خبریں

ہریانہ: حکومت کی جانب سے الاٹ کی گئی زمین پر بنائی گئی واحد مسجد پر ہجوم کے حملے میں نائب امام ہلاک

ہریانہ کے گڑگاؤں شہر کے سیکٹر 57 میں واقع انجمن جامع مسجد میں سوموار کی دیر رات بھیڑنے توڑ پھوڑ کرنے کے بعد آگ لگا دی۔ مسجد کے نائب امام پر ہجوم نےتلوار وغیرہ سے حملہ کیا، اس  حملے میں ایک دیگر شخص  بھی زخمی ہوگیا ۔ ہسپتال لے جانے کے بعد نائب امام کومردہ قرار دے دیا گیا۔

(علامتی تصویر: اسپیشل ارینجمنٹ)

(علامتی تصویر: اسپیشل ارینجمنٹ)

نئی دہلی: ہریانہ کے نوح میں سوموار کوفرقہ وارانہ تشدد کے درمیان ریاست کے گڑگاؤں شہر کے سیکٹر 57 میں واقع ایک مسجد کے نائب امام کوبھیڑ کے ذریعے قتل کیے جانے کا معاملہ سامنے آیا ہے۔ مسجد میں توڑ پھوڑ کیے جانے کے علاوہ  اس میں آگ لگانے کی بھی اطلاع ہے۔

ذرائع نے دی وائر کو بتایا کہ سوموار کی رات تقریباً 12.30 بجے ایک مسلح ہجوم نے مسجد پر حملہ کیا۔ ہجوم نے مسجد میں گھس کر فائرنگ کی اور پھراس میں آگ لگا دی۔

مسجد کے امام سوموار کی رات اپنے گاؤں گئے ہوئےتھے، لیکن ان کی غیر موجودگی میں نائب امام پر حملہ کیا گیا۔ ان پر تلوار وغیرہ سے 13 وار کیے گئے اور قتل سے پہلے ان کا گلا کاٹ دیا گیا۔ احاطے میں موجود ایک اور شخص کو بھی بری طرح مارا پیٹا گیا اور گھٹنے میں گولی مار دی گئی۔ وہ اس وقت آئی سی یو میں ہیں۔

دونوں زخمی افراد  کو ‘ڈبلیوپرتیکشا اسپتال’ لے جایا گیا تھا۔ وہاں کے ذرائع نے دی وائر کو تصدیق کی کہ ان میں سے ایک (نائب امام) کو مردہ حالت  میں  لایا گیا تھا، ان کے سینے پر زخم کے کئی نشان تھے۔

انڈین ایکسپریس کی رپورٹ کے مطابق، مسجد پر 70 سے 80 لوگوں کی  بھیڑ نے حملہ کیا تھا۔ ڈی سی پی (ایسٹ) نتیش اگروال کے مطابق، سیکٹر 57 میں واقع انجمن جامع مسجد میں سوموار کی رات آگ لگا ئی گئی۔ انہوں نے کہا کہ ہم نے کچھ ملزمین کی شناخت کر لی ہے اور جلد ہی کارروائی کی جائے گی۔

پولیس کمشنر کلا رام چندرن نے کہا، پولیس نے حملہ آوروں کی شناخت کر لی ہے اور رات بھر چھاپوں کے بعد کئی حملہ آوروں کو اٹھایا گیا ہے۔ عبادت گاہوں کے آس پاس سیکورٹی سخت کر دی گئی ہے۔ پولیس اور انتظامیہ امن و امان کو یقینی بنانے کے لیے دونوں برادریوں کے سرکردہ افراد کے ساتھ بات چیت کر رہی ہے۔

معلوم ہو کہ یہ تشدد نوح میں وی ایچ پی اور بجرنگ دل کے جلوس کے دوران تصادم کے چند گھنٹے بعد ہوا، جس میں دو ہوم گارڈ سمیت تین لوگوں کی موت ہو گئی۔ ہریانہ کے وزیر داخلہ انل وج نے کہا کہ ضلع میں منگل کو کرفیو نافذ کیا گیا۔ نوح میں حالات کشیدہ ہیں، حالانکہ کسی تازہ تشدد کی کوئی اطلاع نہیں ہے۔

نیو گڑگاؤں میں سرکارکی جانب سے الاٹ کی گئی زمین پر  بنی واحد مسجد

سیکٹر 57 میں واقع یہ مسجد گڑگاؤں حکومت کی طرف سے الاٹ کی گئی زمین پر بنائی گئی واحد مسجد ہے اور جیسا کہ دی ہندو نے 2021 میں رپورٹ کیا تھا کہ،’جنوب اور مشرقی علاقےمیں پھیلے شہر کے تقریباً نصف میونسپل حلقہ کے لوگوں اور ایک عارضی آبادی کے بڑے حصے، جو کام کے لیے ہر روز گڑگاؤں آتی جاتی ہے،ان کے لیے یہی ایک مسجدہے۔

حالاں کہ یہ علاقے کی واحد مسجد ہے، 11 اگست 2006 کو مسجد کے لیےمختص اراضی الاٹ ہونے اوراس کےتعمیراتی منصوبوں کے لیے پہلے ہی منظوری حاصل کرنے کے باوجود، حکومت کے پاس زیر التوا منصوبوں کی دوبارہ توثیق کی وجہ سےآگے کی تعمیر کی سفارش نہیں کی گئی ہے۔

پتہ چلا ہے کہ اس حملے سے چند ہفتے قبل مسجد پر پڑوسی گاؤں کے شرپسندوں نے حملہ کیا تھا۔

واقعے کے بعد پولیس نے فوراً کارروائی کرتے ہوئے متعدد حملہ آوروں کو حراست میں لیا تھا۔ تاہم علاقے میں امن وامان کی بحالی کے لیے مقامی لوگوں اور بزرگوں  کی مداخلت کے باعث بالآخر بات چیت کے ذریعے معاملہ حل کر لیا گیا تھا۔

سال 2004 میں مسجد کے لیے الاٹ کیے گئے پلاٹ پر تعمیر شروع ہونے کے تقریباً چھ ماہ بعد، کچھ رئیل اسٹیٹ ایجنٹس وغیرہ نے پنجاب اینڈہریانہ ہائی کورٹ سے رجوع کرتے ہوئے کہا  تھاکہ مسجد کے لیے مختص زمین کو دوسرے مقاصد کے لیے رکھا گیا تھا۔

عرضی کو ہائی کورٹ نے خارج کر دیا تھا، لیکن سپریم کورٹ سے ‘اسٹیٹس کو’ بنائے رکھنے کافیصلہ ملا، جو 12 سال تک جاری رہا۔ ایک مئی کو سپریم کورٹ کے دو ججوں کی بنچ نے آخرکار مسجد کے خلاف دائر عرضی کو خارج کر دیا تھا۔

نتیجتاً حکام کی جانب سے تین منزل بنانے کی اجازت ملنے کے باوجود صرف بیسمنٹ اور گراؤنڈ فلور ہی تعمیر کیے گئے، جہاں نماز ادا کی جاتی تھی۔ گڑگاؤں میں نماز کے تنازعہ نے زیادہ سے زیادہ مسلمانوں کو یہاں نماز پڑھنے کی ترغیب دی تھی۔

مسجد کے تعمیراتی منصوبے کو حکومت نے منظوری دے دی ہے، لیکن کام صرف اسی صورت میں ممکن ہے جب اجازت ملنے کی مقررہ مدت میں تعمیر شروع ہوجائے۔ چونکہ روک کی وجہ سےمقررہ مدت ختم ہوگئی، ذرائع کا کہنا ہے کہ ‘پرانے بلڈنگ پلان کی دوبارہ منظوری کی اجازت چیف منسٹر منوہر لال کھٹر کے دفتر میں زیر التوا ہے’۔

رپورٹ کو انگریزی میں پڑھنے کے لیےیہاں کلک کریں۔