اتر پردیش کے للت پور ضلع کا معاملہ۔ نیوز پورٹل بندیل کھنڈ ٹائمس ٹی وی کے لیے کام کر رہے ونئے تیواری کا الزام ہے کہ رپورٹنگ کے وقت پردھان کے رشتہ داروں نے ان سے بحث کی اور لاٹھیوں سے حملہ کیا۔ ونئے پر غیرقانونی شراب کے کاروبارکی رپورٹنگ کے لیے بھی حملہ ہو چکا ہے۔
جموں وکشمیر انتظامیہ نے گزشتہ دنوں ریاست کی نئی میڈیا پالیسی کو منظوری دی ہے، جس کے تحت وہ شائع اورنشرہونے والےمواد کی نگرانی کرےگا اور یہ طے کرےگا کہ کون سی خبر ‘فیک، اینٹی سوشل یا اینٹی نیشنل رپورٹنگ’ہے۔ پریس کاؤنسل نے اس بارے میں انتظامیہ سے جواب مانگا ہے۔
دو جون کو جاری جموں وکشمیر کی نئی میڈیا پالیسی کے مطابق، سرکار اخباروں اور دوسرے میڈیا چینلوں پر آنے والے مواد کی نگرانی کر کےیہ طے کرےگی کہ کون سی خبر ‘فیک، اینٹی سوشل یا اینٹی نیشنل’ ہے۔ ایسا پائے جانے پر متعلقہ ادارے کو سرکاری اشتہار نہیں دیےجا ئیں گے، ساتھ ہی ان کے خلاف قانونی کارروائی کی جائےگی۔
ایک دوسرے معاملے میں پنجاب کے ایک وزیر کے جیوتش کے تئیں رجحانوں کو لےکر رپورٹ لکھنے پر ایک صحافی کے خلاف مختلف دفعات کے تحت معاملہ درج کیا گیا ہے۔
یو اے پی اے کے تحت ملزم بنائے گئے کشمیری صحافی اور قلکار گوہر گیلانی کی گرفتاری سے عبوری تحفظ اورایف آئی آر رد کرنے کی مانگ والی عرضی پرشنوائی کرتے ہوئے جموں وکشمیر ہائی کورٹ نے سرکار کو نوٹس جاری کرکے 20 مئی سے پہلے جواب داخل کرنے کاحکم دیا۔
واشنگٹن پوسٹ اور الجزیرہ جیسےانٹرنیشنل میڈیااداروں کے ساتھ کام کرنے والی 26 سالہ خاتون فوٹوجرنلسٹ مسرت زہرہ کشمیر کی دوسری صحافی ہیں جن پر یو اے پی اے کے تحت معاملہ درج کیا گیا ہے۔
مودی کے انتخاب جیتنے کے بعد یا پھر اس سے کچھ پہلے ہی میڈیا نے اپنا غیر جانبدارانہ رویہ طاق پر رکھنا شروع کر دیا تھا۔ ایسا تب ہے جب حکومت اور وزیر اعظم نے میڈیا کو پوری طرح سے نظرانداز کیا ہے۔ میڈیا اہلکاروں کی جتنی زیادہ توہین کی گئی ہے، وہ اتنا ہی زیادہ اپنی وفاداری دکھانے کے لئے بےتاب نظر آ رہے ہیں۔
پریس کی آزادی کے لیے مولانا کی جدو جہد یہ احساس دلاتی ہے کہ صحافت ملک و قوم کی فلاح و بہبود کے لیے کسی بھی مشن سے کم نہیں ۔
چھتیس گڑھ کےپبلک ورکس ڈپارٹمنٹ کےسابق وزیر راجیش مونت کے خلاف مبینہ طور پر ایک فرضی سیکس سی ڈی وائرل کرنے کے معاملے میں وزیر اعلیٰ بھوپیش بگھیل، سابق صحافی ونود ورما اور تین دوسرے ملزم ہیں۔
آسٹریلیا کے شمالی کوئنس لینڈ کے کارمائل کوئلہ کان میں کھدائی کے لئے اڈانی کو جون میں منظوری ملی تھی۔ یہاں کان کنی کو لےکر تنازعہ ہے کیونکہ اس کان کے قریب ہی گریٹ بیریئر ریف ہے، جہاں دنیا کی سب سے بڑی مونگے کی چٹانیں ہیں۔
کمیٹی ٹو پروٹیکٹ جرنلسٹس کی طرف سے یہ ایوارڈ 4 ممالک کے 5 صحافیوں کو دیا گیا ہے۔ نہا دکشت کو یہ ایوارڈ مختلف ریاستوں میں ہوئی ایکسٹرا جوڈیشیل کلنگ اور این ایس اے کے غلط استعمال کو لےکر کی گئی ان کی رپورٹس کے لئے ملا ہے۔
بجٹ پیش ہونے سے کچھ دن پہلے پرائیویسی بنائے رکھنے کے لئے وزارت خزانہ میں صحافیوں کے داخلہ پر پابندی لگا دی جاتی ہے، لیکن بجٹ پیش ہونے کے بعد یہ پابندی ہٹا لی جاتی ہے۔ حالانکہ، اس بار ایسا نہیں کیا گیا۔
وزیراعظم نریندر مودی 44 سال پہلے یعنی اسی ماہ جون میں لگائی جانے والی ایمرجنسی کے لیے نہرو، اندرا گاندھی اور کانگریس کو نشانہ بناتے رہتے ہیں۔ اب مودی اور امت شاہ کی قیادت والی بی جےپی کو ایسے اندیشوں کو دور کرنے کی کوشش کرنی چاہیے، جن کے مطابق ایمرجنسی جیسے حالات بنتے جا رہے ہیں۔ اس سے انہیں بنگال میں ممتا کو کنارے کرنے میں بھی مدد ملے گی۔
انوپم کھیر جیسے کچھ فنکار تختی لےکر میڈیا کو مدعا دیتے ہیں۔ ان کی تصویر اسکرین پر دکھاکر گھر بیٹھے لوگوں کے ذہن میں زہر بھرا جاتا ہے۔ اس عمل میں مسلمان کو دوئم درجے کا شہری بنایا جاتا ہے۔ لیکن اس سے پہلے جن کے ذہن میں یہ کچرا بھرا جاتا ہے ان کو دوئم درجے کا شہری بنایا جا چکا ہوتا ہے۔ اس لئے وسیع ہندو مفاد میں یہ ضروری ہے کہ تمام نیوز چینل دیکھنا بند کر دیں۔ کیونکہ چینلوں میں مذہب کے نام پر ہندوؤں سے جھوٹ بولا جا رہا ہے۔
میانمار کے رخائن میں فوجی کارروائی کے دوران روہنگیا مسلمانوں پر ہوئے ظلم و تشدد کی رپورٹنگ کرتے ہوئے 32 سالہ وا لون اور 28 سالہ کیاؤ سوئے او کو سرکاری پرائیویسی قانون توڑنے کے لئے گزشتہ سال ستمبر میں سات-سات سال کی جیل کی سزا سنائی گئی تھی۔
رپورٹرس ودآؤٹ بارڈرس کی طرف سے جاری ورلڈ پریس فریڈم انڈیکس میں ہندوستان 180 ممالک میں سے 140ویں مقام پر ہے۔ 2018 میں اپنے کام کی وجہ سے ہندوستان میں کم سے کم 6 صحافیوں کی موت ہوئی تھی۔رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ ہندوستان میں 2019 کے عام انتخابات کے دوران حکمراں بی جے پی کے حامیوں کے ذریعے صحافیوں پر حملے بڑھے ہیں۔
صحافیوں کی اپنی ذاتی رائے ہو سکتی ہے، لیکن رپورٹنگ کرتے وقت ان کو اس سے دور رہنا ہوتا ہے-کیونکہ رپورٹنگ ان کی حب الوطنی کا آئینہ نہیں ہے، بلکہ اپنے قارئین کے ساتھ پیشہ ورانہ ڈیل کا حصہ ہے۔
کیا آپ پبلک کے طور پر ان چینلوں میں پبلک کو دیکھ پاتے ہیں؟ ان چینلوں نے آپ پبلک کو ہٹا دیا ہے۔ کچل دیا ہے۔ پبلک کے سوال نہیں ہیں۔ چینلوں کے سوال پبلک کے سوال بنائے جا رہے ہیں۔
تازہ ترین صورت حال یہ ہے کہ گزشتہ سنچر کو ملک کے 70ویں یوم جمہوریہ پر سری نگر مں مختلف پریس اداروں سے وابستہ سنئرق فوٹو گرافروں کو یوم جمہوریہ کی تقریب مں عکس بندی سے روکا گاہ ۔حر ت یہ ہے کہ پولسہ نے خود انہںی تقریب مںٹ شرکت کے لئے سکو رٹی پاس جاری کار تھا۔
کشمیر میں حالیہ واقعات اور اس سے قبل بھی یہ بات تو ثابت ہوگئی ہے کہ وہاں کام کرنے والے صحافیوں کو تلوار کی دھار پر چلنا پڑتا ہے۔
2019 کا انتخاب عوام کے وجود کا انتخاب ہے۔اس کو اپنے وجود کے لئے لڑنا ہے۔جس طرح سے میڈیا نے ان پانچ سالوں میں عوام کو بے دخل کیا ہے، اس کی آواز کو کچلا ہے، اس کو دیکھکر کوئی بھی سمجھ جائےگا کہ 2019 کا انتخاب میڈیا سے عوام کی بے دخلی کا آخری دھکا ہوگا۔
ایک تنظیم کی طرف سے جاری مبینہ ‘اربن نکسل’ لسٹ پر سینئر صحافی ابھیسار شرما کا نظریہ
میانمار کی حکومت ان جرائم سے انکار کرتی رہی ہے۔ لیکن صحافیوں کی گرفتاری کے بعد خود میانمار کی فوج نے مانا کہ اس نے گاؤں میں 10 روہنگیا ئی مردوں اور نوجوانوں کو مارا تھا۔
ایک بات جو موجودہ حالات کو ایمرجنسی سے بھی زیادہ سنگین بناتی ہے وہ یہ کہ آج ملک کو تانا شاہی کے ساتھ ساتھ فسطائیت کا بھی سامنا ہے۔ فرقہ پرستی اپنے عروج پر ہے۔ مذہبی اقلیتوں، خاص طور پر مسلمانوں کے خلاف تشدد عام ہو گیا ہے۔ اس کے خلاف کوئی شنوائی نہیں ہے۔ مظلوم کو انصاف کی جگہ ذلت کا سامنا کرنا پڑ رہا ہے۔
مدیران کا کام اقتدار کے لحاظ سےمواد کو بنائے رکھنے کا ہے اور حالات ایسے ہیں کہ اقتدار کے موافق تشہیر کی ایک ہوڑ مچی ہوئی ہے۔ آہستہ آہستہ حالات یہ بھی ہو چلے ہیں کہ اشتہار سے زیادہ تعریف نیوز رپورٹ میں دکھائی دے جاتی ہے۔
یہ ایک تلخ حقیقت ہے کہ اظہاررائے کی آزادی کو بچائے رکھنے والے ہر قانون کی اپنی جگہ پر ہونے کے باوجود اخباروں اور ٹیلی ویژن چینلوں نے بنا مزاحمت کے خود سپردگی کر دی ہے اور اوپر سے آرڈر لینا شروع کر دیا ہے۔
میڈیا بول کے اس ایپی سوڈ میں سنیے میڈیا کی آزادی پر سابق صحافی اور عآپ رہنما آشوتوش اور سینئر صحافی نیریندر ناگر سے ارملیش کی بات چیت۔
مانیٹرنگ کےطریقوں پر غور کرنے سے پہلے یہ سمجھ لیں کہ مانیٹرنگ کا چہرہ مودی حکومت کی ہی دین ہے ایسا نہیں ہے،لیکن مودی حکومت کے دور میں مانیٹرنگ کے معنی اور مانیٹرنگ کے ذریعہ میڈیا پر نکیل کسنے کا انداز ہی سب سے اہم ہو گیا ہے۔
صحافی مالینی سبرامنیم اور بھوم کال سماچارکے مدیر کمل شکلا سےبستر میں صحافت کے خطروں پرمہتاب عالم کی بات چیت۔
شجاعت کے ساتھ میری دوستی کا سفر غالباً 1988 میں گورنمنٹ کالج سوپور سے شروع ہوا۔ جرنلزم اور سماجی سرگرمیاں تو انکی روح میں تھیں۔کالج میں ہی اسنے ایک’پیرراڈایز رائٹرز فورم ‘تشکیل دی تھی جس کی نشستیں کالج کے سبزہ زار میں چنار کے پیڑوں کے تلے ہوتی تھیں۔
ایمرجنسی کوئی ناگہانی واقعہ نہیں بلکہ اقتدار کی بےانتہا مرکزیت، جابرانہ رویہ ، شخصیت پرستی اور چاپلوسی کے بڑھتے رجحان کا ہی نتیجہ تھا۔ آج پھر ویسا ہی نظارہ دکھ رہا ہے۔ سارے اہم فیصلے پارلیامانی کمیٹی تو کیا، مرکزی کابینہ کاؤنسل کی بھی عام رائے سے نہیں کئے جاتے، صرف اور صرف پی ایم او اور وزیر اعظم کی چلتی ہے۔
ایمرجنسی کے 43 سال بعد ان سینسر فرمان کو پڑھنے پر اس ڈراؤنے ماحول کا اندازہ ہوتا ہے جس میں صحافیوں کو کام کرنا پڑا تھا، اخباروں پر کیسی پابندی لگی تھی اور کیسی کیسی خبریں روکی جاتی تھیں۔
یہ پہلی بار نہیں ہے جب بی جے پی رہنماؤں پر سوال اٹھاتی کسی خبر کو نیوز ویب سائٹس نے بنا وجہ بتائے ہٹایا ہے۔
ترکی میں اپوزیشن کے مرکزی اخبار ’جمہوریت‘ کے چودہ صحافیوں کو دہشت گردوں کی مدد کرنے کے الزام میں قید کی سزائیں سنا دی گئی ہیں۔ کئی بین الاقوامی تنظیموں نے ترکی میں آزادی صحافت کی ابتر صورت حال پر شدید تنقید کی ہے۔
مرکز ی حکومت کے 13 وزیر جس ویب سائٹ کا لنک ٹوئٹ کرتے ہیں، اپیل کرتے ہیں کہ فیک نیوز کے خلاف آواز اٹھائیں، اس ویب سائٹ کو کون چلاتا ہے، کہاں سے چلتی ہے، اس کا پتا دو دنوں تک میڈیا میں بحث ہونے کے بعد بھی نہیں چلتا ہے۔
غیر سرکاری تنظیم ٹرانس پیرینسی انٹرنیشنل کی 180 ممالک کی رپورٹ میں ہندوستان کو ایشیا پیسفک ریجن میں بد عنوانی اور پریسکی آزادی کے معاملے میں سب سے خراب حالت والے ممالک کے زمرہ میں رکھا گیا ہے۔
جن گن من کی بات کے اس ایپی سوڈ میں سنیے موڈیز ریٹنگ اور پریس کی آزادی پرونود دوا کا تبصرہ
گزشتہ27 اکتوبر کو غازی آباد سےانہیں ان کی رہائش گاہ سے گرفتار کیا گیا تھا۔مسٹر ورما کو عدالت نے 14 دن کی عدالتی حراست میں بھیج دیاہے۔ رائے پور:چھتیس گڑھ میں ایک وزیر کی مبینہ فحش سی ڈی کے معاملے میں اترپردیش کے غازی آباد سےگرفتار سینئر صحافی […]
ریاستی حکومت کا یہ قدم دھمکی بھرا رویہ ظاہر کرتا ہے اور ہم اس معاملے کی غیر جانبدارانہ جانچ کرائے جانے کے حق میں ہیں جس میں نہ تو کسی کا دباؤ ہو اور نہ ہی ان کے خاندان کا کسی طرح کا استحصال ہو۔ نئی دہلی : […]
پولیس نے ورما کے گھر سے تین سو سی ڈی بر آمد ہونے کی بات کی،لیکن وہ ایک عدد سی ڈی عدالت کو فوراً کیوں نہیں دے سکی؟ سینئرصحافی ونود ورما کو اتّر پردیش پولیس کی مدد سے منھ اندھیرے تین اور چار بجے کے درمیان اٹھاکر اندراپورم […]