے پبلک پریمیسس (غیر مجاز قبضہ داروں کی بے دخلی) ایکٹ 1971 کے تحت لایا جائے۔

(خبر رساں ایجنسی بھاشا کے ان پٹ کے ساتھ)