خبریں

منی پور: بزرگ میتیئی خاتون کو ان کے ہی گھر میں زندہ جلا یا گیا، اہل خانہ نے کہا — پولیس کارروائی نہیں ہوئی

منی پور کے کاک چنگ ضلع کے سیرو اوانگ لیکائی گاؤں میں مئی کے اواخر میں ایک مجاہد آزادی  کی اسی سالہ بیوی کو ان کے گھر میں مسلح ہجوم نےزندہ جلا دیا تھا۔ اہل خانہ کا کہنا ہے کہ ایف آئی  آر  درج  ہونے کے دو ماہ گزرنے کے باوجود پولیس نے تفتیش شروع نہیں کی ہے۔

ایس ایبیٹومبی (تصویر: یاقوت علی/دی وائر)

ایس ایبیٹومبی (تصویر: یاقوت علی/دی وائر)

امپھال: منی پور کے کاک چنگ ضلع کے سیرو اوانگ لیکائی گاؤں میں کبھی 300 گھر ہوتے  تھے اور تقریباً 6000 لوگ گاؤں میں رہتے تھے۔سروکھیبم پریم کانت میتیئی کا خاندان ان میں سے ایک تھا۔ یہ گاؤں کُکی گاؤں- نازریتھ، سنگ ٹام، تھنگ کھانگ فائی، زلینگ کوٹ، فیمون اور ہنگن سے گھرا ہوا ہے۔

تاہم، گاؤں اب خالی ہے اور میتیئی برادری کے مطابق کُکی عسکریت پسندوں نے اس پر قبضہ کر لیا ہے۔

سروکھیبم کا کہنا ہے کہ ‘ امت شاہ کے امپھال کے دورے سے ایک دن پہلے میری دادی کو زندہ جلا دیا گیا تھا اور ہم صرف ان کے سر کا ہی آخری رسومات اداکر پائے۔’

سروکھیبم کی دادی ایس ایبیوٹومبی مجاہد آزادی ایس چوراچاند کی بیوی تھیں۔ بتایا گیا ہے کہ اسی  گاؤں میں کُکی انتہا پسندوں نے انہیں مبینہ طور پرزندہ جلا دیا تھا۔ دی وائر کو موصولہ  تصویروں میں صرف ایک انسانی کھوپڑی دکھائی دیتی ہے، جس کے بارے میں خاندان کا دعویٰ ہے کہ یہ ایبیٹومبی کی ہے۔

سروکھیبم کے والد ایس چورا چاند نے بتایا،’سیرو میں ہمارے دو گھر تھے اور میری ماں دوسرے گھر میں رہتی تھی۔ منی پور میں 3 مئی کو تشدد پھوٹ پڑا اور مہینے کے آخر میں امت شاہ نے دورہ کرنے کا فیصلہ کیا۔ یہ واقعہ ان کے دورے سے ایک روز قبل پیش آیا۔

واقعہ کے بعد اہل خانہ نے سُگنو تھانے میں ایف آئی آر درج کرائی۔ ایف آئی آر میں کہا گیا ہے کہ بڑی تعداد میں نامعلوم مسلح شرپسندوں پر کُکی انتہا پسند ہونے کا شبہ ہے۔ کاک چنگ تھانے کے سب انسپکٹر ایچ امت کمار سنگھ کو اس معاملے کاتفتیشی افسر بنایاگیا تھا۔

ایف آئی آر میں کہا گیا ہے، ’28/05/2023 کو رات تقریباً 02:40 بجے بڑی تعداد میں نامعلوم مسلح شرپسندوں ، جن کے کُکی انتہا پسندہونے کا شبہ ہے، نے اپنے جدید ترین ہتھیاروں سے بھاری فائرنگ کے ساتھ مختلف سمتوں سے سُگنو پولیس اسٹیشن، کاک چنگ ضلع، منی پور پر حملہ کیا۔ تھانے کے سیکورٹی اہلکار پہلے ہی الرٹ پر  تھے اور انہوں نے تھانے کی حفاظت کے لیے جوابی کارروائی کی۔

مزید بتایا گیا ہے کہ واقعے کے دوران مشتبہ مسلح کُکی دہشت گردوں نے مختلف مقامات اور چوکیوں پر تعینات سکیورٹی اہلکاروں پر حملہ کیا۔ کُکی عسکریت پسندوں اور ان کے حامیوں نے مختلف مقامات پر میتیئی لوگوں  پر بھی حملہ کیا، جس کے نتیجے میں سُگنو تھانہ حلقے میں میتیئی برادری کے متعدد مکانات اور قیمتی املاک کو نقصان پہنچا۔ نامعلوم مسلح کُکی دہشت گردوں کی اندھا دھند فائرنگ کے نتیجے میں متعدد سکیورٹی اہلکار اور گاؤں والےہلاک اور زخمی ہوئے۔

واقعہ کے بعدبڑی تعداد میں نامعلوم میتیئی نوجوانوں نے ایک ہجوم منظم کیا، جس نے کُکی برادری کے مکانات اور املاک کو نقصان پہنچایا۔ آخر کار شام 5:50 کے قریب سیکورٹی اہلکاروں نے حالات پر  قابو پایا۔ جس کے نتیجے میں نامعلوم مسلح ملزمین کے خلاف از خود نوٹس لے کرمعاملہ  درج کیا گیا۔

ایبیٹومبی کے اہل خانہ کا دعویٰ ہے کہ پولیس نے ابھی تک کوئی کارروائی نہیں کی ہے۔ ایف آئی آر 28 مئی کو شام 6 بج کر 15 منٹ پر درج کی گئی تھی اور اب تقریباً دو ماہ گزر چکے ہیں لیکن کوئی تفتیش نہیں ہوئی۔

ان کے بیٹے نے کہا، ‘انہوں نے کبھی نہیں سوچا تھا کہ دنگے اس حد تک بڑھ جائیں گے۔ ان کے گزرنے سے ایک دن قبل خاندان نے ایک ساتھ کھانا کھایا تھا۔ میری ماں کہتی تھیں کہ بات اتنی نہیں بڑھے گے کہ لوگ ایک دوسرے کو مار ڈالیں، کچھ دنوں میں چیزیں ٹھیک ہو جائیں گی۔ میں نے کبھی نہیں سوچا تھا کہ اگلے ہی دن انہیں زندہ جلا دیا جائے گا۔

ان کے اہل خانہ نے بتایا کہ 28 مئی کو جب مبینہ کُکی عسکریت پسندوں نے سیرو گاؤں میں مکانات کو جلانا شروع کیا تو ہر کوئی اپنی جان بچانے کے لیے بھاگا۔ ایبیٹومبی چھڑی کی مدد سے چل پاتی تھیں۔ اس لیے انہوں نے اپنی بہو سے کہا کہ وہ انہیں اکیلا چھوڑ دیں اور بعد میں واپس آکرانہیں ساتھ لے جائیں۔ انہیں یقین تھا کہ کُکی دہشت گرد ان کی عمر کی وجہ سے انہیں قتل نہیں کریں گے۔

جب ایبیٹومبی کے پوتے سروکھیبم کو پتہ چلا کہ وہ گھر کے اندر ہیں، تو انہوں نے واپس آکر انہیں بچانے کی کوشش کی لیکن جب تک وہ واپس آئے ، گھر جل چکا تھا۔ سروکھیبم نے بتایا کہ اس حملے میں انہیں بھی دو گولیاں لگی ہیں اور وہ امپھال کے ریمس  ہسپتال میں زیر علاج ہیں۔

سروکھیبم نے بھی گولی لگنے کی الگ ایف آئی آر درج کرائی ہے، لیکن پولیس نے ابھی تک کوئی کارروائی نہیں کی ہے۔

چوراچاند نے ریاست اور مرکزی حکومت دونوں سے اس تشدد کا حل تلاش کرنے کی اپیل کی ہے۔ انہوں نے کہا، ‘ہم اپنے گاؤں واپس جانا چاہتے ہیں اور پھر سے وہاں رہنا چاہتے ہیں۔ حکومت کو ہماری سیکورٹی کا  انتظام کرنا چاہیے۔

(انگریزی میں پڑھنے کے لیے یہاں کلک کریں۔)