خبریں

آرٹیکل 370 کی منسوخی کے تقریباً چار سال بعد اس کو چیلنج دینے والی عرضیوں پر شنوائی ہوگی

اگست 2019 میں جموں و کشمیر سے آرٹیکل 370 کی بیشتر دفعات کو منسوخ کرنے اور صوبے کو دو یونین ٹریٹری میں تقسیم کرنے کے مودی حکومت کےفیصلے کے خلاف بیس سے زیادہ عرضیاں  عدالت میں زیر التوا ہیں۔ سی جے آئی ڈی وائی چندرچوڑ کی سربراہی والی پانچ ججوں کی بنچ اگلے ہفتے ان کی سماعت کرے گی۔

علامتی تصویر(فوٹو : پی ٹی آئی)

علامتی تصویر(فوٹو : پی ٹی آئی)

نئی دہلی: اگست 2019 میں جموں و کشمیر کے  خصوصی درجہ کو ختم کرنے کے مودی حکومت کے فیصلے کی قانونی حیثیت پر جاری غیریقینی صورتحال کو دور کرنے والے  ایک قدم کے طور پرسپریم کورٹ کی پانچ ججوں کی آئینی بنچ آخرکار اس کو چیلنج دینے والی 23 عرضیوں  کے ایک بیچ پر سماعت کرنے کے لیے تیار ہے۔

اس سے پہلے آخری سماعت مارچ 2020 میں ہوئی تھی۔

رپورٹ کے مطابق، عدالت نے سوموار کو کہا کہ چیف جسٹس ڈی وائی چندرچوڑ کی سربراہی والی  پانچ ججوں کی بنچ 11 جولائی کو ‘گائیڈ لائن طے کرنے’ کے لیے بیٹھک کرے گی – یعنی 5-6 اگست، 2019 کے صدارتی احکامات اور جموں و کشمیر تشکیلِ نو ایکٹ،2019 کو چیلنج کے حوالے سے سماعت کا شیڈول طے کیا جائےگا۔

عام طور پر، جب ایک آئینی بنچ تشکیل دی جاتی ہے، تو وہ پہلے اس بات کا جائزہ لینے کے بعد ہدایات جاری کرتی ہے کہ اس معاملے میں کتنا وقت لگ سکتا ہے اور کتنے وکیلوں کو سننے کی ضرورت ہے۔ ماہرین کا کہنا ہے کہ اس بات کا قوی امکان ہے کہ کیس کی اصل سماعت اگست میں کسی وقت ہو گی۔

جسٹس سنجے کشن کول، جسٹس سنجیو کھنہ، جسٹس بی آر گوئی اور جسٹس سوریہ کانت اس آئینی بنچ کا حصہ ہوں گے۔ چونکہ جسٹس کول دسمبر کے آخر میں ریٹائر ہونے والے ہیں، اس لیے بنچ کو اس سے پہلے اپنا فیصلہ سنانا ہوگا۔

قابل ذکر ہے کہ 5 اگست 2019 کو مرکزی حکومت نے پارلیامنٹ میں ایک قرارداد پیش کرکے دفعہ 370 کی زیادہ تر شقوں کو ختم کر دیا تھا۔ آرٹیکل 370 کی منسوخی کے بعد جموں و کشمیر (تشکیل نو) ایکٹ 2019 اثر میں آیا اور اس کے نتیجے میں ریاست جموں و کشمیر کو دو یونین ٹریٹری جموں و کشمیر اور لداخ میں تقسیم کر دیا گیا تھا۔ حکومت کے اس فیصلے کو چیلنج کرتے ہوئے سپریم کورٹ میں کم از کم 23 عرضیاں دائر کی گئی ہیں۔

عرضی گزاروں کا کہنا ہے کہ ہندوستانی حکومت کا یہ قدم ‘یکطرفہ’ تھا، اور س میں ‘[جموں و کشمیر کے]  لوگوں کی رضامندی’ شامل نہیں تھی۔ جب کیس کی آخری سماعت ہوئی تو عدالت عظمیٰ نے درخواست گزاروں کی اس درخواست کو مسترد کر دیا تھا کہ معاملے کو بڑی  بنچ کے پاس بھیج دیا جائے۔

سابق سی جے آئی رنجن گگوئی کے وقت سےسپریم کورٹ نے  ایک سے زیادہ مواقع پر کہاہے کہ وہ ان عرضیوں کو’جلدی ‘ لسٹ کرنے کو یقینی بنائے گی۔ تاہم آرٹیکل 370 کی منسوخی کے تقریباً چار سال بعد بھی یہ معاملہ زیر التوا ہی  ہے۔

پچھلے سال 25 اپریل اور 25 ستمبر کو اس وقت کے چیف جسٹس این وی رمنا نے اس معاملے کو ‘جلدی’ سماعت کے لیےلسٹ کرنے پر اتفاق کیا تھا، لیکن اس کا کوئی نتیجہ نہیں نکلا۔

بار اینڈ بنچ کے مطابق، اس معاملے کا ذکر اس سال فروری میں سی جے آئی  چندرچوڑ کے سامنے بھی کیا گیا تھا، جب انہوں نے کہا تھا کہ وہ اس کو لسٹ کیے جانے کے حوالے سے’فیصلہ’ کریں گے ۔

مودی حکومت کہتی رہی ہے کہ اس نے یہ قدم جموں و کشمیر کو بقیہ ہندوستان کے ساتھ ‘مکمل طور پر ضم کرنے’ کے لیے اٹھایا ہے، لیکن جموں و کشمیر ملک کا واحد خطہ ہے جس کو منتخب نمائندوں کے ذریعے نہیں بلکہ مرکزی وزارت داخلہ کو جوابدہ  انتظامیہ کے ذریعےچلایا جا رہا  ہے۔ پچھلے پانچ سال سے یہی صورتحال ہے۔ جون 2018 میں اس وقت کی اسمبلی تحلیل کر دی گئی تھی  اور گورنر راج نافذ کر دیا گیا تھا۔

علاقائی جماعتوں نے عدالت کے اس قدم کا خیر مقدم کیا

سپریم کورٹ کے اس کیس کی سماعت کے فیصلے کا پیپلز ڈیموکریٹک پارٹی (پی ڈی پی) اور نیشنل کانفرنس نے خیر مقدم کیا ہے۔

جموں و کشمیر کی سابق وزیر اعلیٰ اور پی ڈی پی سربراہ محبوبہ مفتی نے ٹوئٹ کیا،’آرٹیکل 370 کی غیر قانونی منسوخی کو چیلنج دینے والی2019 سے زیر التواعرضیوں  کی بالآخر سماعت کرنے کے معزز سپریم کورٹ کے فیصلے کا خیرمقدم ہے۔ مجھے امید ہے کہ جموں و کشمیر کے لوگوں کو انصاف ملے گا۔ آرٹیکل 370 پر سپریم کورٹ کے فیصلے میں کہا گیا ہے کہ اس دفعہ کو جموں و کشمیر کی آئین ساز اسمبلی کی سفارش پر ہی منسوخ کیا جا سکتا ہے۔

سابق وزیر اعلیٰ عمر عبداللہ نے ٹوئٹ کیا،’آخرکار بنچ بن گئی۔ اب میں حقیقی معنوں میں شنوائی  شروع ہونے کا انتظار کر رہا ہوں۔’

کانگریس کے سلمان سوز نے کہا، ‘اگر سپریم کورٹ 5 اگست 2019 کے اقدامات کا بغور جائزہ لے تو مجھے کوئی شبہ نہیں ہےکہ یہ اس نتیجے پر پہنچے گی کہ مودی حکومت آئینی دفعات کی صریح خلاف ورزی میں مصروف ہے،اس نے جموں کشمیر کے لوگوں کو  غیر قانونی طور پر کمزور کیا اور ہندوستانی جمہوریت کو نقصان پہنچایا ہے۔