خبریں

امریکی صدر سے مودی کے سامنے ہندوستان میں آزادی صحافت کا مسئلہ اٹھانے کی اپیل

وزیر اعظم نریندر مودی تین روزہ سرکاری دورے پر امریکہ میں  ہیں۔ انٹرنیشنل پریس انسٹی ٹیوٹ نے ایک بیان جاری کرتے ہوئے امریکی صدر جو بائیڈن سے اپیل کی ہے کہ انہیں اس موقع کو مودی کے ساتھ ہندوستان میں آزادی صحافت سے متعلق اہم مسائل اٹھانے کے لیے استعمال کرنا چاہیے۔

امریکی صدر جو بائیڈن اور ہندوستانی  وزیراعظم نریندر مودی۔ (فوٹو بہ شکریہ: Office of POTUS/Wikimedia Commons, Public domain)

امریکی صدر جو بائیڈن اور ہندوستانی  وزیراعظم نریندر مودی۔ (فوٹو بہ شکریہ: Office of POTUS/Wikimedia Commons, Public domain)

نئی دہلی: انٹرنیشنل پریس انسٹی ٹیوٹ (آئی پی آئی) نے امریکی صدر جو بائیڈن سے ہندوستان میں آزادی صحافت کا مسئلہ وزیر اعظم نریندر مودی کے ساتھ اٹھانے کی اپیل  کرتے ہوئے کہا ہے کہ ان کی حکومت میں’تنقیدکرنے والے صحافیوں کے خلاف قانون کو ایک ہتھیارکے طور پر استعمال  کرناتیزی سے عام ہو گیا ہے۔’

کئی حقوق گروپوں اور امریکی قانون سازوں نے بھی بائیڈن سے اپیل کی  ہے کہ وہ ہندوستان  میں انسانی حقوق کے مسائل اور جمہوری زوال کا مسئلہ اٹھائیں۔

وہائٹ ہاؤس کے قومی سلامتی کے مشیر جیک سلیون نے کہا کہ جب امریکہ پریس، مذہبی یا دیگر آزادیوں کے لیے چیلنجز کو دیکھتا ہے، تو ‘ہم اپنے خیالات سے آگاہ کراتے ہیں’، لیکن ‘ہم ایسا اس طرح سےکرتے ہیں جہاں ہمیں لیکچر دینےیا اس بات پر زور دینے کی کوشش نہیں کرتے کہ خود ہمارے سامنے چیلنجز نہیں ہیں۔

آئی پی آئی نے کہا کہ ہندوستان میں آزادی صحافت کے ‘خطرناک زوال’ کو روکا جانا چاہیے اور بائیڈن سے کہا کہ وہ ان مسائل کو اندرون اور بیرون ملک ترجیحی بنیادوں پر حل کریں۔

انسٹی ٹیوٹ ان سات دیگر بین الاقوامی پریس فریڈم گروپ میں سے ایک تھا، جس نے واشنگٹن پوسٹ کی پریس فریڈم پارٹنرشپ کے حصے کے طور پر اخبار میں ایک اشتہار شائع کیا تھا، جس میں ‘ ہندوستانی سیکورٹی قوانین کی مبینہ خلاف ورزیوں کے لیے حراست میں لیے گئے چھ صحافیوں کی حالت زار پر پر توجہ دینے کو کہا گیا تھا۔’

بیان میں کہا گیا ہے کہ ،’مودی تین روزہ سرکاری سرکاری دورے پر امریکہ میں ہیں،اس دوران وہائٹ ہاؤس ان کی میزبانی کرے گا۔ بائیڈن کو اس موقع کا استعمال  ہندوستان  میں آزادی صحافت سے متعلق اہم مسائل اٹھانے کے لیےکرنا چاہیے،جن میں کشمیری صحافیوں کی حالت زار اور تنقیدکرنے والے صحافیوں کو خاموش کرانے کے لیے ‘قانون’ کا وسیع استعمال شامل ہے اور مودی کو ملک میں پریس کی آزادی  کے لیے ماحول کو بہتر بنانے کے لیے ٹھوس اقدامات کرنے پر مجبور کرنا چاہیے۔

بیان میں مزید کہا گیا ہے کہ،’مودی کے اقتدار میں آنے کے بعد سے ایک دہائی میں میڈیا پر کارروائی  عام ہوگئی ہے۔ پچھلے مہینے، آئی پی آئی نے مودی کو ایک کھلا خط جاری کیا تھا، جس میں ان سےآزادی اظہار اور میڈیا کی آزادی کے تحفظ کے لیے فوری اور ٹھوس اقدام کرنے اور اس بات کو یقینی بنانے کی اپیل کی تھی کہ ہندوستانی عوام متنوع، آزاد خبروں اور معلومات تک رسائی حاصل کرنے کے اپنے بنیادی حق کا استعمال کر سکیں۔’

اپنے بیان میں آئی پی آئی نے کہا ہے کہ گزشتہ سال اس نے ہندوستان میں پریس پر حملوں سے متعلق 200 سے زائد معاملوں کا دستاویز تیار کیا تھا، جن میں زیادہ تر مواقع پر پریس کی آزادی کی خلاف ورزی سرکاری ٹربیونلز کے ذریعے کی گئی تھی۔

بیان میں جموں و کشمیر سے 2019 میں آرٹیکل 370 کو ہٹائے جانے کا بھی حوالہ دیا گیا، جو ریاست کو خصوصی درجہ دیتاتھا، جس کے تناظر میں کہا گیا ہے کہ اس کے بعد اس مسلم خطے میں کام کرنے والے آزاد میڈیا کے خلاف سخت کارروائی کی گئی۔اس کے بعد سے کشمیرمیں صحافت کے لیے ‘دنیا کا سب سے مشکل اور پابندی والا ماحول‘نظر آتاہے۔

اس کے علاوہ بیان میں کہا گیا ہے کہ،کشمیر میں انٹرنیٹ شٹ ڈاون کی شرح میں دنیا میں سب سے زیادہ ہے، جس کی وجہ سے صحافیوں کے لیے ذرائع سے رابطہ کرنا، معلومات اکٹھا کرنا اور اس کی تصدیق کرنا، اور اپنے کام کو نشر کرنا تقریباً ناممکن ہو گیاہے۔

بیان میں صحافیوں کے خلاف ہتھیار کے طور پر استعمال ہونے والے قوانین کی بھی تفصیلات دی گئی ہے، خاص طور پر انڈین پینل کوڈ، آئی ٹی ایکٹ، غیر قانونی سرگرمیوں کی روک تھام کا ایکٹ اور پبلک سیفٹی ایکٹ کا ذکر کیا گیا ہے کہ ان کا استعمال ایسے صحافیوں کے لیے کیا جاتا ہے جو حکومتی بدعنوانی کو بے نقاب کرتے ہیں اور انسانی حقوق کی کی خلاف ورزیوں کی رپورٹنگ کرتے ہیں۔

سیڈیشن کے قانون کے سلسلے میں بیان میں کہا گیا ہےکہ، ‘حال ہی میں لاء کمیشن آف انڈیا نے ایک رپورٹ جاری کی ہے، جس میں سفارش کی گئی ہے کہ ہندوستان کے سیڈیشن کے قانون کو، جسے مئی 2022 میں سپریم کورٹ نے معطل کر دیا تھا، کو بحال کیا جائےاور اس کا دائرہ کار وسیع کیا جانا چاہیے۔مجوزہ تبدیلیوں سے حکومت کے لیے ملک میں اختلاف رائے کو دبانا اور زیادہ آسان ہو جائے گا۔

اس رپورٹ اورپورے بیان کو انگریزی میں پڑھنے کے لیےیہاں کلک کریں۔