امریکی صدر جو بائیڈن کا دعویٰ ہے کہ ان کی حکومت کا کلیدی اصول ‘جمہوریت کا تحفظ’ ہے۔ یہ قابل ستائش امرہے، لیکن ہندوستانی وزیر اعظم نریندر مودی کے دورے کے وقت واشنگٹن میں جو کچھ ہوا وہ اس کے بالکل برعکس تھا۔ امریکی حکمراں جس شخص کے آگے سجدہ ریز تھے، اس نے بڑے منظم طریقے سے ہندوستانی جمہوریت کو کمزور کیا ہے۔
گزشتہ ماہ، ہندوستانی وزیر اعظم نریندر مودی کے امریکہ دورے کو دنیا کی دو عظیم جمہوریتوں کی ایک ملاقات کے طور پر مشتہر کیا گیا، اور دونوں ممالک نے فخریہ اعلان کیا کہ وہ ‘دنیا کے سب سےقریبی شراکت دار’ ہیں۔ لیکن وہ کس قسم کے شراکت دار ہوں گے؟ وہ کس قسم کے شراکت دار ہو سکتے ہیں؟
امریکی صدر جو بائیڈن کا دعویٰ ہے کہ ان کی حکومت کا کلیدی اصول ‘جمہوریت کا تحفظ’ ہے۔ یہ قابل ستائش امر ہے، لیکن واشنگٹن میں جو کچھ ہوا وہ اس کے بالکل برعکس تھا۔ امریکی حکمراں جس شخص کے آگے سجدہ ریز تھے، اس نے بڑے منظم طریقے سے ہندوستانی جمہوریت کو کمزور کیا ہے۔
ہمیں دوستوں کے معاملے میں امریکہ کی پسند پر حیران ہونے کی ضرورت نہیں ہے۔ امریکی حکومتوں نے جن عجوبوں کی اپنے شراکت دار کے طور پرپرورش و پرداخت کی ہے، ان میں ایران کے شاہ، پاکستان کے جنرل محمد ضیاء الحق، افغانی مجاہدین، عراق کے صدام حسین، جنوبی ویتنام کے یکے بعد دیگرےچھٹ بھیے تانا شاہ اور چلی کے جنرل آگسٹو پنوشے شامل ہیں۔
امریکی خارجہ پالیسی کا کلیدی اصول اکثر یہ ہوتا ہے؛ جمہوریت ریاست ہائے متحدہ امریکہ کے لیے، اپنے (سیاہ فام) دوستوں کے لیے آمریت۔
یقیناً مسٹر (نریندر) مودی ان بدمعاشوں کی محفل کا حصہ نہیں ہیں۔ ہندوستان ان سے بڑا ہے۔ یہ انہیں رخصت کر ے گا۔ سوال یہ ہے کہ کب؟ اور کس قیمت پر؟
ہندوستان میں آمریت نہیں ہے، لیکن وہ اب ایک جمہوریت بھی نہیں ہے۔ مودی کی حکومت اکثریت پسندی اور ہندو بالادستی کے نشے میں ڈوب چکی، انتخابی آمریت والی حکومت ہے، جس کی گرفت دنیا کے سب سے تنوع پسند ممالک میں سے ایک پر مضبوط ہوتی جا رہی ہے۔
اس کی وجہ سے انتخابی موسم، جو کہ قریب آن پہنچاہے، ہمارا سب سے خطرناک وقت ہوا کر تا ہے۔ یہ ہلاکتوں (قتل وغارت) کا موسم ہے، یہ لنچنگ کا موسم ہے، یہ چھپی ہوئی دھمکیوں کا موسم ہے۔
امریکی حکومت جس شراکت دار کی پرورش وپرداخت کر رہی ہے، وہ دنیا کے خطرناک ترین لوگوں میں سے ایک ہے – ایک شخص کے طور پر خطرناک نہیں، بلکہ ایک ایسے انسان کے طور پر خطرناک جس نے دنیا کی سب سے زیادہ آبادی والے اس ملک کو ایک دھماکہ خیز جگہ میں تبدیل کر دیا ہے۔
وہ وزیراعظم کس طرح کی جمہوریت پر یقین رکھتا ہے، جو قریب قریب کبھی پریس کانفرنس نہیں کرتا ہے؟ مودی جب واشنگٹن میں تھے توایک پریس کانفرنس سے مخاطب ہونےکے لیے انہیں راضی کرنے میں امریکی حکومت کی تمام تر طاقت لگ گئی (اتنے قابل ہیں وہ)۔
مودی نے صرف دو سوالوں کا جواب دینا قبول کیا، ان میں بھی صرف ایک سوال ایک امریکی صحافی سے۔ وال اسٹریٹ جرنل کی وہائٹ ہاؤس رپورٹر سبرینا صدیقی ان سے یہ پوچھنے کے لیے کھڑی ہوئیں کہ ان کی حکومت اقلیتوں، بالخصوص مسلمانوں کے ساتھ امتیازی سلوک کو روکنے کے لیے کیا کر رہی ہے۔ ان کے ملک میں مسلمانوں اور عیسائیوں کے ساتھ ناروا سلوک بڑھتا جا رہا ہے۔
یہ سوال دراصل وہائٹ ہاؤس کی جانب سے پوچھا جانا چاہیے تھا۔ لیکن بائیڈن انتظامیہ نے آؤٹ سورس کرتے ہوئےیہ ذمہ داری ایک صحافی کوسونپ دی۔ ہندوستان میں ہم لوگ دم بخود انتظار میں تھے۔
مودی نے حیرت کا اظہار کیا کہ ایسا سوال پوچھا بھی کیسےجانا چاہیے۔ اس کے بعد انہوں نے خاموش کرنے کے لیے وہ حربہ اختیار کیا، جس کو وہ تیار کرکے لائےتھے۔ ‘جمہوریت ہماری روح ہے۔ جمہوریت ہماری رگوں میں دوڑتی ہے۔ ہم جمہوریت کوجیتے ہیں۔‘ انہوں نے کہا، ’کوئی امتیازی سلوک نہیں ہورہا‘۔ وغیرہ –وغیرہ۔
ہندوستان میں مین اسٹریم میڈیا اور مودی کے مداحوں کی بڑی فوج نے اس طرح مسرت کا اظہار کیا گویا انہوں نے بہت بہترین طریقے سے اس کا سامنا کیا ہو۔ جو لوگ ان کی مخالفت کرتے ہیں، وہ اپنے یقین کو بنائے رکھنے کے لیےاس ملبے سے ٹکڑے چنتے رہ گئے۔ (‘ آپ نے بائیڈن کی باڈی لینگویج پر غورکیا؟ بالکل ہی مخالف تھی۔’ایسی ہی باتیں۔) میں اس دوہرے پن کی شکر گزار تھی۔ فرض کیجیے کہ اگر مودی کو سچائی بتا دینے لائق حوصلہ ملا ہوتا۔ دوہراپن ہمیں ایک طرح کی خستہ حال پناہ گاہ فراہم کرتا ہے۔ فی الحال، ہمارے پاس بس یہی ہے۔
صدیقی پر حکمران بھارتیہ جنتا پارٹی کے رہنماؤں اور دیگر ہندو قوم پرستوں نے ٹوئٹر پر بے رحمی سے حملہ کیا، ان پر الزام لگایا کہ وہ ہندوستان مخالف ایجنڈہ رکھتی ہیں، متعصب پاکستانی-اور اسلامی نفرت کو پھیلانے والی ایک خاتون ہیں۔ اور یہ انتہائی شائستہ تبصرے تھے۔
بالآخر وہائٹ ہاؤس کو مداخلت کرنی پڑی اور اس نے صدیقی کواس طرح ہراساں کے جانے کی مذمت کرتے ہوئے اسے ‘جمہوری اصولوں کے خلاف’ قرار دیا۔ ایسا لگا جیسے وہائٹ ہاؤس نے جس چیز کو نظر انداز کرناچاہا، وہ شرمناکی کی حد تک ظاہرہو گیا تھا۔
ممکن ہے کہ صدیقی کو یہ اندازہ نہ ہو کہ انہوں نے کس چیز میں ہاتھ ڈالا دیا تھا۔ لیکن امریکی اسٹیٹ ڈپارٹمنٹ اور وہائٹ ہاؤس کے بارے میں یہی بات نہیں کہہ جا سکتی ہے۔ اس شخص کے بارے میں انہیں بخوبی پتہ رہا ہوگا، جس کے لیے وہ سرخ قالین بچھا رہے تھے۔
انہیں گجرات میں 2002 کے مسلم مخالف قتل عام میں کردار ادا کرنے کے مودی پر لگے الزامات کے بارے میں جانکاری رہی ہوگی، جس میں ایک ہزار سے زیادہ مسلمانوں کا قتل عام کیا گیا تھا۔ انہیں اس بات کا بھی علم رہا ہو گا کہ کس طرح مسلمانوں کو سرعام لنچ کیا جا رہا ہے، انہیں مودی کی کابینہ کے اس رکن کے بارے میں بھی معلوم ہو گا، جو پیٹ پیٹ کرمارنے والوں سے پھولوں کا ہار لے کرملے، انہیں مسلمانوں کو الگ تھلگ اور اکیلا کردینے کے ہر طرح کے تیز رفتار عمل کے بارے میں جانکاری ہوگی۔
انہیں اپوزیشن رہنماؤں، طلباء، انسانی حقوق کے کارکنوں، وکلاء اور صحافیوں پر جبر و استحصال کے بارے میں بھی خبر ہوگی، جن میں سے کچھ کو جیل کی لمبی سزائیں تک مل چکی ہیں؛ پولیس اور ہندو قوم پرست ہونے کے اندشیے والے لوگوں کے ذریعے یونیورسٹیوں پرحملے کی؛ تاریخ کی کتابوں کو پھر سے لکھے جانے کی؛ فلموں پر پابندی لگائے جانے کی،ایمنسٹی انٹرنیشنل انڈیا کے بندہونے کی ؛ بی بی سی کے ہندوستانی دفاتر پر چھاپوں کی؛ کارکنوں، صحافیوں اور حکومت کے ناقدین کو بیرون ملک سفر سے روکنے کے لیے پراسرار نو–فلائی لسٹ میں ڈالے جانے کی اور ہندوستانی اور غیر ملکی ماہرین تعلیم مصنفین اور مفکرین پر دباؤ کے بارے میں بھی جانکاری رہی ہو گی۔
وہ جانتے ہوں گے کہ ہندوستان اب ورلڈ پریس فریڈم انڈیکس میں 180 ممالک میں 161 ویں نمبر پر ہے، کہ ہندوستان کے بہت سے بہترین صحافیوں کو مین اسٹریم میڈیا سے نکال دیا گیا ہے، اور یہ کہ صحافیوں کوشاید جلد ہی سنسر کےایک ایسے نظام کا سامنا کرنا پڑے گا، جس میں حکومت کی طرف سے قائم کردہ ادارے کو یہ فیصلہ کرنے کا اختیار حاصل ہوگا کہ حکومت کے بارے میں میڈیا رپورٹس اور تبصرے فرضی اور گمراہ کن ہیں یا نہیں۔
وہ کشمیر کی صورت حال سے واقف ہوں گے، 2019 میں جس کا رابطہ مہینوں تک دنیا سے منقطع ہو گیا تھا-ایک جمہوریت میں انٹرنیٹ کو بند کرنے کا یہ سب سے بڑا واقعہ تھا۔ اس کشمیر کے صحافیوں کو ہراساں اور گرفتار کیا جاتا ہے، ان سے پوچھ گچھ کی جاتی ہے۔ 21ویں صدی میں، کسی کی زندگی بھی ویسی نہیں ہونی چاہیے، جیسی ان کی ہے— اپنی گردنوں پر بوٹ کے سایے میں۔
وہ 2019 میں منظورکیے گئے شہریت ترمیمی قانون سے واقف ہوں گے، جو مسلمانوں کے ساتھ کھلے طور پر امتیازی سلوک کرتا ہے؛ انہیں ان بڑی تحریکوں کی جانکاری بھی ہوگی، جو اس کے نتیجے میں چلی تھیں؛ اور یہ بھی کہ وہ تحریکیں اسی وقت ختم ہوئیں جب اس کےاگلے سال دہلی میں ہندو بھیڑ نے درجنوں مسلمانوں کو قتل کر دیا (جو اتفاق سے اس وقت ہوا جب امریکی صدر ڈونالڈ ٹرمپ سرکاری دورے پر شہر میں تھے اور جس کے بارے میں انہوں نے ایک لفظ بھی نہیں کہا)۔
ممکن ہے کہ انہیں اس بات کی جانکاری بھی ہو کہ جس وقت وہ مودی کو گلے لگا رہے تھے، اسی وقت شمالی ہندوستان کے ایک چھوٹے سے قصبے سے مسلمان اپنے گھر بار چھوڑ کر بھاگ رہے تھے، جب خبروں کے مطابق، حکمران جماعت سے وابستہ ہندو انتہا پسندوں نے مسلمانوں کے دروازے پرکراس کے نشان لگائے ور انہیں چلے جانے کو کہا تھا۔
وقت آگیا ہے کہ ہم اس احمقانہ محاورے سے نجات پالیں کہ ہمیں اقتدار کو سچائی بتانے کی ضرورت ہے۔ اس کو ہم سے کہیں زیادہ حقیقت کا علم ہے۔
باقی باتوں کے علاوہ، بائیڈن انتظامیہ کو اس بات کا علم بھی ہوگا کہ شاہانہ استقبال کا ہر لمحہ اورکھوکھلی چاپلوسی کا ایک ایک قدم مودی کے لیے 2024 کی انتخابی مہم میں منھ مانگی مراد کا کام کرے گا، جب وہ ایک تیسری مدت کے لیےانتخابی میدان میں اتر رہے ہیں۔
المیہ دیکھیے کہ مودی نے 2019 میں ٹیکساس کے ایک اسٹیڈیم میں ہندوستانی تارکین وطن کی ایک ریلی میں ٹرمپ کی موجودگی میں ان کے لیے کھلے عام پرچار کیا تھا۔ مودی نے نعرہ لگاتے ہوئے بھیڑ کو پرجوش کیا تھا،’اب کی بار ٹرمپ سرکار’!
اس کے باوجود بائیڈن نے جدید ہندوستانی سیاست کی تاریخ کی اس انتہائی تفرقہ انگیز شخصیت کے لیے کوئی کسر نہیں چھوڑی۔ کیوں؟
اس سرکاری دورے کے دوران سی این این پر نشر ہونے والے کرسٹیئن امن پور کے ساتھ ایک انٹرویو میں سابق صدر براک اوباما نے ہمیں بتایا کہ کیوں (اور دل یہ یقین کرناچاہتا ہے کہ یہ انٹرویو وہائٹ ہاؤس کی آؤٹ سورسنگ کا حصہ تھا)۔ اوباما سے پوچھا گیا کہ ایک امریکی صدر کو مودی جیسے لیڈروں کے ساتھ کیسے پیش آناچاہیے، جنہیں بڑے پیمانے پر آمراورقدامت پسند سمجھا جاتا ہے۔
‘یہ پیچیدہ ہے،’انہوں نے کہا اور ان مالیاتی، جغرافیائی سیاسی اور سیکورٹی خدشات کا حوالہ دیا جن پر ایک امریکی صدر کو غور کرنا چاہیے۔ ہندوستان میں اسے سننے والے ہم لوگوں تک جو بات پہنچی وہ واضح طور پر یہ تھی، ‘اصل مسئلہ چین ہے۔’
اوباما نے یہ بھی کہا کہ اگر اقلیت محفوظ نہیں ہےتو ممکن ہے کہ ہندوستان ‘کسی مقام پر بکھرنے لگ جائے گا’۔ہندوستان میں ٹرول ان کے پیچھے لگ گئے، لیکن یہ باتیں ہندوستان میں بہت سے لوگوں کے لیے مرہم کی طرح تھیں، جو ہندو راشٹرواد کے خلاف کھڑے ہونے کی بھاری قیمت ادا کر رہے ہیں اور اس بات سے بہت حیران تھے کہ بائیڈن مودی کا ہاتھ مضبوط کرنے میں کس قدرمستعدی سے لگے ہوئے ہیں۔
لیکن اگر امریکی صدر کو دوسرے ممالک کے ساتھ تعلقات میں اپنے قومی مفاد کے بارے میں سوچنے کی اجازت ہے ،تو دوسرے ممالک کے لیے بھی اس کی گنجائش ہونی چاہیے۔ تو ہندوستان امریکہ کے لیے کس طرح کا پارٹنر ہو سکتا ہے؟
مشرقی ایشیا میں واشنگٹن کے اعلیٰ سفارت کار نے کہا ہے کہ امریکی فوج کو امید ہے کہ ہندوستان بحیرہ جنوبی چین میں گشت کرنے میں ان کی مدد کرے گا، جہاں اس سرزمین پر چین کے دعووں کی وجہ سے ماحول گہرا ہو گیا ہے۔ اب تک ہندوستان ان کی حمایت کرتا رہا ہے، لیکن کیا یہ اس کھیل میں سچ مچ شامل ہونے کا خطرہ مول لے گا؟
روس اور چین کے ساتھ ہندوستان کے تعلقات گہرے، وسیع اور پرانے ہیں۔ ایک اندازے کے مطابق ہندوستانی فوج کا 90 فیصد سامان اور اس کی فضائیہ کا تقریباً 70 فیصد سامان روسی نژاد ہے، جس میں لڑاکا طیارے بھی شامل ہیں۔
روس پر امریکی پابندیوں کے باوجود،ہندوستان روسی خام تیل کے سب سے بڑے درآمد کنندگان میں سے ایک ہے – اس نے جون میں روس سے 2.2 ملین بیرل یومیہ خام تیل خریدا۔ اس میں سے کچھ حصے کو ریفائن کرکے یہ بیرون ملک فروخت کرتا ہے، جس کے خریداروں میں یورپ اور امریکہ بھی شامل ہیں ۔ حیرت کی بات نہیں ہے کہ مودی نے یوکرین پر روسی حملے میں ہندوستان کو نیوٹرل بنائے رکھا ہے۔
نہ ہی مودی واقعی چین کے خلاف کھڑے ہو سکتے ہیں، جو ہندوستان کی درآمدات کا سب سے بڑا ذریعہ ہے۔ ہندوستان چین کا مقابلہ نہیں کر سکتا – نہ اقتصادی طور پر اور نہ ہی فوجی معاملات میں۔
کئی سالوں سے چین نے ہمالیہ میں لداخ میں ہزاروں مربع میل زمین پر قبضہ کر رکھا ہے، جسےہندوستان اپنا خودمختار علاقہ سمجھتا ہے۔ وہاں چینی فوجیوں کے کیمپ ہیں۔ وہاں پل، سڑکیں اور دیگر انفراسٹرکچر بنایا جا رہا ہے تاکہ اسے چین سے ملایا جا سکے۔ اور مودی نے ٹک ٹاک پر پابندی لگانے کے علاوہ اب تک صرف ڈرتے ہوئے اور حقیقت سے انکار کرتے ہوئے ہی اس کا سامنا کیا ہے۔
اور چین کے ساتھ تصادم کی صورت میں امریکہ ہندوستان کے لیے کس طرح کا دوست ثابت ہو گا؟ ایسے میں جنگ کا جو ممکنہ میدان ہوگا، امریکہ اس سےکہیں دور واقع ہے۔
اگر حالات خراب ہو ئے تو امریکہ کو صرف بیوقوف نظر آنے اور اپنے آخری ہیلی کاپٹرپر اپنے اتحادیوں کو لٹکائےہوئے بھاگنے کے علاوہ شاید ہی کوئی قیمت ادا کرنی پڑے۔
امریکہ کے پرانے دوستوں کا کیا حشر ہوا ہے،یہ جاننے کے لیےہمیں صرف اپنے پڑوس میں نظر اٹھا کرافغانستان اور پاکستان کودیکھ لینے کی ضرورت ہے۔
بحیرہ جنوبی چین میں ایک قیامت سر اٹھا رہی ہے۔ لیکن ہندوستان اور اس کے دوست اور دشمن ایک ہی گتھی میں بندھے ہوئے ہیں۔ ہمیں اس بات کو لے کر بہت زیادہ محتاط رہنے کی ضرورت ہے کہ ہم اپنے قدم کہاں رکھ رہے ہیں، اور کس سمت جا رہے ہیں۔ ہر ایک کو کرنا چاہیے۔
(ارندھتی رائے کا یہ مضمون دی نیویارک ٹائمز میں شائع ہوا ہے۔ہندی میں پڑھنے کے لیے یہاں کلک کیجیے۔)
Categories: فکر و نظر