گزشتہ تقریباً ایک دہائی سے سسٹم اور سوسائٹی سے مسلمانوں کو کم و بیش ہر سطح پر الگ–تھلگ کرنے کی منظم کوشش جاری ہے۔ ان کے خلاف نفرت اور تشدد کو فروغ دیا جا رہا ہے۔ ایسے میں عام مسلمان دنیا کی سب سے بڑی جمہوریت میں اپنے آپ کو کہاں پاتے ہیں؟
مودی سرکار کے اقتدار میں آنے کے بعد سے ہندوستان میں مسلمانوں کے خلاف اچانک لیکن مسلسل منظم تشدد اس حد تک پہنچ چکا ہےکہ ملک کا عام مسلمان اپنے جان و مال کے تحفظ کے لیے اپنی مذہبی شناخت کے حوالے سےخوف کے سایے میں جی رہا ہے۔
گوگل سرچ میں ‘انڈین مسلم ان فیر’ (ڈر کے سایے میں ہندوستانی مسلمان)لکھ کر سرچ کیجیےتوسال 2015 میں یوپی کے دادری میں محمد اخلاق کی ماب لنچنگ کے واقعے کے بعد سے ہر سال لکھے گئےاس طرح کے درجنوں مضامین اور رپورٹ نظر آئیں گے- کہیں سابق نائب صدر جمہوریہ کا بیان ہے، تو کہیں کوئی فلم اداکار ملک کے حالات پر تشویش کا اظہار کر رہا ہے۔ کہیں اتر پردیش میں ہیٹ کرائم میں مارے گئے متاثرین کے اہل خانہ کے لیے انصاف کی لڑائی ہے تو کہیں فرقہ وارانہ تشدد کے بعد شہر چھوڑنے والے مسلمانوں کا درد۔ جو سلسلہ ایک مسلم کے گھر کے فریج میں رکھے گوشت پر پیدا ہونے والےشکوک و شبہات سے شروع ہواتھا، وہ اب کسی ‘وجہ’ کا محتاج نہیں رہا۔ کسی دن کوئی سرپھرا بندوق اٹھاکر آپ کو صرف آپ کے ہونے کی وجہ سے گولی مار دے گا اور آپ بیانات اور واقعے کے ویڈیو کا فیکٹ—چیک کرکے بتاتے رہ جائیں گے کہ اس کی حرکت برسوں سے پل رہی نفرت کا نتیجہ تھی، کسی لمحاتی اُبال یا اشتعال کا نہیں۔
پچھلے کئی سالوں سے درج ہو رہا یہ خوف اب عام مسلمانوں کے ذہنوں میں گھر کر چکا ہے اور وہ اپنی جان بچانے کے لیے اپنےطور طریقوں اور رہن سہن میں تبدیلی لانےکو مجبور ہیں۔ خوف کا یہ عالم ہے کہ اس رپورٹ کے لیے بات کرنے والے تقریباً ہر شخص نے اپنا نام اور شناخت ظاہر نہ کرنے کی شرط رکھی ہے۔
پٹنہ سےتعلق رکھنے والی سارہ* کہتی ہیں،’ٹرین کے واقعات (پہلے لنچنگ اور حالیہ فائرنگ)نے ہمیں اندر تک ہلا کر رکھ دیا ہے۔ سب سے پہلے تو ہم نے ٹرین میں کھانا لے جانے سے گریز کرنا شروع کر دیا تھا اور اگر کھایا بھی تو یہ احتیاط کرتے ہیں کہ کسی کو یہ گوشت نہ لگے۔ بعض اوقات ایسا بھی ہوتا ہے کہ کھانا کھانے کے بجائے ہلکا پھلکا کچھ کھا کر اپنا سفر پورا کر لیا۔’
‘جے پور ایکسپریس کے واقعے کے بعد میرے جاننے والے ایک بزرگ جوڑے نے ٹرین کے بجائے فلائٹ کے ٹکٹ بک کروائے۔ وہ عمردراز ہیں اور اس طرح کے سفر کا تجربہ نہ ہونے کے باعث وہ اس کو لے کر کمفرٹیبل نہیں ہیں، اور پھر اس میں اخراجات بھی زیادہ ہیں۔ لیکن سچائی یہی ہے کہ لوگ ٹرین میں سفر کرنے سے پر ہیز کر رہے ہیں۔’
ٹرین میں سفر کرتے ہوئے کھان–پان کے حوالےسے خوف اور اندیشہ پچھلے کئی سالوں میں بڑھا ہے۔ یوپی کی رہنے والی زیبا*پہلے دہلی میں زیر تعلیم تھیں اور اب ایک یونیورسٹی میں پڑھاتی ہیں۔ انہوں نے اپنا تجربہ شیئر کرتے ہوئے کہا، ‘جب میں ہاسٹل میں رہتی تھی تو گھرسے آتے ہوئے تھوڑا زیادہ کھانا لایا کرتی تھی۔ مجھے کباب پراٹھا پسند تھا، لیکن پھر امّی نے صاف انکار کر دیا کہ ٹفن میں یہ نہیں لے جاناہے۔ یہ تبدیلی چار پانچ سال پہلے ہی ہوگئی تھی۔ اب لوگوں کا رویہ دن بدن بد سے بدتر ہوتا جا رہا ہے۔’
لوگوں کے رویے کے بارے میں زیبا نے ایک قصہ ہمارے ساتھ شیئر کیا،’یہ ابھی کچھ سال پہلے کی ہی بات ہے، میں ٹرین سے دہلی آرہی تھی۔ میں برقع، نقاب یا حجاب نہیں پہنتی، یعنی کوئی دیکھ کرمیرے مذہب کے بارے میں نہیں جان سکتا۔ لیکن آپ نام کاکچھ نہیں کر سکتے۔ تو اس دن پاس میں ایک جوڑا بیٹھاتھا اور ان کی ایک چھ سات سال کی بچی تھی جو میرے ساتھ کھیل رہی تھی، باتیں کر رہی تھی۔ اسی دوران اس نے میرا نام پوچھا اور میں نے بغیر کچھ سوچے بتا دیا۔ اس نے فوراً کہا-آپ مسلمان ہو، میں نے کہا- ہاں، جس پر وہ اسی رو میں بولی-آپ یہاں کیوں رہتی ہیں، پاکستان کیوں نہیں جاتیں؟ میں اباک رہ گئی، مجھے سمجھ ہی نہیں آیا کہ کیا جواب دوں۔ اس کے بعد باقی راستے نہ تو اس کے والدین نے مجھ سے بات کی اور نہ اس بچی نے۔’
ڈر کسی ایک طبقے تک محدود نہیں
صحافی رعنا ایوب کا تعلق اشرافیہ طبقے سے ہے، لیکن گزشتہ دنوں انہوں نے اپنے خاندان کے افراد کی مذہبی شناخت کے بارے میں اپنی تشویش سوشل میڈیا پر شیئر کی۔ جے پور ایکسپریس کے قتل کے بعد4 اگست کو انسٹاگرام پر رعنا نے اپنے والد کے بارے میں لکھا تھاکہ وہ کس طرح جمعہ کو پاس کی مسجد میں سفید کرتاپاجامہ اور ٹوپی لگا کر نماز پڑھنے جاتے ہیں، اور وہ ان کی سلامتی کو لے کر خوفزدہ رہتی ہیں۔
ان کی پوسٹ پر 750 کے قریب کمنٹس ہیں، جن میں سے اکثرمیں اسی طرح کے خوف اور کسی انہونی سے بچنے کے لیے اپنائے گئے طریقے لکھے ہیں۔ ایک صارف نے لکھا ہے کہ جب ان کا کوئی رشتہ دار ر بس یا ٹرین میں ہوتا ہے، تب وہ فون پر انہیں سلام یا خدا حافظ کہنے سے گریز کرتی ہیں۔ مغربی بنگال سے تعلق رکھنے والے ایک طالبعلم نے بتایا ہے کہ ان کی کلاس میں زیادہ تر ہندو ہیں اور بعض اوقات وہ ‘جئے شری رام’ جیسے نعرے لگاتے ہیں، جس کی وجہ سے ان کے دل پر ہمیشہ ایک خوف طاری رہتا ہے۔
رعنا کی طرح مصنفہ رخشندہ جلیل بھی اشرافیہ طبقے سے تعلق رکھتی ہیں اور اپنےپریولیج سے بخوبی آگاہ ہیں۔ دی وائر میں شائع ہونے والے ایک مضمون میں انہوں نے بتایا ہے کہ عام مسلمانوں میں پھیلے خوف و ہراس اور ذہنی دباؤ (باڈپریشن) نے کسی بھی طبقے کو نہیں بخشا ہے۔مضمون میں انہوں نے بتایا ہے کہ کس طرح وہ جنوبی دہلی کے ایک پوش علاقے میں ایک بلڈنگ میں گھر دیکھ رہی تھیں، جس کے پاس ایک پرانی مسجد تھی اور اس عمارت کی ہر منزل پر صرف مسلم خاندان رہتے تھے۔ لیکن کئی بار وہاں جانے کے بعد بھی وہ اس گھر کو خریدنے کا ارادہ نہیں کر سکیں۔
وہ لکھتی ہیں،’وہاں اس عمارت پر ایک غیر مرئی ‘X’ تھا۔ مسجد سے نزدیکی،پوری طرح سے غیر مسلم علاقے میں ہر منزل پر رہنے والے مسلم خاندان نے مجھے احمد آباد کی گلبرگ سوسائٹی اور وہاں ہونے والے قتل و غارت کے واقعے کی یاد دلا دی۔ میرے دوستوں نے مذاق بھی اڑایا کہ میں ایسا کیسےسوچ سکتی ہوں، وہ گجرات کی بات ہے، یہ دہلی ہے وغیرہ وغیرہ…
… لیکن میں مجھے حاصل تمام پریولیج– تعلیم، کلاس، اعلیٰ عہدوں پر فائز دوستوں– کے باوجود مجھے یہ تسلیم کرنا چاہیے کہ میں ڈر محسوس کرتی ہوں، اتنا جومیں نے اپنی پوری زندگی میں کبھی محسوس نہیں کیا۔ میں 60 سال کی ہوں اور اس بھیانک ڈر کو قبول کرتی ہوں، جو میرے سینے پرکسی ناقابل برداشت بوجھ کی طرح ہے اور بعض اوقات میرے لیے سانس لینا بھی مشکل کر دیتا ہے۔’
جن سارہ کا ذکر اوپر کیا گیا ہے،ان کا تعلق اعلیٰ آمدنی والے خاندان سے ہے۔ ان کا ڈربھی رعنا ایوب کے ڈر کی طرح ہے۔ وہ کہتی ہیں،’پہلے جمعہ کا انتظاررہتا تھا، اب جمعہ آتے ہی فکر ہونے لگتی ہے کہ کہیں کسی مسجد میں کوئی حادثہ نہ ہو جائے۔ ایک دن میرے پاپا اور بھائی کو جمعہ کی نماز سے واپس آنے میں تھوڑی دیر ہوئی تو میں بالکل گھبرا گئی۔ پاپا جمعہ کی نماز کے لیے مسجد جاتے ہوئے کبھی اپناموبائل نہیں لے جاتے تھے۔ اب ہم ان سے کہتے ہیں کہ فون لے کرجائیں۔ تھوڑی سی دیرہوئی نہیں اور ہم کال کرنا شروع کر دیتے ہیں۔’
‘ مجھ سے پہلےمیرامذہب پہنچ جاتا ہے’
شوکت* انڈین ریلوے میں کام کرتے ہیں اور اس سے زیادہ پہچان نہیں بتانا چاہتے۔ وہ عام طور پر وہی کپڑےپہنتے ہیں، جنہیں مسلمانوں کے لباس کا’اسٹریوٹائپ’ گردانا جاتا ہے- کُرتا پاجامہ اور داڑھی۔وہ کہتے ہیں،’ دیکھیے مسلمانوں کے خلاف ایک سیاسی ماحول ہے، لیکن ہم جیسے لوگ جوآسانی سے پہچانے جا سکتے ہیں،انہیں مذاق کے طور پر بھی یہ سننے کو مل جاتا ہے کہ میاں جی ریلوے میں کیسے؟ وہ کئی بار ہمارے ہونے کے بہانے ہماری صلاحیت پر بھی سوال اٹھاتے ہیں۔ اصل میں روزمرہ میں شامل بہت چھوٹی چھوٹی چیزیں ہیں، جہاں لوگوں کے رویے سے لگ جاتا ہے کہ ان کےسامنے مجھ سے پہلے میرامذہب پہنچا دیا گیا ہے۔’
انہوں نےمزید کہا کہ،’اسی طرح اگر اتفاق سے کسی سیکشن میں دو سے چار بھی مسلمان اہلکار ہوں تو ایسی باتیں ہونے لگتی ہیں کہ یہ سیکشن تو پورا پاکستان بناہواہے۔ اور کئی بار سامنے سے کہہ دیا جاتا ہے کہ تمہی لوگوں کا راج ہے۔ ایک دو بار یہ باتیں اس طرح سے بھی سامنےآئی ہیں کہ جب ہمارے گھر کی خواتین محکمہ کے کسی پروگرام میں شریک ہوتی ہیں توان کے لباس یا اسکارف وغیرہ کے بارے میں دوسری خواتین کہہ دیتی ہیں کہ اس زمانے میں ان سب چیزوں کی کیا ضرورت ہے۔ مطلب ہمارے لیے کوئی نہ کوئی بات ان کے ذہن میں چل رہی ہوتی ہے۔’
مسلم شناخت کےحوالےسے تعصب اور خوف کی جڑیں سال در سال گہری ہوتی جا رہی ہیں۔ ایک این جی او میں کام کرنے والے اسامہ کہتے ہیں،’میں حلیے سےمسلمان لگتا ہوں۔ تو جب میں کئی بار سفر کرتا ہوں تو شاید اسی وجہ سے لوگ اونچی آواز میں ایسی ویڈیوز چلانا شروع کر دیتے ہیں جن میں اشتعال انگیز تقریر جیسی کوئی چیز ہوتی ہے۔ کئی باریہ بھی محسوس کیا کہ ٹرین میں مسلم فیملی کی موجودگی کی وجہ سے دوسرےلوگ ان–کمفرٹیبل ہو جاتے ہیں اور ڈرے ہوئے بھی لگتے ہیں۔ ایک دفعہ میں سفر میں تھا کہ گھر سے بھائی کا فون آیا، تو میں نے اپنی عادت کے مطابق سلام کیا تو انہوں نے فوراً کہا کہ ایسا مت کرو۔ میں راجستھان جا رہا تھا ،اس وقت ہندو مسلم کشیدگی جیسا ماحول تھا، تو میرے بھائی نے اس حوالے سے بھی کہا کہ اسٹیشن پر اترنے کے بعد اپنانام کسی کو مت بتانا، اگر ضروری ہو تو کوئی اور نام بتا دینا۔’
اریب* کارپوریٹ جاب کرتے ہیں اور کولکاتہ میں رہتے ہیں۔آس پاس کے لوگوں کے تعصبات کے بارے میں وہ بتاتے ہیں، ‘ہمارے جاننے والوں میں دوسری کمیونٹی کے کچھ ایسے لوگ ہیں جو ہمارے ساتھ بہت اچھے ہیں، لیکن اب ان کی بات چیت میں مسلمانوں کے لیے ایک الگ طرح کی رائے محسوس ہوتی ہے، جیسے ایک دوست نے کسی بات چیت دوران ایک خاص قسم کے پیشہ ورانہ کام کے بارے میں کہا کہ کیا بتاؤں، اب اس کام میں اتنا مسلمان سب آگیا ہے کہ اور وہ کسی بھی ریٹ پر جیسے تیسے کام کر لے رہا ہے، مارکیٹ ہی ختم کر دیا ہے! میں بعد میں سوچتا رہا کہ کیا اس بات چیت میں ‘مسلمان’ کہنے کی ضرورت تھی۔’
‘لیکن حال یہ ہے کہ مسلمان اپنے خلاف نفرت کی اسی ذہنیت کے ساتھ جینے کو مجبور ہیں، مسلمانوں کے لیے اپنے آپ ایک غیر اعلانیہ قاعدہ بن گیا ہے- کہ کہیں بھی ہوں، سفر بھی کر رہےہوں تو اپنے آپ میں سمٹ کر رہنے میں ہی کچھ بھلائی ہے۔ پتہ نہیں کب سامنے والا آپ کو ٹارگیٹ کر لے۔’
غیر مسلموں کے رویے میں آئی تبدیلی کو علی گڑھ مسلم یونیورسٹی میں پڑھانے والے شارب*نے بھی محسوس کیا ہے۔ انہوں نے بتایا،’میں اکثر سفر میں رہتا ہوں، پڑھائی کے دوران بھی ایسا ہی تھا۔ تب سلیپر کلاس میں چلتا تھا اور کبھی محسوس نہیں کیا کہ میں مسلمان ہوں اور مجھے کسی اور نظر سے دیکھا جا رہا ہے، جیسے سب سفر کرتے تھے ویسے میں بھی کرتا تھا۔ دیکھتا تھا کہ لوگ وہاں نماز بھی پڑھ لیتے تھے۔ ذاتی طور پر اس وقت بھی مجھے یہ اچھا نہیں لگتا تھا ،لیکن لوگ اس کا برا نہیں مانتے تھے بلکہ جگہ دیتے تھے کہ آپ پڑھ لیجیے۔ ان کی نماز ہونے تک لوگ ایک دوسرے سے احترام میں بات تک نہیں کرتے تھے، لیکن آج اگر کوئی اپنی برتھ پر بھی نماز پڑھتا ہے تو لوگ برامان جاتے ہیں، موبائل نکال کر ہنومان چالیسہ پڑھنے لگتے ہیں۔’
انہوں نے مزیدبتایا کہ،’پہلے ہم ٹرین میں سب سے بات کرتے تھے اور یہی اس کا لطف تھا، لیکن اب مجھے ڈر لگتا ہے۔ اب جب تک سامنے والا کوئی بات نہیں کرتا، ہم اسے ٹوکنے سے بھی ڈرنے لگے ہیں،یہ دوری کیوں پیدا ہو رہی ہے، ظاہر ہے کہ ہمارے بارے میں بڑے پیمانے پر ایک رائے بنائی گئی ہے۔ اور تو اور اپنے مسلمان دوستوں، جاننے والوں سے سختی سے کہتا ہوں کہ ٹرین میں کھانا لے کر مت جاؤ، کسی بحث میں حصہ مت لو، لباس کے معاملوں میں، میں اپنی بہنوں کے ساتھ سختی کرنے لگا ہوں کہ حجاب مت پہنو، اوربس ویسے ہی دکھو جیسےنان–مسلم نظر آتے ہیں، یہ اس لیے نہیں کہ ہم ڈرے ہوئے ہیں، یہ بس اس لیے ہے کہ ہم نہیں چاہتے کہ کسی کے ساتھ کچھ برا ہو جائے۔ ہم کچھ اور نہیں کر سکتے تو کسی حد تک اپنی پہچان کے ساتھ ہی سمجھوتہ کر لے رہے ہیں۔’
خواتین کو درپیش مسائل
ہندوستانی خاندانوں میں خواتین کے حقوق اور ان کی آزادی کے بارے میں اتنی ہی بات ہوتی ہے جتنی آسانی سے ‘افورڈ’ کی جا سکے۔ عام طور پر عورت ہونے کی وجہ سے خواتین یا لڑکیوں کو جن مسائل کا سامنا کرنا پڑتا ہے، اب مسلم خواتین کے لیےاس میں ان کی مذہبی شناخت بھی شامل ہوگئی ہے۔ ان کے آنے جانے، پڑھنے لکھنے اور نوکری کرنے جیسے فیصلے پہلے ہی مشکل تھے، اب ان میں مذہبی پہلو بھی شامل ہو گیا ہے۔ پی یو سی ایل کی ایک رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ کرناٹک کے کالجوں میں حجاب کے تنازعہ کے درمیان 1000 لڑکیوں نے اپنی پڑھائی چھوڑ دی تھی۔ خبریہ بھی آئی ہے کہ جے پور ایکسپریس میں فائرنگ کرنے والے چیتن سنگھ چودھری نے برقع پوش خاتون سے بندوق کی نوک پر ‘جئے ماتا دی’ بولنےکو کہا تھا۔
لیکن کیا مسئلہ صرف مذہبی شناخت یا حجاب کا ہے؟جواب نعمان*دیتے ہیں۔ دہلی کی ایک باوقار یونیورسٹی سے پڑھے نعمان فی الحال بہار کی ایک یونیورسٹی میں اسسٹنٹ پروفیسر ہیں۔ وہ بتاتے ہیں،’حالیہ واقعات کے بعد سے خواتین کے تئیں ہمارے رویے میں فرق تو آیا ہے، پہلے ہم صرف ان کے عورت ہونے کے لحاظ سے ان کے تحفظ کی فکرکیا کرتے تھے ، اب اس میں ’مسلمان‘ ہونا بھی شامل ہو گیا ہے۔ میرے گھر کی ایک بچی کا کالج میں داخلہ ہونا تھا، تو ایسا کالج چنا گیا جو گھر سے قریب ہو۔ اسی طرح ایک رشتہ دار کےیہاں ہوا۔ ان کی بیٹی کا نام ایک نامی کالج کی میرٹ لسٹ میں آگیا تھا، لیکن وہ کالج گھر سے سات آٹھ کلومیٹر دور تھا۔ ان کے گھر کے بزرگ اس کے لیے تیار نہیں ہوئے اور پاس ہی کے ایک کالج میں نام لکھوا دیا گیا۔’
نقاب، برقع یا حجاب پہننے والی خواتین بھی اسی طر ح کے ڈر سے دوچار ہیں۔ دربھنگہ کی ایک گھریلو خاتون عمرانہ خاتون کہتی ہیں،’اب برقع پہن کر گھر سے باہر نکلتے ہوئے ڈر لگتا ہے، خدا نخواستہ،موجودہ ماحول میں اگر کسی قسم کا تناؤ ہو جائےتو ہمیں آسانی سے پہچانا جا سکتا ہے۔ اسی طرح ٹرین میں سفر کرنے والے لوگ کیسےہیں اس حوالے سےبھی تشویش رہتی ہے اور اب زیادہ ہونے لگی ہے کہ اپنی پہچان کو کیسے اور کتنا چھپائیں۔ ہمارے مذہب میں جو چیز (پردہ) خواتین کے تحفظ کے نقطہ نظرسے بنائی گئی تھی وہ آج ہمارے لیے عدم تحفظ کا باعث بنتی جا رہی ہے۔’
ریحانہ*دہلی میں رہتی ہیں اور میڈیا میں بطور فری لانس کام کرتی ہیں۔ وہ کہتی ہیں،’میں حجاب پہنتی ہوں، لیکن میں اپنی سہولت کے حساب سے زیادہ تر گھر سے کام کرتی ہوں۔ میرے پاس یہ آپشن ہے، لیکن بہت سی خواتین ایسی نوکریوں میں ہیں جہاں انہیں روزانہ باہر جانا پڑتا ہے اور آج کے ماحول میں یہ مسلم خواتین کے لیے ایک بڑا چیلنج ہے۔’
ریحانہ ٹھیک کہتی ہیں،نوکری پر جانے یا گھر سے کام کرنے کا انتخاب ہر کسی کے نصیب میں نہیں ہوتا۔ مدھوبنی کی نبیلہ*ایک پرائمری اسکول میں ٹیچر ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ،’ہمیں آج تک سامنے سےکسی نے کھلے طورپر کچھ نہیں کہا، لیکن رویے اور بات چیت میں کبھی کوئی بات کھٹک جاتی ہے اور ہم خود ہی اپنے اوپر ایک دباؤ محسوس کرنے لگے ہیں۔ ابھی حال ہی میں محکمہ جاتی ٹریننگ کے لیے گئی تھی، عادت کے مطابق برقع پہن رکھا تھا، لیکن ٹریننگ سینٹر جانے سے پہلے میں نے اس بات کا خیال رکھا کہ اسے اتار دوں اور یہ سب کرتے ہوئے مجھے لگ رہا تھا کہ کوئی دیکھ رہا ہے، اس لیے جلدی جلدی اتار کر اندر چلی جاؤں۔’
وہ مزید کہتی ہیں،’شایدیہ میرا اپنا وہم ہو یا خود اعتمادی کی کمی ہو، لیکن دانستہ یا نادانستہ طور پر میں گھر سے نکلتے ہوئے اپنی شناخت چھپانے کی ایک کوشش کرنے لگی ہوں، رہی ڈر کی بات تو یہ سب میرے لیے کسی ان دیکھی دنیا کو محسوس کرنے جیسا ہے۔ میری بیٹی ابھی چھوٹی ہے، لیکن میں چاہتی ہوں کہ وہ کسی طرح کی مذہبی شناخت کونہ اپنائے، جو کرنا ہے اسے اپنے گھر کے اندر تک ہی محدود رکھا جائے۔’
حجاب عورتوں کی نوکریوں کے لیے مہلک بھی ثابت ہوئے ہیں۔ نئی دہلی سے تعلق رکھنے والی شائلہ عرفان شہر کے ایک نامی اسکول میں پڑھایا کرتی تھیں، لیکن اچانک ایک دن انہیں بتایا گیا کہ ان کے طالبعلم اور والدین ان کے حجاب سے کمفرٹیبل نہیں ہیں، اس لیے انہیں حجاب نہیں پہننا چاہیے۔ شائلہ نے نوکری چھوڑ دی۔ ان کا کہنا تھا کہ اگلی نوکری کے انٹرویو میں بھی انہیں کہا گیا کہ اگر وہ اپنا حجاب ہٹاٹیں گی گی تو نوکری ملے گی۔
پونے کی ڈینٹسٹ لبنیٰ عامر کی کہانی بھی کچھ ایسی ہی ہے۔ پڑھائی میں اول رہنے کے باوجود مسلم شناخت ان کی نوکری حاصل کرنے میں رکاوٹ بن گئی۔ایک بڑے ڈینٹل کلینک نے انہیں نوکری دینے کے لیے حجاب ہٹانے کو کہا۔ لبنیٰ نے انکار کر دیا اور کلینیکل کام کےاپنے خواب ترک کرکےوہ ایک بایو انفارمیٹکس کمپنی میں نوکری کرنے لگی۔ انھوں نے الجزیرہ کے ساتھ بات چیت میں کہا، ‘انہیں ہمارے مسلمان ہونے سے پریشانی ہے، لیکن اس سے بھی بڑی پریشانی ہمارے مسلمان نظرآنے سے ہے۔’
گھرکی دہلیز پر انجانے خوف کا سایہ
رخشندہ کے مضمون میں وہ ایک جگہ کہتی ہیں کہ اس طرح کے خوف کو محسوس کرنے والی وہ اکیلی نہیں ہیں اور انہوں نے شہری ہندوستانیوں کی خاموشی میں اس خوف کی پرچھائیں دیکھی ہے۔ وہ کہتی ہیں،’…میں ان کی چپی میں اسے سن سکتی ہوں، ان کے کسی سیاسی بحث میں پڑنے سے فوراً انکار میں یہ ڈرنظر آتا ہے، کسی فرقہ وارانہ مسئلے پر کی گئی سوشل میڈیا پوسٹ کو ہٹانے کی عجلت پسندی میں یہ ڈر نظر آتا ہے۔ اسکول، کالج وغیرہ کے وہاٹس ایپ گروپوں میں پھیلتی نفرت کے تئیں سرد مہری میں یہ ڈرنظر آتا ہے…’
ڈیجیٹل انڈیا کا ایک کڑوا سچ یہ بھی ہے کہ وہاٹس ایپ گروپ گھر گھر فرقہ وارانہ زہر کوپھیلانے میں بہت اہم کردار ادا کر رہے ہیں۔ کسی بھی اپارٹمنٹ یا سوسائٹی کا وہاٹس ایپ گروپ صبح سے ہی ایسے مذہبی پیغامات کی آڑ میں سپلائی ہو رہی نفرت کا بڑا مرکز ہے۔
جنوبی دہلی میں رہنے والے واقف کاروں کےسوسائٹی کے گروپ میں لگاتار مسلمانوں کے خلاف فرضی خبریں اور اشتعال انگیز پیغامات آتے ہیں، اس گروپ میں یہاں رہنے والے دو ایک مسلم خاندان بھی شامل ہیں۔ ابتدائی طور پر کچھ لوگوں اور ان مسلم اراکین نے فرضی خبروں کے فیکٹ چیک شیئر کیے، تصدیق شدہ مواد کا اشتراک کیا، لیکن فرقہ وارانہ پیغامات کی تعداد میں کوئی کمی نہیں آئی۔ ہارکروہ اب کچھ نہیں کہتے۔
مسلمانوں کے خلاف نفرت کا عالم یہ ہے کہ اس سال رمضان کے دوران نوئیڈا کی ایک بڑی سوسائٹی میں انتظامیہ کی اجازت سے ایک جگہ پر نماز ادا کرنے والوں خلاف احتجاج کرنے کے لیے ہنومان چالیسہ کا پاٹھ شروع کردیا تھا ۔ اس سے ٹھیک پہلے اتر پردیش کے مراد آباد میں ایک شخص کی نجی جائیداد میں تراویح پڑھنے پر بجرنگ دل کے لوگوں نے ہنگامہ کھڑا کر دیا تھا۔ معاملہ پولیس تک پہنچا تھا اور پولیس نے جائیداد کے مالک کو اجتماعی نماز کا اہتمام کرنے سے منع کردیا تھا۔
اس طرح کے متعصب ماحول میں رہنے والے مسلم خاندان اپنے پڑوسیوں یا آس پاس کے لوگوں پر بھروسہ کرنے کی پوزیشن میں نہیں ہیں۔
مسلمانوں کے لیے ڈرنا فضول نہیں ہے
پچھلے کئی سالوں میں مسلمانوں کے اس خوف و ہراس ، ہر لمحہ بڑھتے شکوک و شبہات کو کو مسترد کرنے کی کوشش کی گئی ہے، ہندوتوا لیڈر انہیں ‘نہ ڈرنے کی نصیحت‘ کرتے نظر آتے ہیں۔ تاہم مسلمان اس سے بالکل اتفاق نہیں رکھتے۔
شوکت کہتے ہیں،’آج برین واشنگ کیا جا چکا ہے، میڈیا ہر وقت زہر اگل رہا ہے، تو ایسے ماحول میں اندر سے بہت اچھا تومحسوس نہیں ہوتا۔ اب آپ اسے ڈر کہہ لیجیےیا کچھ اور، ایک تشویش جانے انجانے لگی رہتی ہے۔ نیو انڈیا میں یہ زیادہ کھلے انداز میں مسلمانوں کے ساتھ ہو رہا ہے اوران کی شخصیت میں اس سائکی کو شامل کر دیاگیا ہے۔ ہم یہ نہیں کہہ سکتے کہ یہ ڈر اور تشویش خیالی ہے، ہر روز کچھ نہ کچھ ہو رہا ہے۔’
سارہ نے اس ماحول میں اپنی ذہنی صحت پرپڑنے والے اثرات کے بارے میں بات کی۔ وہ کہتی ہیں، ‘مجھے کسی فرقہ وارانہ فسادات میں پھنسے ہونے اور بالکل بے بس ہونے کے خواب آنے لگے ہیں۔ میں نے یہ بات جب اپنی ممی اور کچھ دوستوں کو بتائی تو انہوں نے کہا کہ ان کے ساتھ بھی ایسا ہی ہو رہا ہے۔’
ریحانہ مسلمانوں کے خلاف تشدد کے بعد کے بعض سماجی پہلوؤں کو بھی بیان کرتی ہیں۔ وہ کہتی ہیں،’جہاں تک میں نے دیکھا اور سمجھا ہے، اب جو مسلمان افورڈ کرپا رہے ہیں وہ اپنی گاڑی یا ہوائی جہاز سے سفر کرنے کو ترجیح دے رہے ہیں۔ لوگ ہندو اکثریتی علاقوں میں سرمایہ کاری نہیں کرنا چاہتے، حملوں کے خوف سے ہندو بازاروں میں خریداری سے گریز کر رہے ہیں۔ دکاندار اُردو میں بورڈ یا مسلم ناموں کا استعمال نہیں کر رہے ہیں۔ گھروں یا سوسائٹی میں چھوٹی موٹی نوکری کرنے والے مسلمانوں نے ہندو علاقوں یا سوسائٹی میں جانا کم کر دیا ہے۔’
شارب جوڑتے ہیں،’ہماری ذہنی حالت ایسی بنا دی گئی ہے کہ ہم چار لوگ اکٹھے چائے پیتے ہوئے بھی اور کوئی بات نہیں کرتے، بس اسی طرح کی خبروں پر چرچہ کرنے لگ جاتے ہیں،مستقبل میں کیا ہوگا اس کے بارے میں سوچنے لگے ہیں۔ بس یہ سمجھیے کہ ہم اپنے وجود میں الجھادیے گئے ہیں۔’
رخشندہ نے اس خوف کو اس طرح بیان کیا ہے،’میں مسلمان نہیں نظر آتی، اس لیے شاید میں کسی حد تک محفوظ ہوں، لیکن میرے نام کا کیا؟ ریلوے بکنگ چارٹ میں اسے کیسے چھپا سکتی ہوں؟ یا کسی نے پہچان پوچھی تو؟ … اگرمسلمانوں کے خون کی پیاسی بھیڑ مجھے گھیرہی لیتی ہے تو کیا میں انگریزی بول کر بچ پاؤں گی، میرے نام نہاد پریولیج دھرے کے دھرے رہ جائیں گی اور میں یہ سوچ کر ہی کانپ جاتی ہوں۔’
اریب کے لیےیہ تمام تبدیلیاں صرف آج یا کل کی بات نہیں ہیں۔ وہ کہتے ہیں،’یہ سب منصوبہ بند سیاست کے تحت ہو رہا ہے۔ ایک بات یہ بھی ہے کہ ہندوستانی معاشرہ تیزی سے ایسا ہوتا چلا جا رہا ہے کہ اگر کسی کو اس کے مذہب کی وجہ سے نشانہ بنایا جا رہا ہے یا جے پور ایکسپریس ٹرین جیسی کوئی صورت حال پیدا ہو جائے تو کوئی آپ کے دفاع میں نہیں آئے گا۔ سیاست اسی ذہنیت کے ساتھ کھیل رہی ہے۔ اگر کل مرکز میں نریندر مودی کا اقتدار نہیں بھی رہتا ہےتو اس نفرت اور ذہنیت سے ہمار پیچھا چھوٹنے والا نہیں ہے۔’
کیا میرا پہچان لیا جانا خطرناک ہے؟
فیاض احمد وجیہہ دی وائر اردو کے اسسٹنٹ ایڈیٹر ہیں۔ اس بارے میں پوچھنے پر کہتےہیں،’میں اپنے آس پاس کی سہمی ہوئی خاموشی کوان دنوں زیادہ محسوس کرنے لگا ہوں، اس خاموشی میں شور بہت ہے، لیکن لوگ یہ دکھانے کی پوری کوشش کرتے ہیں کہ سب ٹھیک ہے۔ میں ایسے لوگوں کو بھی جانتا ہوں جو اپنے حلیے اور دور سے پہچان لیے جانے والے لباس کو لے کرفکرمند ہیں،جے پور ایکسپریس قتل معاملے کے بعد اس تشویش میں اوراضافہ ہوا ہے۔ ایسے میں یہ بات مجھے پریشان کرتی ہے کہ شاید کچھ لوگ اپنی داڑھی ہٹالیں، نقاب نہ اوڑھیں، لیکن وہ لوگ کیا کریں گے جو مدارس میں پڑھتے ہیں، مولانا ہیں یا امام ہیں؟ کیا وہ اس طرح کے ڈر کواپنے اندر محسوس کر کے کوئی ایسا قدم اٹھا سکتے ہیں؟ ‘
میں ان باتوں کو مسلم کمیونٹی کا ڈر نہ بھی کہوں تو آج میری سب سے بڑی تشویش یہی ہے کہ کیا ایک مسلمان کے طورپر مجھے بھی کسی دن پہچانا جا سکتا ہے، اور میرا پہچان لیا جانا خطرناک ہے۔ اس ڈرکے بارے میں کم لوگ بات کرنا چاہتے ہیں، ایک طرح کی خاموشی اوڑھ کر کر بہت سارے مسلمان اپنی مذہبی شناخت کوپس پشت رکھنے لگے ہیں۔’
‘مسلمانوں کو لگتا ہے کہ جب بھی انہیں مسلمان ہونے کی وجہ سے نشانہ بنایا جاتا ہے یا بنایا جائے گا تو دوسری کمیونٹی کے لوگ حتیٰ کہ پولیس بھی ان کودفاع میں نہیں آئے گی۔ اس کے باوجود میں یہاں امید کی باتیں بھی کر سکتا ہوں، لیکن اسٹیٹ نے جس طرح سے نفرت کی سرپرستی کی ہے، دھرم سنسد میں جس سے طرح سے نسل کشی کی باتیں کی گئی ہیں، ان سب کو دیکھتے ہوئے امید کی کرن بہت زیادہ نظر نہیں آتی۔ مسلمانوں کو اقتدار کے لیے نفرت کی بھینٹ چڑھایا جا چکا ہے۔’
(*بدلا ہوانام)
(فیاض احمد وجیہہ کے ان پٹ کے ساتھ)
(ہندی میں پڑھنے کے لیےیہاں کلک کریں۔)
Categories: فکر و نظر