بک ریویو: قمر صدیقی کا مجموعہ کلام مسلسل رابطہ کے محور پر گردش کرنے والی کائنات کے سلسلے میں پوری تخلیقی توانائی کے ساتھ باور کراتا ہے کہ اب تعلق نہیں بلکہ التباس تعلق ہی ہماری حسی کائنات کو منور کرتا ہے اور یہی اس عہد کا المیہ بھی ہے جس کا عرفان عام نہیں ہے۔
اگر کوئی مجھ سے کہے کہ اس کتاب کی خصوصیت کو ایک جملے میں بتائیں ، تو میں کہوں گا کہ اس کتاب میں شمس الرحمن فاروقی کو دوسروں کی زبان سے کم خود مرحوم کی اپنی زبان سے زیادہ یاد کیا گیا ہے ۔
ساحر بڑا شاعر ہے اس لیے بھی کہ ان کی شاعری میں اقتدار، آئین،سماج اور سیاست سے سوال ہے۔
ڈاکٹر رشید امجد حقیقی معنوں میں ’سیلف میڈ‘ انسان تھے۔ اپنی تعلیمی استعداد کو بڑھانے اور ایک عطا کرنے والے استاد کی حیثیت سے احترام پانے کا معاملہ ہو یا ایک تخلیق کار کی حیثیت سے اپنی راہ خود تراش کر نمایاں ترین ہوجانا، اس کے پیچھے ایک طویل جدوجہد اور ’فنافی الادب‘ کاسا جنون صاف دیکھا جا سکتا ہے۔
فیض کا معاملہ یہ تھا کہ اس کے ہاں جسم کی موت اور زبان کی موت دو الگ الگ کیفیتیں تھیں جب کہ اس نئے عہد کے جملہ وارثان کا معاملہ یہ ہے کہ ان کے لیے زبان کی موت سرے سے کوئی حادثہ ہی نہیں ہے۔
انتظار حسین کی پانچویں برسی پر خصوصی تحریر: پھر آئے گی، جی یہی نام ہے اُس افسانے کا اور یہ نام منٹو کا رکھا ہوا ہے۔انتظار حسین کے مطابق منٹو نے افسانے کا مسودہ نکال کر کہا یہ تم نے کیا لکھا ہے۔یہ “وہ” کون ہے۔ “وہ” اس کہانی کا پہلا نام تھا۔ انہوں نے کچھ اور اعتراض بھی کیے اور نہ نظر آنے والی لڑکی کا کردار ایک بار پھر لکھنے کو کہا۔ وہ تبدیل شدہ افسانہ لکھ کر لے گئے تو منٹو نے کہا “یہ عنوان بھی ٹھیک نہیں۔ “وہ” کیا ہوتا ہے؟ “بکواس”۔
منو بھائی کی تیسری برسی پرخصوصی تحریر:یہ ماں سے محبت ہی تھی کہ وہ لکنت کا شکار ہو گئے۔ اِس لکنت کا سبب ماں کے گال پر پڑنے والا وہ تھپڑ تھاجو طیش میں آکر منو بھائی کے والد نے جڑ دیا تھا۔ یہ منو بھائی کے بچپن کا واقعہ ہے مگر ان کا کہنا تھا کہ وہ چیزوں کو بہت سمجھنے لگے تھے۔ ماں کو یوں پٹتا دیکھ کر وہ چارپائی کے نیچے چھپ گئے اور جب وہ وہاں سے نکلے تو لکنت کا شکار ہو چکے تھے۔
فراز کی غزل میں جذبوں کی شدت کا اظہار بھی کلیساؤں میں بجنے والی ان گھنٹیوں جیسا ہے جن پر لٹکنیں پڑتی ہیں تو ایک گونج اٹھتی ہے اور پھر گھنٹیوں کے پردے دیر تک ایک لرزاہٹ بھی فضا کا حصہ بنادیتے ہیں۔
نوے کی دہائی میں دوردرشن پر نشر ہوئے سیریل‘شانتی’ سے چرچہ میں آئے اداکار راجیش جیس حال ہی میں‘اسکیم 92’،‘پاتال لوک ’اور ‘پنچایت’جیسی ویب سیریز میں نظر آ چکے ہیں۔ ان سے پرشانت ورما کی بات چیت۔
نئےزرعی قوانین کے خلاف مظاہرہ کر رہے کسانوں کو پنجاب کے گلوکاروں کی طرف سےبھی بڑے پیمانے پر حمایت مل رہی ہے۔ نومبر کے اواخر سے جنوری کے پہلے ہفتے تک الگ الگ گلوکار وں کے دو سو سے زیادہ ایسے گیت آ چکے ہیں، جو کسانوں کے مظاہروں پرمبنی ہیں۔
مجھے اعتراف ہے کہ میں ان لوگوں میں شامل ہوں جنہیں فاروقی صاحب نے بھارت میں متعارف کروایا۔ میرے ناول’’مٹی آدم کھاتی ہے‘‘ کا دیباچہ لکھا۔ میرے افسانے ’’شب خون‘‘ میں شائع کیے۔ اور جب ایک درسی کتاب ’’انتخاب نثر اردو ‘‘ کو مرتب کرنے کا موقع نکلا تو پاکستان سے انہوں نے دو افسانہ نگاروں کے افسانے اس کا حصہ بنائے ؛ انتظار حسین کا ’’بادل‘‘ اور اس خاکسار کا ’’لوتھ‘‘۔
خصوصی تحریر: میرے الٰہ آباد کے اس مسلسل سفر میں فاروقی صاحب سے ہونے والی ملاقاتوں کا حاصل یہ ہے کہ میں نے انھیں ان مضامین کی فہرست تیار کرنے پر آمادہ کرلیا تھا، جو شائع نہیں ہوئے تھے۔ ان مضامین میں بڑی تعداد انگریزی تحریروں کی تھی […]
آج میرے سر سے ایک سایہ پھر سے اٹھ گیا، آج پھر سے یتیمی کا احساس شدید تر ہوتا چلاگیا۔ آج پھر کوئی ‘ بولو بیٹا’ کہنے والا نہیں رہا۔ ایک پھر میں اسی صدمے سے دوچار ہوں جب اپنے والد کی محبتوں سے محروم ہوئی تھی ۔
اردو شاعری خصوصاً جدید اردو شاعری میں دلچسپی رکھنے والوں کو یہ کتاب ضرور پڑھنی چاہیے ـ۔
بک ریویو: آڈری ٹروشکی نے اپنی اس کتاب کے ذریعے ان کی درست تصویر پیش کرنے کی کوشش کی ہے ۔ یہ کتاب ہمیں بہت سی ایسی باتیں بتاتی ہے، جو ملک کی بھگوا سیاست اور بھگوا تاریخ و صحافت ہم سے چھپاتی ہے ۔ مثلاً یہ تو بتایا جاتا ہے کہ اورنگزیب نے ہولی پر روک لگائی تھی مگر یہ چھپایا جاتا ہے کہ اورنگزیب نے عید اور بقرعید پر بھی روک لگائی تھی ۔
’گرم ہوا‘پہلی فلم تھی جس میں تقسیم ملک کے فوراً بعد ہندوستانی مسلمانوں کے تجربے کو سلیقے سے پیش کرنے کی کوشش کی گئی۔گرم ہواکے بننے سے پہلے تک مقبول ہندی فلموں میں خاص کر مسلم کرداروں کو ٹوکن کے طور پر پیش کیا جاتا تھا۔
بھگت سنگھ کی تحریروں سے سن و سال مٹا دیجیے ،اس کے بعد پڑھیے ،ایسا محسوس ہوگا کہ بھگت سنگھ ہمارے زمانے میں لکھ رہے ہیں موجودہ سیاسی منظر نامے اور اس کی “گودی میڈیا” کی بات کر رہے ہیں۔
یوم وفات پر خاص:عاشق فوٹو گرافر کی آواز گو بہت پتلی تھی لیکن وہ ‘اے عشق کہیں لے چل’ بڑے سوز سے گایا کرتا تھا۔ میں نے جب بھی اس کے منہ سے یہ نظم سنی مجھ پر بہت اثر ہوا۔ اس زمانے میں چونکہ طبیعت میں انتشار تھا۔ اس لیے یہ نظم مجھے اپنے کندھوں پراٹھاکر دور، بہت دور اَن دیکھے جزیروں میں لے جاتی تھی۔
اس کتاب نے ’مجرموں‘ کے چہروں کو، کچھ پختہ شہادتیں اور ثبوت پیش کر کے مزید عیاں کر دیا ہے ۔سیکولر چہرے جنہوں نے ایودھیا تنازعے کا ’استعمال‘ یا ’استحصال‘ اپنے سیاسی قد کو بڑھانے کے لیے کیا، اور مسلم قیادت کے وہ چہرے جو جان دینے اور لینے کی باتیں کرکے عام مسلمانوں کو بیچ راہ میں چھوڑ گئے، اور اس طرح چھوڑ گئے کہ ’ہندوتوادیوں‘ کو اپنے مذموم منصوبے پر عمل کرنے میں کوئی دشواری پیش نہیں آئی ۔
استعارہ کا پہلا شمارہ شائع ہوا تو اس پر نصرت ظہیر نے اپنے مخصوص انداز میں ایک کالم لکھا اور میرا ً بھی ذکر خیر نمبر دو کے مدیر کی حیثیت سے کیا۔ اس سے قطع نظر کہ نمبر دو سے ان کی مراد کیا تھی مجھے ان […]
ویڈیو: ایکٹر سشانت سنگھ راجپوت کی خودکشی کے بعد سے بالی وڈ میں اقربا پروری اورنیپوٹزم کو لےکر بحث تیز ہو گئی ہے۔اس موضوع پرمعروف ایکٹر منوج باجپائی سےعارفہ خانم شیروانی کی بات چیت۔
تقسیم کے بعد بہت سے لوگ پاکستان چلے گئے۔ جو ہندوستان میں رہے وہ فکر مند ہونے لگے کہ کتب خانے کا مستقبل کیا ہو۔ 1960 میں 16 بیل گاڑیوں میں کتب خانے کی 7914 جلدیں لادی جانے کے بعد وہ پٹنہ کے خدا بخش لائبریری لائی گئیں جہاں وہ آج بھی محفوظ ہیں۔
خواجہ احمد عباس کی سنیمائی زندگی اور ان کےتخلیقی استعداد کے بارے میں بہت سی باتیں کہی اورلکھی جا چکی ہیں، لیکن آج ہندستان اور چین کے بیچ جاری کشیدگی میں ان کےناول ڈاکٹر کوٹنس کی امر کہانی کی اہمیت زیادہ محسوس ہوتی ہے۔
گریش کرناڈ کے ڈراموں میں بےحد خوبصورت توازن دیکھنے کو ملتا ہے، جہاں وہ ہندوستان کے اور مبینہ سنہری ماضی یا اسطوری دنیا کو خام موادکی طرح استعمال تو کرتے ہیں، لیکن اس کے پس پردہ عصری مسائل یا عصری سماج کے تضادات کو نمایاں کرتے ہیں۔
کشور ناہید کی 80 ویں سالگرہ پر لکھی گئی خصوصی تحریر: آج کی کشور ناہید، لب گویا، بے نام مسافت، گلیاں دھوپ دروازے، ملامتوں کے درمیان، بری عورت کی کتھا والی عورت ہے۔ کیا آپ ایک ایسی خاتون کو جانتے ہیں جو 80 ویں سالگرہ منارہی ہیں مگر […]
ویڈیو: معروف بالی وڈ اداکار سشانت سنگھ راجپوت کی اچانک موت کے بعد بالی وڈ میں الزام تراشیوں کا دور شروع ہو گیا ہے اور انڈسٹری میں اقربا پروری کی روایت پر سوال اٹھنے شروع ہو گئے ہیں۔ اس مدعے پر دی وائر کے شیکھر تیواری کی ایکٹر جتن سرنا سے بات چیت۔
باسو چٹرجی کو سارا آکاش، رجنی گندھا، چھوٹی سی بات، اس پار، چت چور، کھٹا میٹھا، باتوں باتوں میں، شوقین، ایک رکا ہوا فیصلہ اور چمیلی کی شادی جیسی فلموں کے لیے جانا جاتا ہے۔ دوردرشن پرنشر ہونے والے مشہور سیریل بیومکیش بخشی اور رجنی کا ڈائریکشن بھی انہوں نے ہی کیا تھا۔
انتظار حسین مر گئے تو آصف جنازے میں شریک ہونے کے لیے کراچی سے فلائٹ لے کے لاہور پہنچے تھے۔ادھر اسلام آباد سے میں اور کشور ناہید وہاں پہنچے توآصف پہلے سےپہنچ گئے تھے ۔ مجھے دیکھا ، لپک کر آئے اور میرے گلے لگ کر یوں دھاڑیں مار مار کر روئے کہ میرے دل کا بوجھ بھی اتر گیا تھا۔ مجھے اپنے دل کا بوجھ اتارنا تھا کسی سے گلے لگ کر اور اُسی طرح دھاڑیں مار کر رونا تھاجیسے آصف اور میں انتظار حسین کی موت پرروئے تھے ۔
ویڈیو: امیزان پرائم پر آئی ویب سیریز ‘پاتال لوک’ لگاتار تنازعہ کے مرکز میں ہے۔ سوشل میڈیا پر اس کو ہندوفوبک بتایا جا رہا ہے۔ اس کو لےکر آخر تنازعہ کیا ہے؟ سرشٹی شریواستو کا ریویو۔
ہندوستانی سنیما میں بھائی ساجد خان کے ساتھ ان کی جوڑی‘ساجد واجد’کے نام سے مشہور ہے۔ ‘وانٹیڈ’، ‘دبنگ’ اور ‘ایک تھا ٹائیگر’ جیسی سلمان خان کی کئی ہٹ فلموں میں انہوں نے موسیقی دی۔
یوگیش نے راجیش کھنہ کی فلم آنند، جیا بچن کی فلم ملی، امول پالیکر کی فلم رجنی گندھا، چھوٹی سی بات اور باتوں باتوں میں کے علاوہ امیتابھ بچن کی فلم منزل کے لیے یادگار نغمے لکھے تھے۔
بحیثیت ایک ڈاکٹر کے میری رائے نہایت مستند ہے اور میں دعوے سے کہتا ہوں کہ جتنی اموات شہر میں کوارنٹین سے ہوئیں، اتنی پلیگ سے نہ ہوئیں، حالاں کہ کوارنٹین کوئی بیماری نہیں، بلکہ وہ اس وسیع رقبہ کا نام ہے جس میں متعدی وبا کے ایام میں بیمار لوگوں کو تندرست انسانوں سے ازروئے قانون علیحدہ کر کے لا ڈالتے ہیں تاکہ بیماری بڑھنے نہ پائے۔
کو رونا وائرس کے مدنظر جاری لاک ڈاؤن کے بیچ امیتابھ بچن اور آیوشمان کھرانہ کی فلم ‘گلابو ستابو’ سنیما گھروں کے بجائے سیدھے آن لائن اسٹریمنگ پلیٹ فارم پر ریلیز ہو رہی ہے۔ کچھ اور فلمیں ہیں، جو اب سیدھے انہیں پلیٹ فارمز پر ریلیز ہونے والی ہیں۔ ایسے میں سنیما گھروں کے سامنے آن لائن اسٹریمنگ پلیٹ فارمز نے نیامسئلہ کھڑا کر دیا ہے۔
ویڈیو: کو رونا وائرس اور لاک ڈاؤن سے ہندوستانی سنیما پر کیا اثر پڑ رہا ہے؟سماج کے اس بحرانی دور میں اداکاروں کی کیا ذمہ داری ہے؟ اس طرح کے مختلف سوالوں پر معروف ایکٹر جاوید جعفری سے عارفہ خانم شیروانی کی بات چیت۔
برسات، آن، داغ، امر، اڑن کھٹولہ، بسنت بہار، میرے محبوب وغیرہ نمی کی یادگار فلموں میں سے ایک ہیں۔ نمی کو ہیروئن کے بعد دوسرا سب سے اہم کردار نبھانے کے لیے جانا جاتا تھا۔
مرگ انبوہ-آج کا ناول اس لیے ہے کہ اس میں ہم ایک تبدیل ہوتے ہوئے بھارت کو دیکھ سکتے ہیں۔ہمیں یہ اندازہ ہوجاتا ہے کہ لنچنگ اور شہریت ترمیم قانون تو بس ایک بہانہ ہے ، نسلوں کا صفایا اصل نشانہ ہے ۔کیا موت کے یہ فرمان ، یہ فارم،این پی آر ،این آر سی اور سی اے اے کے ہی فارم نہیں ہیں ؟
ویڈیو: نوجوان فکشن نویس اور شاعرہ انوشکتی سنگھ کا پہلا ناول‘شرمشٹھا’گزشتہ دنوں منظر عام پرآیا ہے۔ اس ناول کے تناظرمیں ان سے اسطوری اور دیومالائی کرداروں میں عورت کی موجودگی، سنگل مدر کی جدوجہد، عورت مرد کی مبینہ جائز اور ناجائزمحبت اور اس کے بعض دوسرے مندرجات پر فیاض احمد وجیہہ کی بات چیت۔
ویڈیو: اردو شاعری میں ہولی کی روایت پر یاسمین رشیدی کا نظریہ۔
مسلمانوں میں ہولی کی روایت اورہندوستان کی گنگا جمنی تہذیب پر رعنا صفوی کا جائزہ
ویڈیو: اردو اور پنجابی کی معروف شاعرہ سارا شگفتہ کو یاد کرتے ہوئے یاسمین رشیدی ان کی زندگی کی ٹریجڈی اور جدوجہد کے بارے میں بتارہی ہیں۔