فکر و نظر

گیتا پریس کو گاندھی پیس پرائز، گاندھی اور پرائز دونوں کو کمتر کرنے کی کوشش ہے

جدید ہندوستان میں ہندودھرم کے حوالے سے گاندھی جو کرنے کی کوشش کر رہے تھے ، گیتا پریس اس کے بالکل برعکس لڑائی لڑ رہی تھی اور لڑ  رہی ہے۔

(السٹریشن: پری پلب چکرورتی/دی وائر)

(السٹریشن: پری پلب چکرورتی/دی وائر)

اتوار کو خبر آئی کہ نریندر مودی کی سربراہی والی  ایک کمیٹی نے فیصلہ کیا ہے کہ رامائن، گیتا، اپنشد اور دیگر ہندو مذہبی کتابیں شائع کرنے والی گیتا پریس کو سال 2021 کے لیے گاندھی پیس پرائز دیا جائے گا۔کمیٹی نے کہا کہ ‘عدم تشدد اور دیگر گاندھیائی فلسفوں کے ذریعے سماجی، اقتصادی اور سیاسی تبدیلی لانے میں غیر معمولی خدمات’ کی وجہ سے گیتا پریس کو اس ایوارڈ کے لیےمنتخب کیا  گیاہے۔

ان باتوں  پر شک کرنے کی بہت سی وجوہات ہیں۔ یہاں ان میں سے بعض وجوہات پر غور کیجیے۔

اول، جیسا کہ گورکھپور کے اس سو سال پرانے متنازعہ پبلشنگ ہاؤس کے  وسیع سوانحی اشاریے سے پتہ چلتا ہےکہ  گیتا پریس اور گاندھی کے درمیان کبھی کوئی خوشگوار تعلقات نہیں رہے۔ اس کے ماہانہ رسالے ‘کلیان’ نے 1948 کے فروری اور مارچ کے دو شماروں میں مہاتما گاندھی کےقتل کا ذکر تک نہیں کیا تھا۔

مصنف اکشے مکل لکھتے ہیں کہ اس بابت اس نے اپریل میں ہی کچھ شائع کیا تھا۔مکل اس کے بانی مدیر پودار کے بارے میں رقمطراز ہیں؛

‘سی آئی ڈی کی آرکائیومیں جزوی طور پر اس سوال [قتل کا ذکر کیوں نہیں کیا گیا] کا جواب ملتا ہے۔ پودار آر ایس ایس کے دفاع میں سرگرم عمل تھے۔ وہی آر ایس ایس، جس پر 4 فروری 1948 کو گاندھی کے قتل میں مبینہ کردار کی وجہ سے پابندی عائد کر دی گئی تھی۔ 15 جولائی 1949 کو، نہرو حکومت کی طرف سے آر ایس ایس پر سے پابندی ہٹانے کے چار دن بعد، پودار نے آر ایس ایس کے ہفتہ وار پنججنیہ کے اس وقت کے مدیراٹل بہاری واجپائی کے ساتھ گورکھپور میں ایک جلسہ عام میں شرکت کی تھی۔ واجپائی نے آر ایس ایس پر پابندی لگانے کی مبینہ غلطی کے لیے حکومت اور کانگریس والوں کو تنقید کا نشانہ بنایا تھا۔ ان کے مطابق، آر ایس ایس ہی واحد تنظیم تھی جو حقیقت میں ہندوؤں کے لیے کچھ کر سکتی تھی۔’

انہوں نے مزید کہا تھا کہ ،حکومت ‘پابندی ہٹانے کے لیے شکریے کی مستحق نہیں ہے کیونکہ اسے اپنی غلطی کو سدھارنے میں ڈیڑھ سال لگ گئے۔’ سی آئی ڈی کی رپورٹ میں کہا گیا کہ پودار نے بھی اسی طرح کی مختصر تقریر کی تھی۔ آر ایس ایس کے ساتھ پودار کی وابستگی صرف واجپائی کے ساتھ اس جلسہ عام میں شرکت تک محدود نہیں تھی۔ 1949 میں، ایم ایس گولوالکر کے جیل سے رہا ہونے کے بعد اور متحدہ صوبہ (آج کا اتر پردیش) کے اہم شہروں کا دورہ کرنے کے بعد پودار نے بنارس میں ان کے استقبال کے لیے منعقد ایک تقریب کی صدارت کی تھی۔

دوم یہ کہ، جدید ہندوستان میں ہندودھرم کے حوالے سے گاندھی  جو کرنے کی کوشش کر رہے تھے،گیتا پریس اس کے بالکل برعکس لڑائی لڑرہی تھی اور لڑ رہی ہے۔ گاندھی ہندو مذہب کو بنیادی طور پر عدم تشدد، ‘سرو دھرم سمبھاو’ کے طور پر پیش کرنے کی کوشش کر رہے تھے۔ گاندھی کے قاتل ناتھورام گوڈسے کے سوانح نگار دھیریندر کے جھا کے لفظوں  میں، گاندھی ہندو دائیں بازو کے لیے خطرہ ہیں کیونکہ انہیں ایک مصلح کے طور پر نہیں، بلکہ لاکھوں لوگوں  کے نزدیک ہندو  دھرم کے اعلیٰ ترین  ورژن کی مثال مانا جاتا تھا۔موجودہ حکمران بی جے پی کھلے عام ہندوازم کی عسکریت پسندی کے لیے وی ڈی ساورکر کےنظریات پر کاربند ہے اور ہندوستانی معاشرے کو مسلسل تصادم اور جنگ کی حالت میں دیکھنے کے لیے مضطرب ہے۔ ان کے خیال میں گاندھی کے قتل کے بعد،کسی طرح ان پر جیت پائی جانی چاہیے۔ گیتا پریس نے اس جنگ میں آر ایس ایس کی مدد کرنے کی پوری کوشش کی ہے۔

سوم یہ کہ،یہ صرف گیتا پریس کو ایوارڈ دینے کے بارے میں نہیں ہے، یہ ایوارڈ کے خول  میں ان خیالات کو عزت دینے کی ایک کوشش ہے۔یہ مہاتما کے نظریات اور اقدار کو کمتر کرنے کے مرحلے میں ایک قدم آگے ہی بڑھاہے،وہ بھی یہ کہتے ہوئے کہ گیتا پریس ان کی آئینہ دار ہے۔

ماضی میں ایوارڈ حاصل کرنے والوں میں انڈین اسپیس ریسرچ آرگنائزیشن، رام کرشنا مشن، گرامین بینک آف بنگلہ دیش، ویویکانند کیندر، کنیا کماری، نیلسن منڈیلا، بابا آمٹے، آرچ بشپ ڈیسمنڈ ٹوٹو، ماہر ماحولیات چنڈی پرساد بھٹ اور بنگ بندھو شیخ مجیب الرحمان شامل ہیں۔اس فہرست میں گیتا پریس کا شامل ہونا اس تفرقہ انگیز اور متنازعہ ادارے کے وقار کو بلند کرتا ہے (جس نے گاندھی کے حمایت یافتہ مندر میں داخلے کی بھی مخالفت کی تھی) اور اسے ایک الگ ہی  لیگ میں ڈال دیتا ہے۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ یہ سنگھ کے مشتبہ نظریات، جس کی یہ  حمایت کرتا تھا، کو بھی قابل احترام سمجھتا ہے۔

لوک سبھا میں ‘سینگول’ کی تنصیب نے ہندوستانی پارلیامانی جمہوریت کے تصور کے ساتھ جوسلوک  کیا ہے، وہی  گیتا پریس کو گاندھی پیس پرائزملنے سے ہوتا ہے:سنگھ کی علامتیں اور نظریات- جو کہ ایک تفرقہ انگیز، رجعت پسند اور غیر اصلاحی ہندوستان کا ہے،  کو ہر اس چیز پر مسلط کرنا اور ختم کرنے کی کوشش کرنا، جو کبھی جامع اورتنوع پسند  تھا۔

ٹھیک ویسے ہی، جیسے75 سال پہلے 30 جنوری کی اس شام کو بڑلا ہاؤس میں کیا گیا تھا۔

(اس مضمون  کوانگریزی میں پڑھنے کے لیےیہاں کلک کریں۔)