فکر و نظر

دو ماہ سے جاری تشدد کے باوجود وزیر اعظم منی پور کا ’م‘ بھی بولنے کی ہمت نہیں کر پا رہے ہیں

تمام سروے بتاتے ہیں کہ نریندر مودی ملک کے سب سے مقبول رہنما ہیں۔ ایسے میں سوال  پیدا ہوتا ہے کہ ‘انتہائی’ مقبول مودی فرقہ وارانہ فسادات، احتجاجی مظاہرے یا نسلی تشدد کے دوران  کوئی اپیل جاری کیوں نہیں کرتے؟ مہاتما گاندھی کے گجرات سے آنے والے مودی منی پور کی مختلف برادریوں کے درمیان جا کر امن کی اپیل کیوں نہیں کرتے؟ دراصل ان کی مقبولیت محض انتخابی ہے۔

نریندر مودی۔ (فوٹوبہ شکریہ: پی آئی بی)

نریندر مودی۔ (فوٹوبہ شکریہ: پی آئی بی)

گزشتہ دو ماہ سے منی پور میں اکثریتی میتیئی اور قبائلی کُکی برادری کے درمیان نسلی تنازعہ جاری  ہے، لیکن مودی حکومت نے وہاں اب تک کوئی ٹھوس قدم نہیں اٹھایا ہے۔ منی پور کے لوگ خوف و دہشت  کے سایے میں جی رہے ہیں۔ بے گھر افراد کیمپوں میں رہ رہے ہیں۔

وزیر اعظم نریندر مودی نے اب تک نہ تو منی پور کے لوگوں کے بیچ  جانے کی ضرورت محسوس کی ہے اور نہ ہی انہوں نے امن اور اعتماد بحال کرنے کی اپیل کی ہے۔

انہوں نے امریکی دورے پر روانہ ہونے سے پہلے ریڈیو پر ’من کی بات‘ میں بھی منی پور کو کوئی پیغام نہیں دیا۔ تاہم، 25 جون 1975 کو لگائی گئی ایمرجنسی کا ذکر کرتے ہوئے وہ کانگریس کو ضرور کوستے رہے۔

دوسری جانب قائد حزب اختلاف راہل گاندھی دو دن تک منی پور کے لوگوں کے درمیان رہے۔ بی جے پی کے سبھی لیڈر راہل گاندھی پر ہی سوال اٹھا رہے ہیں۔ راہل کے قافلے کو منی پور پولیس کی جانب سے روکا گیا۔ اس کے باوجود راہل گاندھی متاثرین سے ملنے کیمپوں میں پہنچے۔ راہل گاندھی نے ‘منی پور کے لوگوں کو محبت کا پیغام دیا۔ کیا راہل گاندھی منی پور میں سیاست کر رہے ہیں؟

اصل سوال یہ ہے کہ خود ساختہ قوم پرست بھارتیہ جنتا پارٹی کا شمال–مشرق کے کے ساتھ کیا رویہ ہے۔ 7 ریاستوں پرمشتمل شمال–مشرق میں بی جے پی کا سیاسی اثر بڑے پیمانے پر  ہے۔ آسام، تریپورہ، منی پور اور اروناچل پردیش میں بی جے پی کی حکومتیں ہیں، جبکہ ناگالینڈ، میزورم اور میگھالیہ میں وہ مخلوط حکومت میں شامل ہے۔

اس کے علاوہ شمال–مشرق میں لوک سبھا کی25 میں سے 14 سیٹوں پر بی جے پی کا قبضہ ہے، لیکن کیا الیکشن جیتنا اور قوم پرستی کافحش پروپیگنڈہ کرنا ہی  حب الوطنی ہے؟ ملک کو جاننا، اس کی فکر کرنا اور اس کی بہتری کے لیے کوشش کرنا ہی اصل قوم پرستی ہے۔ کھوکھلے نعروں اور علامتوں سے ملک ترقی نہیں کرتا۔ درحقیقت ملک کے عوام کی خوشحالی، ہم آہنگی اور ترقی سے ملک کی تعمیرہوتی ہے۔

نیشنلسٹ پارٹی کے حکمراں گزشتہ دو ماہ سے منی پور میں جاری تشدد اور کشیدگی سے بے خبرہیں! وزیر اعظم منی پور کا ‘م’ بھی بولنے کی ہمت نہیں کر پا رہے ہیں، لیکن دوسری طرف انتخابی جلسوں اور پروگراموں میں اپنی تشہیر کے لیے بیہودہ مکالمے بولنے سے ان کا حلق بالکل خشک نہیں ہوتا۔ تاہم، جذباتی مسائل کو اچھالتے ہوئےڈرامائی انداز میں ان کا گلا رندھتا ضرور ہے!

پچھلی ایک دہائی کے تمام سروے بتاتے ہیں کہ نریندر مودی ہندوستان کے  سب سے مقبول رہنما ہیں۔ پچھلے چھ مہینے کو چھوڑ دیں تو  کوئی دوسرا لیڈر مودی کے آس پاس نظر نہیں آتا تھا۔

ایسے میں سوال اٹھتا ہے کہ ‘انتہائی’ مقبول نریندر مودی فرقہ وارانہ فسادات، احتجاجی مظاہرہ یا نسلی تشدد کے دوران کوئی اپیل جاری کیوں نہیں کرتے؟ عوام میں مقبول لیڈر کی ایک خوبی یہ ہوتی ہے کہ اس کی اپیل کا اثر نظر آئے!

آخر کار کورونا کے دور میں مودی لوگوں  سے تالی، تھالی اور گال بجوانے میں کامیاب ہوئے تھے! کیا مودی منی پور کے لوگوں سے اپیل کرنے سے ڈر رہے ہیں؟ یا مودی کی مقبولیت کا پیمانہ کچھ اور ہی  ہے؟

مہاتما گاندھی کے گجرات سے آنے والے نریندر مودی منی پور کی مختلف برادریوں کے درمیان جاکر  ہم آہنگی اور امن کی اپیل کیوں نہیں کرتے؟ دراصل مودی کی مقبولیت محض انتخابی ہے۔

کورونا کے وقت خوفزدہ اور بے بس عوام نے مودی کی اپیل پر عمل کیا تھا، لیکن مودی نے کبھی احتجاج کرنے والے کسانوں یا لاک ڈاؤن میں چلنے والے مزدوروں یا دہلی میں فسادات سے متاثرہ لوگوں یا نوٹ بندی کے وقت قطار میں کھڑے لوگوں سے کوئی اپیل نہیں کی۔

نریندر مودی یا تو بے حس ہیں یا وہ جانتے ہیں کہ لوگ ان کی بات کو قبول نہیں کریں گے یا پھر ہوسکتا ہے کہ  وہ تشدد اور تقسیم کو اپنی سیاست کے لیے مفید سمجھتے ہوں۔

قابل ذکر ہے کہ 27 مارچ 2023 کو منی پور ہائی کورٹ کے ایک فیصلے کے بعد مئی کے اوائل میں میتیئی اور کُکی برادریوں کے درمیان تشدد پھوٹ پڑا تھا۔ سمیانتر میگزین کے جون 2023 کے شمارے میں شائع ہونے والی دنکر کمار کی رپورٹ کے مطابق 15 مئی تک منی پور میں 1700 گھر جلا دیے  گئے تھے۔ 221 گرجا گھروں اور کئی گاڑیوں کو بھی آگ لگا دی گئی۔ اس کے علاوہ خواتین اور بچوں سمیت 72 افراد جاں بحق ہوئے۔

ہزاروں لوگ تکلیف دہ تجربے سے دوچار ہیں اور سینکڑوں ریلیف کیمپوں میں رہ رہے ہیں، جبکہ 35000 سے زیادہ لوگ داخلی  طور پر بے گھر ہیں۔

غور طلب ہے کہ 25 مئی کو پھرسے دنگے ہوئے۔ وزیر داخلہ امت شاہ اس دن گوہاٹی میں تھے، لیکن وہ منی پور نہیں گئے۔ دہلی واپس آنے کے بعد وہ  نئے پارلیامنٹ ہاؤس کے افتتاح کا بائیکاٹ کر رہی اپوزیشن کو کوستے رہے۔ کچھ دنوں بعد اس سے بڑا المیہ یہ ہوا کہ ادھرمنی پور جل رہا تھا، ادھر دہلی میں نئی پارلیامنٹ کے افتتاح میں کرم کانڈ( رسومات) کا لائیو ٹیلی کاسٹ میڈیا میں چل رہا تھا۔

اس تقریب کے بعد امت شاہ 29 مئی کو منی پور پہنچتے ہیں۔

آسام، ناگالینڈ، میزورم اور میانمار سے گھرے 28 لاکھ کی آبادی والے منی پور میں اکثریتی میتیئی برادری زرخیز وادی میں رہتی ہے، جبکہ 34 تسلیم شدہ قبائل پہاڑوں میں رہتے ہیں۔ 53 فیصدوالی میتیئی کمیونٹی کے پاس 60 رکنی منی پور اسمبلی میں 40سیٹیں  ہیں، لیکن آرٹیکل 371اےکے ذریعے محفوظ قبائل انتظامیہ میں مضبوط ہیں۔

سمیانتر کی رپورٹ کے مطابق، میتیئی سیاسی طاقت رکھتے ہیں اور کچھ کُکی بیوروکریسی میں اقتدار کے ادارہ جاتی عہدوں پر فائز ہیں اور اقتدار کے گلیاروں میں موجود ہیں۔ کچھ میتیئی حکمران سیاسی طبقے کی تعلیمی اہلیت کم ہے اور اسی وجہ سے بیوروکریسی، جس پر زیادہ تر کُکی کا قبضہ ہے، کا پلڑا  بھاری ہے۔ اس لیے میتیئی حکمران سیاسی طبقے اور کُکی بیوروکریسی کے درمیان کشیدگی۔

منی پور ہائی کورٹ کی جانب سے میتیئی کمیونٹی کو قبائلی کا درجہ دیے جانے سے متعلق کارروائی کے حکم کے بعد دونوں گروپوں کے درمیان تشدد کے کئی واقعات ہو چکے ہیں۔ مشتعل افراد کی جانب سے فوج اور پولیس کا اسلحہ چھیننے کے واقعات بھی سامنے آئے ہیں۔ اس کے باوجود نریندر مودی فکرمند نظر نہیں آتے۔

انہوں نے منی پور کے لوگوں میں امن اور اعتماد بحال کرنے کے لیے اب تک کوئی خاص پہل نہیں کی ہے۔ منی پور کے وزیر اعلیٰ نے ڈرامائی انداز میں استعفیٰ دینے سے انکار کر دیا۔ ایسے میں جب راہل گاندھی امدادی کیمپوں میں متاثرین کے درمیان پہنچ رہے ہیں تو بی جے پی خاندان ان پر سیاست کرنے کا الزام لگا رہا ہے، لیکن راہل گاندھی لوگوں کے درمیان اپنا پیغام دینے میں ضرور کامیاب ہوئے ہیں۔

ظاہر ہے کہ اس اقدام کا منی پور میں مثبت اثر پڑے گا۔ اگر یہ سیاست ہے تو اس ملک کو ایسی سیاست کی ضرورت ہے۔ راہل گاندھی آج ایم پی بھی نہیں ہیں۔ اس کے باوجود وہ شورش زدہ منی پور کے تشدد سے متاثرہ لوگوں تک پہنچے  ہیں۔ اس کی وجہ سے راہل گاندھی کی شبیہ ایک مقبول اور حساس لیڈر کی بنتی جارہی ہے۔

(روی کانت لکھنؤ یونیورسٹی میں ہندی پڑھاتے ہیں۔)