ڈاکٹر کفیل خان ان 81 لوگوں میں ہیں، جنہیں سینئر سپرنٹنڈنٹ آف پولیس جوگیندر کمار کی ہدایت پر گورکھپورضلع کے ہسٹری شیٹرس کی فہرست میں شامل کیا گیا ہے۔ ڈاکٹر خان کے بھائی نے بتایا کہ ان کا نام اس فہرست میں جون 2020 میں ڈالا گیا تھا، لیکن میڈیا سے یہ جانکاری اب شیئرکی گئی ہے۔
علی گڑھ مسلم یونیورسٹی کے اسٹوڈنٹ لیڈر عارف تیاگی کو ضلع انتظامیہ نے یوپی غنڈہ ایکٹ کے تحت چھ مہینے کے لیے ضلع بدرکر دیا ہے۔ دونوں کمیونٹی کے بیچ نفرت پھیلانے سمیت کئی الزامات میں ان پر 2018 سے 2020 کے دوران چھ معاملے درج ہیں۔
سپریم کورٹ نے گزشتہ17دسمبر کونیشنل سکیورٹی ایکٹ(این ایس اے)کے تحت ڈاکٹر کفیل خان کی حراست کو رد کرنے اور انہیں فوراً رہا کیےجانے کے الہ آباد ہائی کورٹ کے فیصلے میں دخل اندازی سے انکار کر دیا تھا۔ اس فیصلے پر ڈاکٹر کفیل نے دی وائر سے بات چیت کی۔
اتر پردیش پولیس کے ذریعےاین ایس اے کے تحت گرفتار کیے گئے ڈاکٹرکفیل خان کی حراست رد کر انہیں فوراً رہا کیےجانے کے الہ آباد ہائی کورٹ کے آرڈر کو ریاستی سرکار نے سپریم کورٹ میں چیلنج دیا تھا، جسے سی جے آئی ایس اے بوبڈے کی قیادت والی بنچ نے خارج کر دیا۔
این سی آربی کی ایک رپورٹ کے مطابق جیلوں میں بند دلت، آدی واسی اور مسلمانوں کی تعدادملک میں ان کی آبادی کے تناسب سے زیادہ ہے، ساتھ ہی مجرم قیدیوں سے زیادہ تعدادان طبقات کے زیر غور قیدیوں کی ہے۔ سرکار کا ڈاکٹر کفیل اور پرشانت کنوجیا کو باربار جیل بھیجنا ایسے اعدادوشمار کی تصدیق کرتا ہے۔
گزشتہ سال آکسیجن حادثے کی محکمہ جاتی جانچ میں دوالزامات میں ملی کلین چٹ کے بعد ڈاکٹر کفیل خان کی بحالی کے امکانات پیدا ہوئے تھے، لیکن سرکار نے نئےالزام جوڑتے ہوئے دوبارہ جانچ شروع کر دی۔ متھرا جیل میں رہائی کے وقت ہوئی حجت یہ اشارہ ہے کہ اس بار بھی حکومت کا روریہ ان کے لیےنرم ہونے والا نہیں ہے۔
اے ایم یو میں سی اے اے کے خلاف مبینہ‘ہیٹ اسپیچ’دینے کے الزام میں جنوری سے متھرا جیل میں بند ڈاکٹر کفیل خان کو ہائی کورٹ کے آرڈر کے بعد منگل دیر رات کو رہا کر دیا گیا۔ ان کا کہنا ہے کہ انہیں اتنے دن جیل میں اس لیے رکھا گیا کیونکہ وہ ریاست کی طبی خدمات کی کمیوں کو اجاگر کرتے رہتے ہیں۔
علی گڑھ مسلم یونیورسٹی میں پچھلے سال دسمبر میں مبینہ طور پرمتنازعہ بیان دینے کے معاملے میں29 جنوری کو ڈاکٹرکفیل خان کو گرفتار کیا گیا تھا۔ 10 فروری کو الہ آباد ہائی کورٹ سے ضمانت ملنے کے بعد رہا کرنے کے بجائے ان پراین ایس اے لگا دیا گیا تھا۔
گزشتہ 29 جنوری کو اتر پردیش ایس ٹی ایف نے شہریت ترمیم قانون کے خلاف علی گڑھ مسلم یونیورسٹی میں پچھلے سال دسمبر میں مبینہ طور پر متنازعہ بیانات کے معاملے میں ڈاکٹر کفیل خان کو ممبئی ہوائی اڈے سے گرفتار کیا تھا۔ تب سے وہ جیل میں ہیں۔
اتر پردیش کے علی گڑھ مسلم یونیورسٹی میں پچھلے سال دسمبر میں متنازعہ بیانات دینے کےالزام میں29 جنوری کو ڈاکٹر کفیل خان کو گرفتار کیا گیا تھا۔ 10 فروری کو الہ آباد ہائی کورٹ سے ضمانت ملنے کے بعد رہا کرنے کے بجائے ان پر این ایس اے لگا دیا گیا تھا۔
ویڈیو: ڈاکٹر کفیل خان کو گزشتہ دسمبر میں اے ایم یو میں ہوئے اینٹی سی اےاےمظاہرہ میں مبینہ اشتعال انگیزتبصرہ کے لیے گرفتار کیا گیا تھا۔ فروری میں انہیں ضمانت ملی لیکن جیل سے باہر آنے کے کچھ گھنٹے بعد ان پر این ایس اے لگا دیا گیا۔ اس بارے میں دی وائر کی سینئر ایڈیٹرعارفہ خانم شیروانی کا نظریہ۔
ویڈیو: علی گڑھ مسلم یونیورسٹی کے اسٹوڈنٹ شرجیل عثمانی کو پچھلے سال دسمبر میں ہوئے سی اے اے مخالف مظاہرےکے سلسلے میں گزشتہ آٹھ جولائی کو اعظم گڑھ واقع ان کے گھر سے گرفتار کیا گیا ہے۔
علی گڑھ مسلم یونیورسٹی کے اسٹوڈنٹ شرجیل عثمانی کے اہل خانہ نے کہا کہ اعظم گڑھ میں ان کے گھر سے انہیں گرفتار کیا گیا۔ پولیس نے اس بارے میں کوئی رسمی اعلان نہیں کیا، لیکن اے ایس پی(کرائم)نے ایک اخبار کو بتایا کہ یہ گرفتاری لکھنؤ اے ٹی ایس نے پچھلے سال دسمبر میں درج ہوئے ایک معاملے میں کی ہے۔
اتر پردیش کے علی گڑھ کا معاملہ۔ اہل خانہ کا الزام ہے ہاسپٹل کی جانب سے مریض سے ملنے کے نام پر 4000 روپے اضافی مانگا جا رہا تھا، جس کو لےکر تنازعہ شروع ہوا ہے۔ پولس کیس درج کرکے معاملے کی جانچ کر رہی ہے۔
علی گڑھ مسلم یونیورسٹی میں پچھلے سال دسمبر میں مبینہ طور پر متنازعہ بیانات دینے کے معاملے میں 29 جنوری کو ڈاکٹر کفیل خان کو گرفتار کیا گیا تھا۔ 10 فروری کو الہ آباد ہائی کورٹ سے ضمانت ملنے کے بعد رہا کرنے کے بجائے ان پر این ایس اے لگا دیا گیا تھا۔
سال 2019 میں ہندو مہاسبھا کی رہنما پوجا شکن پانڈے اور ان کے شوہر اشوک پانڈے کو مہاتما گاندھی کے پتلے کو گولی مارنے کے لیے علی گڑھ پولیس نے گرفتار کیا تھا۔
اتر پردیش پولیس کا کہنا ہے کہ امن و امان بنائے رکھنے کے لیے علی گڑھ کے حساس عبدالکریم چوراہا پر واقع ہلوائی یان مسجد کو شامیانےاور ترپال سے ڈھک دیا ہے، تاکہ ہولی کے دوران مسجد پر کوئی رنگ نہ پھینک دے۔
نیشنل ہیومن رائٹس کمیشن کی سفارشوں پر الہ آباد ہائی کورٹ نے یہ حکم دیا۔ پچھلے مہینے ہائی کورٹ نے پولیس کے تشدد کے الزامات کی جانچ کے لیے این ایچ آر سی کو ہدایت دی تھی اور کہا تھا کہ پانچ ہفتے میں وہ جانچ پوری کریں۔
علی گڑھ کے اپرکوٹ علاقے میں اتوار کو خواتین کو پولیس کے ذریعے شہریت ترمیم قانون کے خلاف مظاہرہ کرنے کی اجازت نہ دینے کی بات کہہ کر روکنے کے کوشش کی گئی جس کے بعد پولیس اور مظاہرین کے بیچ جھڑپ ہوئی۔ تشدد کے بعد علاقے میں سوموار آدھی رات تک انٹرنیٹ بند کر دیا گیا ہے۔
ویڈیو: 15 دسمبر کو جامعہ کیمپس میں ہوئے تشدد کے بارے میں 16 فروری کو سامنے آئے ایک سی سی ٹی وی فوٹیج کے بعد اس معاملے سے جڑے کئی ویڈیو سامنے آئے ہیں ۔ ان کے بارے میں جامعہ کے طلبا، اساتذہ اور انتظامیہ سے سرشٹی شریواستو کی بات چیت۔
جامعہ ملیہ اسلامیہ میں پچھلے سال 15 دسمبر کو کیمپس کے اندر دہلی پولیس کی بربریت کے دوران 2.66 کروڑ روپے کی املاک کا نقصان ہوا تھا، جس میں 4.75 لاکھ روپے کے 25 سی سی ٹی وی کیمروں کے نقصان کو بھی شامل کیا گیا ہے۔
جامعہ ملیہ اسلامیہ میں 15 دسمبر کو ہوئے تشدد کے دوران کی ایک اور سی سی ٹی وی فوٹیج سامنےآئی ہے، جہاں پولیس طالبعلموں کے ذریعے فرنیچر سے بلاک کئے لائبریری کے گیٹ کوتوڑکر اندر گھستی ہے اور طالبعلموں پر لاٹھیاں چلاتی دکھتی ہے۔ کئی طالبات سمیت ڈھیروں طالبعلم پولیس کے سامنے ہاتھ جوڑتے نظر آتے ہیں۔
اتر پردیش کے علی گڑھ مسلم یونیورسٹی میں شہریت قانون (سی اےاے) کےخلاف بیان دینے کے الزام میں متھرا جیل میں بند ڈاکٹر کفیل خان پر این ایس اے لگایا گیا ہے۔
19 دسمبر، 2019 کو ملک کے دیگر حصوں کی طرح کرناٹک میں سی اے اے اور این آر سی کے خلاف کئی مظاہرے منعقد کئے گئے تھے۔حالانکہ، بنگلور پولیس کمشنر نے ایک دن پہلے سی آر پی سی کی دفعہ 144 کا استعمال کرکے شہر میں عوامی جلسہ پر پابندی لگا دی تھی۔
ڈاکٹر کفیل خان کو 29 جنوری کو ممبئی ہوائی اڈے سے گرفتار کیا گیا تھا۔ متھرا جیل میں بند خان کو ضمانت مل گئی تھی۔ علی گڑھ کے ایس ایس پی آکاش کلہری نے بتایا کہ ڈاکٹر کفیل خان کے خلاف این ایس اے کے تحت کارروائی کی گئی ہے اور وہ جیل میں ہی رہیں گے۔
شہریت ترمیم قانون اور نئی دہلی واقع جامعہ ملیہ اسلامیہ کے طالبعلموں پر پولیس کی وحشیانہ کارروائی کے خلاف گزشتہ15 دسمبر کو علی گڑھ مسلم یونیورسٹی کیمپس میں مظاہرہ کے دوران ہوئے تشدد کو لےکر اسٹوڈنٹس کوآرڈینیشن کمیٹی نے یونیورسٹی انتظامیہ کے استعفیٰ کی مانگ کی تھی۔
عدالت کے باہر خان کے وکیل نے صحافیوں کو بتایا کہ خان کو انکاؤنٹرکا ڈر ہے ‘‘کیونکہ ان کے پاس پوری جانکاری ہے کہ بچوں کی موت (اتر پردیش کے ایک میڈیکل کالج میں) کا ذمہ دار کون ہے۔’’
امریکہ کی راجدھانی واشنگٹن میں ہوئے ایک انعقاد میں بین الاقوامی مذہبی آزادی پر امریکی کمیشن، ایمنسٹی انٹرنیشنل امریکہ، ہیومن رائٹس واچ جیسی تنظیموں سے وابستہ افراد اور کارکنان نے حصہ لیا۔
اتر پردیش پولیس نے ڈاکٹر کفیل خان پر آر ایس ایس اورمرکزی وزیر داخلہ امت شاہ کے لیےغیر مہذب تبصرہ کرنے، طلبا کو مرکزی حکومت کے شہریت قانون کے خلاف لڑنے اور فرقہ وارانہ کشیدگی کو ہوا دینے کی کوشش کاالزام لگایا ہے۔
کانگریس کے سابق صدرراہل گاندھی اور پارٹی کی جنرل سکریٹری پرینکا گاندھی کی قیادت میں کانگریس پارٹی کے سینئر رہنماؤں کے وفد نے ہیومن رائٹس کمیشن کو اتر پردیش میں شہریت ترمیم قانون کےخلاف کی گئی بربریت کے بارے میں31 صفحات کی ایک رپورٹ سونپی اور ثبوت کے طور پر کچھ ویڈیو سونپے۔
علی گڑھ پولیس کا الزام ہے کہ گزشتہ 20 جنوری کو علی گڑھ مسلم یونیورسٹی کے اندرشہریت قانون کے خلاف مظاہرہ کے دوران مبینہ طور پر ڈھال کے طورپر نابالغوں کو آگے کیا گیا تھا۔ حالانکہ، پولیس کا کہنا ہے کہ ابھی نابالغ بچوں کی پہچان کی جانی باقی ہے اور کسی کی گرفتاری نہیں ہوئی ہے۔
جامعہ ملیہ اسلامیہ کے ترجمان احمد عظیم نے کہا کہ سی آر پی سی کی دفعہ 156 (3) کے تحت نچلی عدالت میں بہت جلدی ایک عرضی دائر کی جائےگی جس میں ایف آئی آر درج کرنے کے لئے پولیس کو ہدایت دئے جانے کی گزارش کی جائےگی۔
اترپردیش کے علی گڑھ مسلم یونیورسٹی میں گزشتہ 15 دسمبر کو شہریت قانون اور نئی دہلی میں جامعہ کے طلبا پر پولیس کی بربریت کے خلاف ہو رہا مظاہرہ پر تشدد ہو گیا تھا،جس میں 100 لوگ زخمی ہو گئے تھے۔
اترپردیش کے علی گڑھ مسلم یونیورسٹی میں گزشتہ 15 دسمبر کو شہریت قانون اور نئی دہلی میں جامعہ کے طلبا پر پولیس کی بربریت کے خلاف ہو رہا مظاہرہ پر تشدد ہو گیا تھا،جس میں 100 لوگ زخمی ہو گئے تھے۔
اتر پردیش کے کانپور میں شہریت قانون کے خلاف 20 دسمبر کو ہوئے احتجاج اورمظاہرہ میں ہوئےتشدد کے دوران تین نوجوانوں کی موت ہو گئی۔ وہیں، 10 لوگ گولی لگنے سے زخمی ہوئے تھے۔ سبھی 13 لوگوں کے خلاف ایف آئی آر درج کی جائےگی۔
دہلی پولیس کی انٹرنل جانچ میں پتہ چلا ہے کہ دو پولیس اہلکاروں نے اےسی پی رینک کے ایک آفیسر کے سامنے طلبا پر گولیاں چلائی تھیں۔ ابھی تک دہلی پولیس 15 دسمبر کو جامعہ مظاہرہ کے دوران مظاہرین پر فائرنگ کرنے سے انکار کرتی رہی ہے۔
ویڈیو: شہریت قانون کی مخالفت میں 15 دسمبر کو علی گڑھ مسلم یونیورسٹی میں مظاہرہ کر رہے اسٹوڈنٹس کی اترپردیش پولیس اور ریپڈ ایکشن فورس نے بے رحمی سے پٹائی کی تھی۔ اس معاملے پر سماجی کارکن اور واقعہ کی جانچ کرنے والی فیکٹ فائنڈنگ ٹیم کے ممبر ہرش مندر کے ساتھ ریتو تومر کی بات چیت۔
جامعہ ملیہ اسلامیہ میں 15 دسمبر کو مظاہرہ میں شامل طالبعلموں پر پولیس کی وحشیانہ کارروائی پر جاری پیپلس یونین فار ڈیموکریٹک رائٹس کی فیکٹ فائنڈنگ رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ پولیس نے جان بوجھ کر لوگوں کو حراست میں رکھا اور زخمی طلبا تک طبی مدد نہیں پہنچنے دی۔
فیکٹ فائنڈنگ ٹیم نے ‘دی سیز آف علی گڑھ مسلم یونیورسٹی’ نام سے یہ رپورٹ 24 دسمبر کو جاری کی ہے۔ رپورٹ میں کہا گیا کہ اے ایم یو میں پولیس اور ریپڈ ایکشن فورس کے جوان طلبا کی پٹائی کرتے وقت ‘بھارت ماتا کی جئے’اور ‘جئے شری رام’ کے نعرے لگا رہے تھے۔
شہریت ترمیم قانون کے خلاف ہو رہے احتجاج اور مظاہرے میں مارے گئے لوگوں کے اہل خانہ سے ملنے میرٹھ جا رہے کانگریس رہنما راہل گاندھی اور پرینکا گاندھی کو پولیس نے شہر کے باہر ہی روک لیا۔