خبریں

ایل جی بی ٹی کیو + کی حمایت کرنے پر آر ایس ایس چیف کے خلاف ہندو شدت پسندوں  نے شکایت درج کرائی

راشٹریہ سویم سیوک سنگھ کے سربراہ موہن بھاگوت نے گزشتہ دنوں سنگھ کے ماؤتھ پیس‘آرگنائزر’ اور ‘پانچ جنیہ’ کو انٹرویو دیتے ہوئے ایل جی بی ٹی کیو + کمیونٹی کی حمایت میں مہابھارت کے ایک واقعہ کا حوالہ دیتے ہوئےتبصرہ کیا تھا۔ اسے ہندو مخالف بتاتے ہوئے بھاگوت کے خلاف مدھیہ پردیش کے اندور شہر میں شکایت درج کرائی گئی ہے۔

(السٹریشن: دی وائر)

(السٹریشن: دی وائر)

نئی دہلی: یوٹیوبر اور دائیں بازو کے قلمکار سندیپ دیو نے آر ایس ایس کے سربراہ موہن بھاگوت، ‘پانچ جنیہ’ کے مدیر پرفل کیتکر اور ‘آرگنائزر’ کے مدیر ہتیش شنکر کے خلاف مبینہ طور پر ہندو جذبات کو ٹھیس پہنچانے کے الزام میں  شکایت درج کرائی ہے۔

شکایت کے مطابق، آر ایس ایس  کے دو نوں ماؤتھ پیس ‘آرگنائزر’ اور ‘پانچ جنیہ’کے ساتھ حالیہ انٹرویومیں بھاگوت نے ہم جنس پرستی کی حمایت کی تھی  اور اسے ہندو مذہبی شخصیات سے جوڑا  تھا۔ بھاگوت پر بھگوان کرشن کے خلاف اشتعال انگیز تبصرہ کرنے کا بھی الزام لگایا گیا  ہے۔

دیو نے اپنے بلاگ میں دعویٰ کیا کہ انہوں نے دونوں رسالوں کے مدیران سے ندامت کا اظہار کرنے اور  تردید چھاپنے کی گزارش کے ساتھ رابطہ کیا تھا ، لیکن  انہوں نے مبینہ طور پر کوئی  جواب نہیں دیا۔

انہوں نے سنگھ کے سربراہ کو بھی ٹوئٹر پر ٹیگ کیا تھا اور ان سے بیان واپس لینے کی گزارش کی تھی۔ سینٹرل بیورو آف انوسٹی گیشن (سی بی آئی) کے سابق عبوری ڈائریکٹر ایم ناگیشور راؤ نے بھی اپنے ٹوئٹر ہینڈل پر شکایت کی ایک کاپی شیئر کی ہے۔

انٹرویو میں بھاگوت نے کہا کہ ہندو تہذیب نے روایتی طور پر ایل جی بی ٹی کیو + کمیونٹی کو قبول کیا ہے۔ انہوں نے مہابھارت سے مندرجہ ذیل حوالہ پیش کیاتھا؛

جراسندھ کے دو کمانڈر تھے، ہنس اور دمبھک۔ وہ اتنے اچھے دوست تھے کہ جب کرشن نے یہ افواہ پھیلائی کہ دمبھک مر گیا ہے تو ہنس نے بھی خودکشی کر لی۔ کرشن نے دونوں کو ایسے ہی مار ڈالا۔ یہ و ہی چیز ہے،ان  دونوں کےویسے  تعلقات  تھے۔ یہ انسانوں میں ایک ٹائپ ہے، یہ پہلے سے موجود ہے۔ جب سے انسان آیا ہے تب سے ہے۔ کیونکہ میں جانوروں کا ڈاکٹر ہوں  تو جانتا ہوں کہ یہ ٹائپ جانوروں میں بھی پائے جاتے  ہیں۔ یہ اپنی فطرت میں حیاتیاتی ہے، اس میں یہ بھی ایک ٹائپ ہے۔ ان کوبھی جینا ہے۔ جو ان کی ایک مختلف قسم ہے۔ اس کے مطابق انہیں ایک الگ پرائیویٹ اسپیس ملے اور پوری سوسائٹی کے ساتھ ہم بھی ہیں، ایسا ان کو لگے۔ اتنا آسان ہے۔ اس کا اہتمام بغیر کسی ہنگامے کے ہم اپنی روایت میں کرتے آئے ہیں۔ ہمیں آگے اس پر غور کرنا ہو گا، کیونکہ باقی باتوں سے حل  نکلا نہیں اور  نکلنے والا ہے نہیں، یہ واضح ہوتا جا رہا ہے۔ اس لیے سنگھ ان تمام باتوں پراپنی روایات کے تجربات کو قابل اعتماد مان کر غوروفکر کرتا ہے۔

دیو کی شکایت میں کہا گیا ہے کہ ہنس اور دمبھک کو ہم جنس پرست جوڑے کے طور پر پیش کرنایا ان کا ‘ایک دوسرے کی طرف راغب ہونا’ حقائق کی رو سے درست نہیں ہے اور انہوں نے اس ‘تاریخی واقعہ’ کے حقیقی ورژن کے طور پر’شری ہری ونش پران’ کا حوالہ دیا ہے۔

شکایت میں کہا گیا ہے، ‘یہ ہمیشہ سے ہے کہ ہمارے دل  میں ایل جی بی ٹی کیو+ کمیونٹی کے لیے بھی احترام کا جذبہ ہے، لیکن ہندو یا سناتن دھرم کے ماننے والے ہونے کے ناطے ہم جانتے ہیں کہ شاستروں سے حقائق کو غلط طریقے سے پیش کرنے  کی حوصلہ افزائی  کبھی نہیں کی جاتی ہے۔’

تاہم، بلاگ میں دیو نے بھاگوت پر ہندو دھرم شاستر کے حوالے سے ‘ہم جنس پرستی’ جیسے غیر فطری عمل کو جواز فراہم کرنے کا الزام لگایا۔

دیو کا کہنا ہے کہ صرف چند پیروکاراور عوام کے ایک حصے کی حمایت حاصل کرنے کے لیے دھرم گرنتھوں سےاس طرح کی غیر مجاز اور ہتک آمیز غلط بیانی سے ان کے اور بہت سے ہندوؤں کے جذبات مجروح ہوئے ہیں۔

دیو نے بھاگوت اور مدیران سے ‘تحریری طور پر معافی’ اور ‘تمام فورم سے تبصروں کو ہٹانے’ کا مطالبہ کیا ہے۔

بلاگ میں دیو کہتے ہیں کہ مغرب کی نام نہاد استعماری اور ابراہیمی طاقتوں کے ذریعے ‘ہندوستان کے خاندانی نظام کو توڑنے’ کی مبینہ صدیوں پرانی ‘سازش’ اب سنگھ میں بھی سرایت کرچکی ہے۔

ان کا کہنا ہے کہ آر ایس ایس کے سربراہ ہندو صحیفوں کی غلط تشریح پیش کر رہے ہیں اور سنگھ کے نظریے کی ترجمانی کرنے والے رسالے اس کو شائع کر رہے ہیں۔

بلاگ میں کہا گیا، ‘ایسا لگتا ہے جیسے سنگھ مغرب کی نادیدہ طاقتوں کے ہاتھوں میں کھیل رہا ہے! اس معاملے پر ہندو سماج کی خاموشی کی وجہ سے مجھے قانون کا راستہ اختیار کرنا پڑا۔ مجھے امید ہے کہ بھاگوت جی اور دونوں رسالوں کے مدیران اس معاملے کی سنگینی کو سمجھیں گے اور ایک تردید شائع کریں گے اور سناتن ویدک ہندو سماج سے اس غلطی کے لیے معافی مانگیں گے۔

دیو نے موہن بھاگوت اور آر ایس ایس کے دونوں ماؤتھ پیس کے خلاف اندور میں درج شکایت کی ایک کاپی بھی پوسٹ کی ہے۔

دائیں بازو کی کئی دیگر سرکردہ شخصیات نے بھی بھاگوت کے ‘ایل جی بی ٹی کیو+’ حامی موقف کی مذمت کی ہے اور ہیش ٹیگ بھاگوت معافی مانگ پر ٹوئٹ کیے ہیں۔

کالم نگار اور مصنفہ مدھو پورنیما کشور نے بھی سندیپ دیو کے ساتھ ویڈیو بات چیت میں بھاگوت کے بیان کی مذمت کی۔ انہوں نے کہا، ‘بھاگوت نے جو کیا ہے، وہ عیسائی مشنریوں اور مذہب تبدیل کروانے والےمافیاؤں کے زمرے میں آتا ہے۔ مجھے اس سےپریشانی ہے۔

ریڈیکل ہندوتوا لیڈر یتی نرسمنانند نے بھی بھاگوت کو تنقید کا نشانہ بنایا اور بھاگوت کی ایمانداری اور طرز عمل کے بارے میں بعض  اشتعال انگیز الزامات لگائے۔

جب بھاگوت نے پہلی بار یہ بیان دیا تو ایل جی بی ٹی کمیونٹی نے اسے کافی عدم اعتماداور شکوک وشبہات کے ساتھ قبول کیا، لیکن مین اسٹریم میڈیا کے کچھ حصوں میں اس کی تعریف کی گئی۔

ایل جی بی ٹی کیو + کمیونٹی کے بارے میں تبصرہ ان کے ایک طویل انٹرویو کا حصہ تھا،  جو انہوں نے مذکورہ رسالوں کو دیا تھا، جس نے بھاگوت کے اس دعوے کی وجہ سے لوگوں کی زیادہ توجہ مبذول کروائی کہ ہندو سماج ایک ہزار سال سے جنگ میں ہے اور لوگوں کا جارحانہ ہونا فطری ہے۔

دی وائر نے ‘آرگنائزر’ کے مدیر پرفل کیتکر سے ان کے ردعمل کے لیےرابطہ کیا ہے۔ جب بھی ان کایا ان کے دفتر سے کوئی جواب آئے گا، اسے اس رپورٹ میں شامل کر دیا جائے گا۔

اس رپورٹ کو انگریزی میں پڑھنے کے لیے یہاں کلک کریں۔