فکر و نظر

مودی کا دورہ امریکہ: چین بمقابلہ ہندوستان

بڑا سوال یہ ہے کہ کیا بائیڈن انتظامیہ کے لیے ایسی جمہوریت کے ساتھ اتحاد کرنا جائز ہے، جو ملکی سیاست اور خارجہ پالیسی میں چین کے آمرانہ نظام کی عکاسی کرتی ہو؟ شیطان کا مقابلہ کرنے کے لیے ایک عفریت کی سرپرستی کرنا ماضی میں امریکہ کے لیے مہنگا ثابت ہوا ہے۔

وزیر اعظم نریندر مودی کے ساتھ امریکی صدر جو بائیڈن۔ (فائل فوٹو: امریکی محکمہ خارجہ)

وزیر اعظم نریندر مودی کے ساتھ امریکی صدر جو بائیڈن۔ (فائل فوٹو: امریکی محکمہ خارجہ)

ریاست گجرات میں 2002کے مسلم کش فسادات کے بعد مغربی ممالک نے اس کے وزیر اعلیٰ نریندر مودی پر سرکاری طور پر سفر پر  پابندی تو نہیں لگائی تھی، مگر ویزا دینے سے مسلسل انکار کرکے ان کو خاصا زچ کیا تھا۔ اس لیے  2014 میں وزارت اعظمیٰ کی مسند سنبھالتے ہی انہوں نے پوری کسر نکال کر رکھ دی۔

پچھلے نو سالوں میں ابھی تک انہوں نے 110غیر ملکی دورے کیے ہیں، جن میں سات بار و ہ امریکہ گئے۔ یہ تو بھلا ہوا دو سال لاک ڈاؤن کا، ورنہ یہ تعداد پتہ نہیں کہا ں تک پہنچ گئی ہوتی۔

گو کہ اس ماہ یعنی 21جون کو بطور وزیر اعظم آٹھویں بار مودی کی واشنگٹن آمد ہوگی، مگر یہ ان کا امریکہ کا پہلا ریاستی دورہ ہوگا۔ سفارتی پروٹوکول میں سربراہ مملکت کے دوروں کی درجہ بندی کی گئی ہے۔ جن میں الگ الگ نوعیت کے دورے یعنی ریاستی دورہ جس کو اسٹیٹ وزٹ کہتے ہیں، سرکاری دورہ، ورکنگ وزٹ، تواضع وزٹ   اور دعوتی دورہ شامل ہیں۔ ریاستی دورہ میں توپوں کی سلامی، گارڈ آف آنر یعنی خاصا طمطراق ہوتا ہے، جس کے مودی جی خاصے عاشق ہیں۔

ہندوستان کی طرف سے  ایسا آخری دورہ وزیر اعظم منموہن سنگھ نے نومبر 2009 کو کیا تھا۔پاکستان کی طرف سے آخری بار 1982میں صدر جنرل ضیاء الحق کے دورہ کو امریکہ نے ریاستی دورہ کا درجہ دیا تھا۔ اس سے قبل دو بار صدر ایوب خان کو 1961اور 1965میں اس طرح کا اعزاز دیا گیا تھا۔یہ امر دلچسپی سے خالی نہیں ہے کہ پاکستان کے کسی بھی جمہوری لیڈر کو امریکہ نے یہ اعزاز نہیں بخشا ہے۔

 امریکی صدر جو ائے بائیڈن اور خاتون اول جل بائیڈن 22 جون کو وہائٹ ہاؤس میں مودی کے اعزاز میں ایک سرکاری عشائیہ کی میزبانی کریں گے۔بائیڈن کے دور صدارت میں ابھی تک صرف فرانس اور جنوبی کوریا کے صدور کو ہی ریاستی دورہ پر مدعو کیا گیا ہے۔

دوسری طرف امریکی کانگریس کے اسپیکر کیون میک کارتھی نے مودی کو مشترکہ اجلاس  سے خطاب کرنے کے لیے مدعو کیا ہے۔ یہ دوسرا موقع ہے جب وہ امریکی کانگریس کے مشترکہ اجلاس سے خطاب کریں گے۔اس پذیرائی اور شاندار استقبال کا مقصد ہندوستان کو روس سے الگ کرنا اور ایشیا پیسیفک میں امریکی مفادات کی رکھوالی کرنے کےلیے چین کے خلاف ایک مؤثر طاقت کے بطور ابھارنا ہے۔

ہندوستان کے اسلحہ کا 80فیصد ذخیرہ روس سے آتا ہے۔ اس دورہ کے مقصد روسی اسلحہ کو بے دخل کرکے ہندوستان کوامریکی ہتھیاروں کی ایک منڈی بنانا بھی ہے۔ حال ہی میں مودی کے دورے سے قبل امریکی وزیر دفاع کے نئی دہلی کے دورہ کے دوران دفاعی معاہدوں کے لیے ایک فریم ورک تیار کیاگیا ہے، جس کو مودی اور بائیڈن واشنگٹن میں آخری شکل دیں گے۔ جس میں ہندوستان میں ہی جیٹ انجن تیاری کا ایک معاہدہ بھی شامل ہے۔

گو کہ اس پر گیار ہ سال قبل رضامندی ہوئی تھی، مگر مختلف وجوہات کی بنا پر یہ آگے نہیں بڑھ پایا تھا۔

امریکی انتظامیہ کا کہنا ہے کہ ایک آمرانہ چین کا مقابلہ کرنے کے لیے جو بین الاقوامی اصولوں اور ضابطوں کی پرواہ نہیں کرتا،خطے میں ایک جمہوری ملک یعنی ہندوستان کی حوصلہ افزائی کی اشدضرورت ہے۔ یعنی دنیا کی قدیم ترین جمہوریت امریکہ اور سب سے بڑی جمہوریت ہندوستان کے درمیان اتحاد فطری ہے۔

تاہم بڑا سوال یہ ہے کہ کیا بائیڈن انتظامیہ کے لیے ایسی جمہوریت کے ساتھ اتحاد کرنا جائز ہے، جو ملکی سیاست اور خارجہ پالیسی میں چین کے آمرانہ نظام کی عکاسی کرتی ہو؟ شیطان کا مقابلہ کرنے کے لیے ایک عفریت کی سرپرستی کرنا ماضی میں امریکہ کے لیے مہنگا ثابت ہوا ہے۔

عوامی یادداشت نہایت ہی مختصر ہوتی ہے۔مگر کامیاب حکمران تاریخ سے سبق لیتے ہیں۔ جس طرح امریکی ایوانوں میں آجکل ہندوستان کی پذیرائی ہورہی ہے، یہی کچھ حال 70کی دہائی میں چین کے ساتھ تھا۔ بتایا جاتا تھا کہ سویت یونین پر چین کا انحصار کم کرنے کے لیے اس کی مدد کرنے کی ضروت ہے۔  1970 کی دہائی کے اوائل میں، نکسن انتظامیہ نے چین کے ساتھ میل جول کی پالیسی اس امید کے ساتھ شروع کی کہ اس کے رہنماؤں کو مغربی جمہوری نظریات سے ہم آہنگ کرایا جائے اور اس کو عالمی معیشت میں ضم کیا جائے،تاکہ وہ مارکیٹ پر مبنی پالیسیاں اپنا کر سویت یونین سے اپنا ناطہ ختم کرسکے۔ 1979میں چینی لیڈر دنگ زیاو پنگ کا واشنگٹن میں اسی طمطراق کے ساتھ استقبال کیا گیا۔

چین کو سب سے زیادہ پسندیدہ ملک (ایم ایف این) کا درجہ دیا گیا، جس سے چینی ساز سامان کو امریکی مارکیٹ تک بغیر کسی محصول کے رسائی حاصل ہوگئی۔ چین کو اربوں ڈالر کی اقتصادی امداد دکے علاوہ انٹلی جنس اور جدید فوجی ساز و سامان اور ٹکنالوجی بھی فراہم کی گئی۔ اس کے علاوہ، مشرقی ایشیا میں چین کو ایک علاقائی طاقت کے طور پر تسلیم کیا گیا۔ امریکہ نے اقوام متحدہ اور عالمی بینک جیسی بین الاقوامی تنظیموں میں چین کی رکنیت کی حمایت کرکے عالمی سطح پراس کو قانونی حیثیت دینے کے علاوہ اس کو ایک بڑی اقتصادی اور فوجی طاقت بننے میں خاصی مدددی۔

پچاس سال بعد، اب امریکی اداروں میں تو ہر کوئی اس بات سے اتفاق کرے گا کہ چین کومراعات دینے سے امریکی معیشت پر نقصان دہ اثرات مرتب ہوئے ہیں۔ چین کی آمرانہ حکومت نے سیاسی اور شہری آزادیوں پر سخت کنٹرول  برقرار رکھتے ہوئے عالمی اقتصادی نظام کا فائدہ اٹھایا اور اب خود امریکہ کو ہی چیلنج کر رہا ہے۔

مگر کیا امریکہ اب وہی غلطی دوبارہ نہیں دہرا رہا ہے؟ کیا  امریکہ اور مغربی جمہوریتوں کو معلوم ہے کہ حال ہی میں ایمنسٹی انٹرنیشنل اور بی بی سی کے دفاتر پر چین میں نہیں بلکہ ہندوستان میں چھاپے مارے گئے؟ مودی کی زیر قیادت جمہوری ہندوستان نے میانمار کی فوجی حکومت پر عائد تمام بین الاقوامی پابندیوں کی خلاف ورزی کرتے ہوئے، 2021 سے اب تک 51  ملین ڈالر کی مالیت کا اسلحہ فراہم کیا۔

یہ بات بالکل واضح ہے کہ امریکہ اور برطانیہ کے ساتھ ساتھ دیگر مغربی جمہوریتوں نے بھی مودی کے آمرانہ انداز کو نظر انداز کر دیا ہے کیونکہ وہ روس اور چین کے ساتھ اپنی لڑائیوں میں اس کی حمایت چاہتے ہیں۔مگر کیا یہ دور اندیشی ہے؟

ستم ظریفی یہ ہے کہ امریکی کے سرکاری ادارے  مودی کے دورے کا بنیادی مقصد آزاد، کھلے اور خوشحال معاشرے تشکیل دینے  اور ایشیا پیسفک خطے کو محفوظ بنانے کے طور پر بیان کرتے ہیں۔ لیکن ان اقدار کو ہندوستان میں طویل عرصے سے فراموش کر دیا گیا ہے۔کیا امریکی پالیسی سازوں کو معلوم نہیں ہے کہ 2023 کے ورلڈ پریس فریڈم انڈیکس میں ہندوستان کی درجہ بندی 180 ممالک میں سے 161 پر آ گئی ہے۔

مودی کے ساتھ اپنی ملاقات میں، بائیڈن سے توقع ہے کہ وہ اپنے ہی محکمہ خارجہ کی رپورٹ کا جائزہ لیں گے جس میں ہندوستان میں جوابدہی کی بے تحاشا کمی، بدانتظامی اور انسانی حقوق کے خراب ریکارڈ کی تفصیل درج ہے۔ بائیڈن کو مودی سے ملاقات سے پہلے امریکی کمیشن برائے بین الاقوامی مذہبی آزادی (یو ایس سی آئی آر ایف) کی رپورٹ بھی پڑھنی چاہیے۔ جس میں بتایا گیا ہے کہ ہندوستان میں مذہبی آزادی اور متعلقہ انسانی حقوق کو مسلسل خطرات لاحق ہیں۔

سوال یہ ہے کہ کیا جمہوریت اور انسانی حقوق کے فروغ کو تجارت اور سرمایہ کاری کی ترجیحات کے لیے ثانوی سمجھا جانا چاہیے؟ اگر ایسا ہے تو، جب چین عالمی قوانین کو نظر انداز کرتا ہے تو چیخ و پکار کیوں؟ امریکی پالیسی سازوں کو ہندوستان میں قانون کی حکمرانی کو مضبوط بنانے، اقلیتوں کے تحفظ اور ریاست جموں و کشمیر میں عوام کو سانس لینے جیسے حالات پیدا کرنے کی ترغیب دینی چاہیے۔ ہندوستان میں بہتر جمہوری اقدار ہی مارکیٹ کی بھی ضمانت ہے۔

ہندوستان میں جو کچھ اس وقت ہو رہا ہے، اس پر آنکھیں بند کرنا ایسا ہی ہے کہ ایک عفریت کو دوسرے عفریت کے خلاف کھڑا کرنے کا عمل دوبارہ شروع کیا جا رہا ہے۔اس طرح کی پالیسی کا ماضی میں امریکہ کو خمیازہ بھگتنا پڑا ہے۔ اس سے قبل کہ بہت دیر ہو جائے، امریکی انتظامیہ کو مودی اور ہندوستان کے تئیں اپنی پالیسی کا از سر نو تعین کرکے ایک لبرل جمہوری، تہذیبی یگانگت سے لبریزہندوستان کی تشکیل میں ہاتھ بٹانا چاہیے، جو نہ صرف ملک کے اندر سول سوسائٹی کے لیےراحت کا پیغام ہو، بلکہ ہمسایہ ممالک کے ساتھ دیرینہ تنازعات کو حل کرکے جنوبی ایشیا ء کو امن کا گہوارہ بنائے۔

اسی ایک قدم سے چین کے آمرانہ نظام کے خلاف جمہوری نظام اپنی معتبریت ثابت کرسکتا ہے۔