خبریں

وشو ہندو پریشد کے احتجاج کے بعد گجرات کے دو اسکولوں نے بقرعید منانے کے لیے معافی مانگی

پہلا معاملہ شمالی گجرات کے مہسانہ ضلع کے ایک پری اسکول کا ہے۔ احتجاج کے بعد اسکول کی ڈائریکٹر نے تحریری  طور پرمعافی مانگی ہے۔ وہیں،  ضلع کچھ کے بھج کے ایک اسکول میں بقرعید کے حوالے سے ڈرامہ پیش کیا گیا تھا، جس کی بھگوا تنظیموں، والدین اور رہنماؤں نے مخالفت کی تھی۔

(علامتی تصویر بہ شکریہ: فلکر/ایڈم کوہن (CC BY-NC-ND 2.0)

(علامتی تصویر بہ شکریہ: فلکر/ایڈم کوہن (CC BY-NC-ND 2.0)

نئی دہلی: وشو ہندو پریشد (وی ایچ پی) کی جانب سے ‘ہندوؤں کے جذبات کو ٹھیس پہنچانے’ کا الزام لگانے کے بعد گجرات کے دو اسکولوں نے اپنے کیمپس میں عید قرباں  منانے کے لیے معافی  مانگی ہے۔

اس بارے میں آئی خبروں میں کہا گیا ہے کہ ایک معاملے میں مقامی حکام نے جانچ شروع کر دی  ہے، جبکہ دوسرے معاملے میں ایک ویڈیو میں تعلیمی ڈرامے کے لیےطالبعلموں کو ٹوپیاں پہنے ہوئے دکھائے جانے کے بعد اسکول کی پرنسپل کو سسپنڈ کر دیا گیا ہے۔

شمالی گجرات کے مہسانہ ضلع کے ایک پری اسکول نے والدین اور وی ایچ پی کے زبردست احتجاج کے بعد تحریری طور پر معافی مانگی ہے۔

مقامی پولیس نے کہا کہ انتظامیہ اور والدین کے درمیان معاملہ حل ہو گیا ہے، تاہم، اسکول کے ڈائریکٹر نے اعتراف کیا کہ اس واقعہ  سے نادانستہ طور پر ‘ہندو برادری کے جذبات مجروح ہوئے’ اور مسلمانوں کا تہوار منانے کے لیے معافی مانگی۔

پری اسکول ‘کڈس کنگڈم: اے گریٹ پلیس ٹو گرو’ کی ڈائریکٹر راشی گوتم نے کہا ہے کہ ‘ہم نے اسکول میں بقرعید کی تقریبات کا اہتمام کیا تھا، جس سے ہندو سماج کے جذبات مجروح ہوئے۔ ہمارا مقصد کسی مذہب کے جذبات کو ٹھیس پہنچانا نہیں تھا۔ ہم بھی ہندو ہیں اور ہر ہندو دیوی دیوتا کو مانتے ہیں۔ ایک  ہندو کے طور پر اسے ہماری پہلی اور آخری غلطی سمجھیں اور ہمیں معاف کر دیں۔

انہوں نے مزید کہا، ’ہم تمام ہندو تنظیموں، ہندو سماج اور ان تمام لوگوں سے معذرت خواہ ہیں جو ہندو مذہب کی بہتری کے لیے کام کر رہے ہیں۔‘

نیز، اسکول کی جائیداد کے مالک نے ان سے کہا ہے کہ وہ یہ حلف دیں کہ مستقبل میں اس طرح کی تقریبات کا انعقاد نہیں کریں گے، ورنہ انہیں جائیداد خالی کرنی ہوگی۔

دکن ہیرالڈ نے رپورٹ کیا کہ وی ایچ پی کے کارکنوں نے احاطے میں سرسوتی پوجا کی اور رام بھجن گائے۔ انہوں نے ڈائریکٹر کو بتایا کہ اسکول ایک ‘درگاہ’ جیسا لگتا  ہے اورمین گیٹ کے قریب بھگوا جھنڈے لگائے گئے ہیں۔

ایک اور واقعے میں،ضلع کچھ کے بھج میں ڈسٹرکٹ ایجوکیشن آفیسر نے مُندرا کے پرل اسکول کی تحقیقات شروع کی ہے، جہاں طالبعلموں نے بقرعید کے موقع پر ہوئے ایک ڈرامے کے لیے مبینہ طور پرنماز ادا کی تھی۔

انڈین ایکسپریس کی رپورٹ کے مطابق، بقرعید پر ایک ڈرامے کو اسٹیج  کرنے کے دوران (مسلمانوں کی ٹوپی ) ٹوپیاں پہنے طالبعلموں کے ویڈیو سوشل میڈیا پر سامنے آنے کے بعد بھگوا تنظیموں، والدین اور مقامی رہنماؤں نے اس قدم پر احتجاج کیا۔

اس واقعے کے بعد نجی اسکول کے پرنسپل کو سسپنڈ کر دیا گیا۔

رپورٹ کے مطابق، کچھ طالبعلموں کو ٹوپیاں پہنے دیکھا جا سکتا ہے، جبکہ دیگر نے اپنے سر رومال سے ڈھانپے ہوئے ہیں۔ ویڈیو میں انہیں نماز پڑھتے اور ایک دوسرے کومبارکباددیتے ہوئے دکھایا گیا، جبکہ ان میں سے ایک نے تہوار کے بارے میں بات کی تھی۔

یہ پوچھے جانے پر کہ کیا اسکول نے اس سلسلے میں کسی خاص اصول کی خلاف ورزی کی ہے، ڈسٹرکٹ پرائمری ایجوکیشن آفیسر نے کہا، ‘اسکول میں مسلمان اور ہندو دونوں طلبا ہیں، لیکن اگر اسکول ہندو طالبعلموں  سے مسلمانوں کی کی ٹوپیاں پہننے کو کہتا ہے تو یہ ایک مذموم حرکت ہے۔

تاہم، اہلکار نے کہا کہ ان کے دفتر کو جمعہ 30 جون کی شام تک اسکول کے طلبا یا ان کے والدین سے اس سلسلے میں کوئی شکایت موصول نہیں ہوئی تھی۔

بقرعید مسلمانوں کے سب سے بڑے تہواروں میں سے ایک ہے۔ یہ 29 جون کو منایا گیا تھا۔

اس رپورٹ کو انگریزی میں پڑھنے کے لیےیہاں کلک کریں۔