پنجاب کے سنگرور ضلع کے لونگووال کا معاملہ۔ گزشتہ جولائی کے مہینے میں پنجاب اور ہریانہ میں سیلاب آیا تھا، جس کے نتیجے میں کسانوں کو زبردست مالی نقصان اٹھانا پڑا۔ تب سے کسانوں کی تنظیمیں سیلاب سے متاثرہ افراد کے لیے معاوضے کا مطالبہ کر رہی ہیں۔ چندی گڑھ میں احتجاج سے پہلے کئی کسان لیڈروں کو حراست میں بھی لیا گیا ہے۔
نئی دہلی: گزشتہ سوموار (21 اگست) کو پنجاب کے سنگرور ضلع کے لونگووال میں پولیس کے لاٹھی چارج کے دوران مبینہ طور پر زخمی ہونے کے بعد ایک 70 سالہ کسان کی موت ہو گئی۔ وہ احتجاج کرنے والے کسانوں کے ایک گروپ کے ساتھ تھے، جو معاوضہ کا مطالبہ کرنے چندی گڑھ جا رہے تھے۔ یہ کسان ریاست میں حالیہ سیلاب کی وجہ سے بری طرح متاثر ہوئے ہیں۔
پولیس کے مطابق،مہلوک کی شناخت پریتم سنگھ کے طور پر کی گئی ہے۔اطلاع کے مطابق، جب پولیس نے احتجاج کرنے والے کسانوں کو روکنے کی کوشش کی تو ‘ٹریکٹر ٹرالی کے درمیان دبنے’ سے ان کی موت ہوگئی ۔
حالیہ سیلاب سے ہونے والے نقصانات کے معاوضے کی مانگ کے حوالے سےچنڈی گڑھ میں احتجاجی مظاہرہ سے قبل ہریانہ اور پنجاب کے کئی کسان رہنماؤں کو متعلقہ ریاستی پولیس نے حراست میں لیا۔
ذرائع نے دی وائر کو بتایا کہ چندی گڑھ میں 22 اگست کے احتجاج سے قبل ہریانہ کے کم از کم 20 اور پنجاب کے 50 لوگوں کو حراست میں لیا گیا۔
گزشتہ جولائی کے مہینے میں پنجاب اور ہریانہ میں سیلاب آیا تھا، جس کے نتیجے میں کسانوں کو زبردست مالی نقصان اٹھانا پڑا ۔ تب سے کسانوں کی تنظیمیں سیلاب سے متاثرہ افراد کے لیے معاوضے کا مطالبہ کر رہی ہیں۔
وہ فصل کے نقصان کے لیے 50 ہزار روپے فی ایکڑ، تباہ شدہ مکان کے لیے 5 لاکھ روپے اور مرنے والوں کے لواحقین کے لیے 10 لاکھ روپے معاوضہ کا مطالبہ کر رہے ہیں۔
کسان رہنماؤں نے سیلاب متاثرین کو معاوضہ دینے کے معاملے پر ‘ٹھوس جواب’ نہ دینے پر پنجاب اور ہریانہ دونوں کی ریاستی حکومتوں کے تئیں عدم اطمینان کا اظہار کیا۔
‘حراست میں لیے گئے کسان رہنما کہاں ہیں،پتہ نہیں’
گرفتار کیے گئے لوگوں میں بھارتیہ کسان یونین – شہید بھگت سنگھ (بی کے یو ایس بی ایس) کے سربراہ امرجیت سنگھ مورہی بھی شامل تھے۔ دی وائر کے ساتھ بات چیت میں تنظیم کے ترجمان تیجویر سنگھ نے کہا کہ مورہی کو ‘پولیس سپرنٹنڈنٹ ایس پی کی جانب سے امبالہ پولیس اسٹیشن پہنچنے کے لیے کہا گیا تھا۔ تب سے ہمیں نہیں معلوم کہ پولیس ہمارے لیڈر کو کہاں لے گئی ہے۔’
منگل کو احتجاج کے پیش نظر 16 کسان تنظیموں نے اتوار کو چندی گڑھ کے ڈائریکٹر جنرل آف پولیس (ڈی جی پی) کے دفتر میں میٹنگ کی تھی۔
میٹنگ کے دوران ہریانہ اور پنجاب کے ڈی جی پی کے ساتھ ساتھ راجستھان، اتراکھنڈ اور اتر پردیش کے سی آئی ڈی اورانٹلی جنس افسران بھی موجود تھے۔ حراست میں لیے گئے امرجیت سنگھ مورہی بھی اس میٹنگ میں شامل تھے۔
تیجویر سنگھ نے کہا، ’22 اگست کو ہمارا احتجاج سیلاب متاثرین کے معاوضے کے لیے تھا۔ اس کے علاوہ، مہاتما گاندھی نیشنل رورل ایمپلائمنٹ گارنٹی ایکٹ (منریگا) کے تحت کام کو بڑھانے سے متعلق بھی ہمارے مطالبات تھے۔ چندی گڑھ میں کسان تحریک کے دنوں سے کئی فوجداری مقدمات واپس نہیں لیے گئے، ہم ان مسائل پر چندی گڑھ میں احتجاج کرنا چاہتے تھے۔
‘عآپ اور بی جے پی مل کر کام کر رہے ہیں’
سنگھ نے الزام لگایا کہ یہ گرفتاریاں ہریانہ کی بی جے پی حکومت اور پنجاب کی عآپ حکومت کے ‘مشترکہ آپریشن’ کے تحت کی گئی ہیں۔
انہوں نے کہا، ’انھوں نے کبھی بھی منشیات کو روکنے کے لیے مشترکہ مہم نہیں چلائی اور نہ ہی انھوں نے فرقہ وارانہ تشدد کو روکنے کے لیے کوئی مشترکہ مہم چلائی، لیکن دونوں ریاستیں کسانوں کے احتجاج کو روکنے کے لیے متحد ہوگئی ہیں۔‘
انگریزی میں پڑھنے کے لیےیہاں کلک کریں۔
Categories: خبریں