خبریں

مہاراشٹر: ’ریپسٹ کسی بھی مذہب کے ہو سکتے ہیں‘ کہنے پر لیکچرار کو چھٹی پر بھیجا گیا

واقعہ کولہاپور کے ایک انجینئرنگ کالج کا ہے، جہاں کلاس میں مذہبی امتیاز پرہوئے ڈسکشن کے ایک وائرل ویڈیو میں دعویٰ کیا گیا تھا کہ لیکچرار اورنگ زیب کی تعریف کر تے ہوئے ‘پٹیل-دیشمکھ’ کو ریپسٹ بتا رہی ہیں۔ لیکچرار نے ویڈیو کو ایڈیٹیڈ قرار دیا ہے۔ تاہم ،کالج کا کہنا ہے کہ جانچ  پوری ہونے تک انہیں چھٹی پر رہنا ہوگا۔

Students-Class-teacher-Pixabay

نئی دہلی: مہاراشٹر کے کولہاپور میں ایک کالج کے لیکچرار کو کلاس ڈسکشن کے دوران یہ کہنے پرکہ ‘ریپ کے ملزم کسی بھی مذہب یا برادری کے ہوسکتے ہیں’ سوشل میڈیا پر نفرت انگیز مہم کا سامنا کرنا پڑا ہے، اس کے ساتھ ہی  انہیں  کالج نے چھٹی پر جانے کو مجبور کیا ہے۔

نیوز لانڈری کی رپورٹ کے مطابق، یہ واقعہ کولہاپور انسٹی ٹیوٹ آف ٹکنالوجی کے کالج آف انجینئرنگ میں پیش آیا، جہاں 52 سالہ تیجسونی دیسائی فزکس کی پروفیسر ہیں۔ اس ماہ کے شروع میں انہیں ایک لیکچرار کے استعفیٰ کے بعد ‘ہیومن ویلیوز اینڈ پروفیشنل ایتھکس ‘ کی کلاس لینے کو کہا گیا تھا۔

انہوں نے بتایا کہ 8 جون کو وہ کلاس لینے پہنچی تھیں تب وہاں پچاس کے قریب طالبعلم  تھے۔ انہوں نے دیسائی کو بتایا کہ اپنی اس  کلاس میں وہ  پہلے امتیازی سلوک پر ایک گروپ ڈسکشن کا انعقاد کر چکے ہیں، اس لیے دیسائی نے ان سے صنفی امتیاز کے بارے میں بات  چیت کرنے کو کہا۔ لیکن اسٹوڈنٹ راضی نہیں ہوئے اور اس کے بجائے مذہبی امتیاز پر ڈسکشن کرنے میں دلچسپی ظاہر کی۔ دیسائی اس پر راضی ہوگئیں۔

انہوں نے نیوز لانڈری کو بتایا،’ڈسکشن گزشتہ دنوں کولہاپور میں ہونے والے تشدد سے شروع ہوا۔کچھ طالبعلموں نے بتایا کہ کس طرح ان کی پہچان والےمسلمان اورنگ زیب کے بارے میں وہاٹس ایپ پر اسٹیٹس پوسٹ کر رہے تھے۔ اسی بات سےڈسکشن یہاں تک پہنچ گیا،جہاں کچھ طالبعلموں نے مسلمانوں پرریپسٹ ہونے اور ان کے جرائم کی سزا نہ ملنے کا الزام لگانا شروع کردیا۔

دیسائی نے مزید کہا، ’کچھ طالبعلم کہہ رہے تھے کہ ہندو کبھی فسادات میں حصہ نہیں لیتے اور بابری مسجد کوسپریم کورٹ کے حکم پر منہدم کیا گیا تھا۔دیسائی کا کہنا ہے کہ اس پر انہیں کلاس میں موجود دیگر مذاہب کے طالبعلموں کی  فکرہوئی ۔ ‘میں نے محسوس کیا کہ معاملہ بڑھنا نہیں چاہیے اس لیے میں نے ان سے کہا کہ ریپ کسی ایک مذہب یا برادری تک محدود نہیں ہے اور ریپسٹ کا کوئی مذہب یا ذات نہیں ہوتا۔ یہ سنگین جرائم میں سے ایک ہے۔

ان کے مطابق، اپنی بات کو مزید واضح کرنے کے لیےانھوں نے بہت سے طاقتور لوگوں کی مثالیں دیں جن پر ماضی میں ریپ کے الزام لگے تھے۔ انہوں نے ‘پاٹلوں اور دیشمکھوں’ کا بھی ذکر کیا، جو نام گاؤں میں زمینداروں کو دیےجاتے ہیں۔

تاہم، دیسائی کا کہنا ہے کہ کچھ طالبعلم’مسلم برادری کے عدم روادار’ ہونے اور ‘ان کے ذریعے ہندو تہواروں میں خلل ڈالنے’ کے الزامات کو دہراتے رہے۔ اس دوران کچھ طالبعلموں نے مبینہ طور پر کلاس میں دیسائی کی تقریر کا ویڈیو بھی ریکارڈ کر لیا۔

ایک ہفتے کے اندر،16 جون تک یہ ویڈیو سوشل میڈیا پر نشر ہو رہا تھا، جس میں دیسائی کو مبینہ طور پر یہ کہتے ہوئے دکھایا گیا تھا کہ ‘اورنگ زیب بھلا تھا اور پاٹل دیشمکھ ریپسٹ تھے’۔ اس ویڈیو کو فیس بک اور ٹوئٹر پر ہزاروں بار شیئر کیا گیا اور دیکھا گیا۔

دیسائی کا کہنا ہے کہ انہوں نے ایسا نہیں کہا اور ویڈیو کو ایڈٹ کر کے معاملے کو بڑھا چڑھا کر پیش کیا جا رہا ہے۔ انہوں نے بتایا کہ وہ وہاٹس ایپ کے علاوہ کوئی دوسرا سوشل میڈیا پلیٹ فارم استعمال نہیں کرتی ہیں، اس لیے انہیں اس ویڈیو کے بارے میں 16 جون کو اس وقت پتہ چلا، جب مقامی گوکل شرگاؤں پولیس اسٹیشن کا ایک پولیس اہلکار کالج پہنچا اور انہیں پرنسپل کے دفتر میں بلایا گیا۔

جب نیوز لانڈری نے پولیس اسٹیشن سے رابطہ کیا تو ایک ملازم نے بتایا کہ انہیں  ٹوئٹر سے ویڈیو کے بارے میں معلوم ہوا اور وہ اس بارے میں پوچھ گچھ  کے لیے کالج گئے تھے۔

دیسائی کے مطابق، کالج انتظامیہ نے ان کی حمایت تو کی لیکن انہیں معافی نامہ جاری کرنے کو  کہا۔ ‘انہیں فکر تھی  کہ مجھ پر یا میرے گھر پر حملہ ہو سکتا ہے۔ لیکن میں نے کچھ غلط نہیں کہا ہے۔ سب جانتے ہیں کہ مجرم کسی بھی مذہب یا ذات کا ہو سکتا ہے۔

دیسائی نے اپنے انسٹی ٹیوٹ کے ڈائریکٹر موہن ونروتی کو بتایا کہ وہ معافی نہیں مانگیں گی، جس کے بعد انہیں تادیبی کارروائی کے نام پر زبردستی 14 دن کی چھٹی پر بھیج دیا گیا۔ دیسائی کہتی ہیں،کالج کے لوگ میرے ساتھ تھے اور ان کا میرے خلاف  کارروائی کرنے کا کوئی ارادہ نہیں تھا، لیکن آپ سمجھ سکتے ہیں کہ ان پر کتنادباؤ  رہا ہو گا۔

دیسائی نے کولہاپور کے ایس پی سے اپنے خلاف نفرت انگیز مہم اور ان کے ویڈیو کی ایڈیٹنگ کے سلسلے میں شکایت درج کرائی ہے۔

دوسری جانب موہن ونروتی نے نیوز لانڈری کو بتایا کہ کالج نے واقعے کی تحقیقات کے لیے ایک کمیٹی تشکیل دی ہے۔ اس کے ساتھ وہ یہ بھی معلوم کر رہے ہیں کہ یہ ویڈیو کن طالبعلموں نے بنائی ہے۔ انہوں نے کہا، ‘جو بھی قصوروار ہوگا اسے سزا ملے گی۔ لیکن جب تک ہماری تحقیقات مکمل نہیں ہوتی، دیسائی چھٹی پر رہیں گی۔