عالمی خبریں

ویگنر کی بغاوت: حکومتوں کے لیے ایک سبق

عسکری گروپ ویگنر  کی بغاوت نے ایک بار پھر پرائیویٹ ملیشیاز کو سیاسی تنازعات یا جنگوں میں استعمال کرنے کے خطرات کو اجاگر کیا ہے۔ دراصل جو حکومتیں شورش یا عوامی تحریکوں کا مقابلہ کرنے کے لیے اس  کا استعمال کرتے ہیں، ان کو جا ن لینا چاہیے کہ وہ ایسی عفریت پیدا کر تی ہیں، جو کسی نہ کسی وقت ان کو ہی نگل سکتے ہیں۔ حکومتوں کو ویگنر کے واقعہ سے سبق لینے  کی ضرورت ہے۔

عسکری گروپ ویگنر کے سربراہ یوگینی پریگوزِن، فوٹو بہ شکریہ یوٹیوب اسکرین گریب

عسکری گروپ ویگنر کے سربراہ یوگینی پریگوزِن، فوٹو بہ شکریہ یوٹیوب اسکرین گریب

 روسی حکومت کے خلاف کرایے کےعسکری گروپ ویگنر کے سربراہ یوگینی پریگوزِن کی بغاوت نے ایک بار پھر پرائیویٹ ملیشیاز کو سیاسی تنازعات یا جنگوں میں استعمال کرنے کے خطرات کو اجاگر کیا ہے۔ کچھ عرصہ سے دنیا بھر  کی حکومتیں، جنگ زدہ علاقوں میں اسپیشل آپریشنز کے لیے اپنی افواج یا سرکاری سیکورٹی فورسز کو استعمال کرنے کے بجائے کرایے کے پرائیویٹ فوجیوں کو استعمال کرتی ہیں۔

مغربی حکومتوں کے لیے ایک مسئلہ ہوتا ہے کہ جنگیں ختم ہونے کے بعد یا اسی کے دوران حقوق انسانی کے چند سرپھرے کارکنان تفتیش کرنے کے لیے نکلتے ہیں اور پھر فوجیوں یا افسران کو عدالتوں میں گھسیٹتے ہیں۔

پھر چاہے ان کو سزا ہو یا نہ ہو، مگر چند سالوں تک عدالتوں کی جھڑکیا ں سننے اور میڈیا میں تشہیر سے جو بدنامی ہوتی ہے، اس کی وجہ سے قتل و غارت کرنے اور جنگ زدہ علاقوں میں مخالف پارٹی کے گڑھ میں خوف و دہشت پھیلانے کے کے لیے حکومتیں کرایے کے فوجی گروپس کا استعمال کرتی ہیں۔ چونکہ یہ سرکاری افواج نہیں ہوتی ہیں، اس لیے کسی بھی احتساب یا قانون  سے مبرا ہوتی ہیں۔

جہا ں روس نے ویگنر گروپ، وہیں امریکہ نے بلیک واٹر کی سرپرستی کی ہے۔ لاطینی امریکہ کے کولمبیا اور نکاراگوا سے لے کر یورپ میں بلقان اور یوکرین تک، مشرق وسطیٰ میں عراق اور شام، اور ایشیاء میں افغانستان، ہندوستان اور فلپائن تک اخلاقیات کا جنازہ نکال کر نجی افواج کا اندرونی اور بین ریاستی تنازعات میں کھل کر استعمال کیا گیا ہے۔

شمالی آئرلینڈ میں کوئنز یونیورسٹی کے ایک محقق ڈیل پنکھرسٹ کے مطابق، 1981 سے 2007 کے درمیان دنیا بھر میں کم و بیش 336 جنگجو گروپ سرگرم تھے، جن کو مختلف حکومتوں کی سرپرستی حاصل تھی۔ دفاع کی پہلی لائن کے طور پر استعمال ہونے والی یہ پرائیویٹ ملیشیا ئیں نہ صرف سکیورٹی فورسز پر دباؤ کو کم کرنے کا کام کرتی ہیں، بلکہ انہیں انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں سے بچنے کا ایک کور بھی فراہم کرتی ہیں۔

 ویگنر گروپ  کے بارے میں بتایا جاتا ہے کہ اس نے روس کی مختلف جیلوں میں بند قیدیوں کو بھرتی کیا ہے۔ ایک اندازے کے مطابق یوکرین پر روسی حملہ سے قبل اس نے بھرتی کی جو مہم چلائی تھی، اس میں جیلوں سے ایسے 20ہزار قیدی لیے گئے تھے، جو قتل، ڈکیتی جیسے بھیانک جرائم میں ملوث تھے، اور جن کو عدالتوں نے لمبی سزائیں دی تھیں۔

  دسمبر میں رائٹرز نے اطلاع دی تھی کہ ویگنر کے عسکریوں میں بھرتی شدہ قیدیوں کی تعداد 40ہزار کے قریب ہے۔ ویگنر نے ان مجرموں کو پیشکش کی تھی کہ اگر وہ جنگ میں چھ ماہ کی سروس دیتے ہیں، تو ان کی بقیہ سزا معاف کی جائے گی۔ مگر چند ماہ قبل روسی  وزارت دفاع کے ساتھ چپقلش کے آغازکے بعد ویگنر کے افسران کے لیے جیلوں تک رسائی بند کر دی گئی تھی۔

اس کے بعد انہوں نے کالجوں کو نشانہ بنا کر بھاری رقوم کا وعدہ کرکے روسی نوجوانوں کو بھرتی کرنے کا کام شروع کیا تھا۔بدقسمتی سے ان میں بیشتر کا تعلق روس کے مسلم اکثریتی علاقوں داغستان، تاتارستان، چیچنیا، بشخورستان وغیرہ سے تھا۔ اس سے قبل بھی ویگنر کی بیشتر بھرتیاں ان ہی علاقوں سے ہوتی تھیں۔ چونکہ اسی طرح کی کئی ملیشیا یوکرین نے بھی قائم کی ہیں اور انہوں نے بھی اپنے علاقے میں رہنے والی مشکاتین ترک  اور دیگر مسلم اقلتوں پر مشتمل ایک ملیشیا بنائی ہوئی ہے۔

خود  یوکرین کے مفتی اعظم مفتی اسما حلاووف بھی ہتھیار اٹھا کر میدا ن میں آکر ٹریننگ دلوارہے تھے۔ میرے ایک صحافی دوست، جس نے اگلے مورچوں پر جاکر جنگ کورکی تھی کا کہنا تھا کہ دونوں طرف گولے داغتے وقت اللہ اکبر کی صدائیں آتی ہیں۔

یوکرین کی ازوف بٹالین دائیں بازو کی ایک نجی ملیشیا ہے۔ اس ملیشیا کو 2014 میں مشرقی یوکرین کے علاقے ڈونباس میں سرگرم روس نواز علیحدگی پسند باغیوں سے لڑنے کے لیے بنایا گیا تھا۔ پنکھرسٹ نے وضاحت کی کہ ازوف بٹالین کے علاوہ اور بھی بہت سی ملیشیا ہیں، جو یوکرین کی طرف سے برسرپیکار ہے۔ ازوف بٹالین کے بعد سب سے نمایاں ڈنیپرو بٹالین ہے، جس کی تشکیل یوکرائن کے ایک ارب پتی میگنیٹ ایہور کولوموسکی نے کی ہے۔

سوڈان کے تنازعہ میں روسی ملیشیا نے بھی اہم کردار ادا کیا ہے۔ امریکی حکام نے انکشاف کیا تھا کہ ویگنر گروپ نے فوج کے سربراہ عبدالفتاح البرہان کے اقتدار سنبھالنے سے قبل ہی نیم فوجی تنظیم ریپڈ سپورٹ فورسز (آر ایس ایف) کے سربراہ محمد حمدان یا ہمدتی کو زمین سے فضا میں مار کرنے والے میزائل جیسے طاقتور ہتھیارفراہم کیے تھے۔ جن کی بدولت وہ پچھلے دو ماہ سے فوج سے نبرد آزما ہیں۔

جب عمر البشیر کی حکومت کے خلاف مظاہرے شروع ہوئے تو ویگنر گروپ کو 2019 کے اوائل میں خرطوم میں حکومت مخالف ریلیوں کو دبانے کے لیے استعمال کیا گیا۔ ان کے فوجی سڑکوں پرگشت لگاتے ہوئے دیکھے گئے۔  برہان اور ہمدتی کے درمیان 15 اپریل سے شروع  ہونے والی جھڑپوں سے پہلے ایک روسی ایلیوشین 76طیارے کو کئی بار لیبیا، سوڈان اور شام کے درمیان شٹل کرتے ہوئے دیکھا گیا۔

ویگنر کی لیبیا میں خادم اور جوفرا اور شام میں لطاکیہ کے ساتھ ساتھ لیبیا، موزمبیق، وسطی افریقی جمہوریہ اور مالی میں موجودگی ہے۔ وسطی افریقی جمہوریہ (سی اے آر) اور مالی میں ان کے گولہ بارود اور اسلحہ کے وسیع ڈپو ہیں۔نیو یارک  ٹائمز کی تحقیقاتی رپورٹ کے مطابق2022 میں ویگنر نے مالی کے ایک قصبے مورا میں 500 شہریوں کو قتل کرکے انہیں اجتماعی قبروں میں دفن کردیا تھا۔

امریکی نجی فوجی تنظیم بلیک واٹر کا ریکارڈ بھی کچھ کم نہیں ہے۔ 2007 میں، بلیک واٹر کمپنی نے بغداد کے نسور اسکوائر میں بچوں سمیت 14 شہریوں کا قتل عام کرکے کئی درجن افراد کو شدید زخمی کر دیا تھا۔ ان کی اپنی پرائیوٹ جیلیں بھی قیدیوں کو ٹارچر کرنے کے لیے مشہور ہیں۔ اس سیکورٹی گروپ کے خلاف کئی انسانی حقوق کی تنظیموں نے عدالتوں کے دورازہ کھٹکھٹائے تھے۔ مگر 2020میں امریکی صدر ڈونالڈ ٹرمپ نے اپنے خصوصی اختیارات کا استعمال کرتے ہوئے ا ن کو معاف کردیا۔

اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل میں جمع کرائی گئی ایک خفیہ رپورٹ کے مطابق لیبیا پر اقوام متحدہ کی اسلحے کی پابندی کے باوجود بلیک واٹر کے بانی ایرک پرنس نے وہاں برسرپیکار گروپوں کو اسلحہ فراہم کیا تھا۔ رپورٹ میں یہ بھی انکشاف کیا گیا ہے کہ اعتراض کرنے پر اس سکیورٹی فرم نے 2019 میں دو بار اقوام متحدہ کی تسلیم شدہ حکومت کا تختہ الٹنے کی کوشش کی تھی۔ اس نے طرابلس میں حکومت کے خلاف سرگرم جنگجو خلیفہ حفتر کی حمایت کے لیے کرایے کے فوجی اور ہتھیار بھیج کر لیبیا کے تنازعہ میں آگ میں گھی ڈالنے کا کام کیا۔

جب پاکستان اور امریکہ نے  اسامہ بن لادن اور القاعدہ کے دیگر عسکریت پسندوں کو تلاش کرنے کے لیے ایک معاہدہ کیا، تو بلیک واٹر کو  مبینہ طور پر 2006 میں پاکستانی شہر کراچی میں خفیہ امریکی جوائنٹ اسپیشل آپریشنز کمانڈ (جے ایس او سی) میں تعینات کیا گیا تھا۔ امریکی ہفت روزہ دی نیشن کی ایک تحقیق سے پتا چلا ہے کہ بلیک واٹر سی آئی اے کے متوازی فوجی آپریشن کر رہا تھا۔

بلیک واٹر، جس کی بنیاد پرنس نے 1997 میں رکھی تھی، کو امریکی محکمہ خارجہ نے عراق جنگ کے دوران خوب استعمال کیا۔ بعد میں انہوں نے افغانستان اور پاکستان میں بھی امریکی آپریشنز میں حصہ لیا۔

ہندوستان نے 1980 کی دہائی کے آخر میں ریاست پنجاب میں سکھ عسکریت پسندی کو دبانے کے لیے نجی ملیشیا کے استعمال کا تجربہ کیا تھا، لیکن پھر بعد میں جموں و کشمیر میں اس کا خوب استعمال کیا۔  2015 میں اس وقت کے وزیر دفاع منوہر پاریکر نے کہا تھا کہ،’دہشت گردوں کو صرف دہشت گرد ہی بے اثر کر سکتے ہیں۔’ 1994میں کشمیر میں سب سے بڑی خبر ایک عسکری گروپ اخوان المسلین کا قیام تھا، جس کی قیادت ایک لوک گلوکار محمد یوسف پرے المعروف کوکہ پرے کر رہے تھے۔

اس گروپ نے وہ کر کے دکھایا، جو ہندوستانی سیکورٹی کے اہلکار عسکریت شروع ہونے کے بعد پچھلے پانچ سالوں سے نہیں کر پا رہے تھے۔ طریقہ کار ہوتا تھا کہ فوج یا نیم فوجی دستے کسی گاؤں کو گھیرے میں لے کر راہداریاں بند کر دیتے تھے۔ وہ خود گاؤں یا بستی میں داخل نہیں ہوتے تھے۔ بستی کے اندر اخوا ن کے بندوق برداروں کو گھروں کو لوٹنے، مارنے اور نشانہ بنانے کی کھلی چھوٹ ہوتی تھی۔ ان کا نشانہ زیادہ تر جماعت اسلامی سے وابستہ یا ہمدردی رکھنے والے خاندان یا عسکریت پسندوں کے قریبی یا دور کے رشتہ دار ہوتے تھے۔

خواتین کی ایسی بے حرمتی ہوتی تھی کہ ان کو بیان کرنے سے قلم کی سیاہی ہی خشک ہوجاتی ہے۔ ان کا کام ہی سوسائٹی میں ایسی دہشت پھیلانا تھاکہ عوام آزادی پسند تنظیموں یا عسکری تنظیموں کی حمایت کرنے سے گریز کریں۔ پرے کے ایک ساتھی رشید بلہ نے 1996 میں شمالی کشمیر کے گاؤں سدریکوٹ میں دو پورے خاندانوں کا صفایا کر دیا تھا۔

ان کا جرم یہ تھا کہ انہوں نے ریاستی اسمبلی کے انتخابات میں پرے کے مقابلے فاروق عبداللہ کی نیشنل کانفرنس کو ووٹ دیے تھے۔ فاروق وزیر اعلیٰ کے عہدے پر چھ سال تک فائر رہے، مگر ان سرکاری بندوق برداروں کے خلاف کوئی کارروائی نہیں کرسکے۔

اس گروہ کے ایک اور کمانڈرسیٹھا گجرو عرف محمد امین وانی کے خلاف پولیس نے قتل کے 90 مقدمات درج کیے۔2001 میں مقامی ہفتہ وار چٹان کو انٹرویو دیتے ہوئے اس نے 300 افراد کو قتل کرنے کا دعویٰ کیا تھا۔

مجھے یاد ہے کہ 2010میں راشٹرپتی بھون یعنی ہندوستانی صدر کے دفتر و رہائش گاہ کے اشوکا ہال میں، میں سویلین پدما ایوارڈ کی ایک فنکشن کور کرہا تھا کہ ایک نام غلام محمد میر المعروف ممہ کنہ کا پکارا گیا۔ یاد آیا کہ ان کے ساتھ میری ایک یاد گار ملاقات غالباً 1996یا 1997میں ہوئی تھی۔ میں سوپور قصبہ سے سرینگر کی طرف بس میں رواں تھا۔ پروگرام تھا کہ سرینگر میں ایک رات قیام کے بعد اگلی صبح جموں اور پھر دہلی آکر ڈیوٹی جوائن کروں گا۔

تقریباً 30 کلومیٹر کا فاصلہ طے کرنے کے بعد سویلین کپڑوں میں ملبوس کچھ بندوق بردار ایک جگہ بسوں کو قطار میں کھڑا کر کے سواریوں کو نیچے اترنے کا حکم دے رہے تھے۔ معلوم ہو ا کہ یہ ممہ کنہ کا اسکواڈ تھا، جو اخوان کا کمانڈر تھا۔ وہ خود بھی موقع پر موجود تھا۔ایسا لگ رہا تھا کہ کوئی سرچ آپریشن ہے‘مگر جب برلب سڑک ہمیں قطار میں آگے بڑھنے کا حکم دیا گیا، توایک بندوق بردار جامہ تلاشی کے نام پر سواریوں کے بٹوے اور پرس چھین کر پاس ہی دوسرے ساتھیوں کے حوالے کر رہا تھا۔

جب کسی نے ان پرسوں سے کچھ روپے واپس کرنے کی ذرا سی بھی درخواست کی، تو اس کو یہ بندوقچی بری طرح جھڑکتے تھے۔سڑک سے متصل سیب کے ایک باغ میں دور مجھے چند وردی پوش فوجی ٹہلتے ہوئے نظر آئے۔ ان جنگجوؤں سے نظریں بچاکر میں ان فوجیوں کر طرف بڑھا، نزدیک پہنچ کر معلوم ہوا، کہ ایک فوجی افسرسیب کے ایک پیڑ کے سائے میں کرسی پر براجمان چائے نوش فرما رہے تھے اور یہ سپاہی ان کی گارڈ پر متعین تھے۔مجھے افسر کی طرف بڑھتے دیکھ کر سپاہی الرٹ ہوگئے۔

میں نے ہینڈزاپ ہوکر افسر سے ملنے کی خواہش ظاہر کی اور بتایا کہ میں دہلی میں مقیم ایک صحافی ہوں اور سوپور اپنے والدین سے ملنے آیا تھا۔میرا شناختی کارڈ وغیرہ دیکھنے کے بعد افسر نے اشارہ کرکے اپنی طرف بلایا۔ میں نے درخواست  کی کہ میرے سب پیسے بٹوے میں ہیں، اور اب دہلی تک پہنچنے کے لیے زادراہ بھی نہیں ہے۔ اس لیے کچھ پیسے مجھے لوٹا دیے جائیں۔

افسر نے ایک سپاہی کو میرے ساتھ جاکر بٹوہ واپس کرنے کا حکم دیا۔ جب میں سپاہی کی معیت میں دوبارہ سڑک پر پہنچا، تو ممہ کنہ کی سربراہی میں سویلین بندوق برداروں کی خشم آلود نگاہیں میرا طواف کر رہی تھیں۔ ان میں سے ایک نے لقمہ بھی دیا،دیکھتے ہیں‘ کیسے بچ کے جاتا ہے۔سپاہی کی معیت میں مجھے ایک شیڈ کے اندر لے جایا گیا۔ جہاں ماؤنٹ ایورسٹ جتنا بلند بٹووں اور پرسوں کا ایک پہاڑ کھڑا تھا۔یہ شاید ان کا دن بھر کا مالِ غنیمت تھا۔

اس پہاڑ میں مجھے اپنا پرس ڈھونڈنے کا حکم دیا گیا، جو ظاہر ہے ناممکن تھا۔اسی دوران سپاہی نے ہی ایک بٹوے پر ہاتھ مارکر اس میں سے کچھ روپے نکال کر میری جیب میں رکھ دیے اور مجھے نو دو گیارہ ہونے کے لی کہا۔میں نے بس کی طرف دوڑ لگائی‘ مگر یہاں ایک اور کہانی میری منتظر تھی۔ میری جرأت کی تعریف کرنے کے بجائے سبھی سواریاں اور ڈرائیور مجھ پر برس پڑے کہ میں نے ان اخوانیوں کی شکایت فوجی افسر سے کیوں کی۔

اب بقول ان کے پوری بس کی سکیورٹی داؤ پر لگ گئی ہے۔ آگے ان کے ساتھی بے عزتی کا بدلہ لینے کے لیے منتظر ہوں گے۔ قصہ مختصر، سبھی سواریوں نے متفقہ فیصلہ صادر کیا کہ میں اب ان کی سلامتی کےلیے خطرہ ہوں، اس لیے مجھے اپنے ساز و سامان سمیت سری نگر کے نواح سے کافی دور بس سے اتار دیا گیا‘جہاں ایک دو گھنٹے کے انتظار کے بعد ایک ٹرک والے نے رحم کھا کر مجھے سرینگر پہنچادیا۔

ستم ظریفی تھی کی میں اسی کمانڈر ممہ کنہ کو ہندوستان کے اعلیٰ سویلین اعزاز پدم شری سے سرفراز ہوتے ہوئے دیکھ کر خون کے آنسو پی کر اس واقعہ کو یاد کر رہا تھا۔

گو کہ اب  اخوانوں کا دور ختم ہو چکا ہے، ان میں سے بیشتر کیفر کردار کو پہنچ گئے ہیں۔ مگر اب ہندوستان نے جموں و کشمیر کے پہاڑی اضلاع میں ویلج ڈیفنس کمیٹیوں (وی ڈی سی) کی شکل میں ایک اور فورس تشکیل دی ہے۔ ان میں سے زیادہ تر اضلاع، جو جموں ڈویژن کا حصہ ہیں، مخلوط آبادی والے ہیں، مگر ہتھیار صرف ہندو دیہاتیوں کو  فراہم کیے گئے ہیں۔

لوگوں کا کہنا ہے کہ ہتھیاروں سے لیس ہندو آبادی مقامی مسلمانوں میں عدم تحفظ کا احساس پیدا کرتی ہے اور بہت سے وی ڈی سی ان سے بندوق کی نوک پر رقم وصول کرتے ہیں۔ان دور دراز علاقوں میں شکایت کریں گے بھی تو کس سے کریں گے۔

اسی طرح کی وسطی ہندوستان میں حکومت نے ماؤ نواز شورش کا مقابلہ کرنے کے لیے ایک تنظیم سلوا جدوم قائم کرکے اس تجربے کو دہرایا۔  مقامی قبائلیوں پر مشتمل ملیشیا کو چھتیس گڑھ کی ریاستی حکومت نے مدد اور تربیت دی تھی۔ تنظیم نے دیہاتیوں اور قبائلیوں کو کنسنٹریشن کیمپوں میں رکھا جہاں انسانی حقوق کی انتہائی خلاف ورزیاں ہو رہی تھیں۔

اس گروپ کے خلاف ایک مقدمہ میں الزام لگایا گیا کہ اس نے 600 سے زیادہ دیہات کو جلا کر راکھ کردیا دیا اور 300000 لوگوں کو اپنے گھر بار چھوڑنے پر مجبور کردیا۔ 2011 میں سپریم کورٹ نے اس فورس پر پابندی لگا دی اور تنبیہ  کی کہ سیکورٹی فراہم کرنا حکومت کی ذمہ داری ہے اور عسکریت پسندی کے خلاف لڑائی کسی نجی گروپ کو آؤٹ سورس نہیں کی جا سکتی ہے۔

ویگنر کے سربراہ یوگینی پریگوزین کی  بغاوت بتاتی ہے کہ سیکورٹی کا نظام کتنا حساس ہوتا ہے اور اس کو واقعی آؤٹ سورس نہیں کیا جاسکتا ہے۔ ہتھیاروں سے لیس یہ سویلین دھڑے جلد ہی مجرمانہ سرگرمیوں میں ملوث ہو جاتے ہیں ۔احتساب سے مبرا، ان سے انسانی حقوق کی بدترین خلاف ورزیاں سرزد ہو جاتی ہیں۔ جس کے گواہ افریقہ کے مالی کے لیکر عراق،شام و کشمیر میں پھیلے ہوئے ہیں۔

جو حکومتیں شورش یا عوامی تحریکوں کا مقابلہ کرنے کے لیے ان ملیشیاؤں کا استعمال کرتے ہیں، ان کو جا ن لینا چاہیے کہ وہ ایسے عفریت پیدا کر تی ہیں، جو کسی نہ کسی وقت ان کو ہی نگل سکتے ہیں۔ حکومتوں کو ویگنر کے واقعہ سے واقعی سبق لینے کی ضرورت ہے۔