خبریں

ٹرین قتل معاملے پر صدر جمعیۃ علماء ہند نے کہا، یہ واقعہ فسطائیت اور نسل کشی کی ذہنیت کی پیدوار

صدر جمعیۃ علماء ہند نے وزیر داخلہ کو خط لکھ کر کہا ہے کہ وہ سیاسی مقاصد سے اوپر اٹھ کر راشٹر کی خدمت کو اولین ذمہ داری سمجھتے ہوئے سخت اقدامی اور امتناعی کارروائی کریں۔

فوٹو بہ شکریہ: اے این آئی

فوٹو بہ شکریہ: اے این آئی

نئی دہلی: جمعیۃ علماء ہند کے صدر مولانا محمود اسعد مدنی نے ٹرین میں ایک آر پی ایف کانسٹبل کے ذریعے اپنے سینئر اے ایس آئی ٹیکارام اور باقی تین مسلمانوں کو مبینہ طور پرشناخت کرکے قتل کرنے کے واقعے پر اپنےغم و غصہ کا اظہار کرتے ہوئے اس سانحے کو فسطائیت اور نسل کشی کی ذہنیت کی پیداوار سے تعبیر کیا ہے۔

جمعیۃ علماء ہند نے ایک پریس ریلیز میں یہ جانکاری دی ہے۔

واضح ہو کہ ریلوے پروٹیکشن فورس (آر پی ایف) کے ایک کانسٹبل نے گزشتہ سوموار (31 جولائی) کو مہاراشٹر کے پال گھر ریلوے اسٹیشن کے قریب چلتی ٹرین میں چار افراد کو گولی مار کر ہلاک کر دیا تھا۔

رپورٹ کے مطابق، آر پی ایف کانسٹبل نے ہیٹ کرائم کے باعث ایک افسر سمیت تین مسلمانوں کو ہلاک کیا۔قابل ذکر ہے کہ تینوں مسافر داڑھی والے تھے۔کانسٹبل چیتن کمار نے اپنے ایک ساتھی اور تین مسلمان مسافروں کو ہلاک کرنے کے بعدمسلمانوں کے خلاف نفرت انگیز تبصرہ بھی کیا  اور وہاں موجود لوگوں سے اس کو میڈیا کے لیے ریکارڈ کرنے کو کہا۔

سوشل میڈیا پر وائرل ایک ویڈیومیں اس کو کہتے سنا جا سکتا ہے کہ ؛پاکستان سے آپریٹ ہوتے  ہیں،یہی میڈیا کوریج دکھا رہی ہے، پتہ چل رہا ہے ان کو، سب پتہ چل رہا ہے، ان کے آقا ہیں وہاں… اگر ووٹ دینا ہے، اگر ہندوستان میں رہنا ہے، تومیں کہتا ہوں ، مودی اور یوگی،یہ دونوں ہیں ، اور آپ کے ٹھاکرے‘

رپورٹ کے مطابق، کمار نے ٹیکا رام کے ساتھ بحث  کے بعد فائرنگ شروع کی تھی۔

تاہم،رپورٹ میں یہ بھی کہاگیا ہے کہ ‘ گولی چلانے کی وجہ ابھی تک معلوم نہیں ہو سکی ہے۔ کانسٹبل چیتن کمار کو آر پی ایف/بھائیندر نے گرفتار کر لیا ہے۔ مزید تفتیش جاری ہے۔

ریلوے حکام کے مطابق، یہ واقعہ صبح 5:23 بجے ٹرین نمبر 12956، جے پور-ممبئی سپر فاسٹ ایکسپریس میں پیش آیا تھا۔

ریلوے حکام نے بتایا کہ ٹیکارام کو گولی مارنے سے پہلے چیتن کمار نے کوچ بی 5 میں مسافروں کو گن پوائنٹ پر یرغمال بنایا تھا۔

آر پی ایف کے ایک اہلکار نے کہا، مرنے والوں کے اہل خانہ سے رابطہ کیا جا رہا ہے اور انہیں معاوضہ دیا جائے گا۔

دریں اثنا، خبر رساں ایجنسی اے این آئی کے مطابق، ویسٹرن ریلوے نے اعلان کیا کہ اے ایس آئی ٹیکارام مینا کے اہل خانہ کو ریلوے سیفٹی ویلفیئر فنڈ سے 15 لاکھ روپے، آخری رسومات کے اخراجات کے لیے 20 ہزار روپے، ڈیتھ کم ریٹائرمنٹ گریجویٹی کے طور پر 15 لاکھ روپے،جنرل انشورنس اسکیم کے طور پر  65 ہزار روپے دیے جائیں گے۔

ہیٹ کرائم کے اس واقعہ کو نوٹس میں لیتے ہوئے مولانا مدنی نے ملک کے وزیر داخلہ کو ایک مکتوب ارسال کیا ہے اور واقعہ کی نوعیت اور اس کی سنگینی کی طرف توجہ مبذول کرائی ہے۔

اپنے مکتوب میں انہوں نے کہا ہے کہ یہ کوئی الگ تھلگ کارروائی نہیں ہے بلکہ سالوں سے جاری نفرتی مہم کانتیجہ ہے ، جس میں ملک کے بر سر اقتدار سیاسی پارٹی کے رہنما، یہاں تک کے وزرائے اعلیٰ اور مرکزی سرکار کے اہم وزرا اور ٹی وی میڈیا یکساں طور پر شامل ہیں۔ان سبھوں نے ملک میں جو نفرت کا بیج بویا ہے ، آج ملک کے بے قصور عوام جان دے کر بھگت رہے ہیں۔

مولانا مدنی نے کہا کہ بار بار دھرم سنسدوں اور مظاہروں میں مسلمانوں کے قتل عام کا نعرہ لگانے والے خود کو آزاد اور قانون سے بالاتر سمجھ رہے ہیں اور ان کے خلاف کوئی ٹھوس کارروائی بھی نہیں کی جاتی جس کی وجہ سے وہ اب پورے حوصلے سے نسل کشی پر مبنی نعرے لگا رہے ہیں۔

انہوں نے مزید کہا کہ، اسی طرح ٹی وی میڈیا میں نفرت پر مبنی سلوگن کے ساتھ پروگرام منعقد ہوتے ہیں، سوشل میڈیا کے ذریعے بائیں بازو کے کارکنان مسلمانوں کو مارنے اور سبق سکھانے کی دھمکیاں دیتے ہیں، لیکن ملک کے اقتدار پر بیٹھے ذمہ دار افراد ان سے آنکھ موندے ہوئے ہیں ، جس کا صاف نتیجہ یہ ہے کہ اب یہ نعرے عمل میں بدل گئے ہیں۔

مولانا مدنی نے وزیر داخلہ کو متوجہ کرتے ہوئے کہا کہ وہ ملک میں نفرت کے اس ماحول کا سنجیدگی سے جائزہ لیں اور سیاسی مقاصد سے اوپر اٹھ کر راشٹر کی خدمت کو اولین ذمہ داری سمجھتے ہوئے سخت اقدامی اور امتناعی کارروائی کریں۔

انہوں  نے کہا کہ ریلوے کے ذریعہ ملک کے عوام لاکھوں کی تعداد میں یومیہ سفر کرتے ہیں۔ریلوے کی ذمہ داری ہوتی ہے کہ ان کے جان و مال کی حفاظت کرے، لیکن جب ریلوے کا محافظ ہی نفرت کی زہریلی فضا سے متاثر ہو کر بے قصور سواری پر گولی چلائے تو اس سے زیادہ شرمناک بات اور کیا ہوسکتی ہے۔

جمعیۃ علماء ہندکی پریس ریلیز کے مطابق، اس سلسلے میں ایک خط وزیر ریل حکومت ہند کو بھی ارسا ل کیا گیا ہے اور فوری کارروائی کا مطالبہ کیا گیا ہے ، اس میں یہ بھی مطالبہ کیا گیا  ہے کہ انصاف کو یقینی بنانے کے لیے آزادانہ، شفاف اور تیز تحقیقات کو یقینی بنائیں اور مرنے والوں کو معقول معاوضہ دیا جائے۔

جمعیۃ علماء ہندنے سیاسی رہنماؤں کو متوجہ کرتے ہوئے اپیل کی ہے کہ وہ اپنے  اثر و رسوخ اور پلیٹ فارم کو ذمہ داری کے ساتھ استعمال کریں اور نفرت انگیز تقریر یا تفرقہ انگیز نظریات کو پھیلانے سے گریز کریں۔ سیاسی فائدے کے لیے مذہبی جذبات کا استحصال نہ صرف اخلاقی طور پر قابل مذمت ہے بلکہ یہ ہمارے جمہوری اور متنوع معاشرے کی بنیاد کو بھی نقصان پہنچاتا ہے۔نیز سول سوسائٹی کی تنظیموں، مذہبی رہنماؤں، انسانی حقوق کے کارکنوں اور میڈیا سے اپیل کی ہے کہ وہ نفرت انگیز مہمات کے خطرات کے بارے میں آگاہی پیدا کرنے اور مکالمے اور پرامن بقائے باہمی کو فروغ دینے کے لیے مل کر کام کریں۔