خبریں

مودی سے سوال پوچھنے والی امریکی صحافی پر آن لائن حملوں کو وہائٹ ہاؤس نے ’ناقابل قبول‘ بتایا

’وال اسٹریٹ جرنل‘اخبار کی نامہ نگارسبرینا صدیقی نے امریکہ کے دورے پر گئے وزیراعظم نریندر مودی سے ہندوستان میں اقلیتوں کے ساتھ امتیازی سلوک کے بارے میں سوال پوچھا تھا، جس کے  بعد بی جے پی اور ہندوتوا کے حامیوں نے ان کے والدین کے پاکستانی ہونے کا دعویٰ کرکے ان کو’پاکستان کی بیٹی’ بتایا تھا۔

سبرینا صدیقی۔ (فوٹو بہ شکریہ: ٹوئٹر)

سبرینا صدیقی۔ (فوٹو بہ شکریہ: ٹوئٹر)

نئی دہلی: وہائٹ ہاؤس نے سوموار (26 جون) کو کہا کہ یہ ‘ناقابل قبول’ ہے کہ ایک امریکی صحافی کو ہندوستانی وزیر اعظم نریندر مودی سے ان کے انسانی حقوق کے ریکارڈ، بالخصوص اقلیتوں کے حوالے سے سوال کرنے کے بعد پریشان  کیا گیا۔

ایک پریس بریفنگ میں این بی سی کی ایک رپورٹر نے وال اسٹریٹ جرنل کی رپورٹر سبرینا صدیقی کو آن لائن ہراساں کیے جانے کے بارے میں پوچھا۔ بتا دیں کہ سبرینا نے مودی اور ان کے میزبان امریکی صدر جو بائیڈن کی مشترکہ پریس کانفرنس میں ایک  سوال پوچھا تھا۔

رپورٹر نے اس جانب اشارہ کیا کہ صدیقی کوان کے مسلمان ہونے کی وجہ سے نشانہ بنایا گیا اور ان کوہراساں کیے جانے کی قیادت وہ سیاستداں کر رہے ہیں، جو ہندوستانی حکومت سے وابستہ ہیں۔

قومی سلامتی کے امور پر وہائٹ ہاؤس کے ترجمان جان کربی نے صحافیوں کو بتایا،’ہم اس ہراساں کیے جانے کی خبروں  سے واقف ہیں۔ یہ ناقابل قبول ہے اور ہم کسی بھی صورت میں صحافیوں کو ہراساں کرنے کی مذمت کرتے ہیں۔

انہوں نے کہا، ‘یہ بالکل ہی ناقابل قبول ہے اور یہ جمہوریت کے اصولوں کے خلاف ہے، جو گزشتہ ہفتے سرکاری  دورے کے دوران ظاہر کیے گئے تھے۔’

بعد ازاں اسی پریس کانفرنس میں وہائٹ ہاؤس کی پریس سکریٹری کیرن جین پیئر سے اس بارے میں مزید تفصیلات طلب کی گئیں کہ امریکی صدر نے مودی کے ساتھ انسانی حقوق کے حوالے سے کیا بات کی تھی۔

جین پیئر نے کہا کہ وہ ‘نجی بات چیت کے بارے میں کچھ نہیں کہیں گی’،  انہوں نے مزید کہا کہ ‘تاہم مجھے لگتا ہے کہ ہم نے اپنے نقطہ نظر کو بہت واضح کر دیا ہے۔’

آگے سوال یہ بھی تھا کہ کیا امریکی صدر نے وزیر اعظم مودی کے اس جواب کو قبول کیا کہ ہندوستان میں کوئی امتیاز نہیں ہے۔

وہائٹ ہاؤس کی پریس سکریٹری نے جواب دیا،میرے خیال میں اس کا جواب دینا وزیر اعظم کا کام ہے، اور یہ آپ سب  کا کام  ہے کہ اس پر تنقید کریں یا اس کے بارے میں لکھیں۔میں یہاں اس پر اظہار خیال  نہیں کروں گی۔ ہم یقیناً پریس کی آزادی کے لیے پر عزم  ہیں اور اسی لیے ہم نے گزشتہ جمعہ (23 جون) کو ایک پریس کانفرنس کی تھی۔

وال اسٹریٹ جرنل نے بھی ایک بیان جاری کیا ہے کہ صدیقی ایک’معزز صحافی ہیں، جو اپنی ایمانداری اور منصفانہ رپورٹنگ کے لیےمعروف ہیں۔’بیان میں کہا گیا ہے،ہمارے رپورٹر کو ہراساں کرنا ناقابل قبول ہے اور ہم اس کی شدید مذمت کرتے ہیں۔

اس سے قبل، ساؤتھ ایشین جرنلسٹس ایسوسی ایشن (ایس اے جے اے) نے بھی صدیقی کی حمایت کی تھی، جو بہت سے جنوبی ایشیائی اور خواتین صحافیوں کی طرح، صرف اپنا کام کرنے کے لیے ہراساں کیے جانے کا سامنا کر رہی ہیں۔

ایس اے جے اے کی صدر میتھلی سمپت کمار نے ٹوئٹ کیا کہ صدیقی کے سوال کی توقع ‘پی ایم مودی کی ٹیم اور خبر وں پر نظر رکھنے والے کسی بھی شخص’ کو رہی  ہوگی۔

انھوں نے پوسٹ کیا،’ ان کے ردعمل اور کیسے9 سالوں میں ہندوستانی صحافیوں کو ان سے یہ پوچھنے کا موقع نہیں ملا، ہمیں اس پراور زیادہ  بات کرنی چاہیے۔

صدیقی پر آن لائن حملے کی قیادت بھارتیہ جنتا پارٹی (بی جے پی) کے آئی ٹی سیل کے سربراہ امیت مالویہ نے کی تھی، جس میں ان کے والدین کے پاکستانی ہونے کی وجہ سے ان کا پاکستانی کنکشن نکالا گیا تھا۔

ٹوئٹر پر مالویہ نے سبرینا کے سوال کو ‘اشتعال انگیز’بتایا تھا اور کہا تھا کہ انہیں مودی کی طرف سے ‘مناسب جواب’دیا گیا، جو ان کے مطابق ‘ٹول کٹ گینگ’ کے لیے ایک ‘دھچکا’  تھا۔

‘ٹول کٹ گینگ’ حکمراں پارٹی کے آئی ٹی سیل چیف کی جانب سے نے ان لوگوں کے لیے استعمال کیا جانے والا ایک تضحیک آمیز جملہ ہے ،جنہوں نے بی جے پی اور وزیر اعظم سے مسلمانوں کے ساتھ امتیازی سلوک سمیت مختلف مسائل پر سوال کیے ہیں۔

وہائٹ ہاؤس میں گزشتہ جمعہ کی پریس کانفرنس نومبر 2015 کے بعد پہلا ایسا موقع تھا جب مودی سے کسی پریس کانفرنس میں کوئی  سوال پوچھا گیا۔

 صدیقی نے مودی سے پوچھا تھا، ہندوستان  نےطویل عرصے سے خود کو دنیا کی سب سے بڑی جمہوریت کے طور پر فخر کیا ہے، لیکن انسانی حقوق کے بہت سے گروپ ہیں جو کہتے ہیں کہ آپ کی حکومت نے مذہبی اقلیتوں کے خلاف امتیازی سلوک کیا ہے اور اپنے ناقدین کو خاموش کرانے کی کوشش کی ہے۔جب آپ یہاں وہائٹ ہاؤس کے ایسٹ روم میں کھڑے ہیں، جہاں بہت سے عالمی رہنماؤں نے جمہوریت کے تحفظ کے لیے اپنے عزم کا اظہار کیا ہے، توآپ اور آپ کی حکومت اپنے ملک میں مسلمانوں اور دیگر اقلیتوں کے حقوق کو بہتر بنانے اور ‘ اظہار رائے کی آزادی’ کو بنائے رکھنے کے لیےکیا  قدم اٹھانے والے ہیں؟’

مودی نے جواب دیا کہ وہ اس سوال سے ‘حیران’ ہیں۔

انہوں نے کہا، ‘جیسا کہ صدر بائیڈن نے بھی کہا، جمہوریت ہندوستان اور امریکہ دونوں کے ڈی این اے میں ہے۔ جمہوریت ہماری روح میں ہے اور ہم اسے جیتے ہیں اور یہ ہمارے آئین میں لکھا ہوا ہے۔ ہماری حکومت نے جمہوریت کے بنیادی اصولوں کو اپنایا اور اسی کی بنیاد پر ہمارا آئین بنا اور پورا ملک اسی پر چلتا ہے۔

مالویہ کے ٹویٹ کے بعد  بی جے پی اور ہندوتوا حامی ٹوئٹر ہینڈل صدیقی کے پیچھے پڑ گئے اور انہیں ‘پاکستانی اسلامسٹ’ قرار دیا۔ یہاں تک کہ کچھ لوگوں نے ان کے آجر  کی جانب سے انہیں مودی سے یہ سوال کرنے کی اجازت دینے میں بھی ایک سازش نظر آئی ۔

اتفاق سے، مودی کا ان کے دورے سے پہلے واحد انٹرویو وال اسٹریٹ جرنل کے ساتھ ہی  تھا۔

 بی جے پی کی حامی ویب سائٹس نے ایک قدم آگے بڑھ کر ایک رپورٹ شائع کی کہ وہ ‘پاکستانی والدین’ کی بیٹی ہیں اور ‘اسلامسٹ کے دعوے کو دہرا رہی ہیں’۔

آن لائن حملوں کا جواب دیتے ہوئے، آن لائن حملوں کے جواب میں صدیقی نے اپنے ٹوئٹر ہینڈل پر ہندوستان میں پیدا ہوئے والد کے ساتھ ہندوستانی کرکٹ ٹیم کی حمایت کر نے والی فوٹوپوسٹ کی۔

اس رپورٹ کو انگریزی میں پڑھنے کے لیے یہاں کلک کریں۔