خبریں

صحافیوں کے الکٹرانک آلات کو طویل عرصے تک ضبط رکھنا پریس کی آزادی پر کاری ضرب ہے: عدالت

ایڈیشنل سیشن جج پون سنگھ راجاوت نے نچلی عدالت کے فیصلے کو برقرار رکھتے ہوئے یہ تبصرہ کیا، نچلی عدالت نے دہلی پولیس کو دی وائر کے عملے سے ضبط کیے گئے الکٹرانک آلات واپس کرنے کو کہا تھا۔ پولیس نے اکتوبر 2022 میں بی جے پی کے ایک رہنما کی جانب سے دی وائر کے خلاف شکایت کے بعد ان آلات کو ضبط کیا تھا۔

(علامتی تصویر بہ شکریہ: pixabay.com)

(علامتی تصویر بہ شکریہ: pixabay.com)

نئی دہلی: گزشتہ سال دی وائر کےصحافیوں سے ضبط کیے گئے الکٹرانک آلات کو واپس کرنے کی نچلی عدالت  کی ہدایت کو دہلی پولیس کی جانب سے کیے گئے چیلنج کو مسترد کرتے ہوئے ایڈیشنل سیشن جج پون سنگھ راجاوت نے بدھ (18 اکتوبر) کو کہا کہ مسلسل ضبطی پریس کی آزادی پر کاری ضرب لگاتی ہے۔

گزشتہ ستمبر میں دہلی کی تیس ہزاری عدالت کے چیف میٹروپولیٹن مجسٹریٹ سدھارتھ ملک نے فیصلہ سنایا تھا کہ پولیس کے پاس الکٹرانک آلات کو اپنے پاس رکھنے کی کوئی معقول وجہ نہیں ہے، کیونکہ جانچ  افسر کے پاس یہ آلات طویل عرصے سے موجود تھے اور عدالت کو بتایا گیا تھا کہ فرانزک سائنس لیب نے مزید تفتیش کے لیے پہلے ہی مرر امیج  لے لی تھی۔

یہ کہتے ہوئے کہ ان آلات کو پولیس غیر معینہ مدت تک اپنی تحویل میں نہیں رکھ سکتی، مجسٹریٹ نے کہا تھا کہ پولیس کی دلیل ہے کہ بعد کی  تفتیش کے لیے ان آلات کی دوبارہ ضرورت پڑ سکتی ہے، ‘ بعد کے مرحلے میں کچھ نئے حقائق سامنے کی بات میں قیاس آرائی ہے، جو ہوبھی سکتا ہے اورنہیں بھی ہو سکتا ہے۔’

عدالت میں دی وائر کی نمائندگی اشوتھ سیتارمن، پرسنا ایس اور ارچیت کرشنا نے کی تھی۔ ان آلات کو پولیس نے اکتوبر 2022 میں بھارتیہ جنتا پارٹی کے ایک رہنما کی جانب سے دی وائر کے خلاف شکایت کے بعد تلاشی کے دوران  ضبط کیا تھا۔

دہلی پولیس نے مجسٹریٹ کے فیصلے کے خلاف ایڈیشنل سیشن کورٹ میں اپیل کی تھی۔ دلائل سننے کے بعد ایڈیشنل سیشن جج پون سنگھ راجاوت نے کہا کہ پریس جمہوریت کا چوتھا ستون ہے اور ‘اگر اسے آزادانہ طور پر کام کرنے اور چلانے کی اجازت نہیں دی گئی تو اس سے ہماری جمہوریت کی بنیاد کو شدید نقصان پہنچے گا’۔

جج نے مزید کہا؛

جواب دہندگان کے الکٹرانک آلات کی مسلسل ضبطی، نہ صرف ان کے لیے غیر ضروری مشکلات کا باعث بن رہی ہے، بلکہ یہ آئین ہند کے آرٹیکل 19(1)(جی) کے تحت گارنٹی شدہ پیشے اور تجارت کی آزادی کی خلاف ورزی کے ساتھ ساتھ آرٹیکل 19(1) (اے) کے تحت اظہار رائے کی آزادی کے ان کے بنیادی حق کی بھی خلاف ورزی ہے۔ جیسا کہ اعتراف کیا گیا ہے جواب دہندگان نیوز پورٹل دی وائر کے لیے کام کر رہے ہیں، جو خبروں اور معلومات کو نشر کرنے کا کام کرتے  ہیں اور یہ الکٹرانک آلات ان کے کام کے لیے استعمال کیے جا رہے تھے۔’

انہوں نے کہا کہ چیف میٹرو پولیٹن مجسٹریٹ کے فیصلےنے نہ صرف دی وائر کے عملے کے مفادات کا تحفظ کیاہے بلکہ اس بات کو بھی یقینی بنایا ہے کہ وہ آلات کو چھیڑ چھاڑ سے محفوظ رکھنے کے پابند ہیں اور اگر انہیں آلات میں کوئی تضاد نظر آتا ہے تو انہیں  فوراً  جانچ  افسر کو مطلع کرنا چاہیے۔

جج نے کہا کہ سی آر پی سی کی دفعہ 457 عدالت کو جانچ مؤخر رہنے تک جائیداد کی تحویل کا فیصلہ کرنے کا اہل بناتی ہے اور بسوا کوم دھام گوڑا پاٹل (1977) کیس میں سپریم کورٹ کے فیصلے کا حوالہ دیتے ہوئے کہا کہ پولیس کو غیر معینہ مدت تک جائیداد کو اپنے قبضے میں نہیں رکھنا چاہیے۔ اسی فیصلے میں کہا گیا تھاکہ عدالت کو یہ طے کرنے کی ضرورت ہے کہ کیا پولیس کی جانب سے ضبط کی گئی جائیداد مستقبل کے ٹرائل کے لیے ضروری ہے۔

جسٹس راجاوت نے کہا کہ سی آر پی سی کی دفعہ 451 عدالت  مقدمے کے التوا رہنے تک جائیداد کی مناسب تحویل کے لیے فیصلہ دینے کا وسیع صوابدیدعطا کرتی ہے۔

فیصلےمیں کہا گیا، ‘اس عمل میں عدالت کو اتفاق سے اس بات پر غور کرکے ہدایت کی جا سکتی ہے کہ پہلی نظر میں معاملے کی جائیداد (آلات) پر قبضہ کرنے کا حقدار کون ہے اور اس کے مفادات کے تحفظ کے لیے اسے قبضہ سونپ دیاجائے، لیکن  کسی بھی حریف دعویدارکو معاملے کی جائیدادیا جرم میں استعمال کی  جائیدادکی حراست دیتے وقت عدالت کے لیے یہ واحد خیال نہیں ہو سکتا ہے۔’

انگریزی میں پڑھنے کے لیےیہاں کلک کریں۔